مذہبی رہنما – صفائی اور خیر سگالی 

ڈاکٹر مظفرحسین غزالی 
صاف رہنا جانداروں کی فطرت میں شامل ہے۔ ان کے ذریعہ خارج کی گئی گندگی کو ٹھکانے لگانے کا انتظام بھی قدرت نے کیا ہے لیکن ترقی کے نام پر پیدا ہوئی گندگی، فیکٹریوں کا کچرا، کیمیکل، آبادی، ندی، تالاب اور پانی کے ذخائر کے قریب انسانی غلاظت نے صحت اور پانی کے تحفظ کا مسئلہ پیدا کردیا ہے۔ گندگی وپانی کے ذریعہ پیدا شدہ بیماریوں کی وجہ سے پانچ سال سے کم عمرکے 1600بچے روزانہ موت کے منہ میں سماجاتے ہیں۔ اس کی روک تھام کے لیے دنیا کو ہر سال 23بلین ڈالر اضافی خرچ کرنے پڑرہے ہیں۔ اس لیے دنیا کے اکثر ممالک پانی کے صحیح استعمال، صفائی اور حفظان صحت پر خصوصی توجہ دینے کو مجبور ہیں۔
وزیر اعظم نے خود ہاتھ میں جھاڑو لے کر سوچھتا مہم کا آغاز کیا۔ اس کو کامیاب بنانے کا بیڑا اب مذہبی رہنماؤں نے اٹھایا ہے۔ وہ صفائی، صحت، کھلے میں رفع حاجت، پانی کا تحفظ اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی جیسے اہم مسائل پر گفتگو کیلئے لداخ میں ایک کانفرنس میں شریک ہوئے۔ اس دور روزہ کانفرنس کا اہتمام بچوں کے لئے کام کرنے والی اقوام متحدہ کی تنظیم یونیسیف اور گلوبل انٹر فیتھ واش الائنس (جیوا) نے کیا تھا۔ اس میں مرکزی وزیر ڈاکٹر ہرش وردھن، نریندر تومر، ریاستی وزیریرٹسرنگ ڈورجی، جیوا کے بانی اور پرمارتھ نکیتن رشی کیش کے صدر سوامی چدانند سرسوتی، ڈیوائن فاؤنڈیشن کی صدر سادھوی بھگوتی سرسوتی، مسلم پرسنل لاء بورڈ کے نائب صدر ڈاکٹر کلب صادق، گلوبل امام کونسل کے مولانا لقمان تاراپوری، بین الاقوامی صوفی فاؤنڈیشن کے صدر شاہد علی خاں، درگاہ اجمیر شریف کے دیوان زین العابدین، مہامنڈیشور سوامی ہری چیتانند ہریدوار، اشوک مشن انڈیا کے صدر بودھ لامہ لویجگ، مہابودھی انٹر نیشنل پیڈیشین سینٹر کے صدر وین بھیکو سنگھ سینا، آرٹ آف لیونگ کارناٹک کے سوامی جینت، برہم کماری مونٹ آبو کی ڈاکٹر بنی، سوامی آدتیہ نند، گولڈن ٹمپل کے چیف جتھہ دارگیانی گربچن سنگھ، گرودوارا پر بندھک کمیٹی دہلی کے پرم جیت سنگھ، ڈاکٹر ایچ آر ناگیندرا وائس چانسلر، مقامی ایم ایل اے نوانگ جورا، یونیسیف کے واش اسپیلشٹ منیش واسوجا اور کمیونی کیشن اسپیشلسٹ سونیا سرکار کے علاوہ مقامی رضا کار تنظیموں وعبادت گاہوں کے ذمہ داروں نے خاص طور پر حصہ لیا تھا۔
