بچوں کی نفسیاتی تربیت

محمد احمد رضا ایڈووکیٹ

اولاد والدین کے لئے قدرت کا ایک ایسا نایاب تحفہ ہوتی ہے جس کا نعم البدل دنیا کی کوئی اور شئے نہیں ہو سکتی۔ مسلمان ہونے کے ناطے شریعت نے والدین پر بہت سی ذمہ داریاں عائد کی ہیں۔ ان ذمہ داریوں میں سے سب سے اہم ترین ذمہ داری اولاد کی تربیت ہے۔ ماں کی گود سے لحد تک علم حاصل کرنے والی حدیث کے یہ الفاظ ’’ماں کی گود سے‘‘ اس پر دلالت کرتے ہیں کہ بچہ اپنی پیدائش سے ہی سیکھنے کا عمل شروع کر دیتا ہے، والدین کی مرضی کہ وہ بچے کی تربیت کس طرح سے کرتے ہیں۔ اگر والدین بچے کو جھوٹ سے منع کریں لیکن ان کی اپنی زندگی میں روزمرہ کے چھوٹے چھوٹے جھوٹ شامل ہوں تو یقینا بچہ ذہنی طور پر جھوٹ کو بے ضرر سمجھنے لگتا ہے۔ بچوں کی تربیت میں جہاں جسمانی، تعلیمی تربیت ہے وہیں تربیت کا ایک اہم ترین جزو نفسیاتی تربیت بھی ہے۔ یعنی والدین اولاد کی صحت، تعلیم، رہائش کے خیال کے ساتھ ساتھ اس کے ذہن اور نفسیات کا بھی خیال رکھیں۔

نفسیاتی یا ذہنی تربیت ایک ایسا عمل ہے جو بچہ اپنے ارد گرد کے ماحول، گھر میں والدین کے رہن سہن، ان کی عادات، اطوار، گھر کے ماحول سے خودبخود سیکھ جاتا ہے۔ بسا اوقات بہت سے ایسے عوامل ہوتے ہیں جو گھر کے بڑے افراد کے لئے کسی حد تک بے ضرر ہو سکتے ہیں لیکن بچوں کی نفسیاتی و ذہنی تربیت کے لئے انتہائی نقصان دہ ہوتے ہیں، لیکن گھر کے دیگر افراد کو دیکھا دیکھی بچے کا ذہن اس طرف مائل ہو جاتا ہے اور جب ایسے کسی کام پر بچے کو منع کیا جائے تو نفسیاتی طور پر بچہ یہ سوچنے پر مجبور ہوتا ہے کہ اگر گھر کے سب افراد یہ کام کرتے ہیں تو مجھے روکا کیوں جا رہا ہے؟؟ اور اس کا نتیجہ انتہائی بھیانک ہوتا ہے۔ قارئین مزید وضاحت سے قبل بچوں کی تربیت کے حوالے سے قرآن و حدیث سے چند احکامات پیش کرتا ہوں ؛

مؤطا امام مالک اور دیگر کتب احادیث میں ایک مشہور حدیث مبارکہ ہے کہ پیارے آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا؛ ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے پھر ماں باپ اسے یہودی، نصرانی بنا دیتے ہیں۔

اللہ تعالی نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا { یا ایھا الذین امنوا قوا انفسکم و اھلیکم نارا} اے ایمان والو تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو جہنم کی آگ سے بچائو۔

ایک اور حدیث مبارکہ ہے کہ {علموا اولادکم و اھلیکم الخیر و ادبوھم} اپنی اولاد اور گھر والوں کو خیر اور بھلائی کی باتیں اور ادب سکھائو۔

