زندگی

محمد شاہ نواز ہاشمی

سورج آج پورے شباب پر تھا چاروں  طرف اپنی کرنوں  کو پھیلائے ہوئے ہر بشرکواپنے وجود کا احساس کرا رہا تھا۔آج اتوار یعنی چھٹی کے دن بھی گرمی سے لوگوں  کی حالت ابتر تھی اور لوگ اے۔سی ، کولر اور پنکھے سے دور ہونا نہیں  چاہ رہے تھے۔ایسی جاں کنی کے عالم میں  آفتاب بغیر اے سی یاپنکھا چلائے بالکل بے حس پڑا ہوا تھا۔

’کیا ہوا۔۔۔۔‘ اس کی چھوٹی بہن عافیہ نے کہا۔

’اوہ۔۔۔۔کچھ۔۔۔کچھ بھی تو نہیں۔۔۔۔‘ آفتاب نے جھینپتے ہوئے کہا۔

’کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔‘ عافیہ نے شرارتی انداز میں  کہا۔

آفتاب کی دوچھوٹی بہنیں  ہیں  جس میں عافیہ سب سے چھوٹی تھی وہ دونوں بہنوں  سے بے انتہا پیار کرتا تھا اور ان کی ہر خوشی پر اپنے آپ کو قربان کر دینے کا جذبہ رکھتا تھا۔ جبکہ عافیہ کے دن کی شروعات سے رات سونے تک کی ساری دنیا اس کا بھائی ہی تھا۔ بھائی بہن بے تکلف تھے اور ان کے ماں  باپ بھی زمانے کو سمجھنے والے اور اپنی اولاد کے ذہن کو پرکھنے والے تھے۔ انہوں نے اپنے بچوں  پر کبھی بے جا پابندی عائد نہیں  کی اور نہ ہی ان کے فیصلوں  سے قطع نظر کیا۔ یہی سبب تھا کہ آفتاب ، جاسمین اور عافیہ تینوں  کے اندر خود اعتمادی پیدا ہو گئی تھی۔

آفتاب درمیانہ قد اور سانولا رنگ کا ایک خوش گفتار لڑکا تھا۔ ہر کسی سے بے تکلف ہو جانا اس کی فطرت میں  شامل تھا۔ اس کے اندر خدانے اس کو صلاحیت دی تھی کہ وہ روتے کو ہنسا دے۔ وہ اپنے حلقہ احبا ب میں  اپنی شوخی کی وجہ سے جانا پہچانا جاتاتھا۔اس سے پہلی ملاقات پر سا منے والے پر خاطر خواہ اثر نہ ہوتا بلکہ منفی اثرات زیادہ مرتب ہوتے۔ مگر جب کوئی علمی بحث ہوتی تو وہ چونکے بغیرنہ رہ پاتا۔ کیونکہ اس کی گفتگو میں  وقار اور علم سے واقفیت کا ایسارنگ نمایا نظر آتا کہ وہ کوئی عام انسان نہیں  بلکہ ایک افسانوی کردار ہو۔ موقع شناس اور اپنے کردار سے لوگوں  کو متاثر کرنے والا۔

حسب عادت آج بھی وہ صبح ایسے ہی چہکتا ہواگیاتھا۔مگر آج وہ گھر میں  آکر بستر پر گرا تھا اور بالکل سکون کے ساتھ پڑا ہوا اپنی ہی دنیا میں گم تھا۔ کہ اس کی چھوٹی بہن عافیہ نے اسے ٹوکا: ’کس کے خیالوں  میں  گم ہیں‘۔’ارے بھائی گرمی زیادہ ہے تھک گیا ہوں۔‘ آفتاب نے کسی قدر اپنے آپ کو قابو میں  کرتے ہوئے بولا۔

’نہیں  میں  نہیں  مانوں گی، میں  کوئی دودھ پیتی بچی ہوں۔۔۔گرمی زیادہ ہے جبھی تو پنکھا چلانے کی ضرورت نہیں  ہے۔۔۔ ہے نا۔۔۔۔ صحیح صحیح بتائیے کیا ہو رہا ہے۔آپ ٹھیک تو ہیں  نا؟‘ عافیہ نے کہا۔

