سدوم سے ہندوستان تک

سلیمان سعود رشیدی

 ہم جنس کے حامل افراد کے مابین پائے جانے والے جنسی میلان  (جسمانی ملاپ)کو ہم جنس پرستی کہتے ہیں، کئی دیگر ممالک میں اس فعل قبیح کو جائز قرار دیا گیا ہے، جبکہ  اسلام سمیت اکثر دوسرے مذاہب میں یہ ناجائز اور سخت حرام ہے اور اس کا مرتکب مستوجب سزا ہے، اس فعل قبیح کا آغاز بمطابق ابراہیمی ادیان،پہلی مرتبہ قوم لوط میں ہوا، جسے قرآن نے بھی باتفصیل بیان کیا ہے، آج دنیا بھر میں ہم جنسی بڑی تیزی کے ساتھ پھیل رہی ہے، اکثر غیر اسلامی ممالک نے اسے جائز قرار دیا ہے، جس کے ثمرہ ہے کہ ان ممالک میں نسل کی بود وباش بہت کم ہے، نیز ان ممالک میں حکومت ماں بننے والی صنف پر بدریغ روپیہ خرچ کرجاتی ہے، مذکورہ اور ان جیسی بے شمار وجوہات کی بنا پر اسلام اور اور دیگر سنجیدہ مذاہب نے اس فعل قبیح کو ناجائز وحرام قرار دیا ہے، یہاں تک کہ اس غیر فطری عمل کو  مخالف جنس سے بھی پورے کرنے ناپاک، تکلیف دہ قرار دیتے ہوئے فاعل ومفعول دونوں کو سخت سزا کاموجب قرار دیا ہے۔

قرآن کے آئینہ میں :

 خالق سے بڑھ کر اپنی مخلوق کو جاننے والا کوئی اور بھی ہو سکتا ہے، اِنسان کےخالق سے بڑھ کر اُس کے بارے میں کوئی بھی اور نہیں جانتا کہ اُس کی اِس مخلوق کی حقیقت کیا ہے، اِنسانوں کی دو جِنس ہیں اور ظاہر ہے کہ ہم جِنس پرستی اپنی اپنی جِنس کے فرد کے ذریعے اپنی جِنسی خواہش کی تکمیل کا نام ہے، اللہ تعالیٰ نے صِرف اِنسانوں میں ہی نہیں، جانوروں میں بھی مخالف جِنس کے ساتھی کو جوڑا بنایا ہے، اِن "لبرلز ” نامی حیوانات سے تو وہ اصلی حیوانات بہتر ہیں جو اپنے خالق کی مقرر کردہ فطرت پر عمل پیرا رہتے ہیں، اور سوائے خنزیز اور گدھے کے کوئی اور جانور اِس کراھت زدہ گِھن آلود فعل میں ملوث نہیں ہوتے، اللہ تعالیٰ نے اِنسان کا جوڑا مرد اور عورت بنایا ہے قرآن کا فرمان ہے:اور اللہ کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اُس نے تم (اِنسانوں) کے لیے تمہاری ہی جِنس میں سے بیویاں بنائیں تا کہ تم لوگ (اپنی )اُس ) بیوی میں سکون پاؤ، اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت مہیا کی، (الروم آیت21 ) یقیناً اِس میں غور فِکر کرنے والوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں” پس جو کوئی اِس جوڑے کے عِلاوہ کوئی اور جوڑا بناتا ہے، سب سے پہلے تو وہ اپنے خالق کی مقرر کردہ راہ کو چھوڑ کر اپنے لیے اللہ کی ناراضگی حاصل کرتا ہے، اور اِس کے عِلاوہ دُنیاوی طو رپر بھی حقیقتا کوئی سکون نہیں پاتا، محض اپنی حیوانی خواہش کو مکمل کرتا ہے اور اُس میں ملنے والی وقتی سی، معمولی سی جسمانی لذت کو ابلیسی وحی کے زیر اثر سکون سمجھتا ہے،نیز یہ وہ گھناو نا عمل ہے جسکی وجہ سے نسلیں برباد ہوتی ہیں جسکے بارے میں قرآن میں ہے:  اور اللہ نے تم (اِنسانوں) کے لیے تمہاری ہی جِنس میں سے بیویاں بنائیں اور تمہاری بیویوں میں سے تم لوگوں کے لیے بیٹے اور پوتے بنائے، اور تم لوگ پاکیزہ چیزیں عطاء فرمائیں، تو کیا تم لوگ ( اِس کے بعد بھی ) باطل پر اِیمان رکھتے ہو، اور اللہ کی نعمت سے کفر کرتے ہو۔

