اب چراغوں میں روشنی نہ رہی

عبداللہ زکریا آعظمی

(ممبئ)

آعظم گڑھ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک مردم خیز خطہ ہے۔ ہم آعظم گڑھ کے جس چھوٹے  سے گاؤں میں پیدا ہوئے وہ علاءالدین پٹی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جاۓ پیدائش کے انتخاب کا ہمیں موقع نہی ملا ورنہ ہم تو عدم کو وجود پر ترجیح دیتے اور اسی بہانے بروز قیامت حساب کتاب سے بچ جاتے۔ علاءالدین پٹی اس معنیٰ میں خوش نصیب ہے کہ یہاں ایک نابغۂ روزگار پیدا ہوئے ہیں جنھیں دنیا مولانا عبد السلام ندوی مرحوم کے نام سے جانتی ہے، لیکن گاؤں کی  بدنصیبی کا عالم یہ ہے کہ ان کا بہتر جانشین بننا  تو درکنار بہت کم لوگ ان کے کارناموں سے واقف ہیں۔ ہمارا تعلق اسی خاندان سے ہے ہم بھی کسی کو نہی بتاتے کہ کہاں وہ علم کا آفتاب اور کہاں ہم جیسے بے نور چراغ۔

ہمارے والد کے بقول ہم لوگ آزادی سے پہلے چھوٹے موٹے زمین دار تھے، ہم نے تو زمین داری دیکھی نہی بس اس کے قصے سنے ہیں۔ اس زمانے کی ایک یاد گار بس ایک پھاٹک ( لکڑی کا بڑا دروازہ) ہے، جس کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ اس میں سے ہاتھی کھڑے کھڑے گزر جاتا تھا. اللہ اللہ کیسا زمانہ تھا کہ ہاتھی اور گھوڑے سے عظمت ناپی اور پہچانی جاتی تھی۔ اب تو رولس رائس میں بھی بیٹھ کر وہ جاگیر دارانہ رعونت و تمکنت نہی آتی ہے۔ اللہ بخشے والد مرحوم فطرتاً مذہبی آدمی تھے اور قرب و جوار میں بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے، ویسے اپنے دادا کی ایمانداری اور دین داری کے بہت سارے قصے ہم نے سنے ہیں۔ وہ تحصیل میں ملازم تھے اور اس عہدہ پر فائز تھے جہاں رشوت خوری کے بے شمار مواقع تھے لیکن ان کے پاۓ ثبات میں کبھی لغزش نہی آئی۔ اختیار ہوتو ہم ایسے گھرانے میں پیدا ہونے کا مشورہ کسی کو نہ دیں، کہ ہر آن نئی کسوٹی پر پرکھے جاتے اور نہ جانے کتنی خواہشوں کا گلا گھونٹ کر جینا پڑتا۔

پکڑے جاتے ہیں بزرگوں کے کیے پر ناحق

 ہم نے جب ہوش سنبھالا تو افلاس کا دور دورہ تو نہی تھا پر زمینداری اپنی آخری سانس لے چکی تھی اور سفید پوشی کا بھرم رکھنے کے لئے بڑی جد وجہد کرنی پڑرہی تھی۔ دادا کا انتقال ہوچکا تھا اور والد صاحب ہم سب کا پیٹ بھرنے کے لیے بمبئ آچکے تھے یہاں کہ نامانوس اور اجنبی سرزمین ان کے پسینے کی ایک ایک بوند سے اپنا حق وصول کررہی تھی۔

گاؤں کے مکتب میں ابتدائی تعلیم ختم ہوئی تو سوال اٹھا آگے کہاں تعلیم حاصل کی جاۓ۔ دو کلومیٹر دور واقع جامعۃ الفلاح جو کہ ایک مشہور و معروف دینی ادارہ ہے وہاں ہمار داخلہ حسنات کرا دیا گیا۔ ہمارے زمانے میں جامعۃ الفلاح کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن بھی نہی تھا۔ والدین کی جیبیں خالی کرانے والے پرائیویٹ اسکولوں کا ابھی وجود نہی ہوا تھا۔ ہم تو سمجھتے ہیں کہ یہ پرائیویٹ اسکول اگر عہد وسطی میں ہوتے تو بہت سارے شہزادے قتل ہونے سے بچ جاتے کیوں کہ ترکے میں ان کے لیے تخت کے علاوہ کچھ نہی ملتا، بقیہ مال و متاع تو پرائیویٹ اسکولوں کے مالکان گٹ کر گئے ہوتے۔

