رسالہ جامعہ کے تبصرے

جہاں گیر حسن مصباحی

جامعہ ملیہ اسلامیہ 29؍ اکتوبر1920کو علی گڑھ میںقائم ہوئی اورپھرچندبرس بعدیہ دہلی منتقل ہوگئی۔اس ادارے کی وجہِ اساس ہی حبِّ وطن اور تعلیم کے ذریعے ذہنی وفکری آزادی کا حصول ہے۔لہٰذاجامعہ کے مقاصد سے متّفق وہ اساتذہ اور طلبا جو مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے نکل کر جامعہ ملیہ اسلامیہ کے خیموں میں پڑھنے اور پڑھانے کے لیے آگئے تھے، انھیں علی گڑھ کی سرزمین ترک کرکے دہلی آنے میں بھی کوئی جھجک محسوس نہیں ہوئی۔وہ اِسے اپنے خون جگر سے سینچنے کے لیے اس سے وابستہ ہی رہے ۔ان کایہ عمل ہندوستان کی تاریخ حبِّ وطن اور تعلیم کا جزولاینفک ہے۔اردو ہندی کے ممتاز ادیب ومفکر منشی پریم چندنے نومبر1932میں مطبوعہ ’’جامعہ ملیہ اسلامیہ رپورٹ‘‘ میں جامعہ کے اساس گزاروںاورکارکنوں کے قومی وملّی جذبات کو خراج تحسین پیش کیا تھا۔اس رپورٹ کا ایک اقتباس جامعہ کی قدیم مرکزی لائبریری (ڈاکٹر ذاکرحسین لائبریری)کے صدردروازے کے قریب ایک کتبے پردرج ہے۔اُس کے الفاظ یہ ہیں:
’’دہلی جامعہ ملیہ اسلامیہ ان مسلم اداروں میں سے ہے جنھوں نے قوم کے سامنے سچی خدمت کا آدرش رکھا۔پہلے یہ جامعہ مرحوم حکیم اجمل خاں صاحب کی کوششوں سے علی گڑھ میں قائم ہوئی تھی مگر 1922کی ’’تحریک عدم تعاون‘‘کے بعد عوام کی بے حسی سے اسے دھچکا پہنچااور علی گڑھ سے منتقل کرکے دہلی لے جاناپڑا ۔ وہاں کچھ مقامی اداروں او رریاستوں اور زیادہ تر عوام کی مددسے وہ اپنا کام کرتی رہی،لیکن اس بار تحریک شروع ہونے کے بعد ریاستوں سے ملنے والی امداد بند ہوگئی اور اسے صرف عوام کی امداد اور اپنے ملازمین کے تعاون اور ایثار کاسہاررہ گیا۔اس صورت حال میں بھی اساتذہ نے ایسی غیر معمولی لگن اور جوش کے ساتھ کام کیا کہ بہت تھوڑے سے گذارے پر رہتے ہوئے بھی برابرخدمت میں لگے رہے ۔ان میں سبھی اتنے لائق تھے کہ ان کے لیے کسی اور ادارے میں جگہ مل سکتی تھی مگر انھوں نے جامعہ ملیہ کا دامن نہ چھوڑا اور ہر طرح کی تکلیفیں اٹھاتے ہوئے خوش دلی سے اور بے پناہ جوش کے ساتھ اپنے کام میں لگے ہوئے ہیں۔ان سب مشکلات کے باوجودبھی ان کے پاس اپنی کئی عمارتیں ہیں،کتب خانہ ہے اور اشاعت وطباعت کا شعبہ ہے ۔
