ردائے محبت

سیدہ تبسم منظور

صبح کی کرنیں ہر طرف اپنا نور بکھیر چکی تھیں۔ہم نے بھی بستر چھوڑا اور اٹھ کر جلدی جلدی اپنے کاموں سے فارغ ہو گئے۔ عفنان کو نہلا کر تیار کیا، ناشتہ کروایا اور خود بھی تیار ہو کر گھر سے نکل گئےاور عفنان کو ٹیوشن کلاس چھوڑا۔وہاں سے آفیس پہنچنے تک بہت لیٹ ہو گئے۔ عفنان ہمارا چھ سالہ بیٹا تھا۔ یہ ہمارا روز کا معمول تھا کہ اسے ٹیوشن کلاس چھوڑتے اور ٹیوشن کلاس کی ٹیچر عفنان کو وہاں سےاسکول پہنچادیتیں۔ ہم آفس سے لوٹتے وقت اپنے ننھے عفنان کو ساتھ لے کر گھر آجاتے۔ آفس پہنچ کر بس ہم اپنی کرسی پر بیٹھے ہی تھے کے چپراسی نے  ہمیں اطلاع دی کہ چھوٹے صاحب نے کیبن میں بلایا ہے۔ ہم نے اثبات میں سر ہلادیا۔ ہمارے دل میں خدشے پیداہونے لگے۔ نہ جانے کیوں بلایا گیا ہے، کیا ہم  لیٹ ہوگئے اس وجہ سے یا پھر کچھ اور غلطی ہو گئی ہے۔ ہم تذبذب میں تھے اور یوں ہی کھوئے کھوئے کیبن کے پاس پہنچ گئے۔ویسے روز ہی دو سے تین بار سر کے کیبن میں جانا ہوتا ہےپر آج آتے ہی بلاوا آگیا۔ دروازے پر دستک دی ۔اندر سے آواز آئی،’’ اندر آ جائیں۔‘‘  ’’جی سر آپ نے ہمیں بلایا؟‘‘  ’’جی ہاں۔ تشریف رکھیئے مس اریبہ ! آپ سے کچھ گفتگو کرنی ہے۔‘‘

’’ جی سر! بتائیے کیا بات ہے؟‘‘

’’کام تو کچھ نہیں ہے مس اریبہ! مجھے کچھ پرسنل بات کرنی ہے ۔اگر آپ اجازت دیں تو میں اپنی بات آپ کے سامنےرکھ دوں۔ آپ مجھے غلط نہ سمجھیں۔‘‘

’’جی کہیے سر‘‘ ہم آپ کے کچھ کام آ سکے تو ہمیں بری مسرت ہوگی۔‘‘

’’آپ ہمارے آفس میں چار سال سے ملازمت کر رہیں ہیں۔ آپ تو جانتی ہیں کہ مجھے گھما پھرا کرباتیں کرنے کی عادت نہیں ہے اس لیے میں آپ سے کوئی دوسری بات نہ کرتے ہوئے وہی بات کہوں گا جو مجھے کہنا ہے۔میں آپ سے کئی دنوں سے بات کرنا چاہ رہا تھا پر ہمت نہیں جٹا پا رہا تھا۔پر آج ارادہ کرلیا تھا کہ آپ سے بات کر ہی لوں گا۔میں آپکو اور آپ مجھے چار سالوں سے جانتے ہیں اور آپ نے میرا رویہ آپ کے ساتھ کس طرح ہے وہ تو آپ نے تھوڑا بہت محسوس کر لیا ہو گا۔ آپ کئی بار لیٹ آتی ہیں، کئی بار جلدی بھی جاتی ہیں۔ کبھی کبھی آپ سے غلطیاں بھی ہوتی ہے پر میں نے آج تک کبھی بھی آپ سے کچھ نہیں کہا۔ میں آپ کے اخلاق اور کردار سے واقف ہوں۔آپ کا لوگوں سے میل ملاپ،سب سے عزت و احترام سے بات کرنا، آپ کی خوبصورتی اور آپکی قابل رشک شخصیت سے میں متاثر ہوا ہوں۔ دل ہی دل میں آپ سے محبت کرنے لگاہوں۔ ہاں میں آپ کے ماضی کے بارے میں سب کچھ جانتا ہوں اور میں آپ سے شادی کرنا چاہتا ہوں اور یہ میرا پاک جذبہ ہے۔ میں نے اپنے دل کی بات آپ کے سامنے رکھ دی ہے۔ آپ کو بھی اپنی مرضی کا پورا حق ہے۔ آپ سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں پر اتنا خیال رکھیں کہ میں آپ سے دل ہی دل میں بے انتہا محبت کرتا ہوں۔