حدیث کے آئینہ میں:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشادگرامی ہے لعن اللّٰہ من عمل عمل قوم لوط(مسنداحمد) اللہ تعالیٰ اس شخص پر لعنت کرتاہے جوقوم لوط کاعمل کرے۔ ترمذی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد موجودہے ملعون من عمل قوم لوط(ترمذی ص ۲۷۰:ج۱
ملعون ہے وہ شخص جس نے قوم لوط کا عمل کیا، ابن ماجہ اورترمذی میں ایک اورروایت ہے کہ، ان اخوف مااخاف علی امتی عمل قوم لوط(ترمذی ص ۲۷۰:ج۱:ابن ماجہ،مسنداحمد،مستدرک حاکم) سب سے زیادہ خطرناک چیزجس کا مجھ کو اپنی امت پر خطرہ ہے وہ قوم لوط کا عمل ہے۔

حضرت خزیمہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:یقیناً اللہ تعالیٰ حق بات کوبتانے میں شرم نہیں کرتا،لہٰذاتم عورتوں کے پاخانہ کے مقام میں(مباشرت کیلئے )نہ جاؤ۔(شادی اور شریعت ص ۲۵۶عن ابی ہریرۃ ؓ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی الذی یعمل عمل قوم لوط قال ارجمو الاعلیٰ والاسفل ارجموہماجمیعا۔(ابن ماجہ ص ۱۸۴)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیاگیاقوم لوط کے عمل کی سزاکے بارے میں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ فاعل ومفعول دونوں کو رجم کردو۔

شعب الایمان میں حضرت ابوہریرۃؓسے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی حرکت کرنے والے کے بارے میں فرمایاکہ اس کی صبح اللہ تعالیٰ کے غضب میں ہوتی ہے اور اس کی شام بھی اللہ تعالی کی ناراضگی میں ہوتی ہے۔(شعب الایمان :۲۰، ۷۵۶ )

اسکے علاوہ سیکنڑوں احادیث موجود ہیں، قرآن وحدیث کے علاوہ دیگر آسمانی کتب نے بھی اس عمل قبیح کی شدید مذمت کی ہے تو رات میں اس کی مذمت ان الفاظ میں آئی ہے، ’’اوراگر کوئی مرد سے صحبت کرے جیسے عورت سے کرتے ہیں تو ان دونوں نے نہایت مکروہ کام کیا ہے سووہ دونوں ضرورجان سے مارے جائیں، ان کا خون ان ہی کی گردن پر ہوگا ‘‘(احبار:صفحہ ۱۳،۲۰ )

اِنسانی تاریخ میں ہم جنسی کی ابتداء:

اسکی خبر بھی ہمیں قرآن سے ملتی ہے، جس میں حضرت لوط کے اس قول کاذکر ہے : اور جب لوط نے اپنی قوم سے کہا کہ تم لوگ ایسی بے حیائی کرتے ہو جو تم لوگوں سے پہلے دونوں ہی جہانوں (یعنی اِنسانوں اور جِنّوں ) میں کِسی نے بھی کی (اور وہ یہ ہے کہ ) تم لوگ اپنی جِنسی خواہش پوری کرنے کے لیے عورتوں کی بجائے مَردوں کو اِستعمال کرتے ہو، تم لوگ تو بالکل ہی حد سے گذر گئے ہواب یہ دیکھنا ہے کہ اللہ نے ان لبرلز کے ساتھ کیا انجام کیا :(الاعرف:۸۰،۸۱)

