ریاست کیرلا میں دو دن

ریاض الرحمان ندوی

سفر کے معنی و مفہوم

لفظ "سفر، سفورا”ثلاثی مجرد کے باب نصر سے ماخوذ ہے ، جس کا معنی "مفارقة مدينة الإنسان المقيم”اپنی اقامت گاہ کو چھوڑ کر کسی دوسری جگہ سفر کرنا۔  سفر الصبح یعنی صبح کا روشن ہوجانا، کیونکہ سفر کی صورت میں مسافر کے اخلاق واضح اور نمایاں ہوجاتے ہیں۔

 اب جانا جائے کے مسافت سفر کیا ہے:

مسافت سفر سے مراد وہ مسافت جس کی صورت میں اعمال میں رخصت دی جاتی ہے جو عموما دو دن کسی اونٹ کی سواری کی صورت میں 80 کیلومیٹر پر مشتمل ہوسکتی ہے۔ بعض کا کہنا ہے کہ عرف میں جس کوسفر کو مان لیا  جائے اور جس کے لئے توشہ اور پانی کی ضرورت ہو،اس قول میں بھی قوت ہے.

اسی طرح وطن کی دو اقسام ہیں۔ وطن اصلی۔ یعنی وہ جگہ جہاں اس کی پیدائش ہوئی یا اس کے گھر والے رہتے ہیں یا وہاں رہائش اختیار کر لی اور ارادہ ہے کہ یہاں سے نہ جائے گا۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ مدینہ منورہ منتقل ہوئے اور فتح مکہ اور حجۃ الوداع کے موقع پر آپ نے خود کو مسافر قرار دیتے ہوئے نماز میں قصر فرمایا۔ کیونکہ آپ نے اپنے سابق اصلی وطن مکہ المکرمہ کو مدینہ منورہ سے تبدیل فرمادیا تھا۔

وطن اقامت: یعنی وہ جگہ کہ مسافر نے پندرہ دن یا اس ے زائد وہاں ٹھہرنے کا ارادہ کیا ہویا مدت اقامت میں تردد کا شکار ہو تو جب تک رہے، مسافر ہی رہے گا(سفر وکیپیڈیا)

زمانہ قدیم میں سفر جانور و چوپایوں پر کیا جاتا تھا پھر زمانہ ترقی کرتا چلا گیا یہاں تک کہ لوگوں نے نت نئ سواریوں کو ایجاد کیا جیسے ٹرین بس کار وغیرہ  اس کے علاوہ اس سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا کہ اس نے سمندروں کو چیر کرکے سفر کا آغاز کیا اور اس کے لئے سواری کے طور پر جہاز وغیرہ کو ایجاد کیا، بلکہ ایک قدم بڑھ کر یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اس نے ہواؤں کو مات دیتے ہوئے، اسے پیچھے چھوڑتے ہوئے ہوائی جہاز، راکٹ وغیرہ کو ایجاد کیا اور سفر کرتے ہوئے چاند تک اور نہ جانے کہا کہا تک پہنچ گیا.

