شام: ارضِ مقدس اور اغیار کی چال بازیاں

محمد ریاض قاسمی منچریال

شام سریانی زبان کا لفظ ہے جو حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے حضرت سام بن نوح کی طرف منسوب ہے یہی وہ مبارک زمین ہے جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ہجرت فرمائی ،یہی سرزمین کا وہ مقدس خطہ ہے جس میں کئی انبیاء مدفون ہیں ،یہی وہ زمین کی بابرکت ٹکڑی ہے جس کے فضائل کو آپ ﷺ نے تفصیل سے بیان فرمایا اور یہی وہ مبارک زمین ہے جو پہلی جنگِ عظیم تک خلافت عثمانیہ کی سرپرستی میں تھی بعد میں انگریزوں اور فرانسیسیوں نے اسے چار حصوں میں تقسیم کردیا (۱)سوریا(۲)لبنان(۳) فلسطین(۴) اردن،لیکن یہ بات واضح رہے کہ قرآن و حدیث میں جہاں پر بھی لفظ’’شام‘‘ آیا ہے اس سے مراد یہی چار خطے مراد ہیں ۔

جدید شام کی بنیاد:

شام نے ۱۹۴۶ ء جنگ عظیم ثانی کے بعد فرانسیسی سامراج سے آزادی حاصل کی ،فوج نے جمال عبد الناصر کی رجوع کیا ،۱۹۴۳ ؁ء میں سماجی بے چینی کا اظہار کرتے ہوئے فوج کے ایک ریڈیکل نے بغاوت کرکے حکومت کا تختہ پلٹ کر ’’بعث پارٹی‘‘کا آغاز کیا اور ۱۹۷۰ ء  میں حافظ الاسد اقتدار میں آیا اور جدید شام کی بنیاد ڈالی۔

شام کے فضائل:

شام وہ مقدس سر زمین ہے جس کے بارے میں خداعزوجل نے فرمایا: سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ (سورۃ الاسراء 1(تو کہیں فرمایا : وَلِسُلَيْمَانَ الرِّيحَ عَاصِفَةً تَجْرِي بِأَمْرِهِ إِلَى الْأَرْضِ الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا وَكُنَّا بِكُلِّ شَيْءٍ عَالِمِينَ) سورۃ الانبياء (81 تو کہیں فرمایا: يَا قَوْمِ ادْخُلُوا الْأَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِي كَتَبَ اللَّهُ لَكُمْ وَلَا تَرْتَدُّوا عَلَىٰ أَدْبَارِكُمْ فَتَنقَلِبُوا خَاسِرِينَ) سورۃ المائدة ( 21 اور نبی نے تو صاف دعا فرمائی : اللہم بارک لنا فی شامنا و بارک لنا فی یمننا(بخاری ۹۹۰) اور کہیں تو فرمایا : الشام ارض المحشر(ابن ماجہ رقم الحدیث ۱۴۰۷)

شام کے دلخراش حالات:

یہ سب وہ قرآن و احادیث مبارکہ جن سے شام کی فضلیت ظاہر ہوتی ہے مگر کیا کہا جائے موجودہ حکمران کو کہ جس نے ان سارے فضائل کو بالائے طاق رکھ کر شام کے شام کو ’’شامِ غریباں‘‘ اور صبحِ شام کو ’’صبح قیامت‘‘ میں تبدیل کردیا ہے اور خون کو پانی سے زیادہ بہایا جارہا ہے ،فرعونِ موسی سے بھی آگے بڑھتا جارہا ہے اور حکومت و اقتدار کے نشہ میں انسانیت کا ننگا ناچ کررہاہے، موجودہ صورتِحال میں شام کو سفاک الاسد نے جو تباہی و بربادی مچارکھی ہے اس کو ان الفاظ میں اظہارِ خیال کرنا مناسب ہوگا جس کو رئیس القلم حضرت مولانا ومیض احمد ندوی دامت برکاتہم نے رقم کیا ہے :

’’ٹپکتا خون ،سسکتی آہیں ،جلتی بستیاں،دہکتی آگ،بے گوروفن لاشیں ،بلکتا بچپن،بھوک سے بے تاب ادائیں ،تاراج ہوتی مقدس قبائیں ،لہوروتی لاچار مائیں،لہولہان گلیاں،انسانی خون کی بہتی ندیاں ،ویران و تاریکی میں تبدیل ہوتی بستیاں،ملبے کے نیچے دفن ہوتی معصوم کلیاں،فضاء میں بلند ہورہی روح فرسا چینخیں ،اجڑتے ہوئے محلے،جلتے مکانات ،جی ہاں!ِ ان سب کو ملانے سے اگر کسی چیز کی تصویر بنتی ہے تو ا س کا نام ملک شام اور اس کا تاریخی شہر غوطہ ہے‘‘

امریکہ کا تحفہ شام کو:

اگر یہ سونچیں کہ بشار الاسد نے یہ ظلم و بربریت کا جو کھیل کھیل رہا ہے یہ صرف اس کی موجودہ صورتِ حال نہیں ہے بلکہ وہ تو ہمیشہ سے مسلمانوں اور علماء کے خون کا پیاسا رہا ہے ،سفاک الاسد نے ہر اس شخص کو جیل کے سلاخوں کے پیچھے دکھیل دیا جو اس کے خلاف کہا،چانچہ ماضیؓ ریب میں اس نے بیس ہزار سے زائد لوگوں کو قید کرکے انہیں کیمیکل میں ڈال کر پگھلاکر بہادیا،اگر ہم اس کی تحقیق کرتے ہیں کہ یہ خانہ جنگی کی ابتداء کہاں سے ہوئی تو یہ پتہ چلتا ہے کہ ۲۰۱۱ ؁ ء میں تیونس میں محمد بوعزیزی کی تحریک چلی اور پورے عرب میں آزادی کی لہر چلی اسی موقع پر بشار کے ظلم اور تاناشاہی حکومت کو دیکھتے ہوئے ایک بچہ نے اسکول کی دیوار پر یہ لکھ دیا’’ڈاکٹر بشار الاسد اب تمہاری باری ہے‘‘تو حکومت نے اسے سزادی پھر اس کے خلاف ملک بھر میں احتجاج بڑھتاگیااور مختلف تحریکیں وجود میں آتی گئیں ان ساری چیزوں کو دیکھ کر وہ قومیں جنہیں شام کے خطہ سے دلچسپی ہے انہوں نے چنگاری کو لاوا کی شکل دیدیا ،بش نے اپنے اقتدار میں ’’مشرقِ وسطی ‘‘ کو ’’القاعدہ ‘‘کاتحفہ دیا تو اوباما نے دنیا کو ’’داعش‘‘کا تحفہ پیش کیا اور بشار نے ان کو استعمال کرتے ہوئے ملک کو تخت وتاراج کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ہے اور ۲۴ سالوں میں شام میں بہت تبدیلی آئی ،روزگار میں کمی،پیداوار میں کمی بڑھتے چلے جارہے ہیں ،۷۰ فیصد آبادی کے پاس پینے والے کے پاس پانی نہیں ہے ،اقوام متحد ہ کی رپورٹ کے مطابق ہر چوتھا شامی غربت کا شکار ہے اور بشار نے سروسبز شام کو کھنڈر ات میں تبدیل کردیا ،اس نے اتنا بڑا نقصان کیا ہے کہ ایک شامی رپورٹ کے مطابق ’’کہ شام کی از سر نو تعمیر کے لئے ۴۸ ارب ڈالر کی ضرورت ہے مطلب یہ ہے کہ ۲۵ سال صرف از سر نو تعمیر کے لئے لگ جائیں گے۔

صیہونی طاقتیں اتنی کرما فرما کیوں؟

اگر یہ کہہ کر مطمئن ہوجائیں کہ یہ خانہ جنگی ہے، شیعہ سنی اختلاف ہے جیسا کہ انگریزی اور دوسرے ملکی احباروں میں یہی واضح کیا جارہا ہے یہ شیعہ سنی لڑائی ہورہی ہے حالانکہ حقیقت اس کے خلاف ہے یہ تو صرف شیعہ سنی کو بہانہ بنا کر شام کو کھنڈرات میں تبدیل کرنے کی پلاننگ ہے اور مغربی طاقتیں اس بات کی خواہاں ہے کہ شام پر اس کا مکمل غلبہ ہوجائے اور مکمل غلبہ کے بعد شام کو فلسطین ہی کی طرح ہڑپ کرلیا جائے اور ’’1916 Asia minor agreement ‘‘ کو گوگل پر سرچ کیا جائے ،اس کے اندر برطانیہ ،فرانس اور روس کے درمیان معاہدہ ہوا کہ ملک عرب کو خوب صورت الفاظ ،خوب صورت باغ اور نعروں کے ذریعہ ٹکڑے کیا جائے اور مکمل ٹکڑے ہونے کے بعد عرب کا کونسا حصہ کس کے پاس رہیگا اس کو بھی ان لوگوں نے واضح کیا اور یہودیوں نے شام و فلسطین کے حصہ کو اپنے مذہبی عقیدے کی بناء پر اس کو احتیار کیا او ر یہ بھی حقیقت ہے کہ اسی معاہدہ کے بعد وہ یہودی جو موجودہ دنیا کے متمدن علاقوں یورپ و امریکہ میں رہتے تھے وہاں سے نکل نکل کرشام فلسطین جیسے علاقوں میں زندگی بسر کرنے لگے اور اپنے عیش و آرام کو اپنے مذہب کی خاطر چھوڑدیا۔

ہماری ذمہ داریاں:

    امریکہ اور روس کو نہ شام کے بشار سے ہمدردی ہے اور نہ ہی وہ سنیوں کے مخلص ہیں ایسی صورتِ حال میں ہر فرد واحد پر یہ ذمے داری لازم ہوتی ہے کہ پوری دنیا میں یہ پیغام پہنونچایا جائے کہ یہ لڑائی شیعہ سنی نہیں ہے بلکہ یہودیوں کی وہ چال ہے جسے دنیا آج تک نہیں سمجھ سکی اور دنیا دلیل مانگتی ہے تو انہیں بتایا جائے ))  1916 ((Asia minor agreementاور اس کے حقائق کو واصح کرکے بیان کریں کہ ان کا اصل پلان ملک عرب کے ٹکڑے کردئے جائیں اور تمام دنیا کے مسلمانوں پر ایک اور چیز سب سے زیادہ لازم ہے کہ وہ اپنے دعاوءں میں ان کو یاد رکھیں اور قنوتِ نازلہ کا اہتمام کریں ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