زندگی کی یہی رِیت ہے!

ڈاکٹر شکیل احمد خان

ایک لطیفہ سنیئے! ایک شخص کے گھر سے مہمان ٹلنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔ ایک دن میزبان کا بچہ آیا اور بار بار پوچھنے لگا، ’’ انکل آپ پھر کب آئو گے؟  پھر کب آئو گئے؟ مہمان پہلے تو مسکرا کر چپ ہو رہے پھر زچ ہو کر کہا کہ بیٹا آ ئیں گے، بہت جلد آئیں گے۔ بچہ کہنے لگا  لیکن انکل پہلے آپ جائیں گے ہی نہیں تو آئیں گے کیسے؟

لطیفہ یوں یاد آیا کہ اس میں ایک حقیقت نظر آتی ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ زندگی میں بھی کسی چیز کوآنا (حاصل ہونا) ہے تو پہلے اسے جانا (کھونا) پڑتا ہے۔ کامیابی (بڑی) کو آنا ہے تو کامیابی (چھوٹی) کو جانا پڑتا ہے۔ یوں سمجھٔے کہ کسی چھوٹے سے باکس میں سونے کی چوڑیاں آنا ہے تو پہلے اس میں رکھی چاندی کی چوڑیوں کو جانا پڑے گا تا کہ سونے کی چوڑیوں کے لئے جگہ بن سکے۔ چاندی کے جانے کو ہم محرومی نہ سمجھیں۔ بلکہ یہ جانیں کہ اس سے بہتر کوئی چیز (سونا) ہماری زندگی میں آنا ہے جس کے لئے قسمت جگہ بنا رہی ہے اور جسے ہمیں سمجھنا اور حاصل کرنا ہے۔

گوگل ایکس کے سابقہ مصری چیف فائینانس آفیسرMo Gowdat (محمد جودت) نے اپنی کتاب  Solve for Happy  میں اسے نہایت سادہ الفاظ میں بتایا ہے کہ ’’  آپ اس گلاس کونہیں بھر سکتے جو پہلے سے ہی بھرا ہوا ہے‘‘۔ دراصل اکثر ہم خود کو صرف چاندی کے لائق ہی سمجھتے ہیں۔ چاندی مل جانے کو ہی زندگی کی کامیابی مان لیتے ہیں اور یہ کھو جائے تومایوس ہو جاتے ہیں۔ جب کہ در حقیقت زندگی اسے چھین کر ہمیں عشرت کدےcomfort zone  سے باہر نکالنا چاہتی ہے تاکہ ہم کئی گنا بہتر چیز اور کامیابی حاصل کر سکیں۔ جیسے کسی مچھلی کو کوئی پرندہ تالاب سے اچک لے اور سمندر میں گرا دے۔ تالاب مچھلی کے لئے سب سے اہم چیز تھی۔ اس کا کھو جانا بڑی کامیابی کا کھو دینا ہی تو ہوا۔ لیکن سمندر کی وسعتوں سے بہریاب ہونے کے بعد مچھلی تالاب کھونے کو اپنی زندگی کا سب سے اچھا واقعہ مانے گی۔ اگر آپ کو یہ باتیں بچکانہ محسوس ہو رہی ہیں تو ہم بے شمار حقیقی مثالوں میں سے ایک پیش کرتے ہیں۔

ایک اندازے کے مظابق دنیا کی ۶۷ فیصد آبادی سیل فون رکھتی ہے۔ ان کی اکثریت انٹرنیٹ اور وہاٹس ایپWhatsApp  کا استعمال کرتی ہے۔ کئی ملین ڈالر کی وہاٹس ایپ کمپنی اختراع ہے سرکاری اعانت پرگزارہ کر چکے ایک یتیم مہاجر نوجوان  Jan Kaum   کی، جس کی زندگی سے کئی چھوٹی کامیابیاں رخصت ہوتی رہیں تا کہ ایک عظیم الشان کامیابی اس کے سر کا تاج بن سکے۔ ۲۴ فروری ۱۹۷۶ ؁کو کمیونسٹ روس میں پیدا ہوئے یہودی جان کیوم نے ۱۶ سال کی عمر میں سیاسی حالات اور مذہبی منافرت سے بچنے اپنی ماں اور دادی کے ساتھ کیلیفورنیا، امریکہ ہجرت کی جہان وہ سرکاری اعانت سے گزارہ کرنے لگے۔ والدکا بعد ازاں ان سے آ ملنے کا منصوبہ تھا مگر وہ ادھر نہ آسکے اور  ۱۹۹۷ ؁ میں یوکرین میں ہی ان کا انتقال ہو گیا۔ کیوم کی ماں کچھ دن آیا کا کام کرتی رہی اور خود کیوم ایک کرانہ دوکان میں چھاڑو پونچا لگانے کا کام کرتا۔ ۲۰۰۰ ؁  میں انکی والدہ بھی کینسر سے مقابلہ کرتے کرتے وفات پاگئی۔ لیکن ۱۸ سال کی عمر تک کیوم نے کمپیوٹر پروگرامنگ میں اچھی خاصی مہارت حاصل کر لی۔ وہ پرانی، سیکنڈہینڈ کتابوں کی دوکان سے میگزین خریدتے اور پڑھ کر واپس بیچ دیتے۔ ۱۹۹۷ ؁  میں انھوں نے سین جون اسٹیٹ یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ ۶ ماہ بعد ہی انھیں  Yahoo کمپنی میں معمولی ملازمت ملی۔

