ریاست جموں و کشمیر کی سیاسی بساط!

ایم شفیع میر

 ریاست جموں و کشمیر میں میں نام نہاد لیڈرکثرت سے پائے جاتے ہیں ۔ یہ شاید واحد شعبہ ہے جس میں ریاست جموں و کشمیرخود کفیل ہے۔ اس کے لیے کسی غیر ریاست کی امداد کا سہارا نہیں لینا پڑتا۔بہت بار ایسا ہوا کہ عوام نے دل میں خدمت ِ خلق کا جزبہ رکھنے والے رہنما کی ضرورت محسوس کی اورحالیہ دور میں اِ س ضرورت نے شدت اختیار کر رکھی ہے لیکن ریاست میں آج تک عوامی امیدوں کے مطابق کسی لیڈر نے جنم ہی نہیں لیا جو حقیقی معنوں میں اپنے اندر عوامی خدمت کا جذبہ رکھتا ہو۔اس تمام صورتحال کو لیکر ریاست کی عوام نے ہمیشہ سے ہی ایک اچھے رہنما کے ہونے کا اظہار کیا لیکن کسی اچھے رہنما کے جنم لینے سے قبل ہمارے نام نہاد خیرخواہ ہمیں کسی نہ کسی عزیز سے نواز دیتے ہیں ۔ یعنی ہماری ضروریات کا مکمل خیال رکھا جاتا ہے یا اس کو ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے خیر خواہ اپنی ضروریات کا خیال رکھتے ہیں ۔

 اس ریاست میں لیڈر اتنی وافر مقدار میں دستیاب ہیں کہ عوام کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ وہ کس کا دامن پکڑ کر مشکلات کا دریاعبور کریں ۔ اور یہ تمام لیڈران بھی اپنی مثال آپ ہوتے ہیں ۔ یہ اپنی ازلی خصلت کے ماتحت عوام کو کبھی پار نہیں لگاتے۔کیوں کہ اگر وہ ایسا کر دیں تو ان کو پھرلیڈر بننے کا موقع میسر نہیں ہو گا۔ اور اسی خیال میں وہ ہمیشہ عوام کوبیچ منجھدار پر چھوڑنا اپنا فرضِ اولین سمجھتے ہیں ۔ اور اسی میں ان کی بقاء ہوتی ہے۔

یہ وافر مقدار میں پائی جانے والی لیڈر کی قسم دراصل لیڈر نہیں ہوتے انہیں عام زبان میں سیاستدان کہا جاتا ہے۔ یہ لیڈر صرف اپنی دانست میں ہوتے ہیں اور خود کو ’’اَن داتا‘ ‘تصور کر لیتے ہیں ۔ ان کے خیال میں وہ عوام کے سب سے بڑے خیر خواہ ہوتے ہیں اور ان کی ایک آواز پہ ہزاروں لوگ لبیک کہنے کو تیار ہوتے ہیں ۔ریاست جموں و کشمیرکی بدقسمتی ہے کہ اس کو سیاستدان تو بہت سے میسر آئے لیکن لیڈر یا رہنما جتنے ملے وہ انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں ۔ اس وقت ریاست میں جو سیاستدانوں کی فوج ہے اسے دیکھ کے بے ساختہ دل کی دھڑکیں ذہن کا طواف کرنے لگتی ہے اور شاید ریاست میں سیاستدانوں کی تعدادان دھڑکنوں سے بھی زیادہ ہو گی۔ کیوں کہ یہاں ہر وہ شخص سیاستدان ہے جس کے پاس چند لاکھ روپے اورزبان درازی کا ڈپلوموجود ہے۔لیکن افسوس کہ ہمیں لیڈر بہت کم میسر آئے۔ جس کی وجہ سے ہی ریاست میں بے شمار وسائل ہوتے ہوئے بھی ریاست تباہی کے دہانے پر کھڑی  ہے۔

 خود کو لیڈریا رہنما سمجھنے والے حضرات ذرا غور کریں کہ جب کسی شخص میں رہنما یا لیڈر کے جراثیم ہوتے ہیں تو وہ اپنے مفادات کو پس پشت ڈال دیتا ہے۔ پھر اُسے یہ غرض نہیں رہتی کہ سیلاب کے پانی میں کھڑے ہو کر تصویریں بنوائے یا پھر سودن کا روز گاراسکیم کے تحت کسی راستے کا افتتاح کرتے ہوئے کیمرے کا فلیش اس کے چہرے پر پڑے یا پھر اخبارت میں مبارکبادی کے اشتہارات دیکر اپنی جھوٹی شان کو بڑھائے اور عوام کے سامنے توجہ کا مرکز بننے کی مشق کرے بلکہ جب اس میں راہنما جیسے اوصاف پیدا ہو جائیں تو وہ بغیر کسی ذاتی مفاد کے لوگوں کی خدمت کو ترجیح دیتا ہے۔

