زعفرانی دہشت گردوں کے لئے ’’اچھے دن‘‘

سابق انسپکٹر جنرل پولس (مہاراشٹر) مسٹر ایس ایم مشرف نے کلکتہ میں منعقدہ ایک مذاکرہ میں دلائل سے چند ماہ پہلے ثابت کیا تھا کہ ہندستان میں حکومت کے جتنے ادارے پائے جاتے ہیں ان میں سب سے طاقت ور ادارہ ’’آئی بی ‘‘ ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ یہ ادارہ ایسا ہے جو حکومت سے بھی زیادہ اختیارات رکھتا ہے۔ یہ ایک ایسا ادارہ ہے جو کسی کے سامنے جوابدہ نہیں ہے اور اس کے پاس جو رقوم خرچ کیلئے ہوتے ہیں اس کا حساب کتاب (Audit) بھی نہیں ہوتا، اس لئے یہ ادارہ بے حساب رقم خرچ کرنے کا حق رکھتا ہے۔ موصوف نے یہ بھی بتایا کہ سپریم کورٹ میں اس کے خلاف مقدمہ دائر ہے مگر سپریم کورٹ نے بھی اس مقدمہ کی شنوائی برسوں سے زیر التوا رکھی ہے۔ مسٹر مشرف نے یہ بھی بتایا کہ اس ادارہ کو برہمنواد لابی چلاتی ہے۔ موصوف نے اے ٹی ایس کے ہیمنت کرکرے پر بہت ہی جامع کتاب لکھی ہے جس میں انھوں نے ثابت کیا ہے کہ کرکرے کو اس لئے قتل کیا گیا کہ وہ ہندو دہشت گردی جو آر ایس ایس کے ذریعہ پھیل رہی تھی اور ان کے لوگ ہندستان کے کئی مقامات پر بم دھماکے کئے جس کی وجہ سے ہزاروں افراد ہلاک ہوئے اور لاتعداد افراد زخمی ہوئے، اس کا پردہ فاش کیا۔ مشرف صاحب کی ایک کتاب بھی منظر عام پر آگئی ہے جس کا عنوان ہے ’’آر ایس ایس ۔ ملک کی سب سے بڑی دہشت گرد تنظیم‘‘۔ اس کتاب میں انھوں نے سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر اور کرنل پروہت کے کالے کرتوتوں کو تفصیل سے پیش کیا ہے۔ مودی حکومت کے آنے کے بعد آر ایس ایس نے این آئی اے کے ذریعہ اپنے تمام لوگوں کو رہا کرانے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ اس کی یہ پہلی کڑی ہے کہ این آئی اے نے دہشت گردوں کے ان دو خوفناک سرغنوں کو کلین چٹ دے کر رہائی کا بندوبست کر دیا ہے۔ این آئی اے نے ان دہشت گردوں کے ثبوتوں کو مٹانے کا کام مودی حکومت کے آنے کے بعد ہی شروع کر دیا تھا اور جو لوگ چشم دید گواہ تھے ان کے بیانات بھی بدلوانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا تھا۔
مسٹر مشرف نے اپنی کتاب کے ایک باب کا عنوان رکھا ہے : ’’از سر نو تفتیش سے پوری تصویر بدل گئی‘‘۔ اسی باب میں اجمیر شریف، مکہ مسجد اور سمجھوتہ ایکسپریس اور مالیگاؤں کے بم دھماکوں کی تفصیل پیش کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’اجمیر شریف (راجستھان) میں 11اکتوبر 2007ء کو بم دھماکہ ہوا جس میں دو لوگوں کی موت ہوگئی اور 15 افراد زخمی ہوگئے۔ اس سے دو مہینے قبل یعنی 18 اگست 2007ء کو مکہ مسجد (حیدر آباد) میں بم دھماکہ ہوا جس میں 9 لوگوں کی موت ہوگئی اور کئی افراد زخمی ہوئے تھے۔ ان دونوں بم دھماکوں کے بعد فوراً ہی IB اور مرکزی وزارتِ داخلہ نے لشکر طیبہ، حرکت المجاہدین، جیش محمد، SIMI وغیرہ تنظیموں پر دھماکوں کا الزام عائد کر دیا اور تمام ذرائع ابلاغ نے اس بارے میں کوئی تصدیق کئے بغیر اس کی خوب تشہیر کی۔