 اریبہ کو اپنے کانوں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ وہ گم سم سی اپنا سرجھکائے سب سن رہی تھی۔ آخر کیسے کوئی ستائیس اٹھائیس سال کا نوجوان ایک بچے کی ماں سے جس کی عمر پینتیس سال سے بھی زیادہ ہو اتنی بے انتہا محبت کرسکتا ہے اور شادی بھی کرنا چاہتا ہے۔ اریبہ اس بات سے بالکل ہی بے خبر تھی کہ ایان اس سے اتنی محبت کرتے ہیں۔

  اریبہ بنا کچھ کہے کیبن سے باہر آگئی۔ایسا لگتا تھا جیسے اس میں سوچنے سمجھنے کی طاقت ہی نہ رہی ہو۔ جیسے تیسے اپنی کرسی پر آ بیٹھی۔ کمپیوٹر سکرین پر سب دھندلادکھائی دے رہا تھا۔ کام کرنے میں دھیان نہیں تھا۔ وہ کام کرنا چاہ رہی تھی پر اسے ایسے محسوس ہو رہا تھا جیسے ایک ایک کرکے اس کے ماضی کے سارے سین اس کمپیوٹر اسکرین پر دکھائی دے رہے ہوں۔

اریبہ اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھی اور متوسط طبقے سے تعلق رکھتی تھی۔والدین نے اچھی تعلیم کے ساتھ تربیت بھی اچھی دی تھی اور تہذیب بھی سکھائی تھی۔اکلوتی اولاد تھی اس لیے لاڈلی بھی بہت تھی۔ امی ابو نے کسی بھی چیز کی کوئی کمی نہیں ہونے دی۔ اپنی بیٹی کو اپنی پلکوں پر بٹھا رکھا تھا۔وہیں اریبہ نے اپنے والدین کے پیار کا غلط استعمال نہیں کیا۔ہمیشہ ان کی عزت کا خیال رکھا۔ اس نے بیٹی ہونے کا فرض بخوبی نبھایا۔ اسکول کالج میں سب اس کے قائل تھے۔

جیسے ہی اریبہ کی تعلیم مکمل ہوئی ویسے ہی شادی کی بات شروع ہو گئی اریبہ کے ابو کے ایک بہت ہی اچھے دوست تھے۔دوست کا کافی پہلے انتقال ہوچکا تھا بلکہ کہہ سکتے ہیں کہ  آصف کے بچپن میں ہی انتقال ہو چکا تھا۔ دونوں گھروں میں اچھے تعلقات تھے۔آصف کی ماں نے آصف کو بہت ہی محنت و مشقت سے پالااور اسے نیک اور قابل انسان بنایا۔ اللہ کے فضل و کرم سے آصف نے اچھی ملازمت بھی حاصل کر لی۔ اریبہ اور آصف کے رشتے کی بات ہونے لگی اور دونوں طرف سے منظور بھی ہوگئی۔ اللہ رب العزت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ اچانک آصف کی ماں کو تیز بخار آیا اور وہ دماغ پر اثر کر گیا۔کئی دن علاج کے باوجود افاقہ نہ ہوا اور اسی حالت میں ان کی روح اپنے مالک حقیقی سے جا ملی۔ آصف ماں کے بغیر بالکل اکیلا ہو گیا ۔ ابو تو بچپن میں ہی چھوڑ گئے تھے۔ ماں نے سالوں محنت مشقت کی اور جب اچھا کھانے کا وقت آیا چھوڑ کر چلی گئی۔ ایک ماں کا سہارا تھا وہ بھی نہ رہا۔ کئی دن یوں ہی اداسیوں میں گزرے۔ چار  ماہ گزرنے کے بعد اریبہ کے ابو نے آصف سے بات کی کہ اب تم دونوں کا نکاح کروا دیا جائے۔تمہاری کیا رائے ہے۔ آصف بہت ہی سیدھا سادہ نیک لڑکا تھا بڑوں کی عزت کرنا خوب جانتا تھا۔ اس نے اریبہ کے ابو سے کہا جیسا آپ مناسب سمجھیں مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ اور پھر دونوں کا بہت ہی سادگی کے ساتھ نکاح کرادیا گیا۔ اریبہ وداع ہو کر آصف کے گھر چلی آئی۔ آصف کا گھر اور اریبہ کے والدین کا گھر ایک ہی محلے میں ہونے سے زیادہ کوئی دقت نہیں تھی۔