  سیاستدان اور لیڈر میں فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ ایک سیاستدان لعن طعن سن کر بھی منافقانہ مسکراہٹ کی لالی چہرے پہ سجائے رکھتا ہے۔ لیکن ایک لیڈر اگر چند دنوں کیلئے ہی لیڈر بنا تو وہ ایسا کوئی کام کر جاتاہے کہ لوگوں اُس کی چند دنوں کی محنت کو صدیوں تک یاد کرتے رہتے ہیں ۔بے شک اُس کا اپناذاتی کردار کیسا ہی ہو۔یاد رہے جب لفظ صفحات کی زینت بنتے ہیں تو ہو سکتا ہے لکھنے والا عوام کے سامنے کاغذوں کے ٹکڑے کرنے والے سے ہزار اختلافات رکھتا ہو لیکن پھر بھی شاید وہ ان سیاستدانوں سے بہر حال بہتر تصور کیا جا سکتا ہے جو ہاتھ باندھ کر جی حضوری کو اپنی کامیابی تصور کرتے ہیں ۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسے بھی رہنما اس دنیا سے ہو گزرے ہیں جنھوں نے اُس وقت بھی دولت دیکھی جب عوام غلامی کی کی زنجیروں میں قید تھی ۔لیکن ان کے لیے روپے پیسے سے بڑھ کر کچھ مقصد تھااور اسی مقصدیت نے ان کو ایک عظیم رہنما کے طور پر متعارف کرایا۔وہ ایک سیاستدان تھے لیکن ان کے خمیر میں خصوصیات ایک رہنما کی تھیں ۔ اسی لیے تو لوگ آج تک اپنے دل میں ان کے لیے عزت رکھتے ہیں ۔ جب سیاستدان اپنی زمینیں ، جاگیریں و ملیں بچانے کے لیے سیاست کریں ،سرمایہ داری کی دنیا میں ڈوبے رہیں پھر عوام کے دل میں گھر نہیں کر سکتے۔ عوام کا لیڈر تو اس شخص کو ہونا چاہیے جس کے پاس پیسہ کمانے کا موقع بھی ہو پھر بھی وہ اپنی عوام کا سوچے جس عوام نے انہیں اس قابل بنایا ہے خواہ اس کے پیچھے محدود لوگ ہی کیوں نہ ہوں لیکن اُس بھاری تعداد سے بہتر ہیں جن کے ضمیر مکار اقتدار کی لاچ میں بک چکے ہوں …بد قسمتی اس قوم کی کہ اس کے کرتا دھرتاعربوں کے مالک اور عوام سڑکوں پہ خوار،شاعر نے شاید یہ شعرسیاسی حالات کے متعلق ہی کہا تھا کہ……

یہاں تہذیب بکتی ہے، یہاں فرمان بکتے ہیں

ذرا تم دام تو بدلو ، یہاں ایمان بکتے ہیں

  مجھے موجودہ در کے نوجوان طبقہ سے اُمید کے کہ یقیناجب وہ ماضی کے اوراق پلٹیں گے اور سیاست دانوں کی جی حضوری کرنے والوں کے کرتوتوں کو پرکھیں گے تو وہ بھیڑ چال میں فیصلہ نہیں کریں گی۔ بلکہ وہ حالات و واقعات کا مشاہدہ عقلی دلائل سے کریں گے۔ وہ ان سیاستدانوں کو نہیں سراہیں گی جنہوں نے اپنا سرمایہ تک اس ریاست میں رکھنا گوارا نہ کیا۔ جنہوں نے اس ریاست کے غریب طبقے کو تعمیرو ترقی کالالی پاپ دکھا کر ایک ایک کو موت کے گھاٹ اُتارا ۔لیکن سیاست دانو! یاد رکھو…عوامی نظر میں وہی سیاستدان لیڈر کا رتبہ پائے گا جو دولت کے انبار میں سے خود کو نکال کر اس دیس میں لایا۔ جس کے اس دعوے میں حقیقت ہو گی کہ اس کا کوئی ذاتی مفاد نہیں ہے۔ اور لیڈر یا رہنما تو کہا ہی اسے جا سکتا ہے جو چند دن کے مفاد کے بجائے آنے والی نسلوں کے دلوں میں زندہ رہنے کی جہدو جہد کرے۔ناکہ اپنی تمام تر بکواسیات میں اپنی جابرانہ سیاسی بساط کو قائم رکھنے کیلئے عوام سے ووٹ حاصل کر کے کہ ’’فلاں جگہ سے تبدیلی آئیگی‘‘ کا فارمولہ اپنائیں ۔ عوام کو کبھی ’’اٹانمی‘‘ ،’’ہیلنگ ٹچ ‘‘، تو کبھی ’’ سیلف رول‘‘  جیسے فارملوں سے بہلانا کہ ہاں روشن اور سرخ مستقبل کی نئی سحر یہیں سے طلوع ہو گی اچھی لیڈر شپ کا ثبوت نہیں بلکہ عوام کو طرح طرح کے فارمولے دکھا کر اپنے چالبازیاں جاری رکھنے کا کھلم کھلا ثبوت ہے۔حکمرانوں کی ان ہی چالبازیوں نے ریاست کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کر دیا ہے ۔

اقتدار کی آپسی لڑائیوں نے ریاست جموں کشمیر کو بارود کا ڈھیر بنا کر رکھ دیا ہے ۔اقتدار حاصل کرنے کی خاطر حکمران طبقے کی ساری لڑائیاں اور نورا کشتیاں چاہے کسی بھی مقصد کیلئے ہوں لیکن ریاستی عوام کیلئے لمحہ بہ لمحہ موت کا پیغام ہے ۔چونکہ سیاستدان اقتدار کے نشہ میں بہت کی خطر ناک کھیل کھیل رہے ہیں ۔اقتدار کی آپسی لڑائیوں نے اُسی شاخ کو کاٹنا شروع کر دیا ہے جس پر یہ لوگ خود بیٹھے ہیں ۔ریاست کے سیاستدانوں کے اس ناپاک کھیل میں پورے ملک کو بدنامی اور ذلت کا سامنا ہے۔سیاست کے ان سماج دشمن درندوں نے جبر اور بدعنوانی کی وہ داستانیں رقم کیں کہ یہ دنیا بھر میں اپنی نوعیت کی تمام غنڈہ گرد تنظیموں سے سبقت لے گئے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