بیساکھی

فہیم ادیب فاروقی اجنٹوی

( اسسٹنٹ ٹیچر معین العلوم ہائی اسکول، اورنگ آباد)

مرزا صاحب شہر کے امیر ترین شخص جن کا بادشاہ جیسا محل، کئی وزیروں ، غلاموں کے ساتھ کاروبار اور شہر پر راج کرتے رہے۔ نجی ضروری خدمات کے لیے خادم کا نظم تھا۔ کاروبار میں منافع پر وزیروں ، خادموں کو اضافی رقم بھی مل جایا کرتی۔ جس کی وجہ سے خادموں کی کام میں دلچسپی سے منافع بڑھتا گیااور مرزا صاحب امیر سے امیر ہوتے گئے۔

خادموں میں راجو نام کامحنتی شخص بھی تھا۔ نہایت ایماندار مخلص اور وفادار بھی۔

راجو کئی سالوں سے مرزا صاحب کو مجازی مالک سمجھ کر دربار میں اپنی خدمات بخوشی انجام دے رہا تھا۔ اپنی ذمہ داریوں اور خدمات کو ایک پرخلوص انداز میں پورا کرتے ہوئے بحیثیت ایک وفادار خادم اس کے ایام زندگی گذر رہے تھے۔

نہ صرف مالک اس کے خلوص سے آشنا تھابلکہ دونوں ایک دوسرے سے خوش و خرمی سے پیش آتے تھے۔ مالک راجو پر بہت بھروسہ کرتا تھا۔ یہاں تک کہ اس کی غربت کو یاد رکھتے ہوئے اسے اضافی تنخواہ بھی دیا کرتا تھا۔

راجو جانتا تھا کہ مالک کی خدمت کے عوض ملنے والی اجرت ہی تو اس کی ضروریات اور بیوی بچوں کی کفالت کا واحد ذریعہ ہے۔ اسی لیے اس کی مالک پر پڑنے والی ہر نظرمیں مسکراہٹ اور خوشی کا سیلاب نظر آتا تھا۔

راجو کے دیگر ساتھی نہیں چاہتے تھے کہ بادشاہ یعنی مالک مرزا صاحب راجو سے اتنا لگاؤ رکھے۔ وہ اس سے حسد جلن کے مارے دشمنی اختیار کیے ہوئے تھے۔ راجو اس بات سے بخوبی واقف تھا کہ اس کے ساتھی اس سے حسد جلن رکھتے ہیں لیکن وہ کوئی نہ تو غلطی کرتا اور نہ ہی کوئی غیر ضروری حرکات کرتے ہوئے وقت کی بربادی کرتا۔ اس کا مقصد بس اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی انجام دینا اور مالک کی وفاداری کرنا تھا۔

اچانک ایک دن اس کے ساتھیوں نے سازش کرتے ہوئے چوری کی اور اس کا الزام راجو کے سر پر سرزد کیا۔ بادشاہ کے سامنے راجو کو ہر طرح سے برا ٹھہرانے کی کوشش کی۔ اور وہ کامیاب بھی رہے۔

غصہ کی انتہا کو پہنچتے ہوئے بادشاہ نے راجو سے کہہ گذرا۔

’’راجو تم جیسے چور کی ہمیں اب کوئی ضرورت نہیں ؟ جاؤ نکل جاؤ ہمارے دربار سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے‘‘۔

’’چور کیسا چور…؟‘‘

راجو نے تعجب بھرے انداز میں دریافت کیا۔

راجو نے با ر بار اپنے ذریعے انجام کردہ نامعلوم غلطی کی وجہ مانگی لیکن اس کے ہر سوال پر مالک کاغصہ دوبالا ہوتا رہا۔ آخر کار مالک غصہ کی انتہا میں دوسرے نوکروں سے کہہ گذرا کہ اس کو ہمارے دربار سے باہر نکالو۔

بے بسی رنج و غم کی حالت میں روتے ہوئے راجو آخری بار گذارش کرتے ہوئے کلمات دہرائے۔

