رخصت ہوا صحافت کا وقار

راحت علی صدیقی قاسمی

فطرت انسانی محبت و اخوت اور ملنساری کا تقاضہ کرتی ہے، عدل و انصاف اس کا جز لاینفک ہے، ظلم و ستم پر انسان کا قلب بے چین ہو اٹھتا ہے اور یہ قلبی کیفیت مختلف شکلوں میں رونما ہوتی ہے، کبھی آنسوں کے روپ میں انہیں دیکھا جاسکتا ہے، کبھی یہ کیفیت بے خوابی کے رنگ میں ظاہر ہوتی ہے، مخالفت، بغاوت، جنگ وجدال مختلف رنگ اس صورت حال کے مظہر ہیں اور کبھی یہ صورت لفظوں کا روپ لے کر نوک قلم پر آتی ہے، انسان اپنے درد و کرب اپنی تکالیف کو لفظوں کا خوبصورت پیرہن پہنا کر لوگوں کی نگاہوں کو آب دیدہ کردیتا ہے، کبھی سماج کا درد و کرب قلم پر ہوتا ہے، انسانی مسائل کے ازالہ کی کوشش کی جاتی ہیں، انسانوں کے قلوب کی کدورت کو ختم کرنے کا بیڑا اٹھایا جاتا ہے، محبت و اخوت کی شمع روشن کی جاتی ہے، نفرت کی تاریکی کو شکست سے دوچار کیا جاتا ہے، زمانہ میں پیدا ہونے والی خوفناک صورت حال کا مقابلہ کیا جاتا ہے، قلم کاروں کے یہی موضوعات ہیں، خاص طور پر میدانِ صحافت میں جہاں انسانی مسائل کا حل تلاش کرنا، انسانی اقدار کا تحفظ کرنا، سماج کو نفرت و تعصب کی قید سے آزاد کرنا، رسومات وخرافات کی قباحت کو عیاں کرنا، حکومت کی آنکھیں کھولنا، انتظامیہ کو حقائق پر مطلع کرنا معیاری صحافی کا کام ہے، سکوں کی کھنک، اس کے ایمان کو متزلزل نہیں کرسکتی، قید و بند کی صعوبتیں اس کی راہ کا روڑا ثابت نہیں ہوسکتی، وہ اپنے مقصد کی جانب گامزن رہتا ہے۔

صحافت کے ان اصولوں کی طرف دیکھا جائے اور کلدیپ نیر کے طویل صحافتی کیرئیر پر نگاہ ڈالی جائے تو احساس ہوجائے گا کہ وہ عظیم صحافی ہیں، اِس میدان میں ان کے نقش قدم آنے والی نسلوں کے لیے راہ نما ثابت ہوں گے، صحافت کے میدان میں جتنی دیانت داری سے انہوں نے کام کیا اس کی مثالیں نایاب ہیں، حق گوئی و بے باکی ان کے خمیر کا حصہ تھا، بڑی سے بڑی تکلیف بھی انہیں اپنے موقف سے نہیں ہٹا سکتی تھی، جس کی دلیل تلاش کرنی ہو تو ان کی زندگی کے وہ لمحات پڑھئے جو انہوں نے جیل کی سلاخوں کے پیچھے گذارے، جب اندرا گاندھی نے ایمرجنسی نافذ کی، پریس کی آزادی سلب کر لی گئی، قلم کے گلے میں غلامی کا طوق ڈال دیا گیا، اس نحوست کو قلم جیسی عظیم شئے کہاں برداشت کرسکتی تھی، چنانچہ قلم کا سپاہی کھڑا ہوا، اس کے کے حقوق کے حاصل کرنے کے لئے میدان عمل میں قدم رکھا اور جیل کی سلاخوں تک کا سفر طے کیا، اذیتیں اورتکالیف برداشت کیں، لیکن حق گوئی کا دامن نہیں چھوڑا، ایمرجنسی کے سنگین حالات کا جب ہم مطالعہ کرتے ہیں، تو کلدیپ نیر کی خدمات کا اعتراف ہوتا ہے، حکومت کے خلاف کھڑا ہونا معمولی بات نہیں ہے اور اس دور میں جب یہ احساس قلب پر نقش ہو جائے کہ آزادی خطرے میں ہے، ملک کا وقار اور اس کی آبرو خطرے میں ہے، لوگ اپنے لئے جائے پناہ تلاش کر رہے ہیں، قلم اٹھانا موت کو دعوت دینے کے مثل ہے، آزادی کے بعد ہندوستان نے اتنا مشکل ترین دور نہیں دیکھا، ان حالات میں قلم اٹھاتے ہوئے ہاتھ کانپنا عیب نہیں تھا، جان کی امان ہی بڑی بات تھی، لیکن کلدیپ نیر ہمت و حوصلہ کے دم پر آگے بڑھے اور ملک کی فلاح و بہبود کے لئے جان مال عزت وآبرو کسی شئے کی پرواہ نہیں کی، ان کی خدمات ایمرجنسی تک ہی محدود نہیں ہیں بلکہ جب ملک میں نفرت و تعصب کی کھیتی کی گئی وہ اس پر شعلہ جوالہ بن کر گرے.

