رجب طیب اردوغان :  ایک تعارف

مولانا خواجہ فرقان علی قاسمی

 سارے عالم کے مسلمان بالعموم اور بر صغیر کے مسلمان بالخصوص ترکی سے ایک والہانہ محبت کا تعلق رکھتے ہیں ،جوں ہی ترکی کا نام لیا جاتا ہے ہمارا ذہن ترکی کے مخصوص تعمیری شاہکار خوبصورت و منفرد مساجد کی جانب جاتا ہے اور ساتھ ہی ایک مرد مجاہد،ارادوں کا مضبوط، اسلامی حمیت و اخوت کے جزبہ سے لبریز مظلوموں کا حامی، کمزوروں کا مددگار، ایک قومی ہیرو،ایک سچے لیڈر، ایک بے باک قائد رجب طیب اردوغان کا چہرہ ہمارے ذہنوں میں آتا ہے، اس کی اصل وجہ یقینا خلافت عثمانیہ ہے، عالمی جنگ اول کے بہانے ترکی سے خلافت عثمانیہ کو جب ختم کیا گیا تواس وقت سے عالم اسلام کے مسلماں پھر سے خلافت کے دور کی امید اپنے دلوں میں لئے ہوئے زندہ ہیں ، اور اب دوبارہ ترکی سے وہ امید پوری ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے۔

جس کے پیچھے اسی مرد مجاھد کا چہرہ ہے جس نے اپنی زندگی کے آغاز ہی سے جہد مسلسل کو اپنی زندگی کا لازمی حصہ بنایا ۔ استنبول کی گلیوں سے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کیا اور ایک دن سارے ترکی کا وزیر اعظم اور دیکھتے ہی دیکھتے صدر بن کر اپنی قوم کا دل جیتا۔ گذشتہ سال یعنی 2016جولائی  میں جب فوج کے ایک حصہ نے بغاوت کی تواس قائد کے محض ایک پیغام پرساری قوم  نے اپنے گھروں کو چھوڑکرراستوں پر بسیرا کیا اور ٹینکوں کے سامنے لیٹ کر اپنے سچے رہبر کے آواز پر لبیک کہا اور ساری دنیا نے دیکھا کہ اس شخص کی دلوں پر کس طرح حکومت ہے۔ اور حالیہ انتخابات یعنی صدارتی ریفرنڈم میں عوام نے جس طرح اپنے ملک کے مستقبل کو 2030 تک اس قومی ہیرو کے حوالے کیا ہے یہ بھی ایک بڑی کامیابی ہے۔ آٗیے ایک نظر اس شخص کی زندگی پر ڈالتے ہیں ۔

  پیدائش  :  رجب طیب اردوغان کی پیدائش 26 فروری 1954 میں اسنبول شہرمیں ہوئی۔ان کے خاندان کا تعلق ترکی کے شمال مشرق میں واقع ریزا نامی شہر سے تھا۔

  تعلیمی سفر   :  ابتدائی تعلیم مدرسہ قاسم پاشا سے حاصل کی اور 1965 میں وہاں سے فراغت حاصل کی۔اس کے بعد استنبول امام خطیب ہائی اسکول میں ماہرین سے تعلیم حاصل کی اور 1973 میں میٹرک پاس کیا۔اسی طرح دیگر اضافی مضامین کا امتحان پاس کرنے کے بعد ایوب ہائی اسکول سے ڈپلومہ کی سند حاصل کی۔ اس کے بعد مرمرہ یونیورسٹی کے کامرس و اکنامکس کے شعبہ میں داخلہ لیا اور1981 میں بزنس ایڈمنسٹریشن کی ڈگری حاصل کی۔

  ڈاکٹریٹ اور اعزازات  :  جامعہ سینٹ جانز، گرنے امیریکن یونیورسٹی، جامعہ سرائیوو، جامعہ فاتح، جامعہ مال تپہ، جامعہ استنبول، اور جامعہ حلب کی جانب سے رجب طیب اردوغان کو ڈاکٹریٹ کی اعزازی سند سے نوازا گیا۔فروری2004 میں جنوبی کوریا کے دار الحکومت سیول اور فروری2009 میں ایران کے دار الحکومت تہران نے رجب طیب اردوغان کو اعزازی شہریت سے نوازا۔اکتوبر2009 میں دورہ پاکستان کے موقع پر رجب طیب اردوغان کو پاکستان کے اعلی ترین شہری اعزاز نشان پاکستان سے نوازا گیا۔

 استنبول کے گلیوں سے ترکی کے صدارت تک کا سیاسی سفر  :  رجب طیب اردوغان اپنی ابتدئی جوانی سے مضبوط اجتما عی اور سیاسی زندگی کی جدوجہد کی وجہ سے مشہور تھے۔ اور انہوں نے 1969 سے لیکر 1982 تک یعنی چودہ سال کے درمیانی حصہ میں اپنی ٹیم کے ساتھ اجتماعی کام کے تجربہ کی روشنی میں سلیقہ عمل اور ڈسپلن سیکھا۔چونکہ وہ ایک وسیع النظر اور روشن فکر جوان تھے اور پختہ یقین تھا کہ اپنے ملک و ملت کا بڑا فائدہ اس میں ہے کہ وہ سیاسی زندگی میں قدم رکھے، چنانچہ بڑے دھوم دھام اور متحرک صورت میں سیاسی زندگی میں داخل ہوئے۔