’’صاحب ضرورت آپ کو نہیں مجھے ہے۔ میں چور ہرگز نہیں ہو مالک۔ میرے دو بچے اور میری بیوی ہم ایک جھونپڑی میں خوشی سے رہتے ہیں۔ میری کوئی غلطی نہیں ہے مالک…!‘‘

لیکن یہ سب الفاظ اس کے ناکام رہے اور وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنے مالک کی بے لوث پر خلوص خدمت کے صلے میں دربار سے نکال دیا گیا۔

اور رہی بات مالک کی وہ تو حقیقت سے ناآشنا ہوکر اس نے بھی ایک وفادار نوکر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کھو بیٹھا۔

’’میں نے کوئی غلطی نہیں کی … میں مجرم نہیں ہوں۔ بس ایک ایسا ملزم ہوں جس پر زبردستی الزام لگایا گیا‘‘۔

یہ الفاظ راجو کے ہے جو ایک تنہا درخت کے نیچے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے آنسو بھرے لہجے میں کہہ رہا تھا۔ شاید اپنے مالک حقیقی کو سارا ماجرہ سنا رہا تھا۔

اس کی آواز میں افسوس بھی تھا، احساس بھی تھا، معافی کی پکار بھی اور نظریں شرمندہ بھی تھی۔ حالانکہ وہ نہ تو کوئی مجرم تھا اور نہ ہی خاطی۔ بس یونہی ایک ملزم جو دربار سے بے دخل کردیا گیا۔

اس کیفیت کی وجہ سے راجو پوری طرح سے بکھر سا گیا تھا۔ چھوٹی جھونپڑی جس میں ایک چراغ جلتا، دو چھوٹے بچے بیوی کی گود میں کھیل رہے ہوئے۔ لیکن اب اس کی زندگی پوری طرح سے بدل گئی تھی۔ فاقہ کشی، بے بسی، بے کسی اب اس کی زندگی کا اٹوٹ حصہ بن کر رہ گئی۔ دن رات ایک دوسرے کے تعاقب میں دائرے مکمل کرتے رہے۔ وقت اپنی رفتار سے باز نہ تو کبھی آیا اور نہ ہی آئیگا۔

مجبور راجو اب لوگوں سے امداد مانگنے کی حالت پر آکھڑا ہوگیا وہ روزانہ اس امید سے گھر سے نکلتا کہ وہ جب گھر لوٹے گا تو اس کے پاس اتنے پیسے ہو کہ رات کاچولہا جل سکے اور شکم کی آگ بجھ سکے۔ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاکر امداد کاسوال کرتا رہا۔

حسب معمول وہ آج بھی بازار کے شمالی حصہ میں موجود کپڑوں کی دوکانوں سے گذرتا ہوا ایک ہوٹل کے قریب جاکر باہر سے امداد کاسوال کررہا تھا۔ ہوٹل کے مالک نے اسے اس سے پہلے کئی دنوں سے روزانہ اسی وقت مدد بھی کیااور کبھی کبھی غصے سے دھتکار بھی دیا۔ آج بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ اس نے راجو کو اس طرح سے اپنی ہوٹل کے سامنے سے نکالتے ہوئے کہا۔

’’تمہیں شرم آنی چاہیے ہاتھ پیر صحت مند صحیح سلامت ہونے کے باوجود غربت کا ڈھونگ کرتے ہوئے بھیک مانگتے ہو۔ ایک دن کی بات اور ہے روزانہ یہی حرکت۔ تمہیں بھلا لگتا ہے؟ کہیں کچھ کام ہی کرلیتے تو کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے کا وقت نہیں آتا۔ شرم کرو تھوڑی ورنہ مرجاؤ۔ اس بے شرمی کی زندگی سے تو موت اچھی‘‘۔

