ہندوستان میں سلسلۂ چشتیہ کا ارتقائی سفر (دوسری و آخری قسط)

سلیمان سعودرشیدی

گجرات

  شیخ بختیار کاکیؒ کے زمانہ ہی میں آ پ کے خلفاء کے ذریعہ یہ سلسلہ گجرات پہنچ چکا تھا  لیکن اس کی نشاۃ ِ ثانیہ نظام الدین اولیا ء کے خلفاء سے ہوئی،شیح محمد حسن صاحب آپ نہر والہ کے مقام پر  رشدو ہدایت کا کام کیا ،اور وہیں سپرد خاک ہوئے،دوسرے شیخ حسام الدین جو ابتداء میں دہلی میں تھے لیکن جب تغلقی فرامین سے دہلی تنگ ہوئی،تب آپ بھی نہر والہ میں مستقل  سکونت اختیار کرلی،مذکورہ کے علاوہ باقاعدہ تنظیمی کام علامہ کمال الدین شیح یعقوب وغیرہ نے انجام دیا۔

  دکن

محمد شاہ تغلق نے صوفیاء کو جبرًادکن بھجوایا تھا،تغلقی فرامین سے جو صوفیاء دکن تشریف لائے،ان میں بڑی تعداد صوفیاء ہی کی تھی ،جن کے ذریعہ یہ سلسلہ دکن  میں پھیلا، جن میں اہم نام خواجہ برہان الدین کا ہے ،آپ نے دیو گیر میں ارشاد وتلقین کا کام انجام دیا،آپ سے پہلے شیخ منتخب الدین زر بخش چشتی جو بابا فریدالدین کے مرید تھے  اپنے شیخ کے حکم سے دولت آباد تشریف لائے تھے۔

 شیخ اکرم تحریر فرماتے ہیں :

منتخب الدین زر بخش چشتی بانسی کے رہنے والے تھے حضرت فرید الدینؒ نے ایک غیبی اشارے کے تحت انھیں دیوگیر (دولت آباد) کی طرف اس وقت بھیجا تھا ،جب یہاں ہنود کا غلبہ تھا ابتداء میں ان کی بڑی مخالفت ہوی ،لیکن وہ ہمت واستقلال کے ساتھ اپنے کام میں مشغول رہے،(6)

دکن میں منتخب الدین زر بخش چشتیؒ کے ذریعہ سلسلۂ چشتیہ کی اشاعت ہوئی ،لیکن  مزیدپروان برہان الدین کے ذریعہ ہوا، آپ کے بعد آپ کے خلیفہ شیخ زین الدین نے اس کی اشاعت  کی ،آپ کے دستِ حق پر بہمنی بادشاہ علاء الدین حسن شاہ نے بھی بیعت کی تھی ،۔

 دکن میں سلسلۂ چشتیہ کی ارتقاء میں ایک اور نام خواجہ محمد گیسو درازؒ کا آتاہے، آپ نے گلبرگہ کو رشدوہدایت کا مرکز بنایا تھا ،عقیدت مندوں میں بہمنی سلطان فیروز شاہ بھی شامل تھا ، عوام وخواص کاآپ کے ساتھ پرخلوص رشتہ تھا،آپ نے اپنی تعلیمات کو تصنیف وتالیف کے ذریعہ بھی پھیلا یا ، جس کے مطالعہ سے آج بھی امت فیض یاب ہورہی ہے ،

خلیق احمد نظامی تحریر فرماتے ہیں :

حضرت سید محمد گیسو دراز دکن پہنچے سلطان فیروز شاہ بہمنی نے علماء ومشائخ اور لشکر شاہی کے ساتھ ان کا خیر مقدم کیا ، حـــضرت گیسودراز ؒ نے گلبرگہ میں چشتیہ سلسلہ کی  ایک عظیم الشان خانقاہ قائم کی ، ان کے خلفاء نے اس سلسلہ کی اشاعت میں بڑی سرگرمی سے کا م کیا ،خود گیسو دراز ؒ نے اپنی تصانیف کے ذریعہ تصوف کے خیالات کو عوام وخواص تک پہنچادیا،(7)