آصف اور اریبہ کی ازدواجی زندگی شروع ہوگئی۔ آصف کی جاب اچھی تھی تنخواہ بھی معقول تھی۔ اس سے گھر کے اخراجات بھی پورے ہوتے اور تھوڑی بہت بچت بھی ہو جاتی تھی اس لیے اریبہ کو جاب کرنے سے منع کردیاتھا۔ دونوں کی زندگی ہنسی خوشی اور پیار سے گزر رہی تھی ۔ کوئی تکلیف کوئی پریشانی نہ تھی۔ شادی کو دو سال پورے ہوئے لیکن اولاد کی خوشی سے محروم تھے۔ ڈاکٹر سے رجوع کیا۔ دونوں کا علاج ہوا۔ کافی علاج سے چار سال بعد اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک بیٹے سے نوازا۔دونوں عفنان کو پاکر بہت خوش تھے۔ اب اریبہ کا پورا وقت اس کی دیکھ بھال میں گزرتا۔ آصف اپنے بیوی بچے کے لیے بہت محنت کرتا۔ شام جب آفس سے گھر لوٹتا تو ننھے عفنان کو دیکھ کر دن بھر کی تھکان کو بھول جاتا۔

عفنان پورے ایک سال کا ہو گیا۔ یہ وقت بھی بڑاعجیب ہے۔اسے جو کرنا ہوتا ہے وہ کر گزرتا ہے۔ وقت نے اس چھوٹے سے پریوار کی خوشیوں میں بھی گرہن لگا دیا۔ ایک دن آصف آفس کے دورے پر کہیں باہر گیا ہوا تھا۔ گھر لوٹتے وقت وہ جس ٹرین سے سفر کر رہا تھا وہ ٹرین حادثے کا شکار ہوگئی۔ آصف کو زخمی حالت میں اسپتال لایا گیامگر اپنے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے اس نےدم توڑ دیا۔ آصف کی موت کے ساتھ اریبہ بھی ٹوٹ گئی۔ اسکی دنیا اندھیری ہوگی لیکن اسے عفنان کے لئے جینا ہی تھا۔ اس نے اپنا گھر کرائے پر دیا اور اپنے والدین کے ساتھ آکر رہنے لگی۔ عفنان دو سال کا ہوچکا تو اس نے جاب کرنے کا ارادہ کیا تاکہ گھر کے اخراجات پورے ہوسکیں اور عفنان کو اچھی تعلیم ددلا سکیں۔ تھوڑی سی کوشش کے بعد ہی ایک اچھی جاب مل گئی۔

’’ اریبہ میڈم! ‘‘چپراسی کی آواز پر وہ چونک گئی۔’’میڈم! آفس ٹائم ختم ہوا۔‘‘ اریبہ نے گھڑی دیکھی ۔چھے بج کر پندرہ منٹ ہو رہے تھے۔ جلدی سے اس نے اپنا پرس اٹھایا باہر نکلی ۔آٹو لیا اور اسکول پہنچی۔عفنان کو ٹیچر کے ساتھ کھڑا پایا۔بھاگی بھاگی عفنان کے پاس پہنچی اور اسے گلے لگایا۔’’آئی ایم سوری ٹیچر۔ آج ہمیں تھوڑی دیر ہوگئی۔ ‘‘ ’’کوئی بات نہیں عفنان کی مما! آگے سے خیال رکھیں۔‘‘

