تراویح کے آداب و مسائل!

حفیظ نعمانی

اس سال ہم نے نہ رمضان المبارک کے بارے میں کچھ لکھا اور نہ تراویح کے بارے میں لکھنے کی توفیق ہوئی۔ اس وقت اس لئے لکھنا ضروری سمجھا کہ 12  سال کے بعد جبکہ عمر بھی زیادہ ہوگئی اور کمزوری بھی بڑھنا چاہئے تھی لیکن قارئین کرام جو جموں و کشمیر سے جھارکھنڈ، بہار، بنگال اور مہاراشٹر کے کئی علاقوں سے آندھرا اور تلنگانہ تک پھیلے ہوئے ہیں انہوں نے دعا کی اور پاک پروردگار نے ان کی دعا قبول کی اور یہ گناہگار اپنے پڑوس کی مسجد میں جاکر تراویح پڑھ رہا ہے۔ مسجد کے دو دروازے ہیں اور دونوں میں سیڑھی ہے لیکن ایک دروازہ میں لکڑی کا پلیٹ فارم میرے بیٹوں نے بنوا دیا اور وہیل چیئر سے حاضری ہونے لگی۔

ہم 2004 ء میں قیصر باغ میں آئے ہیں اس کے بعد سے مسجد کے معاملات میں دلچسپی لینا شروع کی اور رمضان شریف کے بارے میں یہ فیصلہ کرالیا کہ سوا پارہ تراویح میں پڑھا جائے گا۔ میں 12  برس سے گھر میں تراویح اکیلا پڑھتا تھا اور اطمینان تھا کہ مسجد میں سوا پارہ پڑھا جاتا ہے۔ اس بار جب خود حاضری ہوئی تو سر پیٹ لیا کہ سوا پارہ بھی اس طرح پڑھا جارہا ہے جیسے پانچ پارے والے حافظ یالمون تالمون پڑھتے ہیں اور کوئی سمجھ نہیں پاتا کہ یہ قرآن عظیم ہے یا کوئی عربی کی دوسری کتاب؟ بچپن میں یعنی 1942 ء میں راقم سطور نے حفظ کیا تھا۔ برسوں تراویح پڑھائی سننے والوں میں حضرت مولانا علی میاں بھی تھے اور والد ماجد مولانا منظور نعمانی تو ہوتے ہی تھے الحمد للہ سب نے دعائیں دیں ۔لیکن مسلسل علالت اور پریس کی زبردست مصروفیت کی بناء پر یہ سلسلہ جاری نہ رہ سکا اور اب حافظہ پر اتنا بھروسہ نہیں ہے جیسے پہلے تھا لیکن الحمد للہ عبور پورا ہے۔ مسجد میں تراویح شروع ہوئیں تو یہ تو نہیں معلوم ہوا کہ یہ قرآن شریف ہے البتہ ایسا محسوس ہوا جیسے قرآن جیسی ہی کوئی کتاب ہے۔

جب برداشت نہیں ہوا تو حافظ صاحب کو میں نے گھر بلایا اور ان سے محبت سے کہا کہ خود بھی گناہگار ہورہے ہو اور سب کو گناہگار کررہے ہو تم ’’ورتل القرآن ترتیلا‘‘ قرآن کو ترتیل سے یعنی ایک ایک حرف صاف ہو ایسے پڑھو۔ خدا کا شکر ہے کہ کل 13  تراویح ہوئی اور میرا نواسہ جو نظر باغ میں رہتا ہے اور وہ یہ سن کر کہ میں روز مسجد جارہا ہوں میرے قریب ہی کھڑا ہوکر تراویح پڑھ رہا ہے۔ اس نے کہا کہ جیسے اس مسجد مں قرآن پڑھا جارہا ہے ایسا تو شاید ندوہ کی مسجد کے علاوہ ہی کسی اور مسجد میں پڑھا جارہا ہو؟

اب ذرا تراویح اور کلام پاک کے بارے میں بزرگوں کے اقوال پڑھ لیجئے۔ اور جائزہ لیجئے کہ آپ کی مسجد میں کیا ہورہا ہے؟

’’قرآ ن مجید سناکر چاہے وہ نماز کے اندر ہو یا نماز کے باہر اس کا معاوضہ لینے پر اللہ کے رسولؐ نے سخت تنبیہ کی ہے۔

’’عمران بن حصین سے روایت ہے کہ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا کہ جو شخص قرآن پڑھے اسے چاہئے کہ اس کے ذریعہ جو کچھ بھی مانگے اللہ ہی سے مانگے ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ لوگ قرآن پڑھیں گے اور اس کا معاوضہ لوگوں سے مانگیں گے۔ ترجمہ حدیث ’’جامعہ ترمذی و مسند احمد‘‘

’’جابر بن عبداللہ کی روایت ہے کہ اللہ کے رسولؐ اپنے حجرئہ مبارک سے نکل کر مسجد نبویؐ میں ہمارے درمیان تشریف لائے ہم لوگ اس وقت قرآن پڑھ رہے تھے۔ ہم میں کوئی عرب تھا کوئی عجمی آپؐ نے یہ دیکھ کر فرمایا۔ پڑھتے جائو تم سب اچھی طرح پڑھ رہے ہو۔ عنقریب کچھ ایسے لوگ سامنے آئیں گے جو قرآن کو نہایت عمدہ طریقہ سے صحت کے ساتھ اس طرح پڑھیں گے جیسے کہ تیر کو نشانہ لگاتے وقت سیدھا کیا جاتا ہے۔ لیکن اس قرآن پڑھنے سے ان کی غرض دینوی منفعت ہوگی نہ کہ اخروی اجرو ثواب۔‘‘  (سنن ابی دائود سنن البہیقی)