مالوہ

  مدہیہ پردیش ایک کا علاقہ ہے جہاں حضرت نظام الدین اولیاء کے تین خلفاء  شیخ وجیہ الدین یوسف  چند ہری میں  اس سلسلہ کی اشاعت کی(1)شیخ کمالالدین  مالوہ میں پیر کے فرمان سے ارشاد و تلقین کی،سلاطین مالوہ بھی آپ سے منسلک تھے عوام سے بڑی عقیدت رکھتے تھے ،(3)مولا نا مغیث الدین نے مالوہ آکر ’’اجین ‘‘ میں اشاعت دین کا کان اجام دیا ۔

خلیق احمد نظامی تحریر فرماتے ہیں :

ان تین بزرگوں نے چودہویں صدی عیسویں میں چشتیہ سلسلہ کو مالوہ میں روشناس  کرایا،بعد کو چشتیہ سلسلہ کے کچھ اور بزرگ مثلا قاضی اسحاق ؒ جو جید عالم تھے ،اور سلطان علاؤالدین محمود (م۱۴۷۵ء)کے پیر تھے ،وہاں جاکر تبلیغ واشاعت کے کام میں مصروف ہوگئے۔(8)

اب ہم سلسلۂ چشتیہ کی دوسری شاخ پر بات کرینگے :

 سلسلۂ  چشتیہ صابریہ:

جوکہ سلسلۂ چشتیہ کی ایک شاخ ہے جس کے رأس ورئیس شیخ علاؤالدین علی احمد صابر کلیری ہے ، جسے شمالی ہند میں فروغ حاصل ہوا۔

 شیخ صابر کلیری کو ملتان میں پیدا ہوئے ، آپ کا شمار بابا فرید الدین ؒ کے اجل خلفاء میں ہو تا ہے ، فریدالدین ؒ سے منسلک ہونے کے بعد 12؍سال تک آپ کی خانقاہ میں مجاہدات میں مصروف رہے،آپ درویشی میں ثابت قدم اور مستجاب  الدعوات  تھے،آپ کے صرف ایک ہی خلیفہ خواجہ شمش الدین ترک پانی پتیؒ کا ذکر ملتا ہے ، انھیں کے ذریعہ سلسلۂ چشتیہ صابریہ کو فروغ حاصل ہوا ،۔

  شمش الدین ترک پانی پتیؒآپ علومِ ظاھری سے فراغت کے بعد تز کیہ کے باطن کے لیے مر شد کے تلاش میں مختلف صوفیاء سے استفادہ کے بعد ہندوستان پہنچے، جہاں آ پ کی ملاقات با بافرید الدین ؒ سے ہوی ،جہاں اصلاح وتربیت کے بعد خلافت سے نوازے گئے ، لیکن مرشد کی ایماء پر کلیر حاضر ہوئے ، کیونکہ چشتیہ صابریہ کی اشاعت آپ کی ذات سے مقدر تھی ، جب آپ کلیر تشریف لائے تو ایک طویل عرصہ تک حضرت کی خدمت میں رہ کر بلبن کی فوج میں بھی شامل ہوئے

اور یہاں بھی ارشاد وتلقین کی، پھر واپسی کے بعد حضرت صابر کلیری نے پانی پت کی طرف روانہ کیا ،اس طرح یہ سلسلہ پانی پت سے کلیر پہنچا۔

شمش الدین ؒ نے ۷۵؍سال تک پانی پت میں چشتیہ صابریہ کی تعلیمات کی شعائیں بکیھری،ٖآپ سے مستفید ہونے عوام آپ کے خدمت آنے لگے ،بالآخر ایک عالم کو منور کرکے یہ شمش الدین ۷۱۸؁ھ کو ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا،یوں تو آپ کی روحانی کرنو سے شمع حاصل کرنے کی تعداد بے حساب ہے لیکن آپ کی ذات سے خرقہ خلافت پاکر عالم کو منور رکھنے والے  شیخ جلال الدین پانی پتی ہیں۔

 خلیق احمد نظامی تحریر فرماتے ہیں :