’ارے ہاں  یاد آیا صبح تم نے ناشتہ میں  دودھ پیا تھا ؟ امی دیکھئے اپنی لاڈلی کو۔۔۔کھانے پینے پر دھیان دیتی نہیں  اور بنیں  گی ٹیچر ؟‘ آفتاب اس کی بات کاٹتے ہوئے ہانک لگایا۔ اور دونوں  ایک دوسرے کو گد گدی کرنے لگے۔ پاس ہی دوسرے کمرے سے جاسمین نکل کر آئی جو آفتاب سے چھوٹی مگر عافیہ سے بڑی تھی وہ میڈیکل کی اسٹوڈنٹ تھی اور گرمی کی چھٹی میں  وہ گھر آئی تھی کمرے سے نکلتے ہی بولی۔

’بھائی جان آپ بڑے کب ہونگے ؟‘

’اور یہ کمبخت ہے پریشان کرنے میں  لگی رہتی ہے۔ بڑی آئی بھائی کی چہیتی۔‘

’ہاں  نہیں  توبھئی جان آپ سے پیار کرتے ہیں  تو میں  کچھ کہتی ہوں ؟ اور جب مجھے پیار کرتے ہیں  تو جلنے لگتی ہو۔‘ یہ کہتے ہوئے عافیہ بھائی کے سینے سے لگ جاتی ہے۔

’ارے میں  تو ہاسٹل میں  رہتی ہوں  بھائی جان اور ابو امی کا سارا پیار تو تو ہی لیتی ہے۔‘ اور جاسمین منھ بناکر جانے لگتی ہے کہ آفتاب اسے بھی اپنے گلے سے لگا لیتا ہے اور کہتا ہے’ تم دونوں  ہی میری جان ہو اور کوئی اپنی جان سے الگ ہوتا ہے کیا ؟‘

عافیہ اپنا ہوم ورک کرنے چلی جاتی ہے اور جاسمین کے کمرے میں  آفتاب اس کے ساتھ چلا جاتا ہے۔

بھائی جان آپ مجھ سے پیار کرتے ہیں  ؟

یہ کیسا سوال ہے ؟

سچ بتائیے آج تک ہم دونوں  نے ایک دوسرے سے کچھ نہیں  چھپایا اور آپ ہی میرے سب سے اچھے دوست ہیں نا ؟

کہنا کیا چاہتی ہو جاگو جاگو صبح ہو گئی آفتاب اس کے آگے چٹکی بجاتے ہوئے کہا۔نہیں  بھائی جان میں  دو دنوں  سے نوٹس کر رہی ہوں  کہ آپ کچھ زیادہ ہی سنجیدہ رہنے لگے ہیں۔

کمال ہے جب سنجیدہ ہوں  تو پرابلم۔ نہ ہوں  تو پرابلم کسی نے ٹھیک ہی کہا ہے۔

سمجھ میں  کچھ نہیں  آتا کے چھیڑوں  داستاں  کیسے

ہنساوں  تو بغاوت ہے رلائوں  تو بغاوت ہے

چپ رہیئے مذاق مت اڑائیے۔

ارے چپ ہو گیا چلو خوش۔

نہیں ۔۔میں  اس وقت خوش ہوں نگی جب آپ مجھے بتائیں  گے۔امی بھی پریشان ہو رہی ہیں۔ بتائیے کیا بات ہے۔

ہاں  یاد آیا میرے کمرے میں  جو رہتی ہے نا !!!

کون رہتی ہے ؟

وہی جو رہتی ہے نا۔۔۔۔

وہی تو پوچھ رہی ہوں  کون رہتی ہے آپ کے کمرے میں  ؟

ارے وہی چوہیا اس کے بچو کی طبیعت آج کل ذرا خراب ہے۔ چلو تم آ گئی ہو تو شام میں  اس کا علاج بھی کر دینا۔

پھر وہی مذاق ، میں  سیریس ہوں۔

ارے باپ رے ڈاکٹر خود سیریس اب تو مریضوں  کا اللہ ہی مالک ہے۔

ارے میں  کہ رہی ہوں  کہ سنجیدہ ہوں  میں۔

بس بہت ہو گیا نام بدلنے کی اجازت کس نے دی ؟۔۔۔ ہاسٹل جانا بند اچھی خاصی جاسمین تھی نام بدل کر سنجیدہ رکھ لیا۔