حقیقت یہ ہے کہ دونوں دھماکوں میں جس موبائل فون کے ذریعے بم ڈیٹونیٹ کئے گئے تھے ان موبائل فون کے سم کارڈوں کے نمبر ایک ہفتہ کے اندر اندر مقامی پولس نے معلوم کر لئے تھے۔ موبائل فون کے ذریعے کئے گئے بم دھماکے میں تفتیش کے نقطۂ نظر سے سم کارڈ بے حد اہم سراغ ہوتا ہے اور اس سراغ کے ملنے پر یہ پورا جرم یقینی طور پر ثابت کیا جاسکتا ہے، لیکن چند ’وجوہات‘ کی بنا پر، غالباً خفیہ ایجنسیوں کے دباؤ کی وجہ سے، مقامی پولس نے اس اہم ثبوت کو پوشیدہ رکھ دیا۔ اس کے برعکس یہ دھماکے بھی مسلم تنظیموں کی کارستانی ہونے کے شبہات کو ہوا دیتے رہے اور ذرائع ابلاغ نے اس بات کی خوب تشہیر کرنے کا کام جاری رکھا۔ اس طریقے سے 2007ء تا 2010ء ان تین برسوں کے دوران جان بوجھ کر غلط تفتیش کرکے سیکڑوں بے گناہ مسلم نوجوانوں کو گرفتار کرنے کا سلسلہ برقرار رہا۔
لیکن مالیگاؤں 2008 ء کی تفتیش میں نومبر 2008ء میں جب لیفٹیننٹ کرنل پروہت کا نارکو ٹیسٹ کیا گیا تب انھوں نے تسلیم کیا کہ اجمیر شریف بم دھماکے کیلئے انھں نے ہی RDXمہیا کرایا تھا۔ سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر اور اجئے راہیرکر نے بھی اپنے جوابات میں اس بات کی تصدیق کی۔ اس کے علاوہ ہیمنت کرکرے نے جو لیپ ٹاپ ضبط کئے تھے ان میں ایک میٹنگ کی تحریری طور پر ثابت ہوتا ہے کہ ابھینو بھارت کے انتہا پسندوں نے تسلیم کرلیا کہ وہ بم دھماکوں میں ملوث ہیں۔
مذکورہ بالا واقعات رونما ہونے کے بعد اجمیر بم دھماکہ کی از سر نو تفتیش کرنے کا عوام کی جانب سے مطالبہ زور پکڑنے لگا۔ بالآخر راجستھان حکومت کو اس مطالبے کے سامنے جھکنا پڑا اور اس جرم کی از سر نو تفتیش کرنے کیلئے حکومت نے 2010ء میں خصوصی تفتیشی ایجنسی (SIT) قائم کی۔ ایس آئی ٹی نے بیحد دیانت داری کے ساتھ تفتیش کرکے مذکورہ بم دھماکے میں ’آر ایس ایس، ابھینو بھارت‘ اور ’جئے وندے ماترم‘ تنظیموں کے انتہا پسندوں کے ملوث ہونے کے پختہ ثبوت پیش کرتے ہوئے مورخہ 20 اکتوبر 2010ء کو ان کے خلاف کورٹ میں چارج شیٹ داخل کی۔ SIT نے اپنی چارج شیٹ میں واضح کیا تھا کہ مذکورہ جرم میں ملوث چند ملزمین آر ایس ایس کے اعلیٰ عہدیدار ہیں اور ان کے عہدوں کا پورا بیورا پیش کیا تھا۔
بعد ازاں NIA نے 2011ء میں اجمیر شریف بم دھماکہ کی دوبارہ تفتیش کی۔ NIA نے راجستھان SIT سے کی گئی تفتیش سے اتفاق کرتے ہوئے اسی طرز کی ایک اور چارج شیٹ داخل کی۔ اسی طرح NIA نے مکہ مسجد (حیدر آباد) بم دھماکے کی بھی تفتیش کی اور وہ دھماکہ بھی آر ایس ایس، ابھینو بھارت اور جئے وندے ماترم نے ہی کئے۔ اس بات کو ثابت کرکے ملزموں کے خلاف چارج شیٹ داخل کی گئی۔ ان دونوں جرائم کے ملزمین ایک ہی ہیں اور وہ آر ایس ایس اور دیگر تنظیموں میں جن عہدوں پر فائز تھے، وہ حسب ذیل ہے:
1- سنیل جوشی : آر ایس ایس، مہو (مدھیہ پردیش) ضلع کا ضلع پرچارک۔
2- سندیپ ڈانگے : شاہجہاں پور (مدھیہ پردیش) ضلع کا سابق آر ایس ایس ضلع پرچارک (2005 تا 2008ء) ۔
3- دیویندر گپتا : جام تاڑا (جھار کھنڈ) ضلع کا آر ایس ایس کا ضلع پرچارک۔
4- چند شیکھر لیوے: شاہجہاں پور (مدھیہ پردیش) ضلع کا آر ایس ایس کا ضلع پرچارک۔
5- رام جی کلسنگرا: آر ایس ایس اور ابھینو بھارت کا کٹر کارکن۔
6- لوکیش شرما : جئے وندے ماترم اور آر ایس ایس کا کٹر کارکن۔
7- شیوم دھاکڑ : جئے وندے ماترم اور آر ایس ایس کا کٹر کارکن۔
8- سمندر : جئے وندے ماترم اور آر ایس ایس کا کٹر کارکن۔
9- پرگیہ سنگھ ٹھاکر : جئے وندے ماترم اور ابھینو بھارت کے مابین رابطہ کار۔
10- سوامی اسیما نند: آر ایس ایس کے اعلیٰ لیڈر اور پرمکھ مارگ درشک۔
سمجھوتہ ایکسپریس بم دھماکہ 2007ء:
بھارت اور پاکستان کے مابین تعلقات کو خوشگوار کرنے کے مقصد سے شروع کئے گئے سمجھوتہ ایکسپریس ٹرین میں 19 فروری 2007ء کو، جب ٹرین ریاست ہریانہ سے گزر رہی تھی، پانی پت کے قریب بڑا دھماکہ ہوا جس میں 68 افراد جاں بحق ہوگئے اور کئی افراد زخمی ہوگئے تھے۔
در اصل اجمیر شریف اور مکہ مسجد بم دھماکوں کی طرح اس دھماکے کی حقیقت بھی ایک مہینے میں یعنی مارج 2007ء میں سامنے آنے ہی والی تھی کہ 18 کے دباؤ کے سبب آئندہ چار برسوں تک اس کی باریکی سے تفتیش نہیں ہو پائی۔ اس تعلق سے چند حقائق ذیل میں درج کئے جاتے ہیں۔
مارچ 2007ء میں اس واقعے سے متعلق بیحد اہم سراغ ہریانہ پولس کے ہاتھ لگے تھے اور مزید تفتیش کیلئے وہ اندور (ایم پی) پہنچ گئی تھی لیکن چند نامعلوم وجوہات کی بنا پر مدھیہ پردیش پولس نے ہریانہ پولس کی مدد کرنے سے صاف انکار کر دیا جس کے سبب اسے مایوسی کے ساتھ خالی ہاتھ لوٹنا پڑا۔
بعد ازاں نومبر 2008ء میں مالیگاؤں 2008ء کے ملزم لیفٹیننٹ کرنل پروہت کے نارکو ٹیسٹ سے سمجھوتہ ایکسپریس بم بلاسٹ میں ان کی شمولیت ثابت ہوئی تھی، لیکن IB نے مداخلت کرتے ہوئے ’دنیا بھر میں بھارت کی بدنامی‘ کا خوف دلاکر مہاراشٹر ATS کو مزید تفتیش کرنے سے باز رکھا۔
لیکن ہیمنت کرکرے کے ذریعے مالیگاؤں 2008ء کی تفتیش میں اور اسی طرح کے دیگر بم دھماکوں میں آر ایس ایس، ابھینو بھارت اور دیگر برہمن نواز تنظیموں کی ملک بھر میں پھیلی سازش کا پردہ فاش ہونے سے سمجھوتہ ایکسپریس دھماکے کی از سر نو تفتیش کسی آزاد تفتیشی ایجنسی کے ذریعے ہو، اس بات کا مطالبہ زور پکڑنے لگا۔ چنانچہ 2010ء میں یہ تفتیش قومی تفتیشی ایجنسی (NIA) کو سونپی گئی۔ جیسا کہ اوپر ذکر ہوا ہریانہ پولس نے اس جرم کے سلسلے میں چند بیحد اہم سراغ جمع کرلئے تھے، NIA نے بھی انہی سراغوں کی بنیادوں پر تفتیش کو آگے بڑھایا۔
