روداد ادبی اجلاس و مشاعرہ، حلقہ ادب اسلامی، قطر

رپورٹ: عامر شکیب

( دوحہ قطر)

  قطر میں بھوپال اور لکھنؤ بھی ہے دلّی اور حیدرآباد بھی ہے، قطر میں اردو زبان و ادب کی بڑی خدمات ہورہی ہیں، یہ بازگشت کل تک ہمیں وطن میں سنائی دے رہی تھی، آج ہم نے بنفسِ نفیس اپنی آنکھوں سے حقیقت کی شکل میں دیکھ لیا….. ‘‘ یہ کلمات تھے برکت اللہ یونیورسٹی بھوپال کے سابق پروفیسر ڈاکٹر حسان خان ندوی صاحب کے جو حلقہء ادب اسلامی قطر کے ماہانہ اجلاس ومشاعرے میں اپنی تاثراتی گفتگو میں اظہار فرما رہے تھے۔

 حلقہء کا ماہانہ ادبی اجلاس ومشاعرہ حسبِ روایت مہینے کی دوسری جمعرات بتاریخ 14 فروی 2019م کو اپنے مرکز مدینہ خلیفہ جنوبیہ میں منعقد ہوا، جس کی صدارت محترم اشتیاق عالم فلاحی صاحب نے کی، ڈاکٹر محمد حسان خاں ندوی، سابق پروفیسر برکت اللہ یونیورسٹی بھوپال (ہندوستان سے تشریف لائے ہوے) مہمانِ خصوصی کی حیثیت  سے شریک رہے جبکہ دوحہ قطر کے معروف شاعر محترم احمد اشفاق صاحب بحیثیت مہمانِ اعزازی شہ نشیں پر جلوہ افروز رہے، اجلاس کا آغاز نوجوان قاری سید یونس (میکانیکل انجینئر، حیدرآباد) کی خوبصورت مجود تلاوت سے ہوا۔

اجلاس کے ابتدائی حصے کی نظامت صدرِ حلقہ عامر شکیب نے کی، مہمانوں کے استقبال وتعارفی کلمات کے بعد حسب روابت دو نثری تخلیقات پیش ہوئیں، پہلی تخلیق بعنوان (منظوم تاریخ نگاری اور علامہ شبلی نعمانی) ڈاکٹر عطاء الرحمن ندوی نے پیش کیا، جس میں محترم مقالہ نگار نے علامہ شبلی کے کلام سے وہ حصہ پیش کیا جس میں علامہ نے مختلف اسلامی وتاریخی واقعات کا تذکرہ فرمایا ہے جس سے علامہ شبلی کی تاریخ پر گہری نظر رکھے جانے کے علاوہ اسے منظوم انداز میں پیش کرنے کی قدرت اور مہارت پر روشنی پڑ رہی تھی، معلومات سے بھر پور جامع وبلیغ ڈاکٹر صاحب کی اس تحریر سے سامعین خوب محظوظ ہوئے، جو بقول صدر اجلاس ایک زبردست علمی اضافہ تھا۔

 نثری حصے میں دوسری تخلیق بعنوان ( پالتو اور غیر پالتو جانوروں کا اجتماع عام) محترم تجمل حسین صاحب نے پیش کیا، جس میں انسانی معاشرے کے مختلف منفی پہلؤوں کو استعارہ کی شکل میں اجاگرکیا گیا تھا، تجمل حسین صاحب کی یہ تخلیق زبان اور بیان کے اعتبار سے ایک جاندار تحریر تھی، سامعین نے طنزو مزاح سے پُر اس تحریر کی بھر پور پذیرائی کی۔

 مذکورہ دونوں دلچسپ اور پر مغز تخلیقات کے بعد چائے نوشی کا وقفہ رہا جس کے بعد شعری نشست سجائی گئی، جس کی نظامت دوحہ کے ابھرتے ہوئے شاعر راقم اعظمی نے کی، مشاعرہ میں جملہ 15 شعراء نے ا پنے منتخب اور تازہ نظموں اور غزلوں سے محفل کو آراستہ کیا، محفلِ مشاعرہ کے بعد شہ نشیں پر تشریف فرما صدر و مہمانوں نے اظہارِ خیال کیا۔