اور ہم نے اُن (ہم جِنسوں ) پر (مٹی کے کنکروں کی) بارش کر دِی، پس دیکھو کہ جُرم کرنے والوں کا کیا انجام ہوتا ہے، تو ہم نے لوط کو، اور اُس کے گھر والوں کو (اُس عذاب سے ) بچا لیا، سِوائے لوط کی بیوی کے وہ پیچھے (اُن ہی ہم جِنس پرستوں میں ہی)رہ جانے والوں میں سے تھی، پوری پوری کی بستی الٹ دی گئ اور پھر اُس پر پتھروں کی بارش کی گئی، یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُن ہم جِنس پرست "لبرلز”کو رجم یعنی سنگسار کا حکم دیا "(الأعراف:۸۳،۸۴ )

 پس یہ بات یقینی ہے کہ ہم جِنسی بھی ایک ایسا جُرم ہے جِس کی سزا اللہ تعالیٰ دُنیا میں بھی دیتا ہے، خواہ وہ کِسی بھی صُورت میں ہو، لیکن بہرحال وہ انتہائی دردناک بھی ہوتی ہے اور ناقابل واپسی بھی، جیسا کہ آج کے دور میں ہم سب کے سامنے اِن ہم جِنس پرستوں میں پائی جانےو الی طرح طرح کی خوفناک اور نا قابل عِلاج جِنسی، نفسیاتی اور دیگر جسمانی بیماریاں ہیں، اُن بیماریوں کی خوفناک چیخیں اور دھاڑیں اُن میں مبتلا مریضوں کے اندر گونجتی ہی رہتی ہیں، جِن میں اکثر اُن کے منہوں سے بھی نکلتی ہیں۔

تاریخ کے آئینہ میں:

 ہم جنس پرستی کو فروغ دینے میں اس وقت اور جو ممالک سرگرم ہیں ان میں امریکہ پیش پیش ہے۔ امریکہ کے تحقیقی ادارے بھی اس پر کام کر رہے ہیں اور ہم جنس پرستی کے حق میں مختلف دلائل دے رہے ہیں۔ ایک حالیہ تحقیق میں امریکی تحقیق کاروں کا خیال ہے کہ ہم جنس پرست مردوں کی آپس کی شادیاں صحت مند ماحول پیدا کرنے میں معاون ہوتی ہیں،تحقیق کاروں کا کہنا ہے کہ شادی کے بندھن میں بندھ جانے والے ہم جنس پرست مرد بیماریوں کا کم شکار ہوتے ہیں۔ کیونکہ قانونی جیون ساتھی مل جانے سے ہم جنس پرست مرد اس اضطراری کیفیت سے نکل آتے ہیں جس کا شکار وہ ہم جنس پرست ہونے اور اپنا ساتھی نہ ملنے کے باعث رہتے تھے۔ سدوم سے اٹھنے والا یہ مرض اسی امریکہ کی کوشش سے، دنیا بھر کے 113ممالک میں ہم جنس پرستی کو قانونی تحفظ حاصل ہوا، جن میںمالی، اردن، کاغستان، ترکی، تاجکستان، کرغزستان، بوسنیا اور آزربائیجان جیسے 9مسلمان ممالک بھی شامل ہیں اور 76ممالک میں غیر قانونی ہے۔باضابطہ گی سے اس کام کو فروغ دیا جارہا ہے اس کے لیے ایک تنظیم "آئی، ایل،جی،اے،بھی ۱۹۷۸ میں وجود میں آئی، جس کا بنیادی مقصد دنیا بھر میں بسنے والے ہم جنس پرستوں کے حقوق کا تحفظ ہو،اب یہ تنظیم ۱۱۰ ممالک میں بڑی تیزی کے ساتھ کام کررہی ہے، لیکن  آئی ایل جی اے کو 2008میںاس وقت شہرت ملی کہ جب اس کی کوششوں سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے پہلی مرتبہ ہم جنس پرستوں کے حقوق کی توثیق کی۔ اس موقع پر گرما گرم بحث ہوئی اعلامیہ کے حق میں 23 جبکہ مخالفت میں 19 ووٹ پڑے۔ اس اعلامیہ کے حق میں امریکہ، یورپی یونین، برازیل اور دیگر لاطینی امریکی ممالک نے ووٹ دیا جبکہ روس، سعودی عرب، نائجیریا، پاکستان نے مخالفت کی ہے جبکہ چین اور دیگر ممالک نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا تھا۔ موریطانیہ سمیت کچھ ممالک نے اس قرارداد کو انسانیت کے بنیادی حقوق کو تبد یل کرنے کی کوشش قرار دیا، بہرحال دنیا اب ایک ایسے دورائے پر آ کھڑی ہوئی ہے جہاں کچھ عرصہ پہلے کی برائیاں اچھائیاں بنتی جا رہی ہیں اور اچھائیاں برائیوں میں بدلتی جا رہی ہیں۔ اب یہ دنیا کہاں جا کر رکے گی اس بارے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