اب جامعہ نے دہلی سے سات میل (کی دوری)پراوکھلا میں دوسوپچاس ایکڑ زمین بھی حاصل کرلی ہے جہاں ادارہ کی کئی عمارتیں بنیں گی۔یہ ہے مشنری لگن سے کام کرنے والوں کا صلہ۔مسلمانوں میں سرکارکا منھ تاکنے کا جو ایک رویہ ہے اس کا یہاں نام بھی نہیں۔یہ خود اعتمادی، عزت نفس اورحب الوطنی کی جیتی جاگتی مثال ہے۔‘‘(کتبہ ذاکر حسین مرکزی لائبریری ،جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی)
ایک بیدارمغزمعاشرے کی تشکیل جامعہ ملیہ کااولین مقصد رہا ہے ۔اس مقصدتک رسائی کے لیے کئی راہیں اختیارکی گئیںجن میںتعلیم سر فہرست رہی ہے۔ذمے داران جامعہ نے تعلیم وتعلّم کی خاطر خواہ صورتوں کے لیے متعدداقدامات کیے جن میں ’’رسالہ جامعہ‘‘کی اشاعت بھی شامل ہے۔
جامعہ ملیہ کے قیام کے تقریباََتین سال بعدیعنی1923میں ’’رسالہ جامعہ ‘‘کی اشاعت علی گڑھ میں شروع ہوئی مگر 1948 سے 1960تک (تقریباََ13؍سال) متعددملکی اورمالی وجوہ سے’’ رسالہ جامعہ‘‘ شائع نہ ہوسکا۔ اس کی از سرِنواشاعت کا آغازنومبر 1960سے شروع ہواجو ہنوز جاری ہے۔
مدیران صاحبان نے ’’رسالہ جامعہ‘‘کی ادارت کے دیگرفرائض کے ساتھ ساتھ متعدد علمی وادبی کتابوں پر تبصرے بھی سپرد قلم کیے۔ان تبصروں میں کارفرماعلمیت وادب فہمی آج بھی اہل نظر کے لیے سامانِ بصیرت بن سکتی ہے۔
اکثروبیشترحضرات نے بالعموم تبصروں پراپنے پورے پورے نام شائع نہیں کیے، بلکہ اُنھوں نے اپنے نام کے محفّف یا’’ناقد‘‘اور ’’مدیر‘‘جیسے الفاظ درج کیے ہیں،مثلاََ:
1۔نورالرحمن(ناقد)
2-مولانا اسلم جیراج پوری(ا،ج)
3- ڈاکٹر سیدعابدحسین(ع،ح)
4-ڈاکٹرعبدالعلیم(ع،ع)
5-پروفیسرمحمدعاقل(م، ع)
6-ڈاکٹرنورالحسن(مدیر)
7-عبداللطیف اعظمی(ع،ل،ا)
8-پروفیسرضیاء الحسن فاروقی(ض،ح،ف)وغیرہ
مدیرانِ رسالہ جامعہ کے علاوہ دیگر صاحبان قلم نے بھی تبصرے لکھنے کے فرائض انجام دیے ہیں اوراپنے پورے پورے نام لکھنے کی بجائے کچھ مخفف لفظوں کا استعما ل کیا ہے،مثلاً:’’م،م، (غالباََ پروفیسر محمد مجیب)’’س،ا‘‘(غالباََڈاکٹر سلامت اللہ )وغیرہ
زمانۂ اشاعت کے اعتبار سے ’’رسالہ جامعہ‘‘ماہنامہ’’معارف‘‘اعظم گڑھ کے بعد سب سے قدیم علمی وادبی رسالہ ہے۔ابتدامیں ’’رسالہ جامعہ‘‘کے چھ شمارے ایک جلدتصورکیے جاتے تھے۔یہ عمل 1975تک جاری رہا ۔1976سے بارہ شماروںکی ایک جلدتصور کی جانے لگی۔ ابتداسے 1975 تک رسالے کی جلدوں کا شمار اور شمارہ نمبرکے اندراج میں بے احتیاطی اور تسامح ضرورمحسوس ہوتا ہے مگر 1976سے اس میں باقاعدگی پیدا ہوگئی ۔
