رسول اللہ ﷺ کی گھریلو زندگی

قمر فلاحی

معاشرہ کی بنیادی اینٹ بیوی ہے، یہیں سے معاشرہ کی بنیاد پڑتی ہے۔ جنت میں ساری سہولیات فراہم ہونے کے باوجود حضرت آدم علیہ وسلم  کو جس چیز کی کمی محسوس ہوئ وہ بیوی ہے۔

حضرت حوا علیھا السلام کو بھی مٹی سے پیدا کیا جاسکتاتھا بلکہ مٹی کی بھی ضرورت نہیں تھی صرف کلمہ کن کافی تھااس کے باوجود اللہ سبحانہ تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کی پسلی کی ہڈی سے حضرت حوا علیہ السلام کی تخلیق فرمائ اس کی کچھ نہ کچھ تو حکمت ہوگی ؟اس میں ایک حکمت جو ہمیں سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہیکہ تاکہ مردوعورت میں مانوسیت برقرار رہے، ایک دوسرے کےجذبات کو سمجھنے کی صلاحیت باقی رہے۔

زوج بمعنی بیوی بالکل درست نہیں ہے اس کیلئے اردو زبان میں موزوں لفظ شریکئہ حیات ہے۔ زوج بمعنی جوڑا ہے، جسے انگریزی میں PAIRاور ہندی میں اسے پورک کہیں گے۔

اللہ تعالی نے آسمان کو زمین کا زوج بنایا ہے اس کا مطلب ہرگز بیوی نہیں ہے بلکہ جوڑا ہے، جیسے گاڑی کے دو پہیے ایک دوسرے کا جوڑا ہیں، گاڑی کے دوبیل ایک دوسرے کا جوڑا ہیں۔ جوڑ ابمعنی معاون ہوتا ہے اور معاونت بغیر مزاج شناسی کے ممکن نہیں ہے۔

پیارے نبی صلی اللہ کی پوری زندگی کو بحیثیت انقلاب کے اگر دیکھا جائے تو یہ پہلو ہمیں نمایاں ملتاہے کہ "آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوسروں کے حقوق کی رعایت کرنے والے تھے”۔ یہ خوبی جس معاشرہ اور گھر میں پیدا ہوجائیگی وہ معاشرہ امن کا گہوارہ بن جائیگا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم مزاج شناسی میں بھی معلم تھے۔ آپ نے ہمیشہ مخاطب کے مزاج کو پرکھا اور اس کا لحاظ رکھا تاکہ مخاطب کی دل آزاری نہ ہو۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے میں عیب اس وجہ سے کبھی نہیں نکالا کیوں کہ عیب کوئ بھی شخص جان بوجھ کر پیدا نہیں کرتا اور عیب گنوانے والے کو پسند نہیں کرتا اور اسے برداشت بھی نہیں کرپاتا ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کھاناپسند نہ ہوتا تو نہیں کھاتے مگر عیب نہیں نکالتے تھے۔

زوجہ کے مزاج میں یہ بات پیوست ہے کہ انکے میکے والے اچھے ہیں، لہذا کبھی بھی میکہ کی نسبت سے طعنہ دینے سے منع فرمایا ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر والوں کے درمیان اپنے عہدہ کا کبھی رعب نہیں ڈالا کہ میں تمہارا نبی ہوں بلکہ شوہر،  باپ اور خسر ہونے کا فریضہ ادا کیا۔ یہ اسوہ ہمارے معاشرہ میں مفقود ہوگیا ہے، ہم ہمیشہ اپنے عہدہ کے ساتھ اپنے ماتحتین سے برتائو کرتے ہیں اور اسی وجہ سے نہ قریب ہوپاتے ہیں اور نہ ہی قریب کرپاتے ہیں۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی خواہش پہ اپنے گھر والوں کو نہیں چلایا کہ مجھے یہ کھانا پسند ہے تو تم لوگ بھی یہی کھائو اور مجھے کھلائو بلکہ جہاں سے جس طرح کا بھی کھانا آیا آپ نے بشوق قبول فرمایا۔

اہل مدینہ گوہ [سانڈا] کھایا کرتے تھے اور یہ مکہ والوں کی ڈش نہیں تھی مگر اس کے باوجود آپ ص نے گوہ  کومکروہ نہیں کہا۔ یہ اعلی ظرفی ہمیں اپنے گھر میں دکھانی ہوگی کہ ہمارے بچوں اور ہماری شریکئہ حیات کو کیا پسند ہے۔