اجلاس کے مہمانِ اعزازی محترم احمد اشفاق صاحب کا شمار دوحہ کے معروف شعراء میں ہوتا ہے، 2014 م میں (دسترس) کے نام سے آپ کا مجموعہء کلام شائع ہو چکا ہے، اجمل پرفیومس کمپنی قطر، میں آپ ایک اہم عہدے پر فائز ہیں، اپنی تاثراتی گفتگو میں ایجاز سے کام لیتے ہوے اولاً تو آپ کی عزت افزائی پر حلقہ کے ذمہ داروں کا شکریہ ادا کیا، ثانیاً آج کی معیاری وکامیاب نشست پر حاضرین کو مبارکباد کا قیمتی نذرانہ پیش کیا۔

 اجلاس کے مہمان خصوصی ڈاکٹر محمد حسان خاں ندوی نے حمد و صلاۃ کے بعد آج کی نشست پر جامع تبصرہ کی ابتداء ان الفاظ سے کی: قطر میں بھوپال بھی لکہنؤ بھی آباد ہے اور دلی و حیدرآباد بھی آباد ہے، قطر میں اردو کے تئیں خدمات کی بازگشت ہمیں اپنے وطن میں وقتا فوقتا سنائی دیتی رہی تھی، مگر آج ہم نے بنفسِ نفیس اس کو اپنی آنکھوں سے دیکھا بھی اور محسوس بھی کیا۔

 اپنی گفتگو میں اسلامی مآخذ کے حوالے دیتے ہوے ادبِ اسلامی پر مختصر و جامع روشنی ڈالی، جس میں ایک اہم نکتہ یہ بتلایا کہ اسلام نے ہر چیز میں اعتدال اور توازن کو بر قرار رکھا ہے، شعر و شاعری کے باب میں بھی ایک طرف کلام الہی نے شعراء کی مذمت کی تو وہیں بلند کردار شعراء کی تعریف وتوصیف کی، جب کہ کلام نبوی نے حکیمانہ شاعری کی حوصلہ افزا‏ئی کی، یہاں مہمان موصوف نے شعراء کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے آپ کو مطلوبہ اسلامی صفات ڈھالنے کی کوشش کریں، تاکہ وہ الہی مذمت سے خود کو محفوظ رکھ سکیں، عالمِ اسلامی میں عموما اور برّصغیر میں خصوصاً ادب اسلامی کی فکری اٹھان پر بھی آخر میں روشنی ڈالی۔

 صدارتی کلمات میں محترم اشتیاق عالم فلاحی نے آج کے اجلاس کی خصوصیات کا تذکرہ فرماتے ہوے کہا کہ ایک طرف  جہاں ہم نے ہندوستان سے تشریف لائے ہوے مہمان محترم حسان خاں ندوی صاحب سے استفادہ کیا تو وہیں دوسری طرف نثری حصے میں شاندار مضامین پیش کئے گئے تیسری طرف آج کا مشاعرہ ہمیشہ کی طرح معیاری اور خوب رہا، موصوف نے فرما یا کہ قطر ایک ایسا گلستاں ہے جہاں صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ بر صغیر کے سارے رنگ اور خوشبوئیں گویا جمع ہوگئی ہیں، ہمیں چاہیے کہ اس عظیم نعمت کو محسوس کریں، یہاں کے اردو شعراء و ادباء  کی اب یہ ذمہ داری ہے کہ اس خوبصورت ادبی گلستاں کی حفاظت کرتے ہوے اسے پروان چڑھانے کی ہراعتبار سے کوشش کریں۔

 سٹیج سے دونوں مہمان اور صدرِ اجلاس کے بھر پور تبصرہ کے بعد محترم مظفر نایاب صاحب(نائب صدر حلقہ) نے مہمانوں اور حاضرین (خواتین وحضرات) کا شکریہ ادا کیا، اور حلقہ کی دیرینہ روایت کے مطابق ایک یادگار تصویر کو محفوظ کرتے ہوے اس نشست کی برخواستگی کا تقریباً ساڑھے بارہ بجے اعلان کیا۔

 قارئین کے استفادہ کے لئے شعراء کے منتخب اشعار پیش ہیں :

احمد اشفاق (مہمان اعزازی)

