وطن سے جو مجبور آئے ہوئے ہیں
جمال کاکوی
وطن سے جو مجبور آئے ہوئے ہیں
وہ اپنے وطن کے ستائے ہوئے ہیں
…
کھڑی دیکھتی ہیں بس اقوامِ عالم
انہیں سب تماشہ بنائے ہوئے ہیں
…
جو کہتے ہیں دنیا ہے گھر ایک کنبہ
وہ دیوار اونچی اٹھائے ہوئے ہیں
…
مَرے کوئی کچھ ان کو پرواہ نہیں ہے
حسینوں سے آنکھیں لڑائے ہوئے ہیں
…
یہ تفریق پیدا کیا ہے انہوں نے
چمن کے پرندے پرائے ہوئے ہیں
…
محبت انہیں کو ہے اپنے وطن سے
لہو میں جو اپنے نہائے ہوئے ہیں
…
انہیں بھی زمانہ نہ چھوڑے گا ہر گز
جو فتنے سے دامن بچائے ہوئے ہیں
…
گل سارے کھِل کر بکھرنے لگے ہیں
مرے زخم تو مسکرائے ہوئے ہیں
…
چلتا نہیں ہے جمالؔ تیرا سکّہ
یہ بارِ گراں ہم اٹھائے ہوئے ہیں
تبصرے بند ہیں۔