 سفر کی اہمیت و افادیت

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ زمانہ قدیم سے ہی سفر کی اہمیت و افادیت مسلم رہی ہے، سفر فرحت و شادمانی کا ایک وسیلہ ہے، جس سے ذہن و دماغ کو سکون ملتا ہے، اطمینان قلب میسر ہوتا ہے، دل بے قرار و مضطر کو قرار ملتا ہے، اعضاء و جوارح کو راحت و سرور نصیب ہوتا ہے، جس جگہ کا سفر ہو وہاں کے ماحول و معاشرہ سے واقفیت ہوتی ہے, اللہ تعالیٰ کی عجیب و غریب مخلوقات سے سامنا ہوتا ہے،خدا کی قسم قسم کی نعمتوں کا نظارہ ہوتا ہے، سفر آپسی محبت و الفت کا سرچشمہ اور پیمانہ حیات ہوتا ہے، فرمان خدا سيروا في الأرض کا ترجمان ہوتا ہے، سفر زندگی کی وادیوں میں سے ایک حسین وادی تو کبھی محبوب سے جدائی کا کٹھن لمحہ ہوتا ہے ، سفر ہر دل کی تمنا و جستجو کا مداوا ہوتا ہے، سفر کبھی تنہائیوں کا ہمراہ تو کبھی أعزاء و أقارب کے ساتھ گزارنے والا حسین و جمیل احساس ہوتا ہے،اسی طرح کے بعض وہ اسفار جو سیرو تفریح کی غرض سے ہوتے ہیں اسے عرف میں ٹور یا پکنک کا نام دیا جاتا، مگر سفر میں چار چاند اس وقت لگ جاتے ہیں جب وہ سفر اساتذہ و رفقاء درس و احباب کے ساتھ ہو.اس سے اساتذہ و طلبہ کے مابین کی دوریاں کم ہوتی ہیں ، ایک دوسرے کے مزاج کو سمجھنے کا موقع ہاتھ آتا ہے، اسی مناسبت سے ہر سال کی روایت کے مطابق جامعہ ضیاء العلوم کنڈلور کے ناظم و بانی مولانا عبید اللہ ابوبکر ندوی نے طلبہ کے مابین ٹور کا اعلان کیا اور ان سے دریافت کیا کہ ٹور کے لیے مناسب کہاں جانا ہوسکتا ہے، مختلف طلبہ نے مختلف مقامات کا تذکرہ کیا مگر خداوند قدوس کی مشیت سے ریاست کیرلا کا ٹور منعقد کیا گیا، اتنا سننا تھا کہ احباب کے دل باغ باغ ہوگئے، خوشی و مسرت کا سماں چھا گیا، ذہن میں طرح طرح کے حسین تصورات پنپنے لگے، خوشی ایسی گویا کہ محبوب کا وصال ہونے والا ہو، جس کا مدت سے انتظار کیا جارہا ہو، فرحت و شادمانی کی ایک لہر دوڑ گئی، اور وہ ہر ایک کا موضوع سخن بن گیا، زبانوں پر اس کا ورد جاری ہوگیا، اب انتظار تھا تو اس دن کی تعیین کا جس دن یہ خوشی و شادمانی میں ڈوبا ہوا قافلہ کوچ کرنے والا تھا ، خدا خدا کرکے بفضل باری تعالٰی وہ صبح نو وصبح مسرت بارہ ڈسمبر ٢٠١٨ء چہار شنبہ بعد نماز عشاء طے پائی.

 آغاز سفر

بارہ ڈسمبر کی خوشگوار صبح تھی، آسمان پر ہلکی ہلکی سی سفیدی اس کے حسن کو دوبالا کر رہی تھی، تاریکی چھٹنے کے قریب تھی، فجر کی اذانیں  کانوں میں رس گھول رہی تھیں ، ہر طرف شادمانی ہی شادمانی تھی، سرور و مستی کا سما بندھا ہوا تھا، ہر ایک چستی و نشاط انگیزی میں غرق تھا، حسین تخیلات کے موتی پروئے جارہے تھے، آج کی صبح میں ایک خاص قسم کی روانی تھی،ہر ایک کے چہرے پر مسکراہٹ و خوشی کی ایک لہر دوڑ رہی تھی، مانو کسی قیدی کو زندان سے تخت شاہی تک لے جایا جارہا ہو، کوئی پرندہ اپنے پنجرے سے آزاد کیا جانے والا ہو، یا کسی زلیقہ کو اس کا یوسف ملنے والا ہو،خدا خدا کر کے وقت موعود قریب آنے لگا، عمدہ سے عمدہ لباس کو تیار کیا جانے لگا مانو کوئی دلہا تیار ہورہا ہو، اساتذہ سے لیکر طلبہ تک ہر کوئی سفری زاد سے لیس ہونے لگا، مانو کوئی فوجی اپنے ہتھیار سے مزین ہورہا ہو ، اور جنگ کے لیے نکل رہا ہو اور اس کو فتح کا یقین ہو، آخر کار سواری پیش کی گئی، خوشی کا یہ عالم کہ نہ کھانا اچھا لگتا نہ پینا، چنانچہ سواری راہ پر دوڑنے لگی، آسمان پر ایسی تاریکی مانو کسی دلربا کی آنکھوں کا کاجل ہو، اور اس پر سواریوں کی روشنی مانو آسمان پر تارے ٹمٹما رہے ہو، یا کوئی حور جنت سے مسکرا رہی ہو، ہوائیں تیز و تند چل رہی تھی مانو کسی طوفان کا سامنا ہو رہا ہو، اور اس پر ان فضاؤں کا جسم کو چھوجانا مانو کسی دوشیزہ کی زلفیں لہرارہی ہو اور جسم کو چھو رہی ہو، یا کسی دلکش پردہ نشیں کا ڈوپٹہ چہرے کو چھوتے ہوئے جارہا ہو، مٹی کی ایسی بھینی بھینی مہک مانو کسی گلبدن حسینہ نے عطر کی شیشی جسم پر انڈیل لی ہو اور اس سے خوشبو پھوٹ رہی ہو، اور اس پر شبنم کے قطرے کا نزول مانو اولے برس رہے ہو، یا کسی دلفریب دوشیزہ کے رخسار سے پانی کے قطرے ٹپک رہے ہو، غرض سواری اپنی مکمل رفتار سے چل رہی تھی مانو کسی براق پر معراج ہورہی ہو، اور جنت کے حسین مناظر دکھائے جارہے ہو.