 رجب طیب اردوغان 1983میں رفاہ پارٹی کی تاسیس کے ساتھ بڑی طاقت کے ہمراہ میدان میں اترے،اور 1984 میں استنبول کے ضلع بایوغلو کی ایک تحصیل کے صدر بن گئے،پھر استنبول شہر صدر بن گئے،اور 1985 میں رفاہ پارٹی کے مرکزی قرارداد کمیٹی کے رکن مقرر پائے ۔اسی عرصہ میں طیب اردوگان نے بڑے پیمانے پر کوششیں کیں ، خصوصاً  جوانوں اور عورتوں کو سیاست کی طرف راغب کیا، اس دوران معاشرے میں سیاست کی ترویج اور قومی مفادات  کے لئے اہم اقدامات اٹھائے، اور یہی وجہ تھی کہ ان اقدامات کے نتیجے میں نئی تنظیم رفاہ پارٹی نے واضح برتری حاصل کی،اس پارٹی نے 1989میں ضلع بایو غلو کے لوکل الیکشن میں بڑی کامیابی حاصل کی،اور یہ ملکی سیاست میں قابل تقلید سمجھی جانے لگی۔27 مارچ 1994 میں ہونے والے لوکل الیکشن میں رجب طیب اردوغان ملک کے سب سے بڑے شہر استنبول کے گورنر منتخب ہوئے۔ اس وقت استنبول کا شمار دنیا کے ان شہروں میں ہوتا تھا جہاں نہ امن قائم تھا اور نہ ہی ترقی تھی،،اس شہر میں جہاں پانی برقی کی قلت تھی ، وہیں کوڑا کرکٹ اور کچرے کا مسئلہ تھا ان جیسے بہت سارے بڑے بڑے مسائل کو حل کرنے کا ایسا حل نکالا کہ دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کے خوبصورت شہروں میں سے اسے ایک بنا دیا۔  اور1994  سے 1998تک استنبول کے مئیر رہے۔

1997 میں رجب طیب اردوغان نے سیرت شہر کے ایک جلسہ عام میں دوران خطاب ایک شعر ی مصرعہ پڑھا تھاجس کے الفاظ یہ تھے  : گنبد ہماری جنگی ٹوپیاں ہیں ، مسجدیں ہماری فوجی چھاؤنیاں ہیں ، صالح مسلمان ہمارے سپاہی ہیں ،کوئی دنیاوی طاقت ہمیں شکست نہیں دے سکتی۔ اس جلسہ عام کے عام کے بعد محض اس شعری مصرع کی وجہ سے 12 دسمبر 1997 کو جیل جانا پڑا، جس کے نتیجے میں انہیں ترکی کے بڑے شہر استنبول کے گورنری سے معزول کردیا گیا۔اور 2001  میں عبد اللہ گل کے اتحاد میں جسٹس اینڈ ڈیولیپمنٹ پارٹی بنائی۔لیکن شہر سیرت کے جلسہ عام کے مقدمے کی وجہ سے رجب طیب اردوغان نومبر 2002 کے انتخابات میں امیدوار نہ بن سکے کیونکہ اس کی اہلیت کے بارے میں اسی مقدمے کی روشنی میں عدالتی حکم آیا تھا۔ اور پھر جب اس معاملے میں قانونی ترامیم ہوئیں تو انتخابی رکاوٹیں دور ہوئیں ۔ جس کے بعد 9 مارچ 2003 کو جب رجب طیب اردوغان نے اسی سیرت شہر سے پارلیمانی امیدوار کے لئے انتخابات لڑا توپچاسی فیصد85% ووٹ حاصل کئے جس کی بدو لت وہ بائیسویں الیکشن میں سیرت شہر سے رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئے،اور 2003 کے الیکشن میں وزیر اعظم بنائے گئے۔

2014  میں ترکی کی تاریخ میں پہلی مرتبہ صدارتی انتخابات ہوئے ، اس سے پہلے پارلیمانی افراد کو یہ حق تھا کہ وہ ملک کے کے صدر کا انتخاب کریں ،اور اس پہلے ترکی کے صدارتی انتخابات میں کامیابی حاصل کی اور اگسٹ 2014  کو ترکی کی قوم نے اپنے ووٹوں سے پہلی مرتبہ رجب طیب اردوغان کو جمہوریہ ترکی کا  صدر  منتخب کرلیا۔ اور 16اپریل 2017کو ترکی کے تاریخی ریفرنڈم انتخابات میں اکیاون اعشاریہ اکتالیس فیصد 51.41%ووٹ حاصل کرتے ہوئے اپنی زندگی کی ایک اور بڑی کامیابی حاصل کی۔

تبصرے بند ہیں۔