مرشدِکامل کی تلاش میں ہندوستان آئے یہاں صابر صاحب ؒ کے دامن سے وابستہ ہوگئے، بعض تذکروں میں لکھا ہے کہ کچھ عرصہ تک سلطان بلبن کی فوج میں بھی رہے  ،مرشدنے قیام کی ہدایت فرمائی،۰۰۰شیخ شمش الدین کے بعدجمال  الدین پانی پتی ؒ مسندِ ارشاد پر بیٹھے ۔(9)

جلا ل الدین کے خلفاء کی تعداد بڑی طویل ہے لیکن عبدالحق رودو لی ؒ آپ کے جانشیں اور سلسلے کے وارث ہوئے۔عبدالحق رودو لی ؒجلا ل الدینؒسے ملاقات کے بعد اجازت وخلافت سے سرفراز ہوکر پانی پت سے رخصت ہوئے ، اور مختلف مقامات کی سیر کرتے ہوئے اپنے مولدِ وطن رودولی آ ئے یہاں سلسلۂ چشتیہ کی ایک خانقاہ قائم کی ، جو اس سلسلہ کاسب سے اہم اور پہلا مرکز تھا ،یہ وہ وقت ہے جب دہلی واطراف سلسلہ چشتیہ سے تہی دامن تھا ،آپ کے ذریعہ سلسلسہ ٔ چشتیہ  کو نئی ز ندگی ملی ، آپ نے رودولی میں رشدوہدایت کا اہم کام انجام دیا،آپ کے خلفاء میں آپ کے شہزادے احمد عارف آپ کے بعد محمدبن عارف اس سلسلہ کے میر کارواں ہوئے جن سے شیخ عبدالقدوس ؒ جیسی شخصیت وابستہ ہوئی ،جو اس سلسلہ کے مؤسسِ ثانی ہیں ۔

شیخ عبدالقدوس گنگوہیؒ :

 ہندوستان کے ان صوفیاء میں آپ کا شمار  ہوتا ہے  جن کے شخصی ورو حانی اثرات سے ایک عالم متاثر ہوا ،آپ رود ولی میں ۸۵۲؁ء میں پیدا ہوئے ،تعلیم کے ابتدائی مرحلہ عشق الہی سے سرشار تھے ،پھر محمد بن عارف سے منسلک ہوکر اجازت وخلافت کے بعد ردولی کی خانقاہ میں لگے رہے ،وہاں سے شاہ آباد منتقل ہوئے ،جہاں ارشاد وتلقین کے بعد گنگوہ آئے،جہاں تادم ِ حیات خدمت خلق واصلاح نفوس میں لگے رہے ،یہ وہ زمانہ تھا جب مغلوں کے حملوں کی بناء پر حالا ت ناگفتہ تھے ،آپ ان حالات سے کنارہ کش ہوکر جمنا کے کنارے ’’کتانہ‘‘ میں عارضی قیام کیا ،ابراہیم لودھی کے  لشکر کے ساتھ کچھ وقت گزار کردوبارہ گنگوہ تشریف لائے ،آپ نے لودھیوں سے مغلوں تک ۵؍فرمارواؤں کا دور  دیکھا ہے ،آپ  نے ان حکمرانوں کو خطوط کے ذریعہ اتباع  شریعت وعدل وانصاف کا پابند بنایا ،لودھیوں میں سکندر لودھی  آپ کا بڑامعتقد تھا ،یہی وجہ تھی کہ اس کے عہد میں شعائر اسلام کارواج  عام ہوا،آپ نے نظام اسلامی کے قیام شریعت کے فروغ ،نظام حکومت   کو خلافت راشدہ کے طرز پر ڈھالنے کی ہر ممکن کو شش کی ۔