ایک دفعہ کمپنی میں ایک فوری مسئلہ پیدا ہوگیا۔ مالک نے ڈانٹ کر انہیں بلایا۔ اس وقت وہ کلاس روم میں تھے۔ انھوں ملازمت کے لئے تعلیم منقطع کرنے کا فیصلہ کیا۔ مغربی ممالک میں ڈگریاں صرف قابل لوگوں کو ہی ملتی ہیں۔ وہ قابلِ اعتبار بھی ہوتی ہیں اور اہم کامیابی شمار ہوتی ہیں۔ بظاہر دیکھا جائے توایک اہم کامیابی ان کی زندگی سے نکل گئی۔ اس کامیابی کے کھو جانے کے بعد بھی کیوم مایوس وبددل نہ ہوئے۔ بعد ازاں انھوں نیـ’ یاہو‘ کمپنی بھی چھوڑ دی ا ور اپنی منزل تلاش کرتے ہے۔ اپنے قریبی دوست کے ساتھ انھوں نے فیس بک کمپنی میں انٹرویو دیا اور دونوں دوستوں کو انکار کردیا گیا۔ لیکن چند سالوں بعد اسی فیس بک کمپنی نے انھیں کئی ملین ڈالر کے تجارتی معاہدہ کے لئے اپنے دفتر آنے کی دعوت دی۔ اب یہ ایک الگ داستان ہے کہ کس طرح کیوم نے اپنے قریبی دوست  ایکٹن کے ساتھ ملکروہاٹس ایپ تیار کیا اور برسوں کی اعصاب شکن جدوجہد اور نشیب و فراز کے بعد اسے امریکہ کے بیس سب سے اہم ایپ کے مقام تک پہونچایا۔ بس اتنا جان لیجئے کہ  ۲۰۱۴ ؁ میں مشہور فوربس میگزین  کے سروے کے مطابق وہ امریکہ کے  ۴۰۰  امیر ترین لوگوں میں ۶۲  نمبر پر تھے اور ان کی دولت کا اندازہ ساڑھے سات ملین ڈالرتھا۔ اسی سال فیس بک کمپنی نے ان کی وہاٹس ایپ کمپنی کو  ۱۹  ملین ڈالر میں خرید لیااور کیوم کو فیس بک کے بورڈ آف ڈایکیریکٹرس میں شامل کیا۔

 اچھی ڈگری مل جانا، مشہور کمپنی میں ملازمت مل جانا وغیرہ اہم کامیابیوں میں شمار ہو سکتی ہیں۔ یہ ان کی زندگی سے جاتی رہی۔ لیکن وہ شکت خور دہ نہیں ہوئے۔ یہ کامیابیاں ان کی زندگی سے نہ جاتی تو آج وہ ارب پتی نہ ہوتے بلکہ صرف ایک خوشحال ملازم کی زندگی گزار رہے ہوتے۔ اردو کے مشہور اور مقبول ترین پاکستانی ادیب اشفاق احمدکے الفاظ میں، ـــ’’  اگر اللہ نے وہ لے لیا جسے کھونے کا تم تصوربھی نہیں کر سکتے تھے تو یقیناوہ کچھ ایسا بھی دے گا جسے پانے کا تم نے سوچا بھی نہ ہوگا‘‘۔ محترمہ بلقیس جہاں کے مطابق، ’’ ہم اپنے مالک کے کرشموں کوکبھی نہیں سمجھ سکتے۔ وہ عجیب ہے، بہت آزماتا ہے، آخری حد تک لے جاتا ہے، اور پھر ایک دم سے کچھ ایسا کر دیتا ہے کہ تمام زخم ایک ساتھ بھر جاتے ہیں۔ یاد ہی نہیں رہتا کہ تکلیف کیا تھی‘‘۔ پس ہمیں یہ حقیقت ذہن نشین کر لینا چاہیئے کہ کسی کامیابی کا کھو جانا یا حاصل نہ ہونا،  ناکامی نہیں ہے۔ یہ قدرت کے ایک بڑے منصوبے کا حصہ ہو سکتا ہے۔ لہذا ہمیں ذیادہ  دلجمعی سے اپنے تخلیقی سوتوں کو جگانا چاہیئے نا کہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے ماتم کرتے رہیں۔ بڑی کامیابیاں بڑی قربانیوں اور بڑی محرومیوں کے بعد ہی حاصل ہوتی ہیں۔ ایک مقبول پرانے فلمی نغمے میں اس حقیقت کا شاعرانہ اظہاریوں کیا گیا تھا کہ:

زندگی کی یہی رِیت ہے

ہار کے بعد ہی جیت ہے

تبصرے بند ہیں۔