وطن سے جو مجبور آئے ہوئے ہیں

جمال کاکوی

وطن سے جو مجبور آئے ہوئے ہیں

وہ اپنے وطن کے ستائے ہوئے ہیں

کھڑی دیکھتی ہیں بس اقوامِ عالم

انہیں سب تماشہ بنائے ہوئے ہیں

جو کہتے ہیں دنیا ہے گھر ایک کنبہ

وہ دیوار اونچی اٹھائے ہوئے ہیں

مَرے کوئی کچھ ان کو پرواہ نہیں ہے

حسینوں سے آنکھیں لڑائے ہوئے ہیں

یہ تفریق پیدا کیا ہے انہوں نے

چمن کے پرندے پرائے ہوئے ہیں

محبت انہیں کو ہے اپنے وطن سے

لہو میں جو اپنے نہائے ہوئے ہیں

انہیں بھی زمانہ نہ چھوڑے گا ہر گز

جو فتنے سے دامن بچائے ہوئے ہیں

گل سارے کھِل کر بکھرنے لگے ہیں

مرے زخم تو مسکرائے ہوئے ہیں

چلتا نہیں ہے جمالؔ تیرا سکّہ

یہ بارِ گراں ہم اٹھائے ہوئے ہیں

تبصرے بند ہیں۔