اس موقع پر سوامی چداند سرسوتی نے کہا کہ مذہبی وسیاسی رہنماؤں کی موجودگی سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی اوراتحاد کا جو ماحول بنا ہے، اس سے بے پناہ ہمت وحوصلہ ملتا ہے۔ اسی جذبہ کے ساتھ لداخ کی خوبصورت وادیوں کے درمیان سندھ ندی کے کنارے ہم سب مل کر یہ عہد کرتے ہیں کہ آج کے بعد کبھی کسی بچہ کو پانی، صفائی اور صحت کے فقدان کی وجہ سے جان نہیں گنوانی پڑے گی۔ عورتوں کو ضرورت سے فارغ ہونے کیلئے اندھیرا ہونے کا انتظار نہیں کرنا ہوگا۔ ڈائریا سے بڑی تعداد میں ہلاکتیں نہیں ہوں گی جس کی اصل وجہ کھلے میں رفع حاجت اور بنیادی مینی ٹیشن کی کمی ہے، سوامی جی کے ساتھ سبھی رہنماؤں نے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑکر اس عہد کو دوہرایا۔
مرکزی وزیر برائے دیہی ترقی، پنچایت راج وینی ٹیشن نریندر تومر نے 25سے زیادہ مذہبی رہنماؤں کے سوچھتا مہم سے جڑنے کے لیے سوامی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اسے تاریخی واقعہ بتایا۔ انہوں نے کہا کہ مذہبی شخصیات کی موجودگی سے یقین ہوگیا ہے کہ یہ مہم ضرورت کامیاب ہوگی، وہ دن دور نہیں جب ملک کھلے میں رفع حاجت کے مسئلہ سے نجات حاصل کرے گا۔ کیونکہ ا ن میں سے ہر ایک کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ دھرم گروؤں کے ساتھ آنے سے لوگوں کی غلط فہمیاں بھی دور ہوں گی۔ عوام کی شرکت کے بغیر سرکار اس مہم میں کامیاب نہیں ہوسکتی، مذہبی رہنماؤں کے بیدار کرنے پر عوام سوچھتا مشن سے جڑسکیں گے۔
ڈاکٹر ہرش وردھن وزیر برائے سائنس ٹیکنالوجی نے کہا کہ سب سے بڑا جذبہ انسانیت کا جذبہ ہے۔ انسان کی شکل میں پیدا ہونا سب سے بڑی کامیابی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر انسانیت کو ہم اپنا دھرم بنالیں تو پھر کوئی پروگرام کو کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ بھلے ہی ہم الگ الگ مذاہب کے ماننے والے ہیں لیکن انسانیت کی خاطر ایک اسٹیج پر موجود ہیں ہم سب ایک ہیں، پانی کے صحیح استعمال، صفائی اور صحت کیلئے ایک ہوجائیں۔ انہوں نے کہا کہ سرکار جلد ہی ایسی تکنیک لانے والی ہے جس سے لوگ کوڑے کو بیچ کر آمدنی کر سکیں گے۔ سرکار نے دو برسوں میں دو کروڑ بیت الخلاء بنوائے ہیں اور تقریباً 2.75لاکھ اسکولوں میں خاص طور پر لڑکیوں کے لیے 4.25لاکھ بیت الخلاء تعمیر ہوئے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ ان کے رکھ رکھاؤاور نئے طرح کے ٹوائیلٹ بنانے پر بھی کام چل رہا ہے۔ سائنس ٹیکنالوجی وزارت سوچھ بھارت مشن کے ساتھ ہے۔