 اریبہ عفنان کو لے کر گھر پہنچی تو امی کو منتظر پایا۔انہوں نے پوچھا کہ بیٹی آج دیر کیوں ہوگئی۔’’جی امی آج آفس میں کام تھا۔‘‘جھوٹ کہہ دیا اور جلدی سے اندر چلی گئی۔ عفنان کامنہ ہاتھ دھلا کر ناشتہ کروایا اور خود فریش ہوکر سب کے لئے چائے بنائی۔چائے پی کر وہ کھانا بنانے کچن میں چلی گئی۔ تھوڑی دیر میں کھانا تیار ہو گیا سب نے مل کر کھانا کھایا۔ اور اریبہ جلدی جلدی کام سے فارغ ہوکر اپنے کمرے میں آگئی۔ دن کے اجالے سمندر کی گہرائی میں ڈوب گئے اور رات نے اپنی حکمرانی زمین و آسمان پر طاری کردی۔ اریبہ بھی اپنی سوچوں کی وادی میں گم ہوگئی۔

 آج جو اس کے ساتھ آفس میں ہوا اس بارے میں سوچ سوچ کر پریشان ہو رہی تھی۔ ایان جو اسکے باس کے بیٹے تھے اس سے اتنا پیار کر رہے تھے اور اسے خبر تک نہ ہوئی۔ یہ تو اس نے کبھی اپنے خواب و خیالوں میں بھی نہیں سوچا تھا۔ اسے سمجھ ہی نہیں آ رہا تھا۔ کیا کریں کیا نہ کریں؟امی ابو سے ان باتوں کا ذکر کیسے کریں۔سوچ سوچ کر پاگل ہوئے جارہی تھی ۔ یوں ہی آدھی رات بیت گئی اور پھر نہ جانے نیند نے اسے کب اپنی آغوش میں لے لیا۔

 رات کا اندھیرا چھٹ چکا تھا۔ صبح کی پہلی کرن نے روشن دان سے جھانکتے ہوئے اس کے گالوں کو چھوا تو اس کی آنکھ کھل گئی اور وہ اٹھ بیٹھی۔ طبیعت کچھ بوجھل سی لگ رہی تھی۔ جلدی سےاٹھ کر سب کام سے فارغ ہوکر امی ابو کو ناشتہ کروا کر عفنان کو بھی تیار کرکے ٹیوشن کلاس چھوڑ آئی۔ آج اس کا آفس جانے کو جی نہیں چاہ رہا تھا۔ آفس میں فون کر کے بتا دیا اور گھر آکر اپنے کمرے میں بند ہو گئی۔ وہ تنہا تھی پر اس تنہائی میں بھی اس کے اندر اک ہجوم سا محسوس ہورہا تھا۔ بہت دیر تک کمرے میں اکیلی بیٹھی رہی بہت سوچا۔ اپنے قرب کو پختہ کر کے ایک عزم کے ساتھ اٹھی اور امی ابو کے پاس آکر بیٹھ گئی۔

’’ امی ابو!! ہمیں آپ سے کچھ بات کرنی ہے۔‘‘

’’ہاں بولو بیٹی کیا بات ہے؟کل سے دیکھ رہے ہیں تم پریشان ہواورآج آفس بھی نہیں گئیں۔‘‘

’’ جی ابو! بات ہی کچھ ایسی ہے۔‘‘ جھجھکتے ہوئے اریبہ نے کہا، ’’وہ۔۔۔۔۔وہ بات ایسی ہے کہ جس آفس میں ہم جاب کرتے ہیں،ہمارے مالک کے بیٹے یعنی چھوٹے مالک نے ہم سے شادی کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔جب ہم سے انھوں نے کہا تو سن کر وہاں سے چپ چاپ چلے آئے اور آج ہماری آفس جانے کی ہمت بھی نہیں ہوئی۔ اس لئے آپ دونوں کے پاس چلے آئے تاکہ آپ ہمیں نیک صلاح دے سکیں۔‘‘

