زندگی کو کیسے کام یاب بنائیں؟

کامران غنی صبا

پچھلے روز واٹس ایپ پر ایک بہن کا میسج آیا کہ میں بہت کچھ کرنا چاہتی ہوں لیکن مناسب سپورٹ نہیں ملنے کی وجہ سے ہمت ہار جاتی ہوں اور تھک کر قدم پیچھے ہٹا لیتی ہوں ۔ آپ ہی بتائیے کہ میں کیا کروں ؟ اس طرح کے سوالات بہت سارے ذہنوں میں آتے ہیں ۔ یہ مسئلہ صرف بہنوں کا ہی نہیں ہے بلکہ بہت سارے نوجوان بھی مستقبل کے منصوبے بناتے ہیں لیکن مستقل مزاجی کے ساتھ ان پر قائم نہیں رہ پاتے۔ میں نے اپنی اِس پیاری بہن کی رہنمائی کے لیے چند سطور تحریر کیں جس سے اسے کافی حوصلہ ملا۔ پھر سوچا کیوں نہ اسے سوشل میڈیا کے توسط سے دوسرے لوگوں تک بھی پہنچا دوں شاید کسی کا بھلا ہو جائے۔ سوشل میڈیا پر بھی اِس ٹوٹی پھوٹی تحریر کو پسند کیا گیا۔ لہٰذا مناسب معلوم ہوا کہ اخبار کے توسط سے عام قارئین بالخصوص طلبہ و طالبات تک بھی اس پیغام کو پہنچایا جائے۔ اگر کچھ لوگوں کو بھی اِس تحریر سے کچھ فائدہ حاصل ہوا تو ممکن ہے کہ یہ چند سطور میرے لیے صدقۂ جاریہ ہو جائیں ۔ بہن کا سوال اوپر آ چکا۔ جواب ملاحظہ فرمائیں :

    کل تم نے لکھا تھا کہ کچھ کام کرنا چاہتی ہوں لیکن اکیلے پن کی وجہ سے پیچھے ہٹ جاتی ہوں ۔یہ ایک عام مسئلہ ہے کہ جب انسان سپورٹ نہیں ملنے کی وجہ سے تھک ہار کر بیٹھ جاتا ہے۔یاد رکھو کہ کوئی بھی بڑا کام اچانک سے نہیں ہو جاتا۔ دنیا کے بڑے سے بڑے سیاسی اور مذہبی رہنماؤں نے برسوں کی جدوجہد کے بعد سماج میں تبدیلی لائی ہے۔

زیادہ طول دیے بغیر اس وقت صرف چند پوائنٹس لکھ رہا ہوں شاید تمہارے کسی کام آ جائیں ۔

اپنی شخصیت پر بھرپور محنت:

دوسروں کو اپنی طرف راغب اور متوجہ کرنے کے لیے پہلے اپنی شخصیت پر بھرپور محنت کرنی ہوگی۔کیوں کہ جب ہم کوئی بڑا مقصد لے کر اٹھتے ہیں تو ہماری معمولی سے معمولی غلطیوں پر لوگوں کی نظر ہوتی ہے۔ ذرا سی لغزش اور کوتاہی پر ہمیں طرح طرح کے طعنے سننے پڑ سکتے ہیں ۔ خاص طور سے مذہبی شخصیات کے ایک ایک عمل پر سب کی نظر ہوتی ہے۔ پھر اگر آپ سے بشری تقاضے کے تحت کچھ بھی کوتاہی ہوئی تو لوگ نماز روزہ کا طعنہ دے سکتے ہیں ۔اس لیے سب سے پہلے مرحلہ میں اپنی شخصیت پر محنت کرنے کی ضرورت ہے۔ شخصیت پر محنت کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ہم پہلے دن سے ہی تہجد گزار بن جائیں ،لوگوں سے ملنا جلنا کم کر دیں اور حد سے زیادہ سنجیدہ ہو جائیں بلکہ بتدریج یعنی دھیرے دھیرے اعمال صالحہ کی کثرت کریں ۔ فرائض کا اہتمام علی الاعلان ہو لیکن نوافل اور دوسرے مستحب اعمال چھپ چھپا کر کیے جائیں ۔

لوگوں کا دل جیتنے کی کوشش کریں :

ایک بات ہمیشہ یاد رہے کہ انسان کسی کے روزہ نماز اور عبادات سے متاثر نہیں ہوتا ہے بلکہ اس کے اخلاق و کردار سے متاثرہوتا ہے۔ ایک بار اگر آپ نے کسی کا دل جیت لیا تو آپ اسے بہت آسانی سے اپنا ہم خیال بنا سکتے ہیں ۔ پیارے نبیﷺ کی سیرت کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ سب سے پہلے آپ نے روزہ نماز کا حکم نہیں دیا۔ ابتدائی مرحلہ میں آپ ﷺ نے برائی سے روکنے کی کوشش بھی نہیں کی بلکہ پہلے اپنے اعلی اخلاق و کردار سے لوگوں کا دل جیتا یہاں تک کہ آپ کے مخالفین بھی آپ کو صادق اور امین کہنے لگے۔ پھر کوہ صفا کا واقعہ تو معلوم ہی ہے۔ وہاں بھی آپنے اپنی عبادت کا حوالہ نہیں دیا بلکہ یہ پوچھا کہ اگر میں تم سے کہوں کہ پہاڑ کے اُس طرف ایک فوج گھات لگائے بیٹھی ہے تو تمہاراکیا ردعمل ہوگا؟ سب نے بہ یک زبان کہا کہ آپ کو ہم نے کبھی جھوٹ بولتے نہیں سنا اس لیے ہم آپ کی بات پر یقین کریں گے۔ تب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کہا کہ جب مجھے سچا مانتے ہو تو میری یہ یہ۔۔۔۔۔ باتیں بھی مان لو تبھی فلاح پائو گے۔

براہ راست اصلاح سے حتی المقدور بچیں :

اصلاح کا عام طور سے دو طریقہ ہوتا ہے۔ ایک بلاواسطہ اور دوسرا بالواسطہ آسان لفظوں میں ڈائرکٹ اور ان ڈائرکٹ سمجھ لو۔ڈائرکٹ میں بات سیدھے سیدھے انداز میں کہی جاتی ہے۔ نماز پڑھو، صبح جلدی اٹھو، جھوٹ نہیں بولو، غیبت نہیں کرو، دل لگا کر پڑھو وغیرہ وغیرہ۔ جبکہ ان ڈائرکٹ میں بات اشارے کنایے میں کہی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر ایک بچہ آپ کے سامنے کھڑے کھڑے پانی پی رہا ہے تو ایک طریقہ تو یہ ہے کہ اسے ڈائرکٹ ڈانٹ کر یا سمجھا کر ٹوک دیا جائے دوسرا طریقہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس بچے سے اپنے لیے پانی منگوایا جائے اور پھر اس کے سامنے بیٹھ کر پیا جائے پھر اسے بیٹھ کر پانی پینے کے فائدے اور کھڑے ہو کر پانی پینے کے نقصانات بتائیں جائیں ۔

خود احتسابی  (Self Analysis) :

ہم اپنے مشن میں (مشن خواہ دینی ہو یا دنیاوی) کتنے کامیاب ہو رہے ہیں اسے جانچنے اور پرکھنے کے لیے خود احتسابی سب سے اچھا طریقہ ہے۔ یاد رہے کہ دنیا کی ساری عدالتیں دل کی عدالت کے سامنے ہیچ ہیں ۔ دنیا کا بڑے سے بڑا مجرم اپنے دل کی عدالت میں مجرم ہی قرار دیا جاتا ہے۔ اس لیے خود کو پرکھنے کے لیے ہمیشہ دل سے رجوع کریں ۔ بہتر تو یہ ہوگا کہ کاپی قلم لے کر اپنی کمیوں کو نوٹ کریں ۔ اپنی شخصیت کے کمزور پہلوؤں کی فہرست بنائیں اور ایک ایک کر کے ان کمیوں کو دور کرنے کی کوشش کریں ۔ لیکن یاد رہے کہ یہ سارے کام بہت ہی خاموشی کے ساتھ ہونے چاہئیں تبھی اچھا ریزلٹ سامنے آئے گا۔

مطالعہ و مشاہدہ (Study & Observation)

جتنا زیادہ سے زیادہ ہو سکے مطالعہ اور مشاہدہ کی عادت ڈالیں ۔ مطالعہ سے علم میں اضافہ ہوتا ہے۔ نئے نئے خیالات آتے ہیں ، اعتماد بحال ہوتا ہے۔ بات کہنے کا سلیقہ آتا ہے جبکہ مشاہدہ سے حالات کے مطابق فیصلہ کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔ مشاہدہ معمولی سے معمولی چیز سے بھی ہو سکتا ہے۔ پیڑ پودے اور پھول پتے کو بھی غور سے دیکھا جائے اور ان کے بارے میں غور و تفکر کیا جائے تو بہت سارے اچھوتے پہلو سامنے آ سکتے ہیں ۔ اسی لیے قرآن میں بار بار غور و فکر کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔

صبر و شکر

کسی بھی کام یا مشن میں دو ہی امکانات ہیں ۔ کامیابی یا ناکامی۔ کامیابی کی صورت میں ہمیں اپنی محنت کا بدلہ اپنے سامنے ہی مل جاتا ہے لیکن ناکام ہونے کی صورت میں ہمیں شدید کرب و اذیت کی کیفیت سے گزرنا پڑتا ہے۔ ان دونوں حالتوں میں اگر ہم صبر و شکر کا دامن تھامے رکھیں تو کبھی گمراہ نہیں ہوں گے۔ کامیابی پر شکر ادا کرنا اور ناکامی پر صبر کرنا بھی نیکی ہے۔ کیوں کہ قرآن کے مطابق اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے اور جس کے ساتھ خدا ہو اسے کبھی مایوس نہیں ہونا چاہیے۔

تبصرے بند ہیں۔