ایمان سے کہیں تو جتنے دن جامعۃ الفلاح میں گزارے منافقت میں گزارے، بظاھر نیک و صالح اور بباطن تمناؤں اور خواہشات کا ایک ہجوم بے کراں۔ اس باہمی تصادم اور آویزش میں زندگی کے تقریباً دس سال ضائع ہوگئے‌، برسوں والد کے اس فیصلہ سے نالاں رہے اور دل سے کبھی مولوی نہی بنے۔ آج ان کے لیے دل سے دعائیں نکلتی ہیں کہ یہ ٹوٹا پھوٹا ایمان جو حاصل ہے اس کا سرچشمہ والد کا کیا ہوا ایک فیصلہ ہے۔ بچپن کے معصوم ذہن پر جو نقوش مرتسم ہوگئے انھوں نے الحاد و ارتداد کے نہ جانے کتنے یلغاروں پر بند باندھے اور گھاٹ گھاٹ کا پانی پینے کے باوجود اس نقطہ اتصال سے ہمیں جوڑے رکھا۔

پرت سے پرت کھلتی چلی گئی بات علاء الدین پٹی کی ہورہی تھی۔ اس زمانے میں دیگر دیہاتوں کے جیسا ہمارا بھی گاؤں تھا، پکی تو دور سڑک تک کا وجود نہی تھا۔ سادہ لوحی کا یہ عالم تھا کہ لوگ سمجھتے تھے کہ اگر سڑک بن گئی تو ڈاکوؤں اور پولیس کی آمد ورفت بڑھ جاۓ گی۔ ڈاکو تو خیر ڈرنے کی چیز ہیں ہی ان دنوں گاؤں  میں پولیس کا آنا جانا بھی بہت معیوب بات سمجھی جاتی تھی۔

ہماری جاڑے کی ساری راتیں ڈاکوؤں کے خوف میں گزریں۔ بجلی کا کوئی تصور نہیں تھا البتہ آسمانی بجلی ہر سال موسم باراں میں اپنا دیدار خوب کراتی تھی۔ سنا ہے اب گاؤں میں بارش نہی ہوتی، یا ہوتی ہے تو بقدر اشک بلبل ۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ جب شور ہواکہ گاؤں میں بجلی آنے والی ہے تو بڑے بزرگ اور سٹھیا گئے۔ وہ شور وغل مچا کہ اللہ کی پناہ۔ وہ کہتے پھرتے کہ بجلی کے ان تاروں اور کھمبوں سے ہمارے لڑکے بالے لٹکتے اور ٹکراتے پھریں گے اور ناحق اپنی جان دے دیں گے۔ غلطی ان کی نہی ہے ان بے چاروں نے اپنی زندگی میں گاؤں کے علاوہ کچھ دیکھا ہی نھی تھا۔ بر سبیل تذکرہ ایک واقعہ بیان کرتا ہوں ہمارے خاندان کے ایک شخص زندگی کی چار دہائیاں گزارنے کے بعد ایک تقریب میں شرکت کی غرض ممبئی آۓ تو انھوں نے پہلی بار ٹرین دیکھی۔

اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ انھیں کچھ نہ کہو

بچپن میں دو شوق جنون کی حد تک تھے، ایک کرکٹ اور دوسرا ناول پڑھنا۔ الحمدللہ یہ دونوں شوق اب بھی باقی ہیں، بس مرور ایام کے ساتھ ان کی شدت میں کمی آگئی ہے۔ ہمارے شوق میں ہمارے خاندان کے ایک بزرگ ہمارے ہمدم و ہمراز تھے۔ عمروں کی تفاوت نے کبھی بھی لذت شوق اور لطف صحبت میں کمی نہی آنے دی۔ وہ تو بزرگ تھے ہمارے اندر بھی بچپن سے ہی ایک بوڑھی روح حلول کر گئی تھی، ہم اپنا زیادہ وقت اپنے ہم عصروں کے بجائے ان بزرگوں کی صحبت میں گزارا کرتے تھے۔ ساری خوبیاں و خرابیاں ہم نے وہیں سے درآمد کی ہیں۔

پھر یوں ہوا کہ بھرا پورا گاؤں جوانوں اور نوجوانوں سے خالی ہوگیا۔ صرف بوڑھے برگد رہ گئے۔ اطراف و اکناف کے گاؤں کا حال بھی کچھ مختلف نہ رہا۔ جوان خون جزیرہ عرب کی ریت میں تیل چھاننے نکل گیا۔ ٹیپ ریکارڈر سے لدے پھدے قدر بہتر لباس میں ملبوس، غیر ملکی سگریٹوں کے کش اڑاتے ہوۓ یہ جوان جب وطن واپس آتے تو سب کی توجہ کا مرکز بن جاتے۔ اس میں شک نہی کہ خلیجی ممالک میں ملازمت سے بہت سارے لوگوں کے دن پھر گئے، لیکن گاؤں میں پکے مکانات بنوانے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش میں تعلیم کو پس پشت ڈال دیا۔ ہمارے ہم عصروں میں شاذ و نادر کسی نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ سعودی ریٹرن ڈگری  تعلیمی ڈگریوں پر حاوی ہو گئی، ریال کی چکا چوند کے آگے تعلیم کی روشنی ماند پڑھنے لگی، اعلیٰ تعلیم تو بڑی بات بنیادی و ثانوی تعلیم پر بھی توجہ کم ہوگئی۔ افسوس کہ کوتاہ بینوں نے نہ دیکھا اور نہ سمجھا کہ اگر یہ نوجوان تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوتے تو چلچلاتی دھوپ میں پسینہ بہانے اور کفیل کے ہر حکم پر آمنا و صدقنا کہنے کے بجائے اییر کنڈیشنڈ آفسوں میں بیٹھے احکام صادر کررہے ہوتے۔ ایک پوری نسل اس طرح سے باربردار مزدور بن گئی۔ دوسروں کا کیا شکوہ کریں خود ہماری خاندان کے بہت سے نوجوان تعلیم سے بے بہرہ رہ گئے۔ البتہ بچیاں تعلیم کے میدان میں آگے بڑھتی رہیں اور کچھ ہی عرصہ میں یہ مسئلہ آن پڑا  کہ ان کے لیے تعلیم یافتہ بر ملنا مشکل ہو گیا، تعلیم یافتہ بچیوں کو مجبوراً جاہلوں کے کھونٹے سے باندھنے کی نوبت آگئی۔

اب گاؤں جاتا ہوں تو دل بیٹھ جاتا ہے۔ وہ بیٹھک کہ جہاں زندگی کو کئی روپ میں دیکھا اب سونی ہوگئی ہے، جن بزرگوں کے دم سے یہ بزم آباد تھی اب وہ خاک کی رداء اوڑھے دو گز زمین میں سورہے ہیں۔ کچھ منچلے ہیں جو اپنی بساط کے مطابق کوشش کررہے ہیں مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی۔

 گاؤں میں اب وہ مہر و محبت اور یگانگت کا احساس نہیں ہوتا۔ اور تو اور وہ راستے بھی بدل گئے ہیں جنہوں نے ایک بچے کو دھوپ اور بارش سے بے نیاز اپنی منزل کی جانب کشاں کشاں گامزن دیکھا ہے۔ وہ بزرگ بھی نہی رہے جو اپنی کھلی آنکھوں سے سب کے چال چلن پر پہرہ رکھتے تھے۔ اور نہ وہ والدین جو اپنی اولاد کی سرزنش اور فہمائش پر خوش ہوتے تھے کہ ان کے علاوہ ان کے بچوں کے اور بھی خیرخواہ ہیں۔

گاؤں اب اجاڑ ہوچلے ہیں، ایک عجب طرح کی وحشت اور ویرانی برستی رہتی ہے۔ ہر آدمی ایک دوسرے سے بیزار، ہر دل میں خلش، ہر زبان پر ہزار شکوے ، باہمی تعلقات میں ایک عجیب طرح کی سرد مہری، آنکھیں محبت سے خالی، ہمارے گاؤں کو نہ جانے کس کی نظر لگ گئی ہے۔ جب دل محبت سے خالی ہوجاتے ہیں، تو زمینیں بنجر ہوجاتی ہیں، بادل برسنا بند کردیتے ہیں اور ستارے رخصت قافلہ شوق کی تیاری کا پتہ دینے لگتے ہیں۔ وقت کی آنکھ نے نہ جانے کتنوں کو بنتے اور بگڑتے دیکھا ہے، خدا جانے میرے گاؤں کا کیا مقدر ہے، وله الحكم و الأمر.

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