انہوں نے ہمیشہ ایسے خیالات کی مخالفت کی جو تعصب و عناد کا بیج بن کرہندوستانی افراد کے قلوب میں بیٹھ جائیں، چنانچہ شدت کے حامل نظریات کی انہوں نے ہمیشہ مخالفت کی، مختلف مواقع پر انہوں نے اکثریتی طبقہ سے مخاطب ہو کر تعصب کے عنوان پر گفتگو کی اس کی قباحت و مذمت کو عیاں کیااور اقلیتی طبقے کو بھی تعصب و تشدد کے موضوع پر مخاطب کیا، ایمرجنسی ہی نہیں بلکہ ہر موقع پر وہ حق کے ساتھ کھڑے رہے، حتی کہ جب انہیں احساس ہوا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی ملک کو نظریاتی اعتبار سے تقسیم کر رہی ہے، ہندتوا کے ایجنڈے کا نفاذ کیا جارہا ہے، اقلیتوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے، گؤرکشا، لو جہاد، جیسے مختلف حربے تلاش کئے جارہے ہیں، تو وہ اس پر بھی خاموش نہیں رہے اور انہوں نے بے باکی کے ساتھ حقائق کو عیاں کیا اور وزیراعظم سے مخاطب ہوئے، اس سلسلے میں ان کی تازہ تحریر کا ایک اقتباس پیش خدمت ہے، جو اردو اخبارات میں شائع ہونے والی ان کی آخری تحریر ہے۔

’’بدقسمتی سے مرکز میں بی جے پی حکومت1995کے قانون شہریت میں ترمیم پر کمر بستہ ہے جس سے بنگلہ دیش میں ظلم وجبر کا نشابہ بننے والے تارکین وطن شہریت حاصل کرسکیں گے اور اس طرح مذہبی خطوط پر ان کی شناخت ممکن ہوسکے۔
آسام کے عوام کی اکثریت مجوزہ ترمیم کے خلاف ہے کیونکہ یہ معاہدہ آسام کی روح کے منافی ہے جس میں کہاگیا ہے کہ بنگلہ دیش سے 25مارچ 1971سے پہلے آنے والے غیر قانونی تارکین وطن کو واپس کیاجائے گا۔ ‘‘(اقتباس از مضمون’’ آسام پر ہندتو مسلط نہ کیا جائے‘‘ شائع شدہ روزنامہ انقلاب، دہلی)