ایک وقت ایسا بھی

سواری مکمل اپنے جاہ و جلال کے ساتھ چل رہی تھی، ہواؤں کو پھلانگتے ہوئے اور اسے پیچھے چھوڑتے ہوئے بڑھ رہی تھی، رات سیاہ تاریک سی ہوگئی تھی، خنک خنک ہوائیں چل رہی تھی، سواری پر سرور و مستی کی کیفیت چھائی ہوئی تھی، کبھی قرآنی تلاوت تو کبھی نظم و نعت کی محفلیں جم رہی تھیں ، تو کبھی لطائف و طنز و مزاح کا دور دورہ تھا، سورج نکلنے کا نام نہیں لے رہا تھا، مانو شرم و حیا سے کہیں چھپ گیا ہو، چاند اپنی مکمل تابانی کے ساتھ نمودار ہوا، اور اس کی ماتحتی میں ستارے بھی ظاہر ہونے لگے، جس نے آسمان پر سے سیاہی کو ہٹا دیا، ساتھ ہی ساتھ راہ پر لگی ہوئی روشنیاں ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے لگی، مانو کسی بادشاہ وقت کا استقبال کر رہی ہو، پھر ایک وقت ایسا بھی آیا حکمت و مصلحت خداوندی کے تحت سواری میں بگاڑ سا پیدا ہوا، در حقیقت وہ بگاڑ رحمت خداوندی کا نذرانہ تھا، جو سفر سے عدم اکٹاہٹ کے لئے میسر کیا گیا تھا، چنانچہ اسی کو غنیمت جانتے ہوئے، تمام احباب و رفقاء سواری سے اتر آئے، اپنی کھانے پینے کی ضروریات کو پوری کرنے لگے، اپنے اطراف و اکناف خداوند قدوس کی نعمتوں کا دیدار کرنے لگے، وہ رات بھی کیا حسین و جمیل معلوم ہورہی تھی، مانو کسی نازک اندام دوشیزہ نے نقاب رخ ہٹا دی ہو، اور اپنا دیدار کرارہی ہو، کیا حسین و جمیل احساسات تھے،پھر کچھ وقت بعد دوسری سواری کا نظم کیا گیا، جو پہلی سواری سے زیادہ بہتر معلوم ہورہی، تھی، پھر سورای راہ پر دوڑنے لگی مانو کوئی تیز و تند گھوڑا دوڑ رہا ہو، پھر وہی حسین و جمیل تخیلات و تصورات پنپنے لگے، اور خوشگوار احساسات کی لڑیاں پروئی جانے لگیں ، محفل طنزو مزاح پھر سے گرم ہوگئ، سفری اکتاہٹ کا نام ونشان تک مٹ کیا، پھر کچھ وقت گزاری کے بعد آنکھوں پر نیند کا پہرہ ہونے لگا، مجبوراً نیند کے سامنے سر تسلیم خم کرنا پڑا، اور فرمان خدا "و جعلنا النوم سباتا” کے تحت خواب غفلت میں ڈوب گئے.

