زمانے کو شاید بتانا پڑے گا

احساس نایاب

 بہن شائستہ کے درد سے آج بھی دل تڑپ اٹھتا ہے، وہ بدنصیب جن کے شوہر تبریز انصاری کو چند روز قبل سنگھی دہشتگردوں نے شہید کردیا اُن کا جرم صرف اتنا سا تھا کہ وہ مسلمان تھے۔

جی ہاں آج کے ہندوستان میں مسلمان ہونا ہی ہر جرم سے بڑا جرم بن چکا ہے جس کی قیمت ہمیں اپنی جانیں دے کر چکانی پڑرہی ہیں۔

مسلمان ہونے کی وجہ سے سنگھی دہشتگردوں نے جئے شری رام کا نعرہ لگاتے ہوئے تبریزانصاری کو اتنی بےرحمی سے پیٹتے رہے کہ اُن کی جان چلی گئی اور 19 سالہ بہن کا سہاگ ہمیشہ کے لئے اجڑ گیا ان کی ہنستی کھیلتی زندگی ویران ہوگئی۔

پہلے سے یہ بدنصیب بن ماں باپ کی بیٹی اُس پر شوہر سے جدا ہوکر وہ اس مطلبی مفاد پرست دنیا میں تنہا رہ گئی، کیونکہ مرحوم تبریز انصاری بھی والدین سے محروم تھے۔ محض دو ماہ قبل یہ دونوں ایک دوسرے کو پاکر مستقبل سے جڑے سنہرے خوابوں کے ساتھ اپنی نئی زندگی کا آغاز کر ہی رہے تھے کہ ان دونوں کی زندگی نفرت کی بھینٹ چڑھ گئی اور ایک ہی پل میں شائستہ کا سہاگ ہمیشہ کے لئے اجڑ گیا، ان کی ساری خوشیاں اُن سے روٹھ گئیں، اُن کے سارے خواب چکناچور ہوگئے۔

آج اُن کے اس غم میں ساری دنیا شریک ہے اور اس ہمدردی کے جذبہ کے ساتھ ہر کوئی اپنے اپنے طریقے سے اپنی استطاعت کے مطابق بہن شائستہ کو ہر طرح سے تعاون کرنے کے لئے آگے آرہے ہیں، چاہے وہ قاتلوں کے خلاف مذمت کرتے ہوئے گھروں سے نکل کر سڑکوں پہ احتجاجی جلوس کرکے ہو، یا انہیں سخت سے سخت سزا دلوانے کی خاطر قانونی چارہ جوئی کرنے کی بات ہو یا تبریز انصاری کی بیوہ شائستہ کو مالی مدد کی فراہمی ہو، ہر طرح سے قوم شائستہ کے ساتھ کھڑی نظر آرہی ہے اور یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے تھوڑا بہت اطمینان ہورہا ہے کہ دنیا میں ابھی بھی تھوڑی بہت انسانیت زندہ ہے۔

 لیکن ان سب کے باوجود یہ سوال اپنی جگہ برقرار ہے کہ یہ آخر کب تک چلتا رہے گا ؟

آخر کب تک ہم اپنی بیوہ بہنوں، یتیم بچوں، اجڑی گود پہ آنسو بہارہی ماؤں کو جھوٹا دلاسہ اور عارضی تسلیاں دیتے رہینگے ؟ آخر کب تک ہم اپنے نوجوانوں کو بےوجہ قتل ہوتے دیکھتے رہیں گے؟ کب تک ان کے جنازے اٹھاتے رہینگے؟ اور آخر کب تک ہم ان کی جانوں کی قیمت لگاتے رہینگے؟

جی ہاں معاوضہ کے نام پہ انسانی جانوں کی قیمت کب تک لگائی جائے گی ؟

ہم یہ نہیں کہتے کہ معاوضہ دینا غلط ہے بلکہ ہمارا کہنا یہ ہے کہ معاوضہ دینے کی نوبت ہی کیوں آئے؟ کیا بڑی سے بڑی قیمت دینے کے باوجود ہم اُس زندگی کی قیمت ادا کرپائینگے؟ مرے ہوئے کو واپس لاپائینگے؟ اُن گھروں کی خوشیاں لوٹا پائینگے ؟

نہیں ہرگز نہیں!

