ہم کہیں عذاب کو دعوت تو نہیں دے رہے

حفیظ نعمانی

اس کا تو ہم تصور نہیں کرسکتے کہ سپریم کورٹ کے فیصلہ پر تنقید کریں  ؎  مستند ہے ان کا فرمایا ہوا۔ لیکن فیصلہ کو سن کر اور پڑھ کر جو اشکالات پیدا ہوئے ہیں اس کا ذکر نہ اختلاف ہے نہ توہین۔ فیصلہ کو سن کر سب سے پہلے خیال آیا کہ وہ جانور جو نہ پڑھتے ہیں نہ سمجھتے ہیں اور شاید بحث بھی نہیں کرتے اور جن کے جسم کے کسی عضو کا دوسرے جانور سے پردہ بھی نہیں ہے انہیں بھی کبھی ہم نے نہیں دیکھا کہ نر نر کے ساتھ اور مادہ مادہ کے ساتھ وہ عمل کررہے ہوں جو اب تک صرف نر مادہ کے ساتھ کرتے ہیں۔ شہر ہو یا دیہات یہ منظر ہر کسی نے دیکھا ہوگا کہ کتیا جب شباب پر آتی ہے تو اندرونی گرمی کی وجہ سے وہ اِدھر سے اُدھر دوڑتی ہے اور اس کے پیچھے کتوں کی پوری ٹولی دوڑتی نظر آتی ہے۔ پھر جب جنسی پیاس کی حد ہوجاتی ہے تو یہ نہیں دیکھتی کہ جتنے عاشق پیچھے پیچھے آرہے ہیں ان میں زیادہ خوبصورت کون ہے اور اچھی صحت کس کی ہے۔ پھر جو بھی قریب ہو اس کو قبول کرلیتی ہے۔ اور اہم بات یہ ہے کہ پھر باقی سب بغیر لڑے بھڑے اِدھر اُدھر ہوجاتے ہیں۔

ان کتیوں کو کسی نے نہیں بتایا اور نہ کتوں کو سکھایا کہ جب ایک اپنے کام سے فارغ ہوجائے تو تم اسے دبالو۔ یہ حضرت انسان ہیں جو برسوں سے عدالتوں سے وہ حق مانگ رہے تھے جسے غیرفطری کہا جاتا ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ کے بھتیجے حضرت لوط ؑ بھی اللہ کے نبی تھے۔ ان کی قوم میں یہ شوق وبائی بیماری کی طرح پھیل گیا تھا حضرت لوط ؑ نے ہر ممکن طریقہ سے سمجھایا لیکن وہ بعد میں بدکلامی کرنے لگے۔

مرد کی مرد سے مجالصت کے بارے میں قرآن کہتا ہے کہ اس کی ابتدا قوم لوط نے کی اس لئے اس فعل کو لواطت کہا جانے لگا۔ حضرت لوطؑ نے اپنی قوم کو ہر طرح سمجھایا کہ جنسی شہوت کی تسکین کے لئے پروردگار نے تمہارے لئے تمہاری بیوی کو بنایا ہے۔ تم اس شوق کو چھوڑ دو اور تم نے تو آنے جانے والوں کو پکڑکر ان سے بدتمیزی شروع کردی ہے جس کی وجہ سے گھروں سے نکلنا مشکل ہوگیا ہے۔ ان بے غیرتوں نے اپنے پیغمبر ؑ سے بحث شروع کردی کہ آپ ہر معاملہ میں دخل دینا بند کیجئے۔ اور جب حضرت لوطؑ قوم سے مایوس ہوگئے تو انہوں نے اللہ سے مدد کی دعا کی اور ان کے رب نے فرشتے بھیج دیئے۔ قوم لوط نے ان فرشتوں کو دیکھا جو خوبصورت لڑکوں کی شکل میں تھے تو انہوں نے حضرت لوط ؑ سے کہا کہ ان مہمانوں کو ہمارے ساتھ بھیج دیجئے۔ ان فرشتوں نے حضرت لوط کو یہ نہیں بتایا تھا کہ ہم کون ہیں۔

اس کے بعد حضرت لوط اور جو اُن کو مانتے تھے انہیں حکم دیا کہ وہ بستی سے نکل جائیں اور پیچھے مڑکر نہ دیکھیں۔ اور بستی کو اٹھاکر ایسا پٹخا کہ پوری قوم کا قیمہ ہوگیا اور پھر اس پر پتھروں کی بارش مزید ہوئی۔

یہ کوئی افسانہ نہیں ہے یہ اس قرآن عظیم میں موجود ہے جس کے بارے میں ایک سے ایک مخالف نے یہ تسلیم کیا ہے کہ یہ انسان کی لکھی ہوئی کتاب نہیں ہوسکتی ہندوستان میں ایسا نہیں ہے کہ یہ بیماری نہیں تھی شہروں میں کم مگر قصبات میں زیادہ تھی۔ لیکن خوشی کی بات یہ ہے کہ شرفاء میں اسے ذلیل عادت یا شوق مانا گیا ہے۔ رہی بات لڑکی کی لڑکے سے دوستی یہ بیماری بھی ہے مگر بہت کم اور یہی ہے جسے عصمت چغتائی نے اپنے بدنام افسانے لحاف کے ذریعہ متعارف کرایا تھا اور ان پر فحش نگاری کا الزام آیا تھا۔