منزل سے آگے بڑھ کر منزل تلاش کر

رات نصف سے زیادہ بیت چکی تھی، احباب و رفقاء حسین خوابوں کو لئے خواب خرگوش میں مست تھے، تھکی ہاری آنکھیں کھلنے کا نام نہیں لے رہی تھی، مانو ایک مدت سے اسے آرام و راحت نہ ملی ہو، سواری پر ایک خاموشی سی چھائی ہوئی تھی، مانو کوئی سمندر اپنے میں طوفان لیے خاموشی سے راوں ہو، اور اس کی تلاطم خیز موجیں بستر بچھاکر سورہی ہو،راہوں پر دو چند سواریوں کے علاوہ کوئی بھی نظر نہیں آرہا تھا، اذان فجر ہوچکی تھی، اب انتظار تھا تو نماز کے وقت کے ہونے کا، ہم سب ان باتوں سے بے حس پڑے سورہے تھے، کہ اچانک سے سواری کو ایک جگہ ٹھہرایا گیا، اور مشفق اساتذہ نماز فجر کے لیے جگانے لگے، نیند نے اپنا دم توڑ دیا اور احباب و رفقاء ایک ایک کرکے بیدار ہونے لگے، پھر کچھ وقت بعد نماز فجر مع جماعت ثانیہ ادا کی گئی،پھر کچھ دیر میں سواری پھر سے چلنے لگی، سورج اپنے دریچوں سے جھانکنے کے قریب تھا، چاند تارے اپنے گھر جانے کو بالکل تیار تھے ، اندھیرا چھٹنے والا تھا، مگر احباب و رفقاء کی آنکھیں انھیں بار بار بند ہونے اور خواب خرگوش کے مزے لینے پر مجبور کررہی تھی، البتہ کچھ وقت آنکھوں کو اور چین و سکون دیا جانے لگا، کچھ وقت کے راحت و آرام کے بعد بیداری نے دستک دی،سورج بھی دریچوں سے جھانک رہا تھا، اپنی ضروریات کو پورا کیا جانے لگا،، اور منزل آنکھوں سے اوجھل تھی، نگاہیں منزل کی تلاش میں گم تھی، اور زباں پر ایک ہی شعر جاری تھا، جو ہر ایک کے دل کی ترجمانی کرتے ہوئے کہہ رہا تھا:

  منزل سے آگے بڑھ کر منزل تلاش کر  

 مل جائے تجھکو دریا تو سمندر تلاش کر

   ہر شیشہ ٹوٹ جاتا ہے پتھر کی چوٹ سے 

  پھتر ہی ٹوٹ جائے وہ شیشہ تلاش کر

مگر منزل ہیکہ ملنے کا نام نہیں لے رہی تھی، دل میں حسین جذبات ٹھاٹھے مار رہے تھے، کوئے جاناں کے لیے بے قراری بڑھتی جارہی تھی، اسی حال پر وقت گزرنے لگا،مانو ہم کسی بھول بھلیاں میں کھو گئے ہو، سواری مختلف مقامات کا چکر کاٹنے لگی، مختلف چیزوں کے نظارے ہونے لگے، مگر ساتھ ہی ساتھ بھوک نے بڑھ چڑھ کر خیر مقدم کیا، خدا خدا کر کے ظہر کے وقت منزل تک رسائی ہوگئ، اور یہ قافلہ مدرسہ کاشف العلوم الووہ میں خیمہ زن ہوا ، ہمارے لئے بستر مزین کئے گئے تھے، کمرے سجادیے گئے تھے، دسترخوان بچھادئے گئے تھے، انتظار تھا تو بس اس پر کھانے والے کا، چنانچہ کھانا تناول کیا گیا اور وہ اس وقت ہمارے لیے من و سلوی سے کم نہ تھا،  چنانچہ فراغت کے بعد عصر و ظہر جمع کی گئی اور اگلی منزل کا رخ کیا گیا ..