اسے یہ ضد تھی کہ سر کرلے معرکے سارے

مگر یہ ہو نہ سکا اپنی جان سے بھی گیا

 ہماری نسل کو جانے یہ کیا ہوا اشفاق

محبّتوں کا وہ لہجہ زبان سے بھی گیا

 عتیق انظر

نہ مل سکا تری لہروں میں بھی قرار مجھے

سمندر اپنی تہوں میں ذرا اتار مجھے

 فلک کو توڑ دوں میں اپنی آہ سے لیکن 

زمین والوں سے بے انتہا ہے پیار مجھے

 شاد آکولوی

 جو دوسروں کے اثر سے نجات پا نہ سکے 

وہ زندہ رہ کے مقامِ حیات پا نہ سکے

 لہو خلوص کا شامل نہ تھا رفاقت میں

تو دوستی کے تقاضے ثبات پا نہ سکے

 یوسف کمال

بتاؤ تم مری آنکھوں میں کیوں سمائے ہو 

ابھی میں غیر ہوں تم بھی تو پرائے ہو

 اے میری راہ میں کانٹے بچھانے والو کہو 

 بجائے کانٹوں کے پلکیں یہ کیوں بچھائے ہو

 افتخار راغب

عظیم چاک پہ تھی انکسار کی مٹی 

  بنا تھا کوزہ کوئی شاہکار، یعنی میں

 مرے خدا نہیں تھمتا یہ ظلم کا طوفاں 

اور اس کے سامنے مشتِ غبار، یعنی میں

 مظفر نایاب

نمودِ صبح کے آثار کیوں نہ ہوں معدوم 

اذانِ مسجدِ طیبہ اگر بلال نہ دے

 معاملاتِ نجی میں نہ دخل دے ان کے 

وگرنہ آپ کی پگڑی کوئی اچھال نہ دے

 سید شکیل

صبحِ نو آئے گی گر دستِ کرامات کے ساتھ۔ 

وہی ہوتا ہے جو ہوتا رہا حالات کے ساتھ

 چاندنی ابر کے پردے میں سزا ہوتی ہے 

 آسماں کھل کے برستا ہی نہیں رات کے ساتھ

 تجمل حسین

ہم بھی روئے تھے مگر بزم سے ہٹ کر روئے

تنگیء دامنِ محفل سے چمٹ کر روئے

 اللہ حافظ بھی کہا اور تبسم بھی کیا 

پھر ذرا دور گئے اور پلٹ کر روئے

 شجاع الدین شاہد (مہمان زائر بھارت)

وہ ممتحن ہے، مگر امتحان دیتا ہے 

کسان فصل لگا کر لگان دیتا ہے

 یہ پیار، عشق، محبت، کتابی باتیں ہیں 

کہاں کسی کے لئے کوئی جان دیتا ہے

 وصی الحق وصی

وہ ایک خواب جو در پردۂ نگاہ رہا 

تمام عمر سفر میں وہ زادِ راہ رہا

 کبھی زوال تھا تمہیدِ اوج کی صورت 

کبھی عروج کوئی جیسے انتباہ رہا

 اشفاق دیشمکھ

بنا میک اپ جو اس نے دیکھا چہرہ اپنا در پن میں 

نظر آیا تھا ٹوٹا آئینہ پھر مجھ کو آنگن میں

 برا کچھ بھی نہیں اک جسم کو اک تن اگر کہہ دوں 

برا کیا ہے بتا پھر جانِ جاں اس لفظ سوتن میں

 رویس ممتاز

 وہ دن گئے ذرا سی کہانی سنی کہ بس 

بس بس کہا یہ ٹھیک ہے فلمیں یہ کی ہیں دس

 کیوں اسکرپٹ پڑھنے کی توفیق ہو بھلا 

پھر اورفلاپ فلموں کے طوفان میں سدا

 عامر شکیب

رنگ، بو، آب اور ہوا کیا ہے 

مظہرِ کُن کے ما سِوا کیا ہے

 بندگی کا نہیں شعور اگر 

زندگانی کا پھر مزا کیا ہے

 راقم اعظمی

وہ بات تری دل پہ مرے آکے لگی ہے

جو بات ابھی تو نے اشاروں میں کہی ہے

 چھاؤں کی طلب ہے تو تجھے چھاؤں مبارک 

ہم خوش ہیں ہمیں دھوپ وراثت میں ملی ہے

 ظریف بلوچ

اس نے جودیکھ کے مجھ سے یوں نگاہیں پھیریں 

اس کی نظروں میں ہوں بیکار، چلا جاوں گا

 دل مرا ٹوٹا تو کہتے ہیں کہ اچھا نہ ہوا

 بن گئے یار ادا کار، چلا جاوں گا

تبصرے بند ہیں۔