  امی ابو نے بڑے پیار سے اپنے پاس بلا کر بٹھایا اور محبت سے دونوں نے سر پر ہاتھ رکھا۔ ابو بولے، ’’ بیٹی اس جہاں میں اکیلی عورت پر سب کی نظر ہوتی ہے۔ ہم دونوں کا ساتھ اب کتنے دنوں کا ہے۔ہمارے بعد کیا ہوگا؟کس کس سے مقابلہ کروگی۔اور ابھی تمھاری عمر ہی کیا ہے۔پوری زندگی ہے تمھارے سامنے۔تم کو سہارے کی ضرورت ہے بیٹی۔ عفنان کو بھی باپ کا پیار چاہئے۔وہ انسان بہت ہی نیک ہوگا جو سب کچھ تمھارے بارے میں جان کر بھی تم کو اپنا بنانا چاہتا ہے،سنت رسول کو زندہ کرنا چاہتا ہے۔ وہ ایک معزز اور قابل احترام شخصیت ہے۔ اگر ان کے والدین کو اس رشتے سے کوئی اعتراض نہیں ہے تو تم کو انکار نہیں کرنا چاہے۔ ہماری تو ہی رائے ہے ۔‘‘

’’ جی امی ابو!! آپ نے صحیح راہ کا انتخاب کرنے میں مدد کی اور ہماری حوصلہ افزائی کی۔ کل آفس جاکر ایان سے بات کریں گے۔‘‘

  اریبہ اپنے والدین سے بات کر کے بلکل مطمئن ہوگئی۔جیسے اس کے دل ودماغ کا گرد و غبار صاف ہوچکا ہو۔وہ اپنے آپ کو پرسکون محسوس کررہی تھی۔

 باتوں باتوں میں وقت کا پتہ ہی نہیں چلا۔ جب احساس ہوا تو وہ دوڑی دوڑی عفنان کو لینے چلی گئی۔ رات کا کھانا سب نے ایک ساتھ کھایا۔ اریبہ سب کاموں سے فارغ ہوکر عفنان کو لئے اپنے کمرے میں چلی گئی۔ ایک بار پھر رات کی تاریکی نے دن کی اجالے پر اپنی چادر پھیلا دی پر آج کی یہ رات اریبہ کے لئے پرسکون تھی کیوں کہ وہ اپنا فیصلہ کر چکی تھی۔

  خوش گوار صبح کا آغاز ہو رہا تھا۔ صبح کی روشنی شب کے اندھیرے کو چیرتی ہوئی حسین زندگی کی صبح کا پیغام دے رہی تھی۔ روزمرہ کے مطابق اریبہ نے سارے کام نپٹائےاور عفنان کو لے کر اسے ٹیوشن کلاس چھوڑا اور آفس پہنچی۔دل زور زور سے دھڑک رہاتھا۔نہ جانے وہ ایان کا سامنا کیسے کریگی۔ چپراسی سے معلوم کیا کہ ایان سر اور بڑے مالک آئیں ہیں یا نہیں۔

’’ جی میڈم!بس پانچ منٹ پہلے اندر گئے ہیں ۔‘‘

  اریبہ نے ڈرتے ہوئے دھڑکتے دل سے آفس میں قدم رکھا اور اپنی کرسی پر جا بیٹھی۔ وہ اپنی سانسوں کو یکجا کرکے ہمت جٹا رہی تھی۔ کافی وقت گزرگیا پر اس میں ہمت ہی پیدا نہیں ہو رہی تھی۔ وہ بڑے تذبذب میں تھی کہ اسی وقت اندر سے بلاوا آگیا۔ اب اندر تو جانا ہی تھا۔ لرزتے قدموں سے کیبن کے دروازے تک پہنچی اور دستک دے کر اندر پہنچ گئی۔ ایان سے نظریں ملانے کی جرأ ت نہیں تھی ۔ہمت پست ہوتی جارہی تھی۔