آپ نے وفات سے کچھ سال پہلے گوشہ نشینی اختیار کرلی تھی ،آپ کے خلفاء میں آپ کے صاحبزدگان  کے علاوہ کئی اور ہیں ،لیکن جلال الدین تھانیسری نے اس نظام کو سنبھا لا ،اس طرح مرکز گنگوہ سے تھانیسر منتقل ہوئی،  جہاں جلال الدین تھانیسری نے اس کی اشاعت کی ،آپ کے بعد  اس سلسلہ کا ایک بڑا نام  ،شیخ محب اللہ الہ آبادی کا ہے ، شیخ محب اللہ الہ آبادیؒ علوم ظاہری سے تکمیل کے بعد شیخ ابو سعید گنگوہی ؒسے سلسلہ ٔ چشتیہ صابریہ میں بیعت فرمائی ، خلافت کے بعد اپنے شیخ کے حکم سے وطن واپس ہوئے ،20؍سال تک خلق خداکی رشدوہدایت میں مصروف رہے، شاہ وگدا آپ کی مجلس میں برابر شریک رہے ،شاہ جہاں آپ سے بیحد عقیدت رکھتا تھا ،نیز دارا شکوہ بھی خط وکتابت کے ذریعہ آپ سے منسلک تھا ،آپ کے بعد متعدد شخصیات سلسلۂ چشتیہ صابریہ میں سرگرم رہے ۔

ماضی قریب میں سلسلسہ ٔچشتیہ :

 اٹھارویں صدی جوانتہائی پر آشوب اور انحطاط پذیر تھی ،مغلیہ حکومت خانہ جنگی اور عیش پرستوں کا گہوارہ بن چکی تھی،عوام راہِ راست سے بھٹک کر توہمات کی گرفت میں آچکے تھے،اس ناگفتہ بہ صورت حال میں علماء وصوفیاء نے وہ خدمات انجام دی ،جسے پڑھ کر ہندوستان  میں سلسلۂ چشتیہ کا ابتدائی دور یاد آتا ہے ۔اس وقت امروہہ سلسلہ چشتیہ صابریہ کی مرکزی حیثیت سے دینی ،روحانی ، سیاسی ، خدمات انجام دیریا تھا ،جس کے سرگردئہ شخصیات میں شاہ ولی اللہ ؒ ہیں ،جن کی دینی وسیا سی اور سماجی  خدمات نے ہندوستان کو نئی زندگی عطا کی ، شاہ عبد الرحیم ولایتی جو اصلاافغانستان کے تھے، لیکن ہندوستان پہنچ کر ابتدامیں سلسلہ ٔ قادریہ سے منسلک رہے ،پھر سلسلۂ چشتیہ  صابریہ کے بزرگ عبدالباری ؒ امرو ہوی کے حلقہ ٔ ارشاد میں شامل ہوگئے ،آپ عوا م وخواص میں  اس قدر مقبول تھے کہ سہارنپور ،انبالہ اور مظفر نگر کے عوام کو پنی اعقیدت میں لے لیا تھا،آپ ہی کے ایک خلیفہ میاں جی نور محمد جھنجھاوی جن کے حلقۂ ارادت سے حاجی امداد اللہ مہاجر مکی ؒ منسلک تھے ۔

خلیق احمدنظامی تحریر فرماتے ہیں :

اٹھار ویں صدی میں جب کہ مسلمانان ِ ہند کا سیاسی نظام نہایت تیزی کے ساتھ زوال پزیر ہورہا تھا، اور ہر طرف اخلاقی ابتری اور زبوں حالی پھیلی ہوئی تھی ،چشتییہ سلسلہ کا دور جدید  واحیاء شروع ہوا۔ اصلاح وتر بیت کا ایسا نظا م قائم کیا کہ دور اول کا نقشہ سامنے پھرگیا۔