ان سطروں سے کلدیپ نیر کے مزاج و مزاق کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، وہ پوری زندگی اُن نظریات کی مخالفت کرتے رہے، جو انسانیت کے خلاف ہوں، ملک خلاف ہوں، انہوں نے اِن نظریات کے حاملین پر کوئی توجہ نہیں دی، وہ کسی مخصوص سیاسی جماعت کے آلہ کار نہیں بنے، جس کو حق جانا اسے لکھنا اپنا فریضہ جانا، اور اس فریضہ کو بخوبی ادا کیا، ہندوستان پاکستان کی دوستی بھی ان کا خواب تھا، پوری زندگی اس کے لئے کوشاں رہے، سرحد پر محبت کی شمع جلائیں، ملاقاتیں کیں، کوششیں جاری رکھیں، جس مٹی سے ان کا خمیر بنا تھا، اسے کبھی فراموش نہ کرسکے، سیالکوٹ کی مٹی جس نے اقبال جیسے مرد قلندر کو پیدا کیا، اسی مٹی کا خمیر آپ کو نصیب ہوا تھا، آپ نے تقسیم ہند میں سیالکوٹ کو تو چھوڑ دیا، لیکن اس کی محبت کو ترک نہیں کرپائے، جو حالات آپ نے تقسیم ہند کے وقت دیکھے، انسانوں کے لہو کی بہتی ندیاں، ساتھ رہنے والے، کھانے مرنے کے شریک ایک دوسرے کو نیزوں پر اچھال رہے تھے، تعصب کی آندھی نے محبت و اخوت کے جھونپڑوں کو اڑا دیا تھا، کلدیپ نیر کے قلب پر اس منظر نے جو کیفیت نقش کی تھی، وہ پوری زندگی لفظوں کی شکل اختیار کرکے کاغذ کے سینے پر رقم ہوتی رہی، جب تک کلدیپ نیر کی سانسیں چلتی رہیں، محبت کی شمع جلاتے رہے، وہ ہندوستان اور پاکستان میں امن چاہتے تھے، دوبارہ لاشوں کا وہ جنگل نہیں دیکھنا چاہتے تھے، جو انہوں نے تقسیم ہند کے موقع پر دیکھا تھا، اس کے لئے وہ ہمیشہ کوشاں رہے۔

کلدیپ نیر نے وکالت کی ڈگری حاصل کی تھی، جو ان کے مزاج کو ظاہر کرنے کے لئے کافی ہے، وہ انصاف پسند تھے، حالات اور وقت کے تقاضے نے انہیں صحافت کے دروازے پر لا کھڑا کیا، جب وہ تقسیم ہند کے بعد سیالکوٹ چھوڑ کر آئے، ان کے پاس صرف 120 روپئے، ایک جوڑا کپڑا اور بی۔ اے آنرز اور ایل۔ ایل۔ بی کی ڈگریاں تھیں، اس سرمایہ کو لے کر وہ جالندھر پہنچے اور جلد ہی انہوں نے دہلی کے لئے اپنا رخت سفر باندھا، جہاں ان کی خالہ دریا گنج میں مقیم تھیں اور یہیں سے وہ سفر شروع ہوا جس نے کلدیپ نیر کو صفحہ قرطاس پر وکالت کرنے کا موقع دیا، انہیں اردو روزنامہ ’’انجام‘‘ میں کام کرنے کا موقع ملا، یہ سفر زیادہ طویل نہ ہوسکا، چار ماہ کے بعد آپ وہاں سے رخصت ہوئے، انجام تو چھوٹ گیا، لیکن پھر انہوں نے پیچھے موڑ کر نہیں دیکھا۔ حسرت موہانی کے زیرنگرانی ’’وحدت‘‘ میں کچھ دن کام کیا اور انہی کے مشورہ سے انگلش صحافت کو اپنا میدان عمل بنایا اور اس میں بڑی اہم خدمات انجام دیں، مختلف اہم ترین اخباروں سے وابستہ رہے، 1990 میں برطانیہ میں ہندوستان کے ہائی کمشنر بنے، 1997 سے 2003 تک راجیہ سبھا کے ممبر رہے، 15 کتابیں لکھیں، مختلف راستوں سے سماج کی بھرپور خدمت کی، لیکن ان کا بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے صحافت کا طریقہ سکھایا، جس نے لوگوں کے قلوب میں جگہ بنائی، اور مختلف زبانوں میں ترجمہ ہو کر ان کے مضامین شائع ہوئے۔

سیکولر مزاج رکھنے والے افراد ہمارے درمیان سے رخصت ہورہے ہیں، صحافت بھی عصبیت کے مہلک مرض کا شکار ہوگئی اور اس کارواں کے افراد بہت کم باقی رہ گئے، کلدیپ نیر جس کے میرِکارواں تھے، اگر اس طرح کی شمع بجھتی رہیں اور نئے چراغ روشن نہ کئے گئے تو صحافت کی دنیا تاریک ہوجائے گی، جس دور میں کلدیپ نیر رخصت ہوئے، اس دور میں ایسا محسوس ہورہا ہے، جیسے وہ زبان حال سے کہتے جارہے ہیں:

میں کٹ گروں کہ سلامت رہوں یقیں ہے مجھے 
کہ یہ حصار ستم کوئی تو گرائے گا 
تمام عمر کی ایذا نصیبیوں کی قسم 
مرے قلم کا سفر رائیگاں نہ جائے گا

تبصرے بند ہیں۔