ریل کرایہ میں اضافہ –  ایک پیچ دار طریقہ

سدھیر جین

ریل کرایہ میں اضافہ کا طریقہ بڑا پیچ دار ہے. حکومت نے کتنی ہوشیاری سے کام لیا ہے. کوئی آسانی سے سمجھ نہیں پائے گا کہ عام عوام کے لئے ریل کا سفر کتنا مہنگا ہو گیا. جو کہے گا اسے جواب دے دیا جائے گا کہ پہلے آکر ٹکٹ خرید لیتے. شروع کے صرف دس فیصد مسافرین کو ریل ٹکٹ پرانی قیمت پر ملیں گے. اس کے بعد کے 90 فیصد مسافرین کو اوسطا 25 فیصد زیادہ کرایہ دینا پڑے گا. اچانک منافع کے لالچ میں پھنستے نظر آرہے ریل نظام پر واقعی سوچنے کے دن آ گئے ہیں.

نئی حکومت کے وعدے کا کیا ہوا؟

گزشتہ ستر سال میں جب جب کرایہ بڑھتا تھا تب تب اس حکومت کے کان اینٹھے جاتے تھے. گزشتہ انتخابات سے قبل اقتدار کی خواہشمند سیاسی پارٹیاں ریل کرایوں کو لے کر طرح طرح کے وعدے کیا کرتی تھیں. اقتدار سونپنے کے بعد اب لوگ ان سے پوچھ رہے ہیں کہ ان وعدوں کا کیا ہوا؟ خاص طور پر ریل میں سفر کو سستے سرکاری ٹرانسپورٹ کی سب سے اچھی مثال سمجھا جاتا تھا. ستر سال میں کبھی بھی یہ نہیں مانا گیا کہ ریلوے منافع کا ذریعہ ہے. اگرچہ گزشتہ سال نئی حکومت نے یہ اعلان کرکے چونکا دیا تھا کہ ریلوے اپنی آمدنی دس فیصد بڑھائے گی. لیکن اس وقت یہ نہیں پتہ تھا کہ اس کے لئے تابڑ توڑ انداز میں سفر کا کرایہ بڑھایا جائے گا.

ہوشیاری پر سوال!

حکومت نے بڑی ہی ہوشیاری سے کام لیا ہے. شروع کے 100 میں سے صرف دس مسافروں کو پرانی قیمت پر ٹکٹ ملیں گے. اس کے بعد کے مسافروں کے لئے ریل ٹکٹ بہت ہی اونچے دام پر ملیں گے. یہ اضافہ اوسطا 25 فیصد ہوگا. بالکل بعد میں فروخت ہونے والے ٹکٹوں پر یہ اضافہ 40 سے 50 فیصد ہو جائے گا. شروع کے صرف دس فیصد مسافروں کو چھوڑ دینے کے پیچھے چالاکی یہ ہے کہ اگر مہنگا ٹکٹ خریدنے پر مجبور کوئی مسافر شکایت کرے تو اس پر یہ دلیل مار دی جائے کہ پہلے آکر ٹکٹ کیوں نہیں خرید لیا. یہ لنگڑی دلیل حکومت کو جواب دینے کے کام آئے گی کہ سب سے پہلے آنے والوں کے لئے کرایہ نہیں بڑھا. جبکہ پہلے آنے والوں کا کوٹہ صرف 10 فیصد کا ہے.

کہنے کو صرف تین ٹرینیں جب کہ حقیقت میں 142

ہر کام گھماؤ دار طریقے سے کرنے کا مشق کر رہی نئی حکومت نے تشہیر کروائی کہ صرف تین ٹرینوں کے کرائے بڑھ رہے ہیں. لیکن ان تین ناموں سے چلنے والی ٹرینوں کی کل تعداد 142 ہے. راجدھانی کے نام سے 42، شتابدی 46 اور دورتنو نام سے الگ الگ 54 ٹرینیں ہیں. یعنی یہ کوئی تجرباتی فیصلہ نہیں بلکہ کروڑوں لوگوں کی جیب سے خوب پیسہ نکال لینے کا فیصلہ ہے. اور اگر عوام نے یہ بوجھ برداشت کیا تو باقی ساری ٹرینوں کے کرائے تو بڑھ ہی جائیں گے.

فرسٹ کلاس کو پوری چھوٹ پر حیرت!