’’حضرت بریدہؓ سے روایت کے کہ رسولؐ نے فرمایا کہ جو شخص قرآن اس غرض سے پڑھے کہ اس کے ذریعہ سے روٹی روزی مانگے تو قیامت کے روز اس حالت میں آئے گا کہ اس کے چہرہ پر ہڈی تو ہوگی لیکن اس پر گوشت نہیں ہوگا۔ (ترجمہ حدیث شعب الایمان البہیقی)‘‘

تراویح میں جو کلام اللہ پڑھے یا سنے اس کی اجرت دینا حرام ہے۔

حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ  (فتاویٰ رشید۔ ص 392 )

اجرت دے کر قرآن پڑھنا سننا شرعاً جائز نہیں لینے والا اور دینے والا دونوں گناہگار ہیں ۔ اور اگر بغیر تعین سنایا جائے اور ختم قرآن کے بعد بطور تبرع دیا جائے تو اصح قول کے مطابق یہ صورت بھی ناجائز ہے۔ (مولانا خلیل احمد سہارن پوری فتاویٰ خلیلیہ 48/1 )

حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ فرماتے ہیں حاصل جواب یہ ہوا کہ حاصل مذکور فی السوال محض باطل اور مخالف شرع ہے اور ایسا ختم ہرگز مؤجب ثواب نہیں بلکہ مؤجب معصیت ہے۔ (امداد الفتاویٰ)

قرآن مجید تراویح میں سنانے کی اجرت لینا اور دینا جائز نہیں ۔ (مولانا مفتی کفایت اللہؒ (کفایت المفتی 265/3 )

اجرت پر قرآن مجید درست نہیں اور اس میں ثواب نہیں ’’بحکم المعروف کالمشروط‘‘ جن کی نیت لینے دینے کی ہے وہ بھی اجرت کے حکم میں ہے اور ناجائز ہے۔ اس صورت میں صرف تراویح پڑھنا اور اجرت کا قرآن شریف نہ سننا بہتر ہے اور ایسی تراویح ادا کرلینے سے فضیلت حاصل ہوجائے گی۔ (مفتی اعظم عزیز الرحمن فتاویٰ دارالعلوم 246/4 )

چھوٹی سورتوں سے نماز تراویح ادا کریں اور اجرت دے کر قرآن نہ سنیں کیونکہ قرآن شریف سنانے پر اجرت لینا اور دینا حرام ہے۔ (مفتی اعظم پاکستان مولانا محمد شفیع دیوبندیؒ جواہر الفقہ 382/8 )

اجرت لے کر قرآن پڑھنا اور پڑھانا گناہ ہے اس لئے تراویح میں چند مختصر سورتوں سے بھی 20  رکعات پڑھ لینا اس سے بہتر ہے کہ اجرت دے کر پورا قرآن پڑھوائیں ۔

محض تراویح میں قرآن شریف سنانے پر اجرت لینا اور دینا جائز نہیں دینے والے اور لینے والے دونوں گناہگار ہوں گے اور ثواب سے محروم رہیں گے۔ اگر بلااجرت سنانے والا نہ ملے تو اسم ترکیف سے تراویح پڑھیں ۔ (مفتی محمود حسن گنگوہی۔ فتاویٰ محمودیہ 171/7 )

بریلوی مکتب فکر کا فتویٰ

مناسب معلوم ہوتا ہے کہ بریلوی مکتب فکر کے مشہور و معروف عالم مفتی امجد علی قادری اعظمی صاحب کا فتویٰ بعینہٖ لکھ دیا جائے تاکہ بریلوی مکتب فکر کے حضرات بھی اس مسئلہ سے متنبہ ہوجائیں اور حرام میں مبتلا ہونے سے محفوظ ہوجائیں ۔

آج کل اکثر رواج ہوچکا ہے کہ لوگ حافظ کو اجرت دے کر تراویح پڑھواتے ہیں جو ناجائز ہے۔ دینے والا اور لینے والا دونوں گناہگار ہیں اجرت صرف یہی نہیں کہ پیشتر مقرر کرلیں کہ یہ لیں گے اور یہ دیں گے بلکہ اگر معلوم ہے کہ یہاں کچھ ملتا ہے اگرچہ اس کا کچھ طے نہ ہوا ہو یہ بھی ناجائز ہے کہ المعروف کالمشروط ہاں اگر کہہ دیں کہ کچھ نہیں دوں گا اور کچھ نہیں لوں گا پھر پڑھے اور لوگ حافظ کی خدمت کریں تو اس میں حرج نہیں ہے۔ ’’الصریح بفوق الدولالۃ‘‘ بہار شریعت 35/4  قادری بک ڈپو

بشکریہ ’’اللہ کی پکار‘‘ نئی دہلی جون 1917 ء صفحہ 50

تبصرے بند ہیں۔