کیف و مستی نہ تو قرار میں ہے

کیف و مستی نہ تو قرار میں ہے
جو مزا فصل انتظار میں ہے

جانے کیا جستجو ہے دھڑکن کی
خواہش دل تو اختیار میں ہے

رابطہ حسن ہے محبت کا
اور محبت بس اعتبار میں ہے

وہ اکیلا کبھی تھا مثل ہجوم
آج تنہا جو بزم یار میں ہے

غم جو چھپ جائے پھر وہ غم ہی نہیں
غم تو ہر چشم اشک بار میں ہے

مجھ کو پاکر وہ بھول جاتا ہے
کس خوشی میں ہے کس خمار میں ہے

آئینہ دیکھ کر ہنسی آئے
دل سمجھ لے کسی کے پیار میں ہے

موت آتی ہے وقت پر اپنے
زندگی تو دغا شعار میں ہے

موت بہتر ہے اس سے ابن چمن
زندگی جو رہ فرار میں ہے

تبصرے بند ہیں۔