ابر رحمت ان کی مرقد پر گہرباری کرے

مفتی رفیع الدین حنیف قاسمی

دار العلوم دیوبند نہ صرف ایک مدرسہ ہے، اور ایک عظیم دینی درسگاہ ہے، بلکہ یہ ایک دبستان فکر کانام ہے، جس نے ہر جہت اور محاذ پر دین کا دفاع کا کام کیا ہے، فضلائِ دالعلوم دنیا کے کونے کونے میں پھیلے ہوئے دین کے دفاع کا ہر جہت پر کام کر رہے ہیں، تقریری، تحریری، تدریسی، تصنیفی، اصلاحی، سیاسی، سماجی، دینی وملی مختلف گوشوں پر ابنائے دار العلوم کے نقوش ثبت ہیں، ان مختلف گوشوں کے حوالہ سے علماء دیوبند کی فہرست تیار کر لیجئے، آپ کو سیاسی، سماجی، رفاہی، تدریسی، تقریری، تصنیفی، اس کی کی اصناف مختلفہ میں آپ کو ابناء دار العلوم سرگرداں اور ہمہ تن عمل نظر آئیں گے، انہوں نے دین کے حوالے سے کسی بھی محاذ سے رخنہ اندازی کو برداشت نہیں کیا ہے، دین ِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کی آبیاری کے لئے تن من دھن کی بازی لگادی ہے، یہ جس محاذ پر بھی رہے، خلوص وللہیت اور سادگی اورسادہ لوحی او رتواضع اور مسکنت ان کا وصف خاص اور نشانِ امتیاز رہاہے، زہد وتقوی، دنیائے دنیئہ کی محبت سے کوسوں دور رہے ہیں، انہوں خالق اور مخلوق، خدا اور کنبہ خدا کی خدمت کو اپنا فریضہ سمجھا ہے۔ تاریخ گواہ ہے اور یہ مہر وماہ، یہ گردش لیل ونہار، یہ صدیاں، یہ سال تاریخ دار العلوم کے حوالہ سے شاہدِ عدل ہیں، دار العلوم دیوبند نے انسانیت کو کیا دیا ہے، اس کا ایک ایک سپوت بسا اوقات اس کا اس دنیائے فانی سے چلاجانا ایک علاقے کو ویران کردیتا ہے، اس کو شہر خموشاں بنا دیتا ہے۔

استاذ مکرم حضرت مولانا ریاست علی بجنوری رحمہ اللہ نے فرمایا:

یہ علم وہنر کا گہوارہ تاریخ وہ شہہ پارہ ہے

ہر پھول یہاں ایک شعلہ ہے، ہر سرو یہاں مینارہ ہے

۔ ۔ ۔

اس وادیء گل کا ہر غنچہ، خورشیدِ جہاں کہلاتا ہے

جو رند یہاں سے اٹھا ہے، وہ پیر مغاں کہلایا ہے

۔ ۔ ۔ ۔

اس بزم جنوں کے دیوانے، ہر راہ سے پہنچے یزداں تک

ہیں عام ہمارے افسانے، دیوارِ چمن سے زنداں تک

ابھی صبح یہ خبر ملی نمونہ اسلاف، قدوۃ العلماء،اکابر کی پاکیزہ روایات کا محافظ، ستودہ صفات کی حامل شخصیت رکن شوری دار العلوم دیوبند اس دنیا میں نہیں رہے، حیاتِ مستعار کے لمحات کو خدمت خلق وخدمت دین میں لگا کراس دنیائے فانی سے سدھا ر گئے، جن سے میری مراد حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب مدراسی رحمہ اللہ ہیں، یہ جنوبی ہند کے ہوشمند عالم دین، دین اور امت کا درد رکھنے والے مصلح ، ہر سطح پر امت کے مسائل اور مشاکل کئے تئیں کڑھنے اور کسک محسوس کرنے والے تھے، انہوں نے ہر محاذ پر کام کیا، دین اور اہل دین کی سرپرستی، فروغ دین کے لئے ہر منبر ومحراب اور محاذ سے اپنے کارہائے نمایاں انجام دیئے، جو بھی دنیا میں آیا اسے جانا ہے، لیکن بعض جانے والے اپنے کارہائے نمایاں اور انمٹ نقوش کے ذریعے ہمیشہ دلوں میں اپنی تازگی چھوڑ جاتے ہیں، آپ کا وجود بامسعود خطہ جنوب خصوصا اہل تامل ناڈو کے لئے بڑا سرمایہ افتخار کا تھا۔

موت اس کی ہے جس کا کرے زمانہ افسوس

 یوں  تو دنیا میں سبھی آتے ہیں مرنے کے لئے

شاعر کہتا ہے :