’’رسالہ جامعہ‘‘ صرف جامعہ ملیہ اسلامیہ کا ترجمان ہی نہیں رہاہے، بلکہ اِس نے اردو زبان وادب کے لیے وہ منفردکارنامے انجام دیے ہیں جن کی مثال اس عہد کے دیگر رسالوں میں کمیاب ہے۔
صرف تبصروں کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کے مدیروں نے اپنے اپنے عہدمیں شائع ہونے والی علمی، فکری، ادبی، مذہبی، سیاسی،ملّی اور معاشرتی موضوعات کی مطبوعہ کتب ورسائل پر تبصروں کے ذریعے اپنے قارئین کی ذہنی آبیاری کا فریضہ انجام دیا ہے۔
تبصروں کے لیے رسالے میں بالترتیب تین درجِ ذیل عنوان قائم کیے گئے:
1۔مطبوعات جدیدہ
2۔تبصرہ وتنقید
3۔تعارف وتبصرہ
’’رسالہ جامعہ‘‘نے نظم ونثرمیں مطبوعہ کتب پرتبصروںکا ایسامعیارقائم کیا جو اِس لحاظ سے آج بھی راہ نماکہا جاسکتا ہے کہ اِن کے مطالعے سے نہ صرف قارئین بلکہ صاحبانِ قلم بھی اظہاروبیان کے گُرسیکھ سکتے ہیں۔
’’رسالہ جامعہ ‘‘کے تبصرے انتہائی متنوع رہے ہیں۔مدیرانِ گرامی نے غزل،نظم،رباعی، قطعات اورمثنوی کو بھی جانچاپرکھااور داستان، افسانہ،ناول،ڈرامے ،تذکرے ،مکتوبات،تراجم، سفرنامے اورخصوصی شماروں وغیرہ پر بھی گہری نظرڈالی ۔شعرونثرکی اِن عام اصناف کے ساتھ ساتھ مختلف سماجی علوم اور مذہبیات پر مبنی کتب بھی ان کی فہم کے دائرے میں آتی رہیں۔
’’رسالہ جامعہ‘‘کے مبصّرین خواہ مدیر ہوں یاغیرمدیر، اپنے فن کے ماہر اورہرفن مولیٰ محسوس ہوتے ہیں۔وسیع علم اور گہری فکرکے حامل یہ مبصّرین ،علمی وادبی دیانت اورغیرجانب داری کا پیکربھی تھے۔ یہ حضرات تبصرہ کرتے وقت نہ کسی مشہور شخصیت سے مرعوب ہوتے، نہ کسی نوع کی جانب داری سے کام لیتے اورنہ ہی کسی چھوٹے پراپنی علمیت کا رعب جماتے تھے۔ اگر کسی سقم یا کوتاہی کا ذکر کرتے تواُس کا مقصد تعمیری ہوتاتھا،تخریبی نہیں۔نمونے کے بطورچند تبصروں کے کچھ اقتباس پیش ہیں:
قیس رامپوری کے افسانوں کا مجموعہ’’ نگہت‘‘پرتبصرہ کرتے ہوئے مبصّر’’ص،ع‘‘نے لکھا ہے کہ’’یہ ناول فرضی اورذہنی رومانیت سے لبریز ہے ۔کاش!وہ دنیائے آب وگل سے اتنے فاصلے پر نہ ہوتے کہ ان کے تحریر کردہ واقعات کو لگ بھگ ناممکن الوقوع یا من گھڑنت کہا جاتامگر آسان فہم اور لطافت کے سبب یہ ناول قابل مطالعہ ہے۔‘‘(جلد:39،شمارہ:6،دسمبر1943،ص:285 )
