رحمت الہی برقؔی اعظمی مرحوم
روح پرور جھلکیوں کا حج کی یہ نذرانہ ہے
آج کا دن یادگار ہمتِ مردانہ ہے
جمع ہیں مکہ میں دنیا بھر کے پروانہ صفت
ضوفگن کعبہ میں شمعِ جلوۂ جانانہ ہے
پی رہے ہیں باندھ کر احرام رندان ولا
مے براہیمی ہے لیکن احمدی پیمانہ ہے
ہے لبوں پر نعرۂ تکبیر کی دلکش صدا
شوق میں ہر ہر قدم پر سجدۂ شکرانہ ہے
اِذن ہے پیاسا نہ جائے کوئی رندِ معرفت
جوش پر دریا دلیٔ ساقیٔ میخانہ ہے
صف بصف مستوں کی ٹولی ہے پرا باندھے ہوئے
نعرۂ تکبیر سے گونجا ہوا میخانہ ہے
کیوں نہ ان بندوں کی قسمت پر فلک کو رشک ہو
رحمتِ حق جن کے شانوں سے ملائے شانہ ہے
ہوشیار اے مُرغِ شاخِ نخلِ طوبیٰ ہوشیار
حُبِ دنیا دام ہے حِرص زمانہ دانہ ہے
حُسنِ اخلاق و مروت پر ہے سب کچھ مُنحصر
کوئی اپنا ہے نہ دنیا میں کوئی بیگانہ ہے
بوئے اُلفت گر نہیں تجھ میں تو ہے ننگِ چمن
دیکھ سبزہ جُزوِ گلشن ہوکے بھی بیگانہ ہے
غور سے سن برقؔ کے اشعار اور دل سے سمجھ
کام کی باتیں ہیں گو انداز گُستاخانہ ہے
تبصرے بند ہیں۔