آی۔ایل۔جی۔اے کی رپورٹ:

آئی ایل جی اے کی رپورٹ کے مطابق جرمنی میں ہم جنس پرستی کو 1968میں قانونی قرار دیا گیا جبکہ یونان میں 1951،امریکہ 2003، آسٹریلیا اور ہنگری 1962، آئس لینڈ 1940، آئرلینڈ 1993، اٹلی 1890، کوسوو 1994، لٹویا 1992، لیتھونیا 1993، لگسمبرگ 1795، برکینا 2004، چاڈ، کانگو، آئیوری کاسٹ، گنی، 1931گبون، گنی بساﺅ 1993، مڈاگاسکر، مالی، نائیجر، روانڈا، جنوبی افریقہ1998، کمبوڈیا، چین 1997، مشرقی تیمور 1975، بھارت 2009، انڈونیشیا، اسرائیل 1988، جاپان 1882، اردن 1951، کازکستان 1998، کرغستان 1998، لاﺅس، منگولیا 1987، نیپال 2007، شمالی کوریا، فلپائن، جنوبی کوریا، تائیوان 1896، تاجکستان 1998، تھائی لینڈ 1957، ترکی 1858، ویتنام البانیہ فلسطین 1995، انڈورہ، آرمینیا2003، آسٹریا 1971، آزربائیجان 2000، بلجیم 1795، بوسنیا 1998، بلغاریہ 1968، کروشیا 1977، سائپرس 1998، چیک رپبلک 1962، ڈنمارک 1933، اسٹونیا 1992، فن لینڈ 1971، فرانس 1791، جارجیا 2000، میکوڈینیا 1996، مالٹا 1973، مالدیپ 1995، مناکو1793، مانٹیگرو1977، نیدر لینڈ 1811، ناروے 1972، پولینڈ 1932، پرتگال 1983، رومانیہ 1996، روس 1993، سان مارنیو 1865، سر بیا 1994، سلاوکیہ 1962، سلوانیا1979، سوئٹزرلینڈ 1942، یوکرائن 1991، برطانیہ 1929، ویٹی کن سٹی 1929، ارجنٹائن1887، باہاماس1991، بلوویا1831، برازیل 1831، کوسٹ ریکا1971، چلی 1999، کولمبیا 1981، کیوبا 1979، ایکاڈور1997، سالواڈور، گوئٹے مالا، ہیٹی، ہنڈراس1899، میکسیکو 1872، نکاراگوا 2008، پاناما 2008، پیراگوئے 1880، پیرو 1836، سورینام 1869، اوگرائے 1934، وینزویلا، فیجی 2010، مارشل آئی لینڈ 2005، نیوزی لینڈ 1986 میں ہم جنس پرستی کو قانونی قرار دے دیا گیا تھا ، نیز اب ہندوستان میں سپرہم کورٹ کے ۵ رکنی بنیچ نے ۲۰۱۳ کے فیصلہ کو کالعدم قرار دیتے ہوئے ہم جنس پرستی کو قانونی قرار دیا، واضح رہے کہ 1861 کے قانون کے مطابق بھارت میں ہم جنس پرستی کی سزا 10 سال قید تھی اور ہائیکورٹ نے ۲۰۰۹میں اسے ناقابل سزا جرم قرار دیا اور اس معاملے پر 2013 میں سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی اور اعلیٰ عدالت نے ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے اسے قابل جرم قرار دیا تھا۔