  کچھ تفریحی مقامات

سواری پھر سے چلنے لگی، عصر کا وقت تھا، سورج ڈھلنے کے قریب تھا، اسمان صاف شفاف آئنہ کے مانند معلوم ہو رہا تھا،  اس پاس کا ماحول حسین لگ رہا تھا، ایک طرف ہریالی تو کہیں دوسری طرف ندیاں و جھیل بہتی نظر ارہی تھی، اور اس پر سفید بگولے کا ڈیرہ ماحول میں چار چاند لگا رہا تھا، سڑک پر سواریوں کی بھیڑ تھی، گویا کہ کوئی انہیں ہانک رہا ہو، اور اس کا شورو غل کانوں میں کسی بلبل و طاؤس کی آواز سے کم نہیں تھا، سواری پر سرور مستی کے بادل چھائے ہوئے تھے، ہر ایک رقص و سرور میں مگن تھا، سواری منزل سے قریب اور قریب ہوتی جارہی تھی، اور دل کی دھڑکنیں تیز اور تیز ہوتی جارہی تھی، انتظار کا لمحہ کھٹن معلوم ہورہا تھا، شوق تھا تو دیدار یار (منزل) سے لطف اندوز ہونے کا، اس کی باہوں میں سمٹ جانے کا، چنانچہ منزل مقصود تک پہنچ گئے، سورج شرم کے مارے چھپ گیا تھا، روشنی کی چند کرنیں اب بھی تھی، آسمان تاریک ہونے کو بے قرار تھا ، کیا سحر انگیز نظارہ تھا، سامنے سمندر تھا، دور دور تک پانی ہی پانی تھا، اور اس پر کشتیاں رکی ہوئی تھیں ،  کشتی کی سواری کے لیے اس پر قدم رکھا ہی تھا کہ طوفان نوح سے لیکر اہل ایمان کی نجات تک کا واقعہ ذہن میں گردش کرنے لگا، کشتی سمندر کو چیرتی ہوئی جانے لگی،اور سمندر میں چکر کاٹنے لگی، انسان کی بنائی ہوئی مختلف ایجادات دیکھنے کو ملے ، اور سمندر کے اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں دوسری کشتیوں کی روشنی ایک حسین و دلکش منظر پیش کر رہی تھی، اور  نگاہیں ".أَلَمْ تَرَ أَنَّ الْفُلْكَ تَجْرِي فِي الْبَحْرِ بِنِعْمَتِ اللَّهِ لِيُرِيَكُم مِّنْ آيَاتِهِ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍ (سورة لقمان 31) پر ٹکی ہوئی تھی،ہواہیں تیز و تند چلنے لگی تھی، ایسا محسوس ہورہا تھا کہ کسی طوفان کا پیغام دے رہی ہو، اور سواری پر شعر و شاعری کی محفلیں جذبات کی ترجمانی کر رہی تھیں ، کچھ وقت کی سیرو تفریح کے بعد کشتی کنارے پر اگئ، اور ہم اگلی منزل کی طرف کوچ کر گئے، سواری میں ہلچل ہونے لگی، رات کافی تاریک ہوچکی تھی, پھر سواری ایک حسین و جمیل عمارت کے سامنے جا رکی جسے عرف میں  lulu mall کہا جاسکتا ہے، جیسے ہی اس میں ہمارا قافلہ داخل ہوا سرد ہوائیں جھک کر قدم بوسی کرنے لگی، اس میں مختلف أنواع و أقسام کے مصنوعات تھیں ، بہت ہی دلچسپ و دلنشیں عمارت تھی، اس میں کچھ وقت کی تفریح کے بعد ایک عزیز کے گھر کھانا تناول کیا گیا، پھر دوبارہ مدرسہ کاشف العلوم میں آکر بستر پر دراز ہوگئے.

