رفاقت حیات ….میر واہ کی راتیں 

مشرف عالم ذوقی
ایسے کتی ناول ہیں جہاں شہروں یا گاؤں کا حوالہ ملتا ہے . اوہان پامک نے استنبول کی یادوں کو زندہ کیا .جیمز جوئز نے ڈبلن شہر کو موضوع بنایا ا .— ٹیل آف ٹو سٹیز ،تجو کولے کا اوپن سٹی ،دی ماسٹر آف مارگریٹا …لندن کی ایک رات …ایسی ہزاروں مثالوں ہیں .. اب ان میں  ایک نام رفاقت حیات کے ناول میر واہ کی راتیں کو بھی شامل کر لیجئے ..آٹھویں فیل نذیر کا باپ حلوائی تھا .لیکن جلیبی کے رس سے زیادہ دلچسپی نذیر کو عورتوں میں تھی .کوٹھے پر پکڑا گیا تو میر واہ چچا غفور کے پاس آ گیا .چچا غفور درزی تھا .میٹھی باتیں کرتا تھا .ایام شباب میں کیی عورتوں سے یارانہ رہا .لیکن اب ڈھلتا سورج تھا .اور بیمار بھی .چاچی کا مسلہ  یہ تھا کہ وہ غفور سے آدھی عمر  کی تھی .نمازی اور پرہیز گار تھی .مگر جسم کی مانگوں کو کون روک سکا ہے .نذیر  چچا کے گھر رہنے لگا ..یہاں چچی کا  انگاروں پر لوٹتا ہوا جسم اور اسکی مانگوں کو نذیر خوب سمجھتا تھا ..لیکن شمیم کا خیال چچی کی موجودگی کو بہت حد  تک سرد کر دیتا تھا ..شمیم اتفاق سے ملی تھی . لیکن شمیم کی جھلک دیکھ بغیر بھی وہ شمیم کی محبت میں گرفتار ہو چکا تھا ..پھر اسے کی موالی دوستوں کی صحبت ملی .اور یہ صحبت اسے شمیم تک کھیچ لایی ..اب ایک طرف چاچی دوسری طرف شمیم …میر واہ کی راتیں جواں تھیں …لیکن چچا غفور اب نذیرپر شک کرنے لگا تھا …اور نذیر کے لئے بہتر یہ تھا کہ وہ میر واہ چھوڑ کر چلا جائے ….دیکھا جائے تو کہانی بس اتنی ہے …اگر اس کہانی میں کویی کشش ہے تو وہ زبان و بیان کی ،جسے رفاقت حیات نے دلچسپ بنانے میں کویی کسر نہیں چھوڑی –انسانی نفسیات سے خوب خوب کام لیا گیا …دو اہم نکتے ہیں ،جو میر واہ کی حسین راتوں میں لذت گناہ اور وصال یار پر سوالیہ نشان بن کر ابھرتے ہیں …پہلی بار مالش کرنے آی چاچی کے کھردرے ہاتھ نے عشق کا سارا نشہ زائل کر دیا .رات کی تاریکی میں شمیم کے ساتھ وصل کے لمحوں میں ایک چنگھاڑتی بلی اسکے راستے میں آ گی …رات کی تاریکی میں باہر نکلتے ہوئے نذیر کو اب لذت کا احساس نہیں تھا …چاچی سے بھی اسے کویی محبت نہیں تھی ….یہی اس ناول کا محور ہے جو چونکاتا  ہے …نذیر کو سکس میں بھی کویی زیادہ دلچسپی نہ تھی …محبت کے جذبے کا بھی فقدان تھا ….پھر ان حسین یا بد نما راتوں میں کیا تھا ،جو اچانک ناول بن گیا …یہ ایک بے رنگ عام انسان کی زندگی ہے ..میر واہ ہی نہیں ،ایسے نوجوان کسی بھی گلی ،محلے یا گاؤں میں آسانی سے نظر آ سکتے ہیں …رفاقت نے بغیر رنگ و روغن کے اس پورے معاشرے اور سماج کو اس ناول میں زندہ کر دیا ..ہاں اختتام میں غالب کا یہ مصرعہ  یاد آ گیا ….کچھ اور چاہیے وسعت میرے بیان کے لئے ….

تبصرے بند ہیں۔