حاجی امدد اللہ مہاجر مکی ؒ قصبہ نانو تہ میں پیدا ہوے ،ابتدائی تعلیم کے بعد علومِ باطنی کی طرف متوجہ ہوے ،جس کے لیے آپ نے دہلی کا سفر کیا ،جو علماء ومشائخ کامرکز تھا ، مولا نا نصیر الدین کے حلقہ میں شامل ہوکر سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ سے منسلک ہوئے ،حضرت کی وفات کے بعد میاں جی نور محمد جھنجھاوی کے حلقہ ارادت میں شامل ہوئے ،جس کا آپ کو خواب کے ذریعہ اشارہ ملا تھا،کچھ  وقت کے بعد سفرحج پر روا نہ ہوئے،واپسی کے بعد انکساری کے سبب عوام کی بیعت سے انکار کرتے رہے مگر جب سلسلہ شروع ہوا تو مرجعِ خلائق بنے،آپ کی خانقاہ تھانہ بھون میں ہر وقت عوام وخواص کا ہجوم رہتاتھا،جن میں علماء کی تعداد غالب تھی ،آپ کے خلفاء ومریدین کی  تعداد بے حساب ہے ،جن کے ذریعہ ہندوستان کے علاوہ مصر، ترکی،اور شام میں سلسلہ چشتیہ صابریہ کی اشاعت کا کام عمل میں آیا ، انھیں بے نفس پاکباز شخصیتوں میں مولنا اشرف علی تھانوی ؒ،مولنا رشید احمدگنگوہیؒ ،مولنا قاسم نانوتویؒ اور مولناانوار اللہ فاروقیؒہیں ،جن میں سے ہر ایک اپنی جگہ اشاعتِ اسلام کامینارہ نور ہے،

خلیق احمدنظامی تحریر فرماتے ہیں :

میاں جی نور محمد جھنجھانوی متوفی ۱۲۵۹؁ء کے دامن تربیت سے ایک ایسا شخص اٹھا،جس نے صابریہ سلسلہ کو عروج کی انتہا ئی منزل پر پہنچادیا،حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کے فیوض ہندوستان تک ہی محدود نہ تھے ،دیگر ممالک میں بھی اس کے اثرات پہنچے،ابتدائی تعلیم وتربیت کے بعد حجازچلے گئے،اور وہاں سے واپس چلے آئے،تو ارشاد وتلقین کا ہنگامہ برپا کردیا ۔(11)

خلاصہ :

 پوری دنیا میں اولیاء وصوفیاء نے اسلام کی تبلیغ وترویج میں جو  نمایا کردار اداکیا وہ اہل فہم پر روشن ہے،بالخصوص ہندوستان میں ،جہاں سلاطین نے اپنی فتوحات کے پرچم لہرائے ، وہی صوفیاء نے اپنی روحانی توجہات سے لوگوں کے دلوں کو تسخیر کیا ،لیکن جب ان سلاطین کو عروج حاصل ہونے لگا تو جاہ ومنصب سیم و زرکی ہوس میں آپسی رسہ کشی  اور خانہ جنگیوں کا شکار ہوگئے، لیکن صوفیاء نے اس دور میں دین ومذہب کی تبلیغ کے لیے اپنے آپ کو مصروف رکھا،یہی وجہ ہیکہ ہندوستان میں اسلام کو جتنی قوت صوفیاء سے ملی اتنی سلاطین سے نہیں مل سکی،انہیں پاک باز ہستیوں کا ثمرہ ہے کہ آج دنیاء اسلام  میں ہندوستان اسلامی روحانیت کا مرکز تصور کیا جاتا ہے،سلاطین کا اقتدار تو انکی نا اہلی اور چپقلش کے سبب ختم ہوگیا،لیکن صوفیا کی سلطانی اور حکمرانی آج بھی قائم و دائم ہے۔

 مصاد ر و مراجع

6۔ شیخ محمد اکرم :آبِ کوثر ص342   نقوش پریس لاہور 2006ء

7۔  نظامی،خلیق احمد  :تاریخ مشائخ چشت ص362  مشتاق بک کارنر، الکریم مارکٹ اردو بازار، لاہور

8۔ نظامی،خلیق احمد  :تاریخ مشائخ چشت ص232  مشتاق بک کارنر، الکریم مارکٹ اردو بازار، لاہور

9۔ نظامی،خلیق احمد  :تاریخ مشائخ چشت ص233  مشتاق بک کارنر، الکریم مارکٹ اردو بازار، لاہور

10۔ نظامی،خلیق احمد  :تاریخ مشائخ چشت ص246  مشتاق بک کارنر، الکریم مارکٹ اردو بازار، لاہور

11۔ نظامی،خلیق احمد  :تاریخ مشائخ چشت ص248 مشتاق بک کارنر، الکریم مارکٹ اردو بازار، لاہور

تبصرے بند ہیں۔