جاسمین ہنسنے لگی وہ سمجھ گئی کہ اس وقت آفتاب کو قابو میں  لانا مشکل ہی نہیں  ناممکن ہے۔اس لئے اس نے خاموشی کو ہی مناسب سمجھا۔

آفتاب اسے کمرے میں  چھوڑکر اپنے کمرے میں  آگیا اور پھر خیالوں  کے سمندر میں  غوطے لگانا شروع کر دیا۔

ْجمع کا دن کتنا مبارک دن تھا جب وہ اس کے آفس میں  پہلی بار آئی تھی۔کتنی دلفریب مسکراہٹ تھی اس کی ہونٹ باریک شاید میرؔنے اسی کا تصور کرکے یہ شعر کہا تھا۔

نازکی اس کے لب کی کیا کہیے

پنکھڑی ایک گلاب کی سی ہے

اس کے گلابی ہونٹ جسے آفتاب دیکھتا کا دیکھتا ہی رہ گیا۔ وہ آئی تو تھی انشورنس کمپنی کی جانب سے بس اتنا ہی اس نے سنا اور دیکھا۔پھر وہ اس کے ان گلابی ہونٹوں  کو دیکھتا ہی رہ گیا اور اس کی ہر ایک ایک حرکت کو دیکھتا ہی اورمحسوس کرتا چلا گیا۔ اس نے کیا کہا۔کیوں  کہا۔ کیسے کہا اس نے کچھ سنا ہی نہیں۔تقریباً آدھے گھنٹے بعد وہ چلی گئی۔دوسرے دن آفتاب نے انسورنس کمپنی میں  فون کر کے شاکرہ سے انشورنس کی اسکیم کے بابت پوچھا۔شاکرہ آفتاب کی شناساہے اوراس نے ہی ذاکرہ لئے آفتاب سے اپائنٹمنٹ لیا تھا۔ اسکیم کی بابت پوری جان کاری دینے کے بعدشاکرہ نے حیرانی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ۔ آپ کو تو کل ہی ذاکرہ نے یہ سب کچھ سمجھا دیا تھا پھر ؟۔۔۔۔۔ آفتاب کچھ جھینپتے ہوئے جواب دیا کہ کچھ ڈاوٹ تھااسی لئے آپ سے کنفرم کیا۔

ذاکرہ کے کیبن میں جاکر شاکرہ نے فخریہ اندازکہا کہ لوگ خاہ مخواہ اپنے آپ کو عقلمند سمجھتے ہیں۔ ایک کلائینٹ تو ہینڈل ہوتا نہیں  اور شیخی بگھاڑتے رہتے ہیں۔ ذاکرہ نے کہا کہ کیا ہوا آج تم ایسی باتیں  کیوں  کر رہی ہو ؟ اس پر شاکرہ نے آفتاب سے کی ہوئی ساری باتیں  دوہرا دی۔ساتھ ہی کہا کہ یار تم نے میری ناک کٹوا دی بڑی مشکل سے آفتاب کسی سے ملتا ہے مگر تم نے۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ کہتی ہوئی وہ اس کے کیبن سے چلی گئی۔ ذاکرہ جتنی خوبصورت تھی اس سے کہیں  زیادہ ذہین تھی اور یہ اس کی زندگی کا پہلا کیس تھا جس کے متعلق اسے یہ سب سننا پڑا تھا۔ ابھی وہ کچھ سوچ یا سمجھ پاتی اس سے پہلے ہی اس کا ہاتھ ٹیلیفون کی جانب بڑھا اور اسنے آفتاب کا نمبر ڈائیل کیا۔

ہیلو!۔گڈ مارننگ۔ کس سے بات کرنی ہے۔ریسپسنیسٹ کی آواز آئی۔

غصہ میں  تو حالت خراب تھی مگر ذاکرہ نے اپنے آپ کو قابو میں  رکھتے ہوئے کہا کہ آئی ایم کالنگ فرام این انشورنس کمپنی، پلیز کنیکٹ می ٹو مسٹر آفتاب۔ فون کنیکٹ ہونے کے بعد آفتاب نے اپنے انداز میں  ہیلو کہا۔

