رحمت عالم ﷺ کی شادیاں

مولانا محمد عنایت اللہ اسد سبحانی

شروع شروع میں اسلامی شریعت میں بیویوں کی کوئی تعداد متعین نہیں تھی، ہر مرد اپنی ضرورت اور حالات کے لحاظ سے جتنی چاہتا شادیاں کرلیتا۔

رحمت عالمﷺ عورتوں مردوں سب کے نبی تھے، سب کو بنانا سنوارنا،سب کی اصلاح وتربیت کرنا، اور سب کوزیور علم وتقوی سے آراستہ کرناآپؐ کی ذمے داری تھی۔

مردوں کی تعلیم وتربیت تو آپؐ کے لیے آسان تھی،مگر عورتوں کی تعلیم وتربیت براہ راست ممکن نہ تھی۔ اس کی سب سے خوب صورت شکل یہی ہوسکتی تھی،کہ آپؐ کچھ ہوشیار، سمجھ دار، باصلاحیت، متحرک اور فعّال عورتوں سے نکاح کرکے انہیں عورتوں میں کام کرنے کی تربیت دیں۔

اس غرض سے آپ ﷺنے کئی شادیاں کیں،اور خواتین کی ایک مثالی ٹیم تیار کردی، جس نے حلقۂ خواتین میں دعوتی کام کرنے،اور ان کی اصلاح وتربیت کرنے کا محاذ سنبھال لیا۔ اور نبی اکرم ﷺ کو اس پہلو سے بہت حد تک بے غم کردیا۔

داد دیجیے رحمت عالم ﷺ کی اس حکمت وبصیرت کی!

اور داد دیجیے امہات المومنین کی بے پناہ دعوتی لگن،اور دعوتی جدو جہدکی!

آپ ﷺ کی اس تدبیر نے دعوت وتبلیغ کے کام میں جان ڈال دی،اور کچھ ہی عرصے میں دین اسلام ہرگھر کی رونق، ہر دل کی دھڑکن، اور ہر شخص کی زندگی کا نصب العین بن گیا۔

پھر ایک وقت آیا کہ حکم آگیارب العالمین کی طرف سے، کہ کوئی شخص چار سے زیادہ بیویاں نہیں رکھ سکتا! عام مسلمانوں، اور عام مسلم خواتین کے لیے تو یہ کوئی بہت بڑا مسئلہ نہیں تھا، جن لوگوں کے پاس چار سے زائد بیویاں تھیں، انہوں نے عموماً قرعہ اندازی کرکے چار بیویوں کا انتخاب کرلیا، اور بقیہ بیویوں کو طلاق دے دی۔

جن عورتوں کو طلاق دی گئی، وہ عورتیں اپنی عدت گزارکر کسی دوسرے کے نکاح میں آگئیں۔

وہ اخوت ومحبت اور نیکی وتقوی کا روح پرور ماحول تھا،اس ماحول میں کنواری اور غیرکنواری کا کوئی مسئلہ نہیں تھا،اس طرح آنا فاناًہر طلاق یافتہ عورت کا بہتر سے بہتر انتظام ہوگیا، کسی کو کسی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔

البتہ پیارے نبی ﷺاور آپ کی ازواج مطہرات کے لیے یہ بڑا کٹھن مرحلہ تھا!

ازواج مطہرات امہات المومنین، یعنی تمام مسلمانوں کی مائیں تھیں،ان میں سے کسی بی بی کو اگرطلاق ہوجاتی، تو وہ کسی اور سے نکاح کرنہیں سکتی، اس طرح وہ ہمیشہ کے لیے اکیلی ہوجا تی!

خود رحمت عالمﷺ کے لیے یہ بہت بڑی آزمائش تھی،کیونکہ رحمت عالم ہونے کی حیثیت سے آپؐ کا کام تھاہر ایک کے لیے آغوش رحمت وشفقت فراہم کرنا، نہ کہ کسی کے آشیانے کو اجاڑنا، اور اسے اکیلا اور بے سہاراکردینا!

آپ ﷺ کی شان کریمی نے اس وقت یہ فیصلہ کیا، کہ کسی کو طلاق دینے، اور اپنے سے علحدہ کرنے کے بجائے خود سب سے علحدہ ہوجائیں،اور سب کے سلسلے میں براہ راست حکم الٰہی کا انتظار کریں!

چنانچہ حکم الٰہی کے انتظار میں آپؐ نے تمام ہی ازواج مطہرات کے یہاں جانا چھوڑدیا، اور اپنے سونے بیٹھنے کے لیے سب سے الگ تھلگ ایک جگہ بنالی!