ہم نے کل ہی لکھا تھا کہ ہم عدالتوں اور دفعات سے زیادہ واقف نہیں ہیں اب تک دفعہ 377  ان پر لگتی تھی جسے اغلام بازی یا لواطت کہا جاتا ہے اور وہ مرض ہے جو عیاش مردوں میں زیادہ ہوتا ہے اور جس کے بارے میں امین آباد کا جھنڈے والا پارک بہت بدنام ہے کہ وہاں مغرب کے بعد نئی عمر کے لڑکے بن سنورکر آجاتے ہیں اور خریدار آتے ہیں اور وہ قربانی کے بکروں کی طرح اوپر سے نیچے تک دیکھ کر اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔ ہم 9  مہینے جیل میں رہے ہر دفعہ کے ملزم آئے لیکن 377  کا کوئی نہیں آیا۔

سپریم کورٹ کے پانچوں ججوں کے انداز سے ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے ان کو ان زنخوں کی زیادہ فکر ہے جو اپنے بقول نر سے ناری بنے ہیں اور وہی لباس اپنا لیا ہے اور جو خوبصورت لڑکے خواجہ سرا بنے ہیں ان کو کسی نے اپنے لئے مخصوص کرلیا ہے۔ جیل میں ہماری بیرک میں دو نوجوان شیام اور شدن آئے بہت صحتمند اور پرکشش جسم۔ معلوم ہوا کہ گلے کی چین چھین کر بھاگنے کے ماہر ہیں اور پرانے ہیں۔ جیل میں مقصود نام کا ایک لڑکا پہلے دن سے میرا کام کررہا تھا۔ شہرت تھی کہ اس کے مقدمے کا فیصلہ ہونے والا ہے وہ یا قیدی بیرک میں جائے گا یا اپنے گھر۔ اس شہرت کے بعد کئی لڑکوں نے کہا کہ ہم آپ کا کام کریں گے۔ ہم نے یہ کہہ بلا ٹالی کہ پنچ صاحب انتظام کریں گے۔ ان میں شدن اور شیام بہت ضد کررہے تھے۔

ہمارے لئے ملاقات کی کوئی پابندی نہیں تھی۔ اتوار کو تو والد بھائی اور دفتر کے لوگ آتے تھے۔ اس دن رش بہت ہوتا تھا۔ ہمارے مہمانوں سے تھوڑی دور دو خوبصورت لڑکے ساڑی بلائوز اور پورا میک اپ کئے ہوئے شدن اور شیام سے ملنے آتے تھے اور سامان بھی لاتے تھے۔ ایک دن کسی نے بتایا کہ یہ دونوں کی بیویاں ہیں۔ ہم نے شدن سے معلوم کیا تو اس نے بس اتنا کہا کہ ہمارا کام بہت خطرہ کا ہے ہمیں ایک گھر چاہئے اور ایسے لڑکے۔ پھر کچھ دنوں کے بعد ایک دن قبول کرلیا کہ جیسی خدمت یہ کرتے ہیں کوئی کیا کرے گا۔ لیکن ہمیں چھپ کر رہنا ہوتا ہے۔ یہ بات 62  برس پرانی ہے اب کون زندہ ہوگا کون نہیں اب ہوتے تو ڈنکے کی چوٹ پر شریفوں کے محلے میں رہتے۔

معلوم نہیں جج صاحبان نے کیا سوچا۔ ہم تو رات بھر سوچتے رہے کہ ایک لڑکی کا باپ اس کی شادی ایک لڑکی کے ساتھ اور ایک بیٹے کا باپ دوسرے کے بیٹے کے ساتھ کیسے کریں گے کیا اس میں پھیرے بھی ہوں گے یا مسلمان ہوئے تو کیا نکاح بھی ہوگا اور ہوگا تو کون پڑھائے گا؟ اور پنڈت جی مہورت کس کی نکالیں گے؟ پروردگار ملک پر رحم کرے کہ آر ایس ایس نے کہہ دیا کہ وہ ہم جنسی کو جرم نہیں مانتے۔ اب حکومت کی کیا مجال ہے کہ وہ مخالفت کرسکے؟ اور جب یہ جرم نہیں رہے گا تو ملک کا کیا حال ہوگا؟ اور جب سماج سے شرم و حیا پوری طرح رخصت ہوجائے گی تو آنے والے عذاب کو کون روکے گا؟ کاش سماج کے ٹھیکیدار ہمت کریں اور اسے پوری طرح مسترد کردیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