روزے کے مفسدات!

مقبول احمد سلفی

وہ امور جن سے روزہ باطل ہوجاتا ہے ۔

٭بلاعذر قصدا ( نہ کہ بھول کر یا جبرا)دن میں کھا پی لینے سے روزۃ ٹوٹ جاتا ہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :

من أكل ناسيًا ، وهو صائمٌ ، فليُتِمَّ صومَه ، فإنما أطعمَه اللهُ وسقاهُ(صحيح البخاري:6669)

ترجمہ: جس شخص نے روزہ کی حالت میں بھول کر کھا لیا تو اس پر لازم ہے کہ وہ اپنا روزہ مکمل کرے ۔ یقینًا اللہ ہی نے اسے کھلایا اور پلایا ہے ۔

اس حدیث سے پتہ چلتا ہے بھول کر کھاپی لینے والا کا روزہ صحیح ہے مگر عمدا کھانے پینے والا کا روزہ باطل ہوجائے گا۔

بلاعذر شرعی عمدا رمضان کے دن میں کھاپی لینا کبیرہ گناہ ہے ۔ اس سلسلے میں شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ لکھتے ہیں :”بغیر عذر کے رمضان کا روزہ چھوڑنا کبیرہ ترین گناہ ہے، اس عمل کی وجہ سے انسان فاسق ہو جاتا ہے، اس پر اللہ تعالی سے توبہ کرنا ضروری ہے، اور اس دن کی جلد از جلد قضا بھی دے”۔(مجموع فتاوى ورسائل ابن عثیمین19/ 89(

صحیح قول کی روشنی میں  ایسے آدمی کا حکم یہ ہےکہ وہ صرف اس روزے کی قضا کرے گا جو توڑا ہے اور گناہ کبیرہ کے ارتکاب کی وجہ سے سچے دل سے توبہ کرنا ہے ۔

٭ بلاعذربحالت روزہ قصدا جماع کرنے سے روزہ باطل ہوجاتاہے۔ اس کی قضا اور کفارہ دونوں ہے ۔

 کفارہ : ایک غلام آزادکرنا یا دو مہینے مسلسل روزے رکھنا یا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا:

بَيْنَمَا نَحْنُ جُلُوسٌ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ جَاءَهُ رَجُلٌ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَلَكْتُ قَالَ مَا لَكَ قَالَ وَقَعْتُ عَلَى امْرَأَتِي وَأَنَا صَائِمٌ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَلْ تَجِدُ رَقَبَةً تُعْتِقُهَا قَالَ لا قَالَ فَهَلْ تَسْتَطِيعُ أَنْ تَصُومَ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ قَالَ لا فَقَالَ فَهَلْ تَجِدُ إِطْعَامَ سِتِّينَ مِسْكِينًا قَالَ لا قَالَ فَمَكَثَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَبَيْنَا نَحْنُ عَلَى ذَلِكَ أُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَرَقٍ فِيهَا تَمْرٌ وَالْعَرَقُ الْمِكْتَلُ ( وهو الزنبيل الكبير ) قَالَ أَيْنَ السَّائِلُ فَقَالَ أَنَا قَالَ خُذْهَا فَتَصَدَّقْ بِهِ فَقَالَ الرَّجُلُ أَعَلَى أَفْقَرَ مِنِّي يَا رَسُولَ اللَّهِ فَوَ اللَّهِ مَا بَيْنَ لابَتَيْهَا يُرِيدُ الْحَرَّتَيْنِ أَهْلُ بَيْتٍ أَفْقَرُ مِنْ أَهْلِ بَيْتِي فَضَحِكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى بَدَتْ أَنْيَابُهُ ثُمَّ قَالَ أَطْعِمْهُ أَهْلَكَ (صحيح البخاري :1936)