’’تمدن عتیق‘‘کے بارے میں مبصّر’’مدیر‘‘نے لکھا ہے کہ’’یہ کتاب تاریخی نوعیت کی ہے، اس لیے اس کا اسلوب بھی مؤرخانہ ہونا چاہیے۔محض اہم حالات اور واقعات جمع کردینا کافی نہیں ہے،بلکہ انھیں سمجھانااور زندگی سے جوڑنا نہایت ضروری ہے لیکن مولف نے اس پہلو کو کسی قدر نظر انداز کردیا ہے۔پھر بھی یہ کتاب استفادہ کے قابل ہے۔‘‘ (جلد:27،شمارہ:3،ستمبر1936،ص:843-844)
’’رسالہ جامعہ‘‘کے تبصروں کی یہ بھی خصوصیت رہی ہے کہ اگرزیرتبصرہ کتاب میں بیان شدہ فن اورموضوع سے انصاف نہیں ہواہے تو تبصرہ نگارنے بالعموم اس کی خوبیوں اور خامیوں کو واضح کرنے کے ساتھ اس فن پرلکھنے کا ہنر بھی بیان کیا ہے۔مزیدبرآں ان تبصرہ نگاروں کی نظر صرف موٹی موٹی باتوں پرہی نہیں بلکہ ایسے نازک ولطیف پہلوپربھی گئی ہے جوبظاہر معمولی محسوس ہوتے ہیں مگر جب ان کی جانب توجہ کی گئی تو معلوم ہوا کہ یہ یقیناََقابل توجہ پہلو تھا۔چنانچہ ڈاکٹرسعیداحمد کی تصنیف’’دامن باغباں‘‘کے افسانے میں ایک بے علم کردار مولابخش کی زبان سے قرآنی تلمیح ’’اولادکافتنہ‘‘ اداکرایا گیا جسے مبصّر’’ا،ج‘‘نے غیرمناسب قراردیا اورکہا کہ یہ دانشوروں کی نگاہ میں مستبعدامر ہے۔ (جلد:19،شمارہ:3،ستمبر1932،ص:254)
چندلفظوں میں اہم امورکی طرف اشارہ کردینا ان تبصروں کا خاصّہ رہا ہے،مثلاً:سات ڈراموں کے مجموعے ’’بچہ کا دل‘‘ڈرامے پر تبصرہ کرتے ہوئے مبصر’’مدیر‘‘نے لکھا ہے کہ’’یہ سات ڈراموں کا مجموعہ ہے اور خواجہ حسن نظامی صاحب ،شوکت تھانوی صاحب، فریدجعفری صاحب نے اس کا مقدمہ،دیباچہ اور تعارف لکھاہے،ڈرامے سب بالکل مہمل ہیں ۔‘‘ (جلد:28،شمارہ:1،جنوری1937،ص:63)
یوسف سلیم چشتی کی تصنیف’’تعلیمات اقبال ‘‘پرمبصر(ا،ا،س)نے اوّلاََیہ خیال ظاہر کیا کہ ’’ یوسف سلیم کی عقیدت نے کتاب کی ادبی حیثیت کم کردی ہے۔‘‘اس کے بعدلکھاہےکہ’’ویسے بھی یہ دور اقبال کی پرستش کا ہے ،ان پر صحیح تنقید کا دور بعد میں آئے گا۔‘‘
(جلد:33،شمارہ:6،دسمبر1940)
عبدالحلیم شررکی کتاب ’’گذشتہ لکھنو‘‘ کے بارے میں تبصرہ نگار(ع،ل،ا) کا کہنا ہےکہ’’جناب رشید حسن خاں صاحب نے اصلاح املامیں جوتصرفات کیے ہیں …میرے خیال میں ان کے ذاتی اور انفرادی خیال کو مکتبہ جامعہ کو آنکھ بندکرکے نہیں مان لیناچاہیے تھا۔‘‘ مثلاً:’عش عش‘کو شوق اصلاح میں انھوں نے ’اش اش‘کردیا ہے۔‘‘( جلد:64،شمارہ:1،جولائی 1971،ص:51-52)