 مرنے والے کے پاس جائیں اور ساری دنیا کی دولت اُس کے قدموں میں رکھ کر پوچھیں تو پتہ چلے گا کہ اُس کو دولت نہیں بلکہ زندگی چاہئے تھی۔

ایک ماں، بہن، بیوی اور بیٹی کے پاس جاکر اُن سے اُن کے اپنوں کی قیمت دریافت کریں تو وہ بھی دنیا بھر کی تمام دولت و آرائش کو ٹھوکر ماردینگے، کیونکہ اپنوں کو کھونے کا غم موت کی تکلیف سے زیادہ اذیت ناک ہے۔

خدارا ان کے درد کو محسوس کریں، اگر اپنی قوم سے، انسانی جانوں سے سچ میں ہمدردی ہے تو اس قتل عام کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں، انسانوں کو اطمینان و سکون سے جینے دیں۔ حکمت و مصلحت کے ساتھ ایسے اقدامات کریں کہ یہ آدم خور درندے کیفرکردار تک پہنچ جائیں اور مستقبل میں کسی بھی گھر کا چراغ نہ بجھے، کسی ماں، بہن سے اُس کا سہارا نہ چھنے ورنہ وہ دن دور نہیں جب ہر مسلم خاتون بیوہ اور ہر بچہ یتیم کہلائے گا۔

ویسے بھی دنیا میں اکیلی، بےسہارا عورت کا کوئی نہیں ہوتا، جس دن سے بہن شائستہ کے بارے میں پتہ چلا ہے اُس دن سے ان کے بارے میں فکر مسلط ہوچکی ہے، اُن کے مستقبل کو لے کر ایک ڈر سا لاحق ہوچکا ہے اور یہ ڈر یہ فکر واجب بھی ہے۔

کیونکہ اُن کے سر سے والدین کا سایہ تو کب کا اٹھ چکا تھا، اب اُن سے بےانتہا محبت کرنے والے شوہر، اُن کے ہمدرد، محافظ تبریز کو بھی ظالموں نے چھین لیا ہے، ایسے میں ماں باپ کا درجہ رکھنے والے ساس سسر بھی نہیں ہیں جن کی سرپرستی میں شائستہ اپنے آپ کو محفوظ تصور کرتی، ایسی صورتحال میں چاروں طرف سے معاوضہ کے نام پہ جو رقم انہیں دی جارہی ہے کیا اس وقت اتنی بڑی رقم دینا مناسب ہے؟

کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ اُن کے لئے وبال بن جائے، رحمت کہیں زحمت کی شکل نہ اختیار کرلے اور یہ ہمدردی کہیں اُنہیں پریشانیوں میں نہ ڈال دے،کیونکہ اس حقیقت کو کوئی جھٹلا نہیں سکتا کہ دنیا میں سب سے بڑا فتنہ زر، زمین اور زن ہے جہاں پیسہ دیکھ کر تابوت میں سویا ہوا مردہ بھی اُٹھ بیٹھے، ایسے میں کسی بھی بےسہارا، کمزور نازک صنف کے پاس اتنا پیسہ دیکھ کر ناجانے کتنوں کی نیتیں بگڑیں گی، کتنے نام نہاد فریبی رشتے جنم لیں گے جن میں ہر کوئی اپناپن جتاتے ہوئے گدھ بن کر نوچنے کی تاک میں رہے گا ویسے بھی اس لالچی دنیا میں 500, 1000 روپیہ کے لئے قتل کرنے سے بھی لوگ پیچھے نہیں ہٹ رہے ہیں، جدھر دیکھو اپنوں ہی کے ہاتھوں یتیموں کا حق مارا جارہا ہے، ایسے میں یہ تنہا نازک صنف کیسے خود کو ان لالچی بھیڑیوں سے محفوظ رکھ پائیگی۔

ہمارے اور آپ جیسے ہمدرد کب تک اُن کے ساتھ رہینگے، محض چند روز آنسو بہاکر، زبانی غم جتاکر سبھی اپنی اپنی زندگیوں میں دوبارہ مصروف ہوجائینگے اور کچھ ہی دنوں میں شائستہ نام بھی بھول جائینگے، کسی کو یہ بھی خبر نہیں رہے گی کہ وہ کہاں ہے اور کس حال میں ہے ۔