جیتے ہو تو کچھ کیجئے زندوں کی طرح

مردوں کی طرح جئے تو کیا خاک جئے

مولانا محمد یعقوب صاحب بن جناب محمد اسماعیل صاحب میل وشارم تمل کے متوطن تھے( خطہ میل وشارم وہی ہے جو اس وقت بزرگوں اور اللہ والوں کی آمجگاہ اور مہبط بنا ہواہے، جو علم ظاہری وباطنی کا حسین سنگم ہے ) ۲۷؍ رجب ۱۴۵۳ھ؍۲۱؍نومبر ۱۹۳۴ء میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم اپنے وطن مالوف میں پائی، پھر عربی کی ابتدائی تعلیم کے لئے تامل ناڈ مشہور زمانہ مدرسہ ’’ جامعۃ الباقیات الصالحات‘‘ کا رخ کیا، پھر اعلی تعلیم کے لئے مادر علمی دار العلوم دیوبند تشریف لائے، کئی ایک سال زیر تعلیم رہ کر ۱۳۷۹ھ؍۱۹۵۹ء میں دستار فراغت حاصل کی

فراغت کے بعد سبیل الرشاد بنگلور، مظاہر العلوم سیلم، جامعۃ الباقیات الصالحات، مدرسہ حسینہ کایم کولام کیرا وغیرہ میں تدریسی وانتظامی خدمات کی انجام دی، ۱۴۰۵ھ؍۱۹۸۵ء سے اب تک مدرسہ کاشف الہدی مدراس میں بحیثیت مدرس اور اب قریب تا دم تحریرصدر مدرس کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہیں ہیں۔

۱۴۰۶ھ؍۱۹۸۶ء کو اپنی دور بین نگاہ، وسعت فکر، علمی گہرائی وگہرائی اور قوت فیصلہ کی لیاقت کی وجہ سے دار العلوم دیوبند کی مجلس شوری کے رکن منتخب ہوئے اس کے علاوہ حضرت کا فیض تمل ناڈو کے امیر شریعت، اور صوبائی مجلس تحفظ ختم نبوت ومجلس تحفظ شریعت کے صدر کی حیثیت بھی نمایاں رہا ہے، ریاست کے مختلف مدارس کے سرپرست، نگرانِ کار ہونے کے ساتھ احقاق حق، ابطال باطل کے محاذ پر سرگرم عمل رہے ہیں۔

ایں سعادت بزور بازو نیست

تانبخشندے خدائے بخشندہ

آپ کی باقیات الصالحات می’ حضرت مولانا عبد الوہاب ویلوی بانی باقیات الصالحات کے فتاوی کی ترتیب بھی ہے، آپ کے خطبات کا مجموعہ ’’ خطبات وشارم ‘‘ کے نام سے منظر عام پر آیا ہے۔

جہاں ایک طرف آپ میدان تدریس کی شہسوار کی حیثیت سے طالبان علوم نبوت کی تشنگی کا سامان مختلف مدارس، سبیل الرشاد بنگلور، جامعہ الباقیات الصالحات ویلور، اور مدرشہ کاشف الہدی کی مسند تدریس سے کرتے رہے ہیں، وہیں دوسری طرف عوام الناس رہنمائی ورہبری کا فریضہ بے بہا بھی بھی موقعہ بموقعہ امارت شرعیہ، مسلم پرسنل لاء بورڈ اور جمیعہ علماء ہند وغیرہ کے اکابر کے قائدہ اداروں کے ذریعے انجام دتے رہے ہیں، میل وشارم کی معروف پاکتنی مسجد کے منبر سے اپنی قیمتی نصائح اور پند وموعظمت کے ذریعے کرتے ہیں لوگوں کے دلوں کو بھی گرماتے رہے ہیں۔

آپ بالجملہ اوصاف کے باوصف سادگی اور قناعت پسند تھے، زہد وقناعت کے مجسم، بڑے بڑے مالداروں سے بزرگانہ اور رہبرانہ تعلقات کے باوجود دنیا کو اپنے قریب آنے بھی نہیں دیا اور آپ نے نہ صرف سادگی کے ساتھ زندگی گذاری ؛ بلکہ اخفاء پسندی اور شانِ استغناء کے ساتھ خدمت دین وخلق کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا ہے، بقول بعض جہاں آپ کا سادہ لباس جہاں حضرت نانوتوی کی یاد تازہ کراتا تو آپ کی بے نیازی قطب عالم عالم ربانی حضرت گنگوہی کی عکاسی کرتی، اور جرائت وحمیت میں شیخ الاسلام حضرت مدنی کی مجسم نظر آتے۔

محاسن اتنے کہ یکساں ہے ظاہر وباطن

جو کامیابی کے دونوں جہاں میں ہیں ضامن

آپ کی سادگی کے باوصف تمام اکابر علماء دیوبند آپ کا حد درجہ احترام بجالاتے، آپ کے ساتھ قدر واحترام کے ساتھ پیش آتے۔

ابر رحمت انکی مرقد پر کہر باری کرے

حشرتک شانِ کریمی ناز برداری کرے

تبصرے بند ہیں۔