اس موقع پر آپ ﷺ یہ بھی کرسکتے تھے،کہ عام مسلمانوں کی طرح تمام ازواج میں سے چار ازواج کا انتخاب کرلیتے، اور بقیہ ازواج کے سلسلے میں حکم الٰہی کا انتظار کرتے،مگر سوال یہ ہے کہ آپ ﷺ انتخاب کرتے، توکن چار کا انتخاب کرتے؟

آپؐ کی نگاہ میں تو ساری ازواج برابر تھیں،اور آپ کی شفقتیں اور محبتیں سب کے لیے یکساں تھیں۔ عائشہؓ ہوں، کہ سودہؓ ہوں،حفصہؓ ہوں، کہ زینبؓ ہوں،یااور دوسری ازواج مطہرات، ان سب کے درمیان کسی طرح کا کوئی فرق وامتیاز نہ تھا!

بلا شبہہ کچھ لوگوں نے فرق وامتیاز کی بات کہی ہے،اور یہ بات لوگوں میں خوب پھیلائی بھی گئی ہے، لیکن اس بات کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔

یہ دامن رسالت پر ایک دھبہ لگانے کی ناکام کو شش ہے۔ اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی چمکتے ہوئے چاند پر تھوکنے کی کوشش کرے!

ازواج مطہرات کے درمیان یہ فرق وامتیاز ہوتا بھی کیسے؟ جبکہ یہ شادیاں عام شادیوں کی طرح نہ تھیں۔ یہ شادیاں اپنی روح، اور اپنی غایت کے لحاظ سے بالکل جداگانہ نوعیت کی تھیں، اور اپنی الگ شان رکھتی تھیں!

یہ شادیاں ایک عظیم مقصد کے تحت ہوئی تھیں، وہ عظیم مقصدتھا عورتوں میں اسلام کی دعوت وتبلیغ،عورتوں کی دینی تعلیم وتربیت،خواتین کی دنیا میں کاررسالت کی انجام دہی!

یہ شادیاں ہوئی تھیں صرف اور صرف اللہ کے لیے،اس کے دین کی سربلندی کے لیے، حلقۂ خواتین میں اسلام کی تبلیغ واشاعت کے لیے، عورتوں اور بچوں میں قرآن پاک کی تعلیم وتربیت عام کرنے کے لیے!

یہ تمام شادیاں رحمت عالم ﷺ نے اس وقت کی تھیں جب عمر مبارک کا سورج ڈھل چکا تھا، اور وہ زندگی کی سہ پہر،اور زندگی کی شام کے اشارے دے رہا تھا!

جب تک جوانی تھی، اور جوانی کی توانائیاں تھیں،اس وقت تک آپؐ کی خلوت کی رفیق صرف حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا تھیں۔

عظمت وکمال کے تاجداروں کو چھوٹی ذہنیت کے ساتھ سمجھنا ممکن نہیں ہوتا۔ ان کی عظمتوں کوسمجھنے کے لیے اپنی ذہنی اور فکری سطح اونچی کرنی بہت ضروری ہوتی ہے۔

جو لوگ رحمت عالمﷺ کی عظمت بے پایاں کو سمجھنا چاہیں، ان کے لیے یہ نکتہ سامنے رکھنا نہایت ضروری ہے!

قصہ مختصر، حکم الٰہی کے انتظار میں ایک ماہ سے زیادہ مدت گذرگئی، اک لمبے انتظار کے بعد رب العالمین کی طرف سے خصوصی رعایت آگئی، آپؐ کی جتنی ازواج تھیں،وہ سب کی سب بزم رسالت کی رونق بنی رہیں، ان میں سے کسی کو بھی رب کریم نے آپ ﷺ کی صحبت سے محروم نہیں کیا!

یہاں دیکھنے کی چیز یہ ہے کہ رحمت عالمﷺ نے عورتوں کی جیسی دل جوئی، اور جیسی عزت افزائی کی ہے، اور جس طرح انسانی سماج میں ان کا مقام ومرتبہ بڑھایا ہے،انسانی تاریخ میں وہ ایک بے مثال چیز ہے!

موجودہ تہذیب اپنی تمام ترقیوں اور ساری دلفریبیوں کے باوجودعورت کونہ آزادی دلاسکی ہے،نہ اس کی عزت و آبرو کی حفاظت کرسکی ہے، یہ ضرور ہے کہ اس نے اسے عزت وآبروکے احساس سے ہی محروم کردیاہے۔

وہ عورت کو کھلونے دے کر سڑکوں پر لے آئی،او ر یہ نادان! ان کھلونوں میں ایسی مست ہوئی،کہ اسے اپنی عزت و آبرو کاکوئی ہوش نہیں رہا۔

وہ اپنی بے آبروئی کو ہی اپنی ترقی، اور اپنی محرومیوں کو ہی اپنی کامیابی سمجھنے لگی! ع

عطا تہذیب حاضر نے تجھے کی ہے وہ آزادی
کہ ظاہر میں تو آزادی ہے، باطن میں ہے رسوائی!

(مہرومحبت جس کی شانﷺ!، مصنف: مولانا محمد عنایت اللہ اسد سبحانی، ناشر: ہدایت پبلشرز، نئی دہلی، موبائیل: 9891051676)

تبصرے بند ہیں۔