 ایسے نازک حالات میں سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ ہماری قوم جذبات کی رو میں بہہ کر کس سمت جارہی ہے؟ معاوضہ کے نام پہ رقم دے کر یا سرکاری نوکری دینے کا وعدہ کرکے ایسا لگ رہا ہے کہ ہم اپنی اصل ذمہ داریوں سے پلہ جھاڑ رہے ہیں، تبریز کے قتل کو لے کر ہندوستان بھر میں جو غصے و بدلے کی آگ بھڑکی ہوئی ہے اس پہ ٹھنڈے پانی کے چھینٹے مارنے کی کوشش کررہے ہیں، یا چند پیسوں کے بدلے کسی کی بےبسی کے ساتھ تصاویر نکال کر اپنی اور اپنی جماعتوں کی واہ واہی بٹور رہے ہیں۔

بہتر تو یہ ہوتا کہ کچھ وقت انتظار کرلیتے، یعنی عدت کا وقفہ گذرنے تک، پھر قوم کے چند ذمہ داران مل کر پہلے اُن کی اُجڑی زندگی کو دوبارہ بسانے کی نیک کوشش کرتے، ایک نیک و دیندار لڑکے سے اُن کا نکاح کرواتے پھر جتنی چاہے رقم اُن دونوں کو تحفے کے طور پہ دیتے جس سے اس بات کی تو تسلی رہتی کہ جس کسی نے بھی ان سے نکاح کیا ہے وہ پیسوں کی لالچ میں نہیں بلکہ سچے دل اور نیک نیت کے ساتھ صرف اور صرف شائستہ سے نکاح کیا ہے۔

اب جبکہ شائستہ کو اتنا معاوضہ دیا گیا ہے کہ کوئی بھی لالچی انسان پیسوں کی خاطر نکاح کا پیغام بھیج دے گا یا نام نہاد مطلبی اپنے ہی دباؤ ڈالنے لگیں گے، ایسے میں کسی کے کردار، اخلاق اُس کی نیت کو سمجھ پانا بہت مشکل ہے اور اس طرح کے ماحول میں ایک تنہا لڑکی کب تک اکیلی بےسہارا رہ سکتی ہے، سماج خود اُس کو جینے نہیں دے گا ایسے میں وہ کس پہ یقین کرے، کس سے سہارا تلاش کرے جبکہ ہر نظر میں ہوس و لالچ بھری ہے۔

کاش ہمارے بزرگ رہنما، قوم کے ذمہ داران حالات کی نزاکت، اس کی سنجیدگی کو سمجھتے ہوئے اس پہ غور و فکر کرتے، ویسے دیکھا جائے تو ہندوستان بھر میں یہ صرف ایک شائستہ کا ہی مسئلہ نہیں ہے، نہ صرف معاوضہ دینا ہی ان مسئلوں کا حل ہے بلکہ مستقل حل تلاش کرنے کے لئے ٹھوس اقدامات کرنے چاہئیے اور ایسے مسئلوں کا مستقل حل نکالنا آج وقت کی اہم ضرورت ہے، ورنہ اللہ نہ کرے اور اگر یہی حالات رہے تو مسلمان بےحس نہ ہوجائیں، اپنوں کو کھونے کے اتنے عادی نہ ہوجائیں کہ ہمارے لبوں پہ اپنوں کے لئے لمبی عمر کی دعائیں بھی گُم ہوجائیں، کیونکہ یہاں پہ پہلے ہی زندہ انسانوں کی قدر و قیمت نہ کہ برابر ہے بھلے وہ مرے یا جئیے، اُس پہ اگر زندہ انسانوں کو بےیار و مددگار مرنے کے لئے چھوڑ کر مرے ہوئے انسانوں کی قیمت لگاتے رہینگے تو ہاتھی والا محاورہ مسلمانوں کے حالات کی ترجمانی کرے گا کہ __________

زندہ ہاتھی لاکھ کا، مرا ہوا سوا لاکھ کا

 بات تلخ ضرور ہے لیکن اس دور کی کڑوی سچائی ہے، بیشک یہ بات بہت سوں کو کڑوی لگے گی

مگر کیا کریں سچائی ہمیشہ کڑوی ہی لگتی ہے ویسے بھی اکثر جگہوں پہ اس طرح کے واقعات دیکھنے اور سننے میں آتے ہیں، اس لئے بہت سوچنے سمجھنے کے بعد ہمیں اس معاملے میں قلم اٹھانا مناسب لگا کیونکہ اب

زمانے کو شاید بتانا پڑے گا

جینے کا نیا رنگ دکھانا پڑے گا

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