 جسکے نتیجے میں وہ ممالک جہاں اس فعل قبیح کو قانونی اجازت حاصل ہے اس میں اس کی کراہت کو ختم کرنے لیے فلمیں  بھی بن نے لگی  جیساکہ ہندوستان میں ہم جنس سے متعلق "مامی” نامی فلم بہت اہم ہے، نیزدوستانہ ون اور دوستانہ ٹو میں ہم جنس پرستی سے متعلق ایک حقیقی واقعے کو موضوع بنایا گیا،اس قسم کے ڈرامے ترکی میں ۲۰۰۸ دیکھائے گائے، جبکہ اس فلم نے پانچ ایوارڈ بھی جیتے ہیں۔ایک ملین ڈالر کی لاگت سے تیار کی گئی اس فلم کی مالی معاونت ہالینڈ کے سفارت خانے نے کی تھی، اب ہندوستان میں اس سے متعلق میگزین "تفریح” کے نام سے شائع ہونا شروع ہوچکی  جس کا آغاز ۲۰۱۱ میں تھا، یہ میگزین جب مارکیٹ میں آتا ہے تو ہاتھوں ہاتھ بک جاتا ہے۔

ایڈز کے ڈھلیز پر:

یہ ایک ایسا مرض ہے کہ اس کا عادی ایڈز جیسے زیریلے مرض کا شکار ہوجاتا ہےکچھ اعداد و شمار:

یورپی ملک برطانیہ میں قریب ایک لاکھ دس ہزار افراد ایچ آئی وی کے مہلک وائرس کا شکار ہیں۔ گزشتہ ایک دہائی میں اس تعداد میں دوگنا اضافہ ہوا ہے، المیہ یہ کے ایچ آئی وی کے شکار ہر چار میں سے ایک شخص میں اس مرض کی تشخیص نہیں ہوئی ہے اور اُسے اس مرض کا شکار ہو جانے کا علم ہی نہیں ہے۔ یہ حقائق نیشنل ایڈز ٹرسٹ کی طرف سے سامنے لائے گئے ہیں، برطانیہ میں محض 2013ء میں چھ ہزار افراد میں ایچ آئی وی وائرس کی تشخیص ہوئی۔ ان میں سے نصف سے زیادہ تعداد ’ہم جنس پرست‘ مردوں کی تھی۔ اسی سال برطانیہ کے ایک معروف اور متعدد ایوارڈ یافتہ ڈرامہ ہدایت کار اینڈریو کیٹس میں بھی ایچ آئی وی کے وائرس کی اچانک تشخیص ہوئی۔ وہ بھی ایک ڈرامے کی پروڈکشن کے دوران۔ کیٹس کا تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’میں ایسے سینکڑوں انسانوں سے مل چُکا ہوں جن میں ایچ آئی وی وائرس کی تشخیص ہو چُکی ہے تاہم وہ اس بارے میں بات نہیں کرنا چاہتے جس کی وجہ معاشرے میں ایسے افراد کو ایک دھبہ یا کلنک کا ٹیکہ سمجھنے کا رجحان ہے‘‘۔

ہم سب کی ذمہ داری:

ان تکلیف دہ حالات میں ہر مسلمان کی خصوصی اوردرد دل رکھنے والے اورانسانیت کی فلاح وبہبودکے متمنی افراد پر یہ عمومی ذمہ داری ہے کہ اپنے اپنے دائرہ کار میں انفرادی واجتماعی سطح پر ہم جنس پرستی کے نقصانات کو اجاگر کرکے اس کے خلاف بھرپورکردار ادا کریں، اس سلسلے میں درج ذیل اقدامات کئے جاسکتے ہیں۔