ہیلو کی آواز سنتے ہی ذاکرہ کا دل کیا کے بس آج اسے اچھی طرح سے سنائے۔ مگر اپنے جذبات پر قابو رکھتے ہوئے اسنے کہا۔ ہیلو میں  ذاکرہ بول رہی ہوں۔ اس کے بعد ذاکرہ کچھ کہتی آفتاب نے کہنا شروع کر دیا کہ آہا کیا بات ہے۔ میں  سوچ ہی رہا تھا کہ آپ کو کال کروں۔ اور ایک انشو رنس آپ سے لے ہی لوں۔ چلئے آپ منڈے کو تشریف لائیے اور ہمارا انسورنس کر دیجئے۔ اچھا ابھی کچھ ضروری کام ہے آپ منڈے آئیے پھر بات کرتے ہیں۔بائے یہ کہتے ہوئے اس نے فون رکھ دیا۔ ذاکرہ ہیلو۔ہیلو کرتی رہی مگر فون ڈسکنیکٹ ہو چکا تھا۔

ٓ آج آفتاب چھٹی ہونے کی وجہ سے دن بھر ذاکرہ کے خیالوں  میں  گم رہا۔ اور اسی ادھیڑ بن میں  کب صبح سے شام ہو گئی پتا بھی نہ چلا۔

حسب معمول آج بھی وہ آفس جانے کے لئے تیار ہوا مگر آج اس نے شیونگ کی اوراپنے آپ کو آئینہ میں  ہر زاویہ سے دیکھا۔ کئی بار اپنے بال کو کئی طرح سے سنوارا مگر آخر میں  جیسا اس کا انداز تھا اسی کو رہنے دیا۔ اور یہ سب اس کی بہن جاسمین دروازے پر کھڑی بڑے غور سے دیکھ رہی تھی۔ ناشتے پر جاسمین اور آفتاب کے ماں  باپ دونوں  ساتھ تھے۔ جاسمین نے چھیڑنے کے انداز میں  کہا کہ کیا بات ہے آج کل بھائی جان کے رنگ کچھ اور ہی نظر آ رہے ہیں  امی ابو ذرا خیال ر کھئے گا اپنے لاڈلے پر کہیں  ہاتھ سے نکل نہ جائے زمانہ بڑا خراب ہے۔ آفتاب جو سب کی بولتی بند کر دیتا تھا آج وہ چورو کی طرح نظر بچانے کی کو شش کر رہاتھا جیسے تیسے کرکے وہ آفس پہنچا۔ بظاہر وہ اپنے آفس میں  پہلے کی طرح ہی ہساس و بساس نظر آرہا تھا مگر اس کی آنکھیں  چغلی کر رہی تھیں  کہ اسے کسی کا انتظار ہے۔ ۱۱ بجے ، ۱۲ بجے، ایک بجا آج بار بار وہ گھڑی کی طرف دیکھ رہاتھا۔ آخرکار اس نے اپنے ریسیپنسٹ سے پوچھا کہ کوئی آیا ہے کیا ؟ جواب ملا نہیں۔۳ بجے ریسیپنسٹ کی کال آئی کے سر آپ سے مس ذاکرہ ملنا چاہتی ہیں  یہ سنتے ہی آفتاب کی خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا اس نے کہا۔ہاں  عزت کے ساتھ انہیں  اندر لیکر آئیے۔

ذاکرہ معمولی میک اپ میں  بھی بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔مگر اس آنکھوں  میں  ایک غصہ اور جھنجھلاہٹ بخوبی نظرآ رہا تھا۔ جب آپ کی سمجھ میں  کچھ نہیں  آرہا تھا تو میرا اور اپناوقت برباد کیوں  کیا آپنے ؟ آپ پہلے ہی بتا دیتے۔ذاکرہ نے بغیر کسی رسمی سلام کلام کے آفتاب سے سوال کیا۔

کیا ہوا۔۔