زبان

قارئین کرام: دنیا کی قیمتی اور بے قیمت چیزوں کا تذکرہ تو آپ نے بہت سنا ہوگا، یہ قیمتی وہ قیمتی، کسی نے کہا سونا سب سے زیادہ قیمتی، کسی نے کہا ہیرے سب سے زیادہ قیمتی، کسی نے کہا غذا سب سے قیمتی، کسی نے کہا پانی سب سے زیادہ قیمتی، کسی نے کہا ہوا سب سے زیادہ قیمتی۔ مذکورہ اشیاء میں سے ہر ایک شیٔ کی اپنی جگہ ایک اہمیت ہےاور اپنے اپنے اوقات میں وہ بیش قیمت بھی ہے۔ اسی طرح بہت سی چیزیں لوگوں کی نگاہوں بے قیمت اور معمولی بھی ہیں۔ لیکن آج میں آپ سے سب سے زیادہ قیمتی اور سب سے زیادہ کم قیمت بلکہ بے قیمت شیٔ کے تعلق سے بات کرنا چاہتاہوں، وہ اتنی قیمتی ہے کہ اس کے کرشمات انسان کو درجۂ اعلیٰ اور لوگوں کامحبوب ومطلوب بنادیتی ہے، اتنی قیمتی ہے کہ اس کی لطافت، اس کی شیرینی، اس کی مٹھاس، اس کی حلاوت وچاشنی ابن آدم کو دنیا وآخرت دونوں جہان میں کامیاب وکامران کردیتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ ایک زمانہ تک یہ سب چیزیں لوگوں کے احساسات اور محسوسات کا حصہ بن جاتی ہیں۔ لیکن یہی وہ شیٔ ہے جب وہ بے محل استعمال ہوتی ہے، بے جا چلائی جاتی ہے تو وہ اپنی اہمیت کھودیتی ہے اور اتنی بے قیمت اور بے حقیقت ہوجاتی ہے کہ دنیائے انسانیت بالکل ارزاں ہوجاتی ہے، کوئی اس کی قیمت لگانے کے لئے بھی تیار نہیں ہوتا، پھر وہ صاحب شیٔ کو دنیا وآخرت دونوں کے لئے ذلیل ورسوا بناکر رکھ دیتی ہے، چاشنی کی جگہ کھٹاس، شیرینی کی جگہ تلخی، لطافت کی جگہ زخم پیدا کردیتی ہے۔ لوگ اپنے احساسات سے اس کو کھرچ کر پھینک دینے پر مجبور ہوتے ہیں۔ آخر ہے وہ کیا چیز؟ وہ زبان ہے۔
نئی اکرمؐ نے مومن کی تعریف کرتے ہوئے بیان فرمایا ’’سب سے بہتر اور پختہ ایمان والا وہ شخص ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مؤمن محفوظ رہیں۔‘‘ (متفق علیہ) زبان رسالت نے زبان کے لفظ کو پہلے اور ہاتھ کے لفظ کو بعد میں استعمال کیا۔ اس کی وجہ محدثین یوں بیان کرتے ہیں کہ زبان ہر موقع پر پہلے استعمال ہوتی ہے، ہاتھ کی باری تو بہت بعد میں آتی ہے۔ خواہ خیر کا موقع ہو یا شر کا۔ کیوں کہ کمزور سے کمزور شخص کو بھی اپنے زبان کے استعمال کرنے سے کوئی طاقت نہیں روک سکتی ہے۔ لیکن ہاتھ کے استعمال پر قدرت لازمی ہے۔ عربی کا ایک بہت خوبصورت مثل مشہور ہے ۔ ’’کلم اللسان انکیٰ من کلم السنان‘‘ زبان کا زخم تلوار کے زخم سے زیادہ بوجھل ہوتاہے۔
آج ہمارے مسلم معاشرہ کی سب سے بڑی کمزوری، برائی، خرابی اسی زبان کا بے جا استعمال ہے، آج ہمارا جس بے چینی، جس خلفشار، جس انتشار، جس اختلاف کا شکار ہے وہ اہل عقل وفہم سے پوشیدہ نہیں ہے۔ گھرکا گھر اجڑ چکاہے، کتنی ماؤں کی مامتا چھن چکی ہے، کتنی بہنیں بیوگی کی زندگی پر مجبور ہیں، کتنی بیویاں کسمپرسی کے حالات کی شکار ہیں، کتنے گھروں کا سکون غارت ہوچکا ہے، یہی نہیں کتنی مساجد ومدارس، کتنے ادارے اور معاشرہ کی اصلاحی تنظیمیں اور تحریکیں اپنی موت آپ مرچکی ہیں، یہ سب اسی زبان کی کرشمہ سازی اور کرم فرمائی ہے۔ ہمیں اس طرف خاص توجہ دینی ہوگی اور فرمان رسالت مآبؐ پر عمل پیراہونا ہوگا، ورنہ زندگی تو جہنم بن ہی چکی ہوگی ، نعوذ باللہ کہیں آخرت بھی جہنم نہ بن جائے۔ اللہ اس کی توفیق سے نوازے ۔ آمین

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