عوام سے لین دین کے ستر سال کی سرکاری تاریخ میں یہ پہلی بار دکھا ہے کہ اونچے درجے کے ریل کرایوں کے بجائے نیچے درجے والے کرائے بڑھے. موجودہ حکومت کی بڑی دلچسپ دلیل ہے کہ اونچے درجے کا کرایہ پہلے ہی زیادہ ہے. یعنی اوسط عوام سے ہی زیادہ وصولی کی گنجائش اس حکومت کو دکھائی دے رہی تھی. پتہ نہیں یہ کیا چکر ہے، لیکن اتنا طے ہے کہ مہنگائی سے جوجھتی اور ناکام ہوتی جا رہی سرکاری منصوبوں کی وجہ سے خستہ حالت عوام پر ریل کرایہ کا یہ بوجھ مہنگائی کو اور زیادہ محسوس کرانے والا ہوگا.

کہاں گئی امیروں سے لے کر غریبوں کو دینے کی دلیل؟

اب تک یہی دلیل سننے میں آتی تھی کہ جمہوری حکومت کا کام سب کو برابری پر لانے کا ہوگا. اس کے لئے طے یہ تھا کہ زیادہ آمدنی والوں سے ٹیکس لے کر غریبوں کو سہولیات دینے کا کام ہوگا. لیکن حکومت کے نئے فیصلے نے اس فلسفہ کو ایک جھٹکے میں الٹ دیا. پہلی بار ہوا ہے کہ اونچے درجے کے ٹکٹ میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا بلکہ جس نیچے درجے والے کو بوجھ سے ہمیشہ بچا کر رکھا جاتا تھا، سارا بوجھ اسی پر لادا گیا. اس کی دلیل یہ دی جا رہی ہے کہ اونچے درجے کے کرایے پہلے ہی زیادہ ہیں. یعنی اونچے درجے میں سفر کرنے والوں کو خوش رکھا گیا ہے.

کرایہ بڑھاکر سہولیات بڑھانے کی لولی لنگڑی دلیل

موجودہ حکومت کے وکیل نما ایجنٹ یہ تشہیر کرنے کے کام پر لگائے گئے ہیں کہ کرایہ بڑھا کر حکومت کے پاس پیسہ آئے گا اور اس پیسے سے سہولیات بڑھائیں گے. ریلوے کا حساب کتاب دیکھیں تو گزشتہ سال ریل کرایہ سے 45 ہزار کروڑ آمدنی کا ہدف تھا جسے بڑھا کر 51 ہزار کروڑ کا ہدف بنایا گیا تھا. اس وقت صاف صاف یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ آمدنی کا بڑھا ہوا ہدف ریل کرایہ بڑھا کر پورا ہو گا. تب ایسا لگ رہا تھا کہ حکومت ٹرینوں کی تعداد بڑھا کر اور انتظامات میں اپنی عقلمندی لگا کر آمدنی بڑھائے گی. اپنے حصے کے پانچ سال میں سے آدھا وقت گزارنے کے بعد بھی حکومت یہ کام نہیں کر پائی. ریلوے کے لئے غیر ملکی سرمایہ کاری کے سارے منصوبے صرف نعرے ثابت ہوتے جا رہے ہیں.

کس کا دباؤ ہو سکتا ہے ریلوے پر؟

یہ تو آغاز ہے. آگے کا اندازہ ابھی نہیں لگ سکتا. اندازہ ضرور لگایا جا سکتا ہے کہ اب تک جس طرح ریلوے عام عوام کی خدمت کرتی نظر آئی ہے کہیں وہ عالمی تجارت کی دکان میں تبدیل نہ ہو جائے. یہ سب کے سامنے ہے کہ ستر سال میں ریلوے کے بنیادی ڈھانچے پر رات دن کام ہوا ہے. دنیا کے تمام سیٹھوں کی نظریں اس بھاری بھرکم جائیداد پر ہونا فطری ہے. لیکن ہندوستانی ریلوے کو اب تک دکان میں  تبدیل کرنے کے لائق حالت نہیں بنی تھی. اسے مفاد عامہ کا ایک ادارہ بنا کر ہی رکھا گیا تھا. لیکن اب جیسے علامات دکھ رہے ہیں اس سے لگتا ہے کہ کہیں یہ باتیں نہ اٹھوائی جانے لگیں کہ ریلوے کو پرائیویٹ سیکٹر کو ہی کیوں نہ سونپ دیا جائے. اور پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہندوستانی جمہوریت میں ایک فلاحی ریاست کے جو علامات اب تک ہمیں دکھائی دے رہے تھے وہ علامات بھی ختم ہونے لگے. اسی لئے یہ سوال اٹھتا ہے کہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لئے ریلوے کو منافع بخش دکھانے کے مقصد کو ریل کرایہ میں اضافہ کے فیصلے سے جوڑ کر کیوں نہیں دیکھا جا سکتا؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