آپ ص بلاناغہ تہجد کا اہتمام فرماتے اور اسی جگہ ماں عائشہ سوئ ہوتیں مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں مجبور نہ کرتے کہ تم بھی میرے ساتھ تہجد کا اہتمام کرو۔یہ شریعت کا نہایت ہی حکیمانہ نسخہ ہے اسے اپنائے بغیر ایک اچھے گھر کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت گھر کے ایک فرد کے کیسے تھے اس تعلق سے احادیث میں رہنمائیاں بھری پڑی ہیں، آئیے ہم یہاں پہ چند حوالے درج کرتے ہیں :

سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ میں حالت حیض میں پانی پیتی پھر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دے دیتی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنا منہ مبارک اس جگہ رکھتے جہاں میرا منہ ہوتا تھا پھر نوش فرماتے اور میں ہڈی چوستی حالت حیض میں پھر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دے دیتی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنا منہ مبارک میرے منہ کی جگہ پر رکھتے زہیر نے (فیشرب) ذکر نہیں کیا۔ صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 691

اسود کہتے ہیں کہ میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں کیا کرتے تھے، انہوں نے بتایا کہ گھر والوں کے کام میں لگے رہتے تھے اور جب نماز کا وقت آجاتا تو نماز کے لئے تشریف لے جاتے۔

صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 984

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ایک اہلیہ کا بوسہ لیا پھر نماز کے لئے تشریف لے گئے اور وضو نہ کیا۔ صحیح ابن ماجہ:جلد اول:حدیث نمبر 406

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہما فرماتی ہیں میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک ہی برتن سے غسل کیا کرتے تھے۔

سنن ابن ماجہ:جلد اول:حدیث نمبر 376

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ دوڑ لگایا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ تمہارا اپنی بیوی کے منہ میں لقمہ ڈالنا یہ بھی صدقہ ہے۔

آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں یہ دنیا سازوسامان کی جگہ ہے اور بہترین سامان نیک بیوی ہے۔

چند اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم مل کر جناب نبی کریمؐ کی ایک زوجہ کے دروازے پر گئے اور عرض کیا کہ ام المؤمنین ہم فلاں لوگ ہیں اور آپ سے یہ بات معلوم کرنے آئے ہیں کہ حضورؐ کے گھر کی چاردیواری کے اندر کیا معمولات ہوتے ہیں۔ ام المؤمنین نے بتایا کہ حضورؐ کے گھر کے معمولات ویسے ہی ہوتے ہیں جیسے دوسرے لوگوں کے ہوتے ہیں۔ کھانے کا وقت ہو تو کھانا کھاتے ہیں، گھر کا کوئی کام کاج ہو تو وہ کر دیتے ہیں، کوئی سودا وغیرہ منگوانا ہو تو وہ منگوا دیتے ہیں، ہمارا حال احوال پوچھتے ہیں، ہمارے ساتھ گپ شپ بھی کرتے ہیں، گھر کی کسی چیز کی مرمت کرنی ہو تو وہ بھی کر دیتے ہیں، کوئی جوتا گانٹھنا ہو تو گانٹھ دیتے ہیں، چارپائی سیدھی کرنی ہو تو کر دیتے ہیں، کسی کام میں ہمارا ہاتھ بٹانے کی ضرورت ہو تو ہاتھ بٹا دیتے ہیں۔ الغرض حضورؐ کے معمولات دوسرے لوگوں جیسے ہی ہوتے ہیں۔

آپؐ نے فرمایا:

کلکم راع وکلکم مسؤل عن رعیتہ۔

 ایک روایت میں حضورؐ نے خود اس کی تشریح فرمائی کہ چرواہے کی ذمہ داری کیا ہوتی ہے، فرمایا کہ چرواہے کی پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنی بکریوں اور بھیڑوں کو اچھی چراگاہ میں لے کر جائے کہ وہ اچھی غذا کھا سکیں، انہیں اچھے چشمے پر لے جائے کہ انہیں پینے کے لیے صاف پانی میسر ہو اور انہیں موسمی اثرات سے اور دشمن سے بچائے۔ پھر جناب رسول اللہؐ نے فرمایاکہ بھیڑ بکری کا دشمن بھیڑیا ہے جبکہ انسان کا دشمن شیطان ہے۔ یوں گھر کے سربراہ کی بھی یہی ذمہ داری ہے کہ ضروریاتِ زندگی مہیا کرے، یعنی خوراک، تعلیم، لباس، رہائش وغیرہ اور اس کے ساتھ شیطان کے نرغے سے اپنی اولاد کو بچانا بھی اس کی ذمہ داری ہے۔ گھر کی عورت کے متعلق آپؐ نے فرمایا والمراء ۃ راعیۃ فی بیت زوجہا کہ

آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر ایک کے حقوق کی رعایت فرماتے اور زندگی کے کسی بھی موڑ پر آپ اس سے غافل نظر نہیں آتے۔ ہر آن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے حقوق کی فکر ہوا کرتی تھی۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ”تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جو اپنے اہل (ازواج) کے لیے بہتر ہو اور میں اپنے اہل کے لیے تم سب سے زیادہ بہتر ہوں۔

آپ کی عائلی زندگی اسلام کے اس مزاج و مذاق کی آئینہ دار ہے ایک مرتبہ مسجد نبوی میں عیدالفطر کے موقع سے چند حبشی نوجوان نیزوں سے کھیل رہے تھے،حضرت عائشہ کہتی ہیں میں نے دیکھنے کی خواہش کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم آگے کھڑے ہوگئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مونڈھے اور گردن کے درمیان سے میں کھیل دیکھتی رہی۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آقاؤں سے خطاب کرتے ہوئے کہا: لوگو! جو خود کھاؤ، وہی ان کو بھی کھلاؤ، جیسا کپڑا خود استعمال کرو، وہی کپڑا ان کے لیے بھی تیار کرو، وہ تمہارے بھائی ہیں غلام کو بھائی قرار دے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دیوار کو منہدم فرمایا جو حاکم اور محکوم کے درمیان کھڑی کردی گئی تھی۔

گھر میں جو کھانا تیار ہوتا حاضر کردیا جاتا آپ کی مرغوب اور پسندیدہ شئی ہوتی تو تناول فرماتے ورنہ خاموشی اختیار کرتے، لیکن کھانے میں کوئی عیب نہیں لگاتے، دن کے کھانے کے بعد تھوڑی دیر قیلولہ کرتے

جب رسول کریم ﷺ گھر میں تشریف لاتے تو میری ہم جولیاں شرم کی وجہ سے آپ ﷺ سے چھپ جاتی تھیں لیکن آنحضرت ﷺ ان کو میرے پاس بھیج دیا کرتے تھے اور وہ میرے ساتھ کھیلنے لگتی تھیں۔ [بخاری ومسلم]

حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا بہت اچھا کھانا پکانا جانتی تھیں۔ ایک روز انھوں نے کوئی اچھی چیز پکائی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے بھیج دی۔ آپؐ اس وقت حضرت عائشہؓ کے یہاں تھے۔ حضرت عائشہؓ کو ناگوار معلوم ہوا اور پیالہ زمین پر پٹک ڈالا۔ حضورؐ خود دستِ مبارک سے پیالہ کے ٹکڑوں کو چنتے تھے اور مسکراتے ہوئے فرماتے تھے : ”عائشہؓ! تاوان دینا ہوگا”۔

مطہرات سے محبت کا یہ عالم تھا کہ:”ایک مرتبہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پیالے میں پانی پی رہیں تھیں،  حضور ﷺ نے دیکھا تو فرمایا:حمیرہ! میرے لیے بھی پانی بچا لینا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ مجھے معلوم ہوجاتا ہے جب تم مجھ سے ناراض ہوتی ہو۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا وہ کیسے ؟ فرمایا جب تم راضی ہوتی ہو تو ورب محمد (محمد کے رب کی قسم) کہہ کر بات کرتی ہو اور جب ناراض ہوتی ہو تو ورب ابراہیم (ابراہیم کے رب کی قسم)کہہ کر بات کرتی ہو، حضرت عائشہؓ نے فرمایا کہ جب میں ناراض ہوتی ہوں تب بھی آپ کی محبت کا دریا میرے دل میں موجزن ہوتا ہے۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اپنی ازواج کا بہت زیادہ خیال فرماتے تھے ؛ لیکن بے جا ضد اور اصرار پر ان سے ناراض بھی ہوتے تھے ؛ چنانچہ جب ایک مرتبہ ازواج مطہرات نے نفقہ وغیرہ کے مطالبہ پر اصرار کیا تو آپ ان سے ناراض ہوگئے اور ایک مہینے تک ایلاء کیا،اس طور پر کہ گھرکے بالائی حصہ پرقیام فرمایا اوراس دوران کسی بھی زوجہ کسی طرح کاربط نہیں رکھا۔[بخاری]

آپ ﷺ کے اس عمل سے ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ بیوی کی ہر جائز اور ناجائز بات اور مطالبہ کو تسلیم نہیں کرنا چاہئے اور جہاں پر بیوی کی طرف سے اس طرح کی بیجاضد اور ہٹ دھرمی نظرآئے،  وہاں پر برسبیلِ اصلاح اور تنبیہ ناراضگی کا اظہار بھی کیا جاناچاہئے۔

تبصرے بند ہیں۔