راجو ایک لمحے کے لیے خاموش سا ہوگیا۔ اس پر ایک طرح کا سکتہ طاری ہوگیا۔ یہ الفاظ راجو کے دل و دماغ پر اثر انداز ہوئے۔ وہ بڑی شرمندگی برداشت کرتے ہوئے اپنے آپ کو سنبھال رہا تھا۔ گھر واپسی کرتے ہوئے وہ افسوس اور ندامت کا رویہ پیش کررہا تھا۔ وہ دوبارہ بھیک نہ مانگنے کے ارادے سے اپنی زندگی اور اپنے صحت مند جسم پر افسوس کرنے لگا۔ اس دن اس کے ضمیر نے خوداری کو پروان چڑھایا۔ من ہی من میں بے بسی اور بے بس زندگی کو کوستا رہا اور اپنے صحت مند جسم کو دیکھ کر دل ہی دل میں سرگوشی کرتا رہا۔ اسی افسوس و غم میں اسے اپنے آپ پر پچھتاوا ہونے لگا۔ وہ زندگی اور غربت سے تنگ آکر اپنے ذہن میں خودکشی کی ترکیبیں سوچ رہا تھا۔ اب وہ جینا نہیں چاہتا تھا۔ لیکن اس کا ضمیر اب بھی زندہ تھا۔ وہ تعلیم یافتہ تو نہیں تھا لیکن جاہل بھی نہیں۔

خودکشی کاارادہ ہی کیاتھا کہ دوبارہ اس کے ضمیر کی آواز نے متحرک کیا۔ خودکشی فعل برا ہی نہیں بلکہ بزدلوں کی علامت ہے۔ یہ جاہلوں کا کام ہے۔ نہیں میں ایسا نہیں کرونگا۔

یہی سوچ کے ساتھ وہ بازار کی طرف ہو گذرا۔ اچانک اس کی نظر ایک مزدور گروہ کی طرف پڑی جو بوریوں کی نقل و حمل میں مدد کررہے تھے۔ اس میں ضعیف بھی تھے۔ وہ ایک لمحے کے لیے سہم گیا۔ وہ تو اپنے آپ کو جوان محسوس کررہاتھا یہی وجہ رہی کہ راجو نے اپنے آپ کو محنت و مشقت کے حوالے کردیا۔ اب وہ حمال بن گیا تھااور حمالی کے پیشے کو قبول کرلیا تھا۔

اب وہ کڑی محنت کرتا، خوب محنت کرتا اور اپنے افراد خاندان کی کفالت کرتا۔ دو وقت کا کھانااب پہلے جیسا آسان ہوتا گیا۔ بیوی بچے پہلے جیسے پھر خوش تھے۔

آج بھی راجو سامان سے بھری گاڑی شہر کے اس پار لیے جارہا تھا کہ اچانک ایک برق رفتار گاڑی سے راجو حادثہ کا شکار ہوگیا۔ خوشیاں کس شخص کے حصے میں دیر تک رہتی ہے۔ اس حادثے نے راجو کی دنیا ہی پلٹ دی۔ اب وہ صحت مند نہیں رہا بلکہ اپاہج بن گیا۔

وہ اب بھی زندگی سے جنگ لڑرہا تھا لیکن حالات نے پھر کروٹ بدلے۔ وہ اب جب بھی کسی راستے سے گذرتا لوگ بغیر سوال کیے اس کی امداد کرتے۔ کوئی روپیوں سے تو کوئی پیسوں سے۔ اب وہ شرمندہ بھی نہیں ہوتا کیونکہ وہ معذور بھی تھااور مستحق بھی۔ وہ بیساکھی کو دیکھ کر خوش ہوتا کیونکہ وہی تو اس کی آمدنی کا واحد ذریعہ تھی۔ وہ آج بھی بیساکھی سے اتنی ہی محبت کرتا جتنی اپنے مالک مرزا صاحب سے کرتا تھا۔

وہ اپنا خیال رکھے نہ رکھے بیساکھی کا خیال ضرور رکھتا تھا۔

تبصرے بند ہیں۔