مذکورہ بالااقتباس سے ظاہرہورہا ہے کہ مبّصرین جامعہ نہ صرف بے جا مدح وتحسین سے گریز کرتے بلکہ ادارہ جامعہ پر بھی تنقید کرنے سے ہچکچاتے نہیں۔میرے خیال میں آج کل کے تبصروں میں ایسی مثالیں بہت ہی کم ملتی ہیں ۔
’’رسالہ جامعہ‘‘ کی غیرجانبداری کا ایک اہم ثبوت یہ بھی ہے کہ غیروں کی تعلیمات پرمشتمل کتابوں کو بھی اپنے تبصرے میں شامل کیا ہے ، مثلاً:’سوامی دیاننداور ان کی تعلیم‘جوخواجہ غلام الحسنین کی تالیف ہے۔
کچھ کتابوں کے تبصرے دو دو باربھی شائع ہو ئے ہیں جو یا تو جدید اشاعت پہ کیے گئے ہیں یا پھر ایک ہی کتاب پر دوالگ الگ مبصّرین نے تبصرہ کیا ہے جیسے:مہدی افادی کی کتاب’’افادات مہدی‘‘ مولانا سلیمان ندوی کی کتاب ’’بشری‘‘اورسجادحسین انصاری کی کتاب’’محشر خیال ‘‘وغیرہ ۔
علاوہ ازیں محمداحمدبیخود دہلوی کی کتاب’’گنجینۂ تحقیق‘‘کے ایک ہی ایڈیشن پر دو لوگوں نے تبصرہ کیا ہے :پہلا تبصرہ ع،ح، (غالبا ََڈاکٹر سیدعابد حسین )کا ہے اوردوسرا تبصرہ مرزاہادی رسواکا، جس کو مدیر نے تبرکاََ کہہ کر شائع کی ہے۔
’’رسالہ جامعہ‘‘ کے تبصروں کی طوالت اور اختصارکودیکھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مدیرانِ جامعہ نے تبصرے کے لیے تمام موصولہ کتب کو شاملِ تبصرہ کیا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اس میں شامل کچھ تبصرے انتہائی مختصر ہیں ،کچھ انتہائی طویل ہیں کچھ طویل ترین اور کچھ متوسط،مثلاً:
٭ وہ تبصرے جو دوسطروں سے دس سطروں پرمشتمل ہیں انھیں ہم مختصر کہہ سکتے ہیں۔
٭وہ تبصرے جوگیارہ سطروں سے سویاڈیڑھ سوسطروں کے درمیان ہوتے ہیں انھیں ہم متوسط کہہ سکتے ہیں۔
٭وہ تبصرے جو ڈیڑھ سوسطروں سے ڈھائی ،تین سو سطروں پر مشتمل ہوتے ہیں انھیں ہم طویل کہہ سکتے ہیں۔
٭کچھ تبصرے ایسے ہیں جنھیں ہم طویل ترین کہہ سکتے ہیں۔یہ وہ تبصرے ہیں جو دس صفحات یا اس سے زائدصفحات پر مشتمل ہوتے ہیں،بلکہ کچھ تبصرے تو اٹھارہ صفحات اور کچھ تبصرے قسطوں میں شائع ہوئے ہیں، مثلاً: قاضی عبدالودود کا ایک تبصرہ جو انھوں نے ’’دیوان عزلت‘‘پر لکھا ہے وہ 18؍ صفحات پر مبنی ہے اور ’’دین الٰہی اور اس کا پس منظر‘‘پرجو تبصرہ لکھا گیاہے وہ چار قسطوں میں شائع ہوا ہے اور ہرقسط انتہائی طویل ہے لیکن ہم کسی تبصرے کو بے سود اور بے سبب طویل نہیں کہہ سکتے ،کیونکہ یہ تمام تبصرے نہایت عمدہ اورقابل توجہ ہیں۔

تبصرے بند ہیں۔