ترجمہ: ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ یہ بدنصیب رمضان میں اپنی بیوی سے جماع کر بیٹھا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ تمہارے پاس اتنی طاقت نہیں ہے کہ ایک غلام آزاد کرسکو؟ اس نے کہا کہ نہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر دریافت فرمایا کیا تم پے در پے دو مہینے کے روزے رکھ سکتے ہو؟ اس نے کہا کہ نہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر دریافت فرمایا کہ کیا تمہارے اندر اتنی طاقت ہے کہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا سکو؟ اب بھی اس کا جواب نفی میں تھا۔ راوی نے بیان کیا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک تھیلا لایا گیا جس میں کھجوریں تھیں ” عرق زنبیل کو کہتے ہیں “ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے لے جا اور اپنی طرف سے ( محتاجوں کو ) کھلادے، اس شخص نے کہا میں اپنے سے بھی زیادہ محتاج کو حالانکہ دو میدانوں کے درمیان کوئی گھرانہ ہم سے زیادہ محتاج نہیں آپ نے فرمایا کہ پھر جا اپنے گھر والوں ہی کو کھلا دے۔

٭ حیض ونفاس آنے سے بھی روزہ ٹوٹ جاتا ہے ۔ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے :

أَلَیْسَ إِذَا حَاضَتِ الْمَرْأَة لَمْ تُصَلِّ وَلَمْ تَصُمْ (صحیح البخاري:293)

ترجمہ: کیا ایسانہیں ، جب عورت حائضہ ہوجاتی ہے وہ نہ نماز پڑھتی ہے اور نہ ہی روزہ رکھتی ہے۔

رمضان بعد عورت کو بس روزے کی قضا کرنی ، نماز کی قضا نہیں ۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:

كنَّا نَحيضُ على عَهْدِ رسولِ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ، ثمَّ نَطهرُ ، فيأمرُنا بقضاءِ الصِّيامِ ، ولا يأمرُنا

بقضاءِ الصَّلاةِ(صحيح الترمذي:787)

ترجمہ: ہم عہد نبویﷺ میں حائضہ ہوجاتی تھیں ، پس ہمیں روزے کی قضاء کا حکم دیا جاتا تھا جب کہ نماز کی قضا کا حکم نہیں دیا جاتا تھا۔

بعض عورتیں روزہ رکھنے کی وجہ سے حیض روکنے والی گولی کھاتی ہیں اس سے پرہیز کرنا چاہئے  کیونکہ ایک طرف یہ گولی نقصان دہ ہے تو دوسری طرف حیض بنات آدم کی فطرت میں سے ہے اسے اپنے حال پہ چھوڑ دینا چاہئے  الا یہ کہ شدید ضرورت ہو۔

اگر عورت روزے سے ہو اور دن میں کسی وقت یا مغرب سے پہلے حیض آجائے تو روزہ فاسد ہوگیااور جب حیض سے دن میں پاک ہوجائےتو دن کا بقیہ حصہ بلاکھائے گذارے لیکن اس دن کی بھی قضا کرنی ہے۔

٭ قصدا قے کرنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے ، بعد میں اس روزےکی قضا کرنی ہوگی ۔ نبی کا فرمان ہے :

مَنْ ذرعَه القيءُ فليسَ عليهِ قضاءٌ ، ومَنْ استقاءَ عمدًا فليقضِ(صحيح الترمذي:720)

ترجمہ: جس کو خود قے آ گئی ( اس کا روزہ برقرار ہے) اس پر قضاء نہیں اور اگر اس نے جان بوجھ کر قے کی، تو اس کو چاہیے کہ وہ قضاء دے۔

٭حالت بیداری میں شہوت سے منی خارج کرنے پر روزہ ٹوٹ جائے گا خواہ مشت زنی کرے یا بوس وکنارکرے۔ اس پہ قضا ہے ۔

ابن حجر ہیتمی رحمہ اللہ کہتے ہیں : مشت زنی اور خود لذتی بذات خود روزہ توڑنے کا باعث ہے۔(الفتاوى الفقهية الكبرى2/ 73(

٭ جو اشیاء کھانے پینے کے مقابل ہوں ان سے بھی روزہ فاسد ہوجائے گا۔ مثلا قوت والا انجکشن

٭ عمدا خون کا نکالنا مثلا حجامہ ۔(بعض لوگوں کے نزدیک حجامہ ناقض روزہ نہیں ہے ۔ دونوں قسم کی روایت ہیں تاہم احتیاط بہترہے )البتہ ضرورت کے تحت خون کا چیک اپ کرانا یا خون کا عطیہ دینا اہل علم کے نزدیک جائز ہے۔

تبصرے بند ہیں۔