رفاہی کاموں کے لیے مساجد کا استعمال

آصف علی

ہندوستان میں ہزاروں نہیں لاکھوں مساجد ہیں ہر محلے ہر بازار اور ہر مارکیٹ میں آپ کو کم از کم ایک مسجد ضرور ملے گی. اکثر مساجد بڑے بڑے پلاٹس اور رقبوں پر بنی ہوئی ہیں , ان مسجدوں میں مین ہال (جہاں نمازی نماز پڑھتے ہیں ) کے ساتھ ساتھ حجرے اور کمرے بھی بنے ہوتے ہیں ,کچھ مساجد میں امام مسجد بھی رہائش پذیر ہوتے ہیں۔

حقیقت میں ایک مسجد کو صرف عبادت خانہ ہی نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس کی حیثیت ایک کمیونٹی سینٹر کی بھی ہونی چاہیے ,وہ تمام کمیونٹی جو مسجد کے آس پاس رہتی ہے ,مسجد میں پانچ وقت نماز کے لئے آتی ہے جعمہ کے روز عام طور پر زیادہ تعداد میں لوگ آتے ہیں۔

مسلمانوں کا المیہ ہے کہ ان کے پاس ایک اتنی اچھی سہولت ہونے کے باوجود مسجد کو ایک عبادت خانے سے زیادہ حیثیت نہیں دے سکے. شائد چند ممالک میں مساجد کو ایک کمیونٹی سینٹر کی حیثیت حاصل ہے لیکن ہندوستان اورپاکستان وبنگلہ دیش میں اکثر مساجد صرف نماز کے لئے استعمال ہوتی ہیں اور نماز کے اوقات کے اختتام پر ان مساجد کو لاک کر دیا جاتا ہے۔

چند تجاویزپیش کر رہا ہوں جن پر عمل درآمد کرنے سے ناصرف مسجدوں میں لوگوں کی دلچسپی بڑھے گی بلکہ علاقہ کے لوگوں کو بے حد فائدہ بھی پہنچے گا۔

برصغیرہندوپاک میں غربت بےتحاشاہے، بے روزگاری اور خوراک کا مسئلہ کافی سنگین ہے. مسجد کی کمیونٹی میں جہاں نادار اور غریب لوگ رہتے ہیں جنھیں دو وقت کی روٹی مشکل سے نصیب ہوتی ہے, اسی کمیونٹی میں ایسے صاحب حیثیت لوگ بھی رہتے ہیں جو مالی طور پرخوشحال ہوتے ہیں۔

برصغیر میں غذائیت کے مسئلے سے نپٹنے کے لئے اگر ہر مسجد میں ایک یا دو refrigerators یا freezers موجود ہوں جن کا اہتمام صاحب ثروت یا چندے سے کیا جا ئےتو اس علاقے کے لوگ اپنا اضافی کھانا جو انہوں نے ضرورت سے زیادہ بنایا ہو یا سارا کھانا استعمال ہونے سے بچ گیا ہو, وہ اپنا کھانا چھوٹے لفافوں یا containers میں پیک کر کے ان refrigerators میں لا کر رکھ دیں , اسی طرح جو لوگ غریبوں اور بھوکوں کی مدد کرنا چاہیں وہ کھانا خرید کر یا پکا کر ان فریجرس میں لاکررکھ دیں کھانے   کے اوپر مارکر سے لکھ دیں کہ اس کے اندر کونسا کھانا ہے ,جو ضرورت مند ہیں وہ فریج سے اپنی ضرورت کا کھانا نکال لیں اور آرام سے گھر جا کر خود کھائیں اوراہل وعیال, کو کھلائیں اس طرح مسجد نہ صرف عبادت کا ایک ذریعہ بنے گی بلکہ لوگوں کی ضرورت بھی پوری کرے گی. اضافی یا بچا ہوا کھانا ضائع ہونے سے بچ جاے گا اور ضرورت مندوں کو ایک یا دو وقت کا کھانا مل جاے گا ویسے بھی  حقوق العباد سے بڑھ کر اور نیکی کیا ہو سکتی ہے۔

اس کے علاوہ اگر آپ کے پاس بند ڈبے والی خوراک ہے جیسے کہ canned food، آپ کی اپنی اگائی ہوئی سبزیاں یا پھل.  اضافی آٹا، دال، چاول، تیل، بسکٹ، اور کھانے  پینے کی دوسری اشیا وہ بھی آپ مسجد کے فوڈ بینک میں جمع کروا سکتے ہیں جہاں سے ضرورت مند اپنی ضرورت کی چیزیں لے سکتے ہیں۔