قارئین اگر غور کیا جائے تو مندرجہ بالا احادیث اور قرآن کریم کی آیت شریف میں جس بات کا ذکر ہے اس کا زیادہ تعلق ذہن اور نفسیات کے ساتھ ہے۔ ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے یعنی حقیقت میں بچہ حق کی طرف مائل ہوتا ہے لیکن اس کے ماں باپ اسے یہودی یا عیسائی تک بنا دیتے ہیں، اور پھر بھلائی کی باتیں اور ادب سکھانے کا حکم ہے اور ادب کا تعلق بھی اخلاق اور عادات کے ساتھ ہے۔ بنیادی طور پر بچے کی ذہنی اور نفسیاتی تربیت پر تین چیزیں زیادہ اثر انداز ہوتی ہیں، سب سے پہلے والدین اور گھر کا ماحول، بچے کے سکول کا ماحول، اس کے دوستوں کا ماحول۔ یہ تینوں ماحول بچے کے لئے ضروری ہوتے ہیں، لازما بچہ گھر کے علاوہ سکول میں اپنے کلاس فیلوز اور محلہ کے ہم عمر بچوں کے ساتھ کھیلے کودے گا اور اس ماحول سے کچھ نہ کچھ ضرور سیکھے گا۔ لیکن سکول اور محلے کا ماحول بعد کی چیزیں ہیں، سب سے پہلے گھر کی تربیت ہے، اگر ہر گھر میں والدین کی تربیت بہتر ہو تو گلی محلے کا ماحول خود بخود درست ہو گا۔

اگر ہم بچے کی ذہنی تربیت پر ان تین ماحولوں کی فیصد نکالنا چاہیں تو یقینا بچے کی ستر فیصد ذہنی و نفسیاتی تربیت گھر کے ماحول سے ہوتی ہے۔ اگر گھر میں والدین نماز ادا کرنے والے ہوں گے تو وہ بچہ بغیر سوال کئے اپنے والد کے ساتھ کھڑا ہو گا اور دیکھا دیکھی وہ سب کرنے کی کوشش کرے گا جو اس کا والد کرے گا۔ اگر والدین یا گھر کے ماحول میں گالی دینا کوئی عیب نہ ہو تو بچہ بھی ضرور گالی دے گا۔ اگر بچے کے سامنے ہر وقت گانے اور ناچ لگا رکھیں گے تو وہ بچہ چند دن کے بعد ہی گانے بھی گنگنائے گا اور ناچنے بھی لگے گا لیکن اس کے برعکس اگر گھر میں تلاوت قرآن کریم ہوتی ہو تو وہ بچہ نفسیاتی طور پر خود قرآن پڑھنے کا شوق رکھے گا۔

بحیثیت معاشرہ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اپنے بچوں کو اللہ کا ولی بنانا چاہتے ہیں اور خود اذان کے وقت میں بھی اللہ و رسول کے دشمنوں کی فلمیں ڈرامے بند کرنا گوارا نہیں کرتے، ہم زبان سے اللہ و رسول کی محبت کا دم تو بھرتے ہیں لیکن عملی طور پر ہم فلم اور ڈرامہ سیریل کو نماز پر ترجیح دیتے ہیں، ڈرامہ کی قسط دیکھنے کے لئے ہم نماز قربان کر دیتے ہیں اور اس وقت عملی طور پر ہمیں اللہ کے حکم کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی لیکن اپنی اولاد کو نماز پڑھنے کی تلقین کرتے ہیں، ایسے میں اگر بچہ ڈانٹ یا مار کے خوف سے نماز پڑھنے کھڑا ہو بھی جائے تو یقینا وہ ذہنی طور پر نماز کی طرف مائل ہو ہی نہیں سکتا۔ بچہ والدین کے عمل سے سیکھتا ہے اور جب والدین اپنی اولاد، بیٹا بیٹی کے ساتھ بیٹھ کر فلموں اور ڈراموں کے معاشقے، لڑایاں، گھریلو فسادات، ساس بہو کی لڑائی، اغواء، جھوٹ، قتل وغارت اور دھڑلے سے جرم ہوتے دیکھتے ہیں تو پانچ سال سے بیس سال کے بچوں پر اس کے کیا کیا نفسیاتی اثرات ہو سکتے ہیں، کیا والدین نے کبھی یہ سوچا؟؟ ممکن ہے آپ کو ہماری بات بہت بری اور بے معنی لگے، لیکن آپ اپنی اولاد کو اپنی پسند کے کسی بھی ماہر نفسیات ڈاکٹر (Psychiatrist)کے پاس لے جائیں تو یقینا آپ سر پکڑ کر رونے بیٹھ جائیں گے کہ آپ کی اولادنفسیاتی طور پر آپ کے کس کس کام کو فالو کر رہی ہے اور اس کے دماغ میں کیا کیا چل رہا ہے۔ اگر بچوں کو لے جانا مناسب نہ سمجھیں تو خود کسی بھی پسند کے سائیکاٹرسٹ کے ساتھ ایک میٹنگ کر لیں اور انہیں اپنے گھر کا تمام ماحول اور روزمرہ کے تمام امور بتائیں، پھرڈاکٹر کے جو بھی جوابات ہو ں ان کی روشنی میں خود اپنے بچوں کو سامنے رکھ کر سوچ لیں یقینا آپ راتوں کی نیند بھول جائیں گے۔

