بچوں کی تعلیم  و تربیت

تحریر:  محمد اسحاق      ترتیب:   عبدالعزیز

            قصہ مشہور ہے کہ ایک عورت اپنے بچہ کو لے کر نپولین کے پاس پہنچی اور کہا، اسے آپ کے حوالے کرتی ہوں، آپ س کی تربیت کیجئے۔ پوچھا، عمر کیا ہے؟ بولی، پانچ سال۔ نپولین نے اس ذمہ داری کو قبول کرنے سے یہ کہتے ہوئے انکار کردیا کہ اس کی تعلیم و تربیت کا زمانہ گزر گیا۔ ماہرین نفسیات کا خیال ہے کہ بچہ ابتدائی پانچ برسوں میں جو سیکھتا ہے، باقی ساری عمر میں اس کے مساوی سیکھ پاتا ہے۔ انسان کے بچہ کے سیکھنے کا زمانہ تمام مخلوقات میں بہت طویل ہے۔

            پیدائش سے لے کر 25 سال کی عمر تک بچہ بہت کچھ سیکھتا ہے، اس بچہ کی نشو و نما دس بارہ برس تک بہت تیز ہوتی ہے اور اٹھارہ بیس سال تک جاری رہتی ہے۔ جسمانی و نشو و نما کے ساتھ ساتھ ذہنی اور دماغی نشو و نما بھی ضروری ہے۔ اگر ابتدائی عمر میں تعلیم و تربیت کا انتظام ٹھیک سے نہ ہو تو طبعی عمر کے برخلاف ذہنی اور دماغی عمر میں پیچھے رہ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 40-50 سال کے بچہ کی عمر کے لوگ اگر پڑھنے لکھنے سے دور رہ جائیں تو ان کی دماغی عمر 8-10 سال کے بچہ کے برابر رہ جاتی ہے۔ عمر کی بزرگی کس کام کی، اصل بزرگی دل و دماغ اور عقل و دانش کی ہوتی ہے۔

            افسوس اس بات کا ہے کہ عمر کا یہی زر خیز زمانہ یعنی پیدائش سے 5-6 سال تک ہماری غفلت کی وجہ سے بنجر رہ جاتا ہے۔ ماں باپ غریب، جہالت، لاڈ پیار کی وجہ سے چھوٹے بچوں کی تعلیم و تربیت پر بہت کم توجہ دیتے ہیں۔ غریب خاندانوں کے بچے گلی کوچوں میں جنگل کے پودوں کی طرح اُگ آتے ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے دیکھتے یہ قد آور ہوجاتے ہیں لیکن اس میں پھل پھول کم آتا ہے۔ جو کھایا وہ ساری عمر کھویا۔ جب یہ بچے 6سال کی عمر میں کسی اسکول میں شریک ہوجاتے ہیں تو اکثر تعلیم میں پیچھے رہ جاتے ہیں، بعد میں ٹیوشن کی کتنی ہی کھاد دی جائے وہ اکثر بیکار ہی جاتی ہے۔

            سچ پوچھو تو چھوٹے بچوں کی تعلیم و تربیت کیلئے اصل میں ماہرین تعلیم اور ماہرین نفسیات کی ضرورت ہے لیکن ان سب ماہرین کو مہارے ملک میں اتنی فرصت کہاں ؟ یہی وجہ ہے کہ عثمانیہ یونیورسٹی نے بی۔ ایڈ کے مماثل تعلیم اطفال کا ایک نیا ڈپلوما کورس شروع کیا ہے، کیونکہ چند ہی برسوں میں (بلکہ آج بھی) ایسی ٹرینڈ گریجویٹ خواتین کی مانگ بہت بڑھ جائے گی، جدید قومی تعلیم پالیسی 1986کے تحت اب ’’عملی پروگرام‘‘ حکومت ہند نے شائع کیا ہے۔

            اس میں بتلایا ہے کہ سارے ملک میں جو نرسری اسکول، پری پرائمری ایجوکیشن سینٹرس، چائلڈ کیئر سینٹرس وغیرہ قائم ہیں وہ ملک کے دس فیصد بچوں کا بھی احاطہ نہیں کرسکتے۔ 1995ء تک بچوں کی تعلیم و تربیت اور نگہداشت کے سارے ملک میں 20 لاکھ مراکز کھولنے کا پروگرام ہے۔ یہاں کام کرنے کیلئے ٹرینڈ گریجویٹ سینکڑوں نہیں، بلکہ ہزاروں کی تعداد میں کم ہوں گے۔ اس نصاب کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ خود روزگار کے مواقع فراہم کرتا ہے۔ ایسی خواتین خود اپنا چائلڈ کیئر سینٹر پری پرائمری اسکول کرش وغیرہ چلا سکتی ہیں۔ آپ نے سنا ہوگا کہ لڑکے کو تعلیم دینا ایک فرد کو پڑھانا ہے اور لڑکی کو تعلیم دینا سارے کنبہ کو تعلیم دینا ہے۔ ایسی ٹرینڈ خواتین چھوٹے بچوں کی تعلیم و تربیت کے راز سے واقف ہوجاتی ہیں۔ وہ نہ صرف اپنے بچوں کے بلکہ سارے خاندان کے افراد کی بہترین رہنمائی کرسکتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سلطان العلوم ایجوکیشن سوسائٹی نے بڑی دور اندیشی سے بی۔ ایڈ کورس کے علاوہ سالِ گزشتہ سے پوسٹ گریجویٹ ڈپلوما برائے اطفال کا آغاز کیا ہے۔ اس کا پہلا بیچ عثمانیہ یونیورسٹی کے امتحان میں شریک ہوچکا ہے۔ دوسرے سال کے کورس میں داخلہ شروع ہوچکا ہے۔ ایک بات یہاں کہنے کی یہ ہے کہ ہماری قوم میں سوچ وچار اور تذبذب کی عادت عام ہے، اہل وطن جو زمانہ کی روش اور تیز رفتاری سے واقف ہیں وہ ایسے سنہرے مواقع سے فائدہ اٹھانے کی دھن میں لگے رہتے ہیں۔ ہمارے ہاں گریجویٹ لڑکیوں کی کمی نہیں، وہ یا تو بیکار ہوں گی یا ایم۔ اے، ایم فل کی سوچ رہی ہوں گی یا ان کے ماں باپ ان کے ہاتھ لال پیلے کرنے کی فکر میں ہوں گے۔ یہ تو ضرور کیجئے لیکن اکثر ایسا ہوا ہے کہ دو چار سال یوں ہی گزر گئے، جو وقت اور مواقع نصیب اس کو یوں ہی ضائع نہ کیجئے۔

تبصرے بند ہیں۔