مذہبی رہنماؤں نے اپنی گفتگو میں ان مسائل پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ ڈاکٹر کلب صادق نے کہا کہ ہم ہمہ وقت ان لوگوں کے ساتھ ہیں جو واقعی ملک کیلئے کچھ کرنا چاہتے ہیں، چاہے وہ صفائی مہم ہو یا پھر قومی یکجہتی کا معاملہ، مولانا لقمان تاراپوری نے اسلام کے پاکی وپانی بچانے کے فلسفہ کو بیان کیا۔ شاہد علی خاں نے درگاہوں کے آس پاس صفائی رکھنے اور زائرین کو اس کی اہمیت سے واقف کرانے کا عہد دوہرایا۔ زین العابدین نے گنگا جمنی تہذیب کے فروغ کو سوچھتا مہم کی کامیابی کیلئے ضروری بتایا۔، گیانی گربچن سنگھ نے پیدائش سے لے کر موت تک انسانی زندگی میں پانی کی اہمیت کو بتایا تو مہامنڈیشور سومی چیتنا نند نے مذہبی رہنماؤں کے کشمیر جاکر گمراہ نوجوانوں کو سمجھانے کی بات کہی۔، مقامی اے ایل اے جورا نے کہا کہ ہم سب بہت سے مذہبوں کے لوگوں کے ساتھ رہتے ہیں کوئی اس دیش کا اکیلا مالک نہیں ہے، ہم سب اس کے مالک ہیں، امن وشانتی اور ڈولپمنٹ تبھی ہوگا جب ہم دوسرے مذاہب کی عزت کریں گے۔ کثرت میں وحدت اس ملک کی روح میں ہے۔
کانفرنس کے دوران مذہبی رہنماؤں نے’’ سرو دھرم سوچھتا ایوم سدبھاؤنا‘‘ مار چ میں حصہ لیا اور سبھی مذہبوں کی عبادت گاہوں کا دورہ کیا تاکہ صحت، صفائی اور پانی کی حفاظت کے لیے لوگوں کو بلا تفریق مذہب وفرقہ بیدار کیا جاسکے۔ یہ لداخ میں آپسی میل ملاپ کو دیکھ کر کشمیر کے بارے میں جو کچھ کہا جاتا ہے، ایک طرف اس کی نفی ہوئی تو دوسری طرف کثرت میں وحدت کا مشاہدہ، شاید اسی کو کشمیریت کہا جاتا ہے۔ اس شہر میں اگر چہ بودھ اور مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہے اور ہندو، سکھ اور عیسائی مذہب کے ماننے والے کم ہیں لیکن ایک نظر میں دیکھ کر پہچاننا مشکل ہوگا جب تک کہ آپ نام نہ معلوم کریں۔ لیہہ کے مین بازار میں داخل ہوتے ہی ایک کثیر منزلہ خوبصورت جامع مسجد نظر آتی ہے۔ یہ مسجد 1666ء میں تعمیر ہوئی تھی۔ کہتے ہیں کہ امیر کبیر علی ہمدانی جس جگہ عبادت کرتے تھے، یہ مسجد اسی جگہ بنی ہے۔ مسجد میں ایک وقت ایک ہزار لوگ نماز ادا کرسکتے ہیں، یہیں ایک بزرگ حاجی غلام رسول بٹ سے ملاقات ہوئی۔ یہ تقسیم ملک کے وقت 1947ء میں پاکستانی فوجیوں کو کشمیر میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے لیہہ سے گئے 40نوجوانوں کے جتھے میں شامل تھے۔
مسجدکے قریب ہی ایک خوبصورت اور کشادہ امام باڑہ ہے، امام باڑے سے آگے بڑھنے پر بائیں جانب مڑتے ہی لداخ بدھسٹ اسوسی ایشن مونیٹری اور جامع مسجد کے پیچھے تقریباً 100میٹر کے فاصلے پر گرود واروں داتن صاحب ہے۔ اس کے چند قدم فاصلے پر ہی بائیں جانب موراوین چرچ انیکتا میں ایکتا کا احساس کراتا ہے۔ چرچ اس دور کی یادگار ہے جب لیہہ مشن کا مرکز ہوا کرتا تھا۔ 1885میں چرچ بنا اور 1887میں مشنریوں نے یہاں پہلا ایلوپیتھی اسپتال قائم کیا اور 1892میں اسکول تعمیر ہوا۔ چرچ سے نکل کر روحانی پیشواؤں کا قافلہ رادھا کرشن مندر پہنچا۔ یہ مندر 1973میں بناہے، 200سے 250 خاندان اس کے ساتھ جڑے ہیں، سبھی مذہب کی عبادت گاہیں اتنی قریب قریب ہونے کے باوجود یہاں نہ کوئی مسئلہ ہے، نہ قضیہ نہ شکایت، امن وسکون اور روا داری کی یہی آب وہوا لداخ کی خوبصورتی میں چار چاند لگاتی ہے۔