روانگی سے قبل (دوسرا دن)

آج صبح کافی خوشگوار تھی، آسمان پر چاند اپنی چاندنی بکھیرے رقص سرور کر رہا تھا، آسمان کافی روشن اور چمکدار معلوم ہورہا تھا، ٹھنڈی ہوائیں عروج پر تھی، اس پاس کا ماحول کافی حسین لگ رہا تھا، شبنم کے قطرے ہرے بھرے پتوں پر ٹہرے ہوئے تھے، ہر طرف خاموشی ڈیرا ڈالے ہوئے تھی، ہم سب پڑے خواب غفلت میں کھو گئے تھے،ہماری اگلی منزل wonderla تھی، اسکا شوق ذہن و دماغ پر چھایا ہوا تھا، کہ اچانک مسجد میں تلاوت قرآن کی شیریں آواز رس گھولنے لگی، ہم بدکتے کودتے مسجد کی طرف دوڑنے لگے، اور نماز فجر ادا کی، پھر کچھ وقت آرام و راحت کے بعد در یار(wondarla) کا رخ کرنے لگے،جسکی بشارت پہلے ہی دی جاچکی تھی، خوشی و مسرت کی ملی جلی کیفیت کے ساتھ آگے بڑھ گئے، وہی منزل اس سفر کی اصل جان تھی جس کے بغیر سفر بے مزہ تھا، جس کا ایک مدت تک انتظار کیا جارہا تھا، گویا کہ وہ منزل محبوبہ ہو، جس کی گود میں راحت و آرام میسر ہو، جس سے ملنے کو دل بے قرار بے چین و مضطر ہو، پھر اس کے آغوش میں جانا ہوا، اس کے لائق لباس زیب تن کیا گیا، عجیب و غریب سرور و مستیاں تھی، دریار پر بڑی دھوم مچی ہوئی تھی، عاشقوں کا ایک ہجوم تھا، کیا حسین و دلکش منظر تھا، کھیل کی اشیاء سے لیس ایک چھاؤنی تھی، انسانی ذہن کا ایک عظیم کرشمہ تھا،  ایسا لگ رہا تھا کہ زندگی کا بہت ہی حسین لمحہ ہو، چاروں طرف راحت و اطمینان کا سما چھایا ہوا تھا، سورج کے با نقاب ہونے تک اس سے لطف اٹھایا گیا،ایک طرف اس فانی دنیا کی نعمتیں حسین معلوم ہورہی تھی تو وہی دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی جنت میں بنائی ہوئی چیزیں یاد ارہی تھی، پھر جب اس سے دور ہونے کا وقت آیا تو غم و الم کا سا ایک تصور تھا، تو دوسری طرف خوشی و مسرت کی ایک لہر دل میں دوڑ رہی تھی.

روانگی

آخر اب واپسی کا وقت تھا، وہ مقام یاد آنے لگا تھا جہاں سے سفر کا آغاز ہواتھا، سواری پھر سے چلنے لگی، ساتھ ساتھ تھکن و درد کا احساس ہورہا تھا، آنکھوں میں نیند رقص کرہی تھی، جلد سے جلد منزل کو پہونچنے کی چاہ تھی،خدا خدا کرکے منزل تک رسائی حاصل ہوگئی،اور اس کی گود میں ایسے دبک گئے جیسے بچہ اپنی ماں کی گود میں دبک جاتا ہو، اور زباں پرابو تمام کا یہ شعر بے اختیار جاری تھا .

كَمْ مَنزِلٍ في الأرضِ يألفُهُ الفَتى 

وحَنينُهُ أبداً لأوَّلِ مَنزِلِ

  کتنے ایسے مقامات ہیں جس سے انسان انسیت رکھتا ہے ، مگر اصل مقام تو پہلا ہی مقام ہے جس سے وہ حقیقی محبت رکھتا ہے.

تبصرے بند ہیں۔