میں جا رہا ہوں
حبیب بدر ندوی
میکدہ کے اے ساقیو، پلاؤ جام، میں جا رہا ہوں
قسمت میں میری وفا نہیں ہے، پیام لے کے میں جا رہا ہوں
…
ہزار بار وہ مڑ کے دیکھا، کہاں یہ فرصت کہ مئے پلائے
جی بھر کےاب انتقام لے لو، اشک بہائے میں جارہا ہوں
…
کہاں ہیں وعدے، کہاں ہیں قسمیں، جو اجڑے موسم میں تم کئے تھے
بہار آیا تو کرلو مستی، دیوانہ بن کے میں جارہا ہوں
…
تمہاری انجمن تمہیں مبارک، میری انجمن میں گزر نہیں ہے
نغمہ وداع کا سب مل کے گاؤ، فسانہ بن کے میں جا رہا ہوں
…
وفا پہ تیری مجھے شک نہیں تھا، رنجور اس لیے ہوں میں
ہزار انجمن وفا کے ہیں ، کسی انجمن میں، میں جا رہا ہوں
…
یونہی مسکراؤ جہاں میں تم ، خدا سے میری دعا یہی ہے
میری التجاہے تم سے اتنا ، مجھے بھلاؤ، میں جا رہا ہوں
تبصرے بند ہیں۔