مہابودھی بین الاقوامی پیڈیکیشن سینٹر کے کیمپس میں مذہبی رہنماؤں نے پیڑ لگاکر خصوصی انٹر فیتھ پیس گارڈن کا افتتاح کیا۔ پیڈیٹشن سینٹر کے باہر لیہہ میں پہلے بایو ٹوائیلٹ کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔ یہاں پہلے یہ سہولت موجود نہیں تھی۔ لداخ شمال مغربی ہمالیہ کا کوہستانی علاقہ ہے، اسے ہمالیہ کا ریگستان بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں کی 95فیصد زمین زراعت کے قابل نہیں ہے۔ صرف 5فیصد میں کھیتی ہوتی ہے۔ سال بھر میں یہاں 10سینٹی میٹر بارش ہی ہوپاتی ہے۔ یہاں کا خاص کاروبار سیاحت ہے، نریندر تومر کے مطابق لداخ میں 2400خاندان ابھی بھی کھلے میں رفع حاجت کرتے ہیں۔ اس لیے لداخ کھلے میں رفع حاجت کی وجہ سے پیدا ہونے والی خطرات سے محفوظ نہیں ہے۔ یہاں کینسر کے مریضوں میں غیر معمولی اضافہ تشویشنا ک ہے اس کی وجہ کا ابھی تک پتہ نہیں لگایا جاسکا ہے۔
لداخ میں دوسرا بڑا مسئلہ رننگ واٹر کا ہے۔ سردی میں برف جمنے سے پانی ٹینکروں کے ذریعہ مہیا کرایا جاتا ہے لیکن گرمی میں گلیشیر پگھل جانے سے یہاں پینے کے پانی کی دشواری ہوتی ہے۔ لداخ کے لوگوں کی بڑی پریشانی سردی کے موسم میں راستے بند ہوجانے کی ہے۔ بھیکو سنگھ سینا گفتگو کے دوران اپنا درد چھپا نہیں پائے۔ انہوں نے کہا کہ سردی کے موسم میں یہاں آنے جانے کے لیے صرف ہوائی راستہ ہی باقی رہتا ہے جو انتامہنگا ہوجاتا ہے کہ عام آدمی برداشت نہیں کرسکتا۔ انہوں نے وزراء کی اس طرح توجہ دلائی اور سرکار سے مطالبہ کیا کہ وہ ہوائی کرایوں پر نظر ثانی کرے۔ انہوں نے مقامی گھوٹ زبان کو منظوری دینے اور کیلاش مان سروور کی تاترا کے لیے لداخ سے راستہ کھولنے کا بھی مطالبہ کیا۔
صفائی، حفظانِ صحت، سینی ٹیشن اور پانی کی حفاظت کا مذہبی رہنماؤں کا ایک پلیٹ فارم پر آکر کام کرنے کا عہد یقیناًقابل ستائش ہے اور امید ہے کہ یونیسیف اور جیوا کی یہ پہل کا میابی سے ہمکنار ہوگی۔ اگر اس طرح مذہبی وروحانی رہنما ملک کے دوسرے حصوں میں تعلیم، رواداری، فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور قومی اتحاد کے لیے آگے بڑھ کر کام کریں تو نفرت پھیلا کر قانون اور یکجہتی کو چیلنج کرنے والوں کے حوصلے ضرورت پست ہوں گے۔ ملک کی صحت وترقی کے لئے سب کو مل کر چلنا ہوگا۔ یہی اس ملک کی راویت ہے اور اسی میں ہماری کامیابی ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