اس دوران اجمیر شریف اور مکہ مسجد بم دھماکوں میں ماخوذ آر ایس ایس کے اعلیٰ لیڈر سوامی اسیما نند نے دسمبر 2010ء میں مکہ مسجد معاملہ اور جنوری 20111ء میں اجمیر شریف معاملہ ان دونوں معاملات میں خود کے ملوث ہونے کا اعتراف کیا۔ اس میں انھوں نے صرف ان دو دھماکوں میں ہی ملوث ہونا تسلیم نہیں کیا بلکہ مالیگاؤں 2006ء اور سمجھوتہ ایکسپریس 2007ء کے دھماکے بھی آر ایس ایس، ابھینو بھارت اور جئے وندے ماترم ان برہم نواز تنظیموں نے ہی کئے، ایسا حلفیہ بیان معزز جج کے روبرو دیا۔ اس کے علاوہ انھوں نے حسب ذیل باتیں بھی تسلیم کیں:
1- ان کے (اسیما نند کے) ابھینو بھارت اور جئے وندے ماترم جیسی دہشت گرد وہ موجود تھے۔
2- جن میٹنگوں میں بم دھماکے کرنے کی سازش رچی گئی تھیں ان تمام میٹنگوں میں وہ موجود تھے۔
3- انھوں نے مذکورہ دہشت گرد تنظیموں کو مالی تعاون دیا تھا۔
4- انھوں نے دھماکوں میں ملوث دہشت گردوں کو چھپا کر بھی رکھا تھا ، وغیرہ وغیرہ۔
ہریانہ پولس کی جانب سے اس جرم سے متعلق پہلے جمع کئے گئے ثبوت اور بعد میں سوامی اسیما نند کے دیئے گئے قبول نامے کی بنیاد پر NIA نے اپنی تفتیش مکمل کی اور آر ایس ایس، ابھینو بھارت اور جئے وندے ماترم ان تنظیموں کے دہشت گردوں کے خلاف جون 2011ء میں کورٹ میں چارج شیٹ داخل کی ۔ ملزموں میں حسب ذیل افراد درج تھے:
1- سنیل جوشی ۔ 2- سوامی اسیمانند ۔ 3- سندیپ ڈانگے۔ 4- لوکیش شرما۔ 5- لوکیش شرما۔ 6- رام جی کلسنگرا۔ 7- دیویندر گپتا وغیرہ‘‘۔
مسٹر نریندر مودی نے حالیہ لوک سبھا کے الیکشن میں ’’سب کا ساتھ، سب کا ویکاس‘‘ کے نعرہ کے ساتھ یہ بھی کہا تھا کہ ’’اچھے دن آئیں گے‘‘۔ ’’سب کا ساتھ‘‘ کا حال تو یہ ہوا کہ ملک میں فتنہ و فساد، انتشار اور خلفشار سے پہلے کہیں زیادہ بڑھا۔ اور ہندو مسلمانوں کو الگ کرنے اور اونچے اور دلت طبقات میں پھوٹ ڈالنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ ویکاس کا معاملہ تو اس سے بھی برا رہا۔ مودی جی کی منحوسیت تو ایسی ہوئی کہ ملک کے کئی حصوں میں سوکھا پڑگیا ۔ مہاراشٹر میں لوگ بوند بوند پانی کیلئے ترسنے لگے۔
ان چیزوں سے بھی خطرناک بات یہ شروع ہوگئی ہے کہ آر ایس ایس کے جتنے بڑے دہشت گرد پکڑے گئے تھے ان کو این آئی اے کی مدد سے کلین چٹ دی جانے لگی ہے تاکہ وہ سزا سے بچ سکیں، دوبارہ دہشت گردی کے کاموں میں لگ سکیں یا دوسروں کو سکھا پڑھاکر اس کام کیلئے تیار کرسکیں۔ مودی حکومت کا یہ جرم اور ظلم اتنا بڑا ہے کہ تاریخ انھیں کبھی معاف نہ کرسکے گی۔ کسی نے سچ لکھا ہے یا کہا ہے کہ ’’مودی تو ہمیں اچھے دن دے نہ سکے کم سے کم ہمارے برے دن لوٹا دیں‘‘۔ جس نے بھی یہ کہاہے اس کی تمنا تو اسی وقت پوری ہوسکتی ہے جب مودی کے دن ختم ہوں گے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