(۱) قومی اخبارات، رسائل وجرائد،خصوصاً مذہبی رسائل ہم جنس پرستی کے متعلق آسمانی تعلیمات سے لوگوں کو آگاہ کریں،جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے قلم کی قوت عطا فرمائی ہے وہ اس نعمت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اس کے ذریعہ سے ہم جنس پرستی کے خلاف بھرپورآواز بلند کریں۔

(۲) وارثان منبر ومحراب اپنے دروس،جمعہ کے خطبات اورنجی محافل میں عوام کو ہم جنس پرستی کے تصور،اس کے آغاز،اس کے نقصانات اوراس کے نتیجے میں قوم لوط کی تباہی وبربادی کے متعلق آگاہ کریں اورانہیں اخلاقی طورپرآمادہ کریں کہ وہ اپنے نونہالوں کو جو کہ ان کا بھی اوروطن کے ساتھ ساتھ امت مسلمہ کا بھی مستقبل ہیں، بلیرڈ گیمزکی دوکانوں، ویڈیوگیمزکے مراکز،سنوکرکلبوں،تھیٹرز،منی سنیماز اوردیگرایسے مقامات میں جانے سے روکیں جہاں ہر طبقے، ہر عمر اورہر مزاج وفطرت کے لوگ جمع ہوکر مختلف قسم کے گیمزکھیلتے ہیں۔

(۳) تعلیمی درسگاہوں میں طلبہ کی فکری تربیت کرتے ہوئے انہیں ہم جنس پرستی کی حقیقت اوراس کے دینی ودنیاوی نقصانات سے روشناس کرائیں، یہ بات یقینی ہے کہ مختلف (NGOS)کی طرف سے کی جانے والی کوششوں کے مقابلے میں تعلیمی اداروں کی تھوڑی سی کاوش بھی بہترین نتائج کاباعث بنے گی۔

(۴) جدو جہد کا ایک دائرہ کار یہ بھی ہے کہ حضرت لوط کی قوم کی تباہی کا مکمل قرآنی واقعہ، اس برائی کی مذمت میں مذکوراحادیث نبویہ، اس برائی کے روحانی اورطبی نقصانات کو کتابچے کی صورت میں شائع کرواکر عامۃ الناس میں تقسیم کرنے کا اہتمام کیا جائے۔

امت مسلمہ ہی نہیں بلکہ ہر وہ شخص جو آسمانی تعلیمات کی حقانیت وصداقت پر یقین رکھتا ہے اور ہر وہ شخص جو انسانیت کی فلاح وبہبود کا حامی ہے، اسے اس برائی کے خلاف اپنا پورا کردارادا کرنا چاہے۔

خلاصہ:

صرف آگ آگ چلانے سے آگ نہیں بچھتی بلکہ پانی ڈالنا پڑتا ہے، لھذا  اس بدترین فعل کی سر کوبی کے لیے "کلکم راعی وکلکم مسئول عن رعیتہ "کے تحت ہر ایک ذی عقل کی ذمہ داری بنتی ہے کہ میدان میں آکر  خواموش احتجاج کریں آج ہماری حکومت آفات سماویہ کو ماکواللحم جانور کے استعال کا نتیجہ بیان کرتی ہے، جبکہ سماوی آفتیں ان قبیح احکام کا نفاذ ہے، جس طر ح  ماضی میں مسلمانوں کے نجی مسائل کے خلاف بیان کیے جانے والے احکام کی سرکوبی کی گئ ٹھیک اسی طرح ایک صدائے جرس لگانے کی ضرورت ہے تاکہ یہ مٹھی کے تودے ڈھل سکے کیونکہ یہ صرف ایک مسلامنوں کا مسئلہ نہیں بلکہ روئے زمین پر بسنے والے ہر مذہب نے اسے فعل قبیح قراردیا ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