  ’’آیئے مس اریبہ!! بیٹھیے۔ میں آپ کی کیفیت سمجھ سکتا ہوں۔ آپ پرسکون ہو کر بیٹھ جائیں تو ہم کچھ گفتگو کریں۔ ‘‘

’’  جی شکریہ!!‘‘

’’ جی بتائیں آپ نے کیا فیصلہ کیا ؟ کیا آپ کو میری محبت قبول ہے؟ کیا آپ مجھ سے نکاح کرنے کے لئے تیار ہیں؟‘‘

 اریبہ کی آواز گلے میں پھنس رہی تھی۔ وہ کچھ کہنا چاہتی تھی پر کہہ نہیں پا رہی تھی۔ ایان نے اس کی گھبراہٹ کو محسوس کیا اور کہنے لگا،’’ آپ بے فکر ہو کر کہیں۔ ڈرنے اور گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔‘‘

’’ جی۔۔جی۔۔ہم۔۔۔ ہم نے اپنے والدین سے بات کی ۔انھوں نے ہمیں بہت سمجھایا پر کیا آپ ہمارے بارے میں سب کچھ جانتے ہیں؟ ہمارا ایک چھ سال کا بیٹا ہے۔ کیا آپ کے والدین اس رشتے کے لئے حامی بھریں گے؟ کیا وہ ایک بچے کی ماں جو بیوہ ہے اور عمر میں بھی بڑی ہے، اپنے گھر کی بہو کی حیثیت سے قبول کریں گے؟‘‘

’’ اریبہ! جب میں نے آپ سے بات کی اسی دن گھر جا کر اپنے والدین سے بھی بات کی۔  ویسے بھی پاپا تو آپ سے واقف ہیں۔ انہیں اس رشتے سے اور آپ کے بچے سے کوئی پریشانی نہیں ہے۔ انہیں تو مجھ پر بہت فخر محسوس ہوا کہ میں ایک بے سہارا بیوہ عورت سے پیار کرتا ہوں اور اسے اپنے نکاح میں لاکر اپنی ردائے محبت اڑھانا چاہتا ہوں۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات پر چلنا چاہتا ہوں۔ محبت فطری اور طاقتور جذبہ ہے۔ پاکیزہ محبت خلوص، ایثار اور وفاداری پر قائم ہوتی ہے۔ ان شا اللہ میں آپ کوہمیشہ خوشی سے اور عزت سے رکھوں گا۔ میں کل ہی اپنے ممی پاپا کو آپکے گھر بھیج دوں گا۔ ہم دونوں کے والدین مل کر جو بھی فیصلہ کریں ہمیں منظور ہے۔ اور ہاں آپ کل سے آفس نہیں آئیں گی۔ ان شا اللہ تعالی ہم بہت جلد نکاح کے پاک اور مقدس بندھن میں بندھ جائینگے۔‘‘

  اچھے خیالات اور نیک نیت والوں کو سکون ڈھونڈنا نہیں پڑتا ۔ان کے دل ہمیشہ اجلی صبح کی طرح روشن اور پرسکون ہوتے ہیں۔

ہمارے بیمار معاشرے کا یہ المیہ یہ کہ اگر کوئی لڑکا بڑی عمر کی خاتون سے شادی کرے تو اس سے کہا جاتا ہے کہ کیا تم کو کوئی لڑکی نہیں ملی جو اپنی اماں کی عمر والی عورت سے شادی کر رہے ہو۔ اور اگر وہیں پر پچاس سال کا آدمی اگر پچیس سال کی لڑکی سے شادی کرے تو اسے سراہا جاتا ہے۔ آخر کیوں ہوتا ہے ایسا؟؟؟ ہم رسول اللہ صل اللہ علیہ و سلم کی ایک سنت کو خوش دلی سے اپناتے ہیں تو دوسری سنت کو اپنانے میں ہمارے اندر ہزاروں سوال کیوں پیدا ہوتے ہیں؟ کیا ہمیں بنیادی طور پر ایک سنت کی ادائیگی میں اعتراض نہیں ہوتا؟

تبصرے بند ہیں۔