جس علاقہ یا محلہ (کمیونٹی) میں مسجد ہے عام طور پر وہاں میڈیکل سے وابستہ افراد بھی رہتے ہوں گے اگر اس کمیونٹی میں چند ڈاکٹرز ہیں تو مسجد میں ایک چھوٹا سا کلینک بنایا جا سکتا ہے جہاں اگر ہر روز ممکن نہیں تو جعمہ کےدن علاقے کا ایک ڈاکٹر غریبوں اور ضرورت مندوں کی تشخیص کر کے انھیں کم از کم دوائی ضرور تجویز کر کے دے سکتا ہے, اگر مسجد کی انتظامیہ چاہے تو مسجد کے چندے سے ضرورت مندوں کو دوائیاں بھی مفت فراہم کی جا سکتی ہیں ,ساتھ ساتھ جمعہ کے خطبہ سے پہلے علاقے کے ڈاکٹر اسپیکر پر دس پندرہ منٹ کے لئے لوگوں کی صحت کے متعلق اہم باتیں بتا سکتے ہیں اور وبائی بیماریوں سے بچاؤ کے طریقے، ملیریا اور ڈینگی سے بچاؤ  کے طریقے . کون کون سے کھانے صحت مند ہیں ، ورزش کے فوائد . صحت کے اصولوں پر مختلف تجاویز، آلودہ پانی کے نقصانات، صاف پانی کیسے حاصل کیا جائے، پانی کو صاف کیسے کیا جائے، پانی میں اگر سکھیا ہے تو اسے کیسے قابل استعمال بنایا جائے، اس طرح کی بہت سی باتیں ڈاکٹر صاحب ہر جمعہ کو نمازیوں کو بتا سکتے ہیں , کیونکہ مساجد میں ا سپیکرز ہوتے ہیں , اس طرح علاقے کے لوگ جو گھروں میں ہیں وہ بھی ڈاکٹر صاحب کی تجاویز سے فائدہ حاصل کر سکیں گے۔

اسی طرح مسجد میں ہر مہینے ایک پارٹی کا انتظام کیا جا سکتا ہے، اس پارٹی کے لئے ہرجمعہ پیسے اکٹھے کیے جا سکتے ہیں , جو پیسے جمع ہوں ان سے بریانی، حلیم، چکن وغیرہ کی ایک یا زیادہ دیگیں تیار کر کے جمعہ پڑھنے کے بعد سب نمازی مل کر کھانا enjoy کر سکتے ہیں ۔  ان چند اہم تجاویز پر عمل کرنے سے غریبوں کی روٹی کا مسئلہ بھی حل ہو جاے گا اور کسی حد تک لوگوں کو علاج کی سہولت بھی مل جائے گی۔

اس کے علاوہ بھی اور بہت سی چیزیں ہیں جو ہم کمیونٹی کے فائدہ کے لئے مسجد میں شروع کر سکتے ہیں ,ایسا کرنے سے لوگوں میں مسجد کی اہمیت اور دلچسپی بڑھے گی لوگوں میں پیار محبت اور ایک دوسرے کے لئے ہمدردی اور قربت کا احساس بھی بڑھے گا, مسجد صرف ایک عبادت خانہ ہی نہیں رہے گا, بلکہ حقوق العباد کے لئے ایک مرکز کی حیثیت حاصل کر جائے گا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    مسجد دراصل مسلمانوں کی انفرادی و اجتماعی زندگی کا ایسا مرکز و محور ہے جہاں سے ان کے تمام مذہبی‘اخلاقی‘ اصلاحی‘ تعلیمی و تمدنی‘ ثقافتی و تہذیبی سیاسی اور اجتماعی امور کی رہنمائی ہوتی ہے۔ مسجد کا یہ کردار قرن اولیٰ میں جاری و ساری رہا۔ اس دور میں مسلمانوں کے تمام معاملات مسجد ہی میں سرانجام دیئے جاتے تھے۔ چنانچہ حضور اکرم اور صحابہ کرام کے زمانے میں مسجد کی حیثیت دارالخلافہ سے لے کر غربا و مساکین کی قیام گاہ تک کی تھی۔ تعلیم و تعلم سے لے کر رفاہی کاموں اور خدمت خلق کا بڑا ادارہ تھا آپ سے ملاقات کرنے اور اسلام اور اسلامی ریاست کے حوالے سے معلومات حاصل کرنے اور معاہدات کرنے کی جگہ تھی۔ اجتماعی کاموں کے لیے منصوبہ بندی کرنے ان کے لیے مالی وسائل مہیا کرنے غرباء و مساکین کے لیے چندہ جمع کرنے‘ حاجت مندوں کی حاجتیں پوری کرنے‘ بیت المال میں مال جمع کرنے مال غنیمت اور صدقات جمع کرنے پھر انہیں مستحقین میں تقسیم کرنے کا مقام مسجد ہی تھی۔
    عدل و انصاف کا مرکز عدالت مسجد تھی جہاں لوگوں کے مسائل حل کیۓ جاتے تھے اور دنیا سے ملاقات کیلئے آنے والے لوگوں کے لیۓ پارلیمنٹ کی حثیت رکھتی تھی
    مسجد تو ایک قرآنی اصطلاح ہے نہ کہ گنبد و مینار پر مبنی و مرصع کوئی مخصوص الشکل عمارت۔
    وہ جگہ جہاں قرآنی احکامات کے تسلیم و نفاذ کو یقینی بنانے کا عمل پایۂ تکمیل کو پہنچتا ہو یا پہنچایا جائے اسے مسجد کہا جائے گا۔
    ایک مخصوص طرز تعمیر پر مبنی عمارت کہ جس میں تمام ہی کام خلاف قرآن انجام دیئے جائیں مسجد نہیں کہلا سکتی۔
    افسوس کہ آج مذھبی پیشوائیت نے مسجد کی اصل روح کو دفنا دیا اور مسجدوں پر قبضہ جما کر لوگوں میں نفرتیں بانٹنے لگے ….

تبصرے بند ہیں۔