یہ والدین کی عملی تربیت ہی ہے جو اکثر اوقات ایسے نتائج کا باعث بنتی ہے کہ پھر والدین بھی سر چھپانے کو جگہ تلاش کرتے ہیں، ماضی قریب میں اسلام آباد کے اطراف میں ساتویں کلاس کے ایک بچے کی خودکشی اور پھر اس خودکشی کی وجہ سے کھلنے والے اسرار اس کا ایک ثبوت ہیں اور ہمارے معاشرے میں ایسے واقعات آئے روز رونما ہوتے ہیں۔ جن کی ایک سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ جس عمر میں بچوں کو ذہنی و نفسیاتی تربیت کی ضرورت ہوتی ہے والدین اس عمر میں بچوں کو انٹرٹینمنٹ کے نام پر فلمیں اور ڈرامے دیکھنے بیٹھا دیتے ہیں یا کمپیوٹر پر ہر الٹی سیدھی گیم کھیلنے بیٹھا دیتے ہیں تاکہ کم از کم بچہ انہیں تو تنگ نہ کرے۔ گھر میں فلمیں ڈرامے، اور ان میں لڑایاں، فسادات، غیبتیں، جرائم، قتل و غارت چلتی ہو گی تو بچہ ان سب سے کچھ نہ سیکھے اور اس کے دماغ کے خالی سفید صفحے پر ایک نقطہ بھی نہ لگے یہ کیسے ممکن ہے؟؟ اور اگر گھر میں قرآن پڑھا جائے، حضور ﷺ کی نعت شریف ہو، دین کی بات ہو، تعلیم کی بات ہو، اچھے اخلاق ہوں، اچھی تعلیمی اور تاریخی (فحش مواد سے پاک) ڈاکومنٹری ٹائپ یا جدید سائنسز کی تحقیق پر، قرآن کے مطالب و مضامین پر، جدید علوم پر فلمز اور کارٹون گھر میں ہوں تو یقینا بچے کا ذہن بھی ان چیزوں کی طرف ہی جائے گا۔

قارئین ! یقینا بہت سے احباب کو میرے یہ الفاظ بہت سخت اور برے لگے ہوں گے، اس پر معذرت خواہ ہوں۔ لیکن آپ کو دعوت دیتا ہوں کہ آپ انٹرنیٹ پر ہی یہ سرچ کر لیں کہ آج کل فلمیں، ڈرامے اور کمپیوٹر گیمز کس طرح پانچ سال سے بیس سال کے بچوں کے ذہنوں کو تباہ کر رہے ہیں اور بچے کس طرح ان فلموں، ڈراموں، اور گیمز سے سیکھ سیکھ کر انتہائی غلط حرکتوں اور جرائم میں ملوث ہو رہے ہیں، یہ فلمیں، ڈرامے اور گیمز آپ کے بچے کی نفسیات پر کس قدر اثر انداز ہو رہی ہیں۔ میں الیکٹرانک میڈیا یا کمپیوٹر گیمز کا مخالف نہیں، بلکہ یہ مانتا ہوں کہ بہت سی ایسی ڈاکومنٹری ٹائپ فلمیں ہیں جو بچوں کو بہت کچھ اچھا سکھا سکتی ہیں اور ان کی تعلیم و تربیت میں بھی اہم کردار ادا کر سکتی ہیں، اسی طرح بہت سی کمپیوٹر گیمز ہیں جو بچوں کی ذہنی صلاحیتوں کو بڑھانے کا باعث بنتی ہیں۔ لیکن یہ والدین کا فرض ہے کہ وہ دیکھیں کہ ان کا کون سا کام اور گھر کے ماحول میں کون سی چیز بچے کے ذہن اور نفسیات پر اثر انداز ہو رہی ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ اپنے بچے کو پاکباز سمجھتے رہیں اور وہ نفسیاتی طور پر کہیں سے کہیں نکل جائے، پھر سوائے رونے دھونے کے اور کچھ نہ ہو سکے۔ ایک بار غور ضرور فرمایئے گا۔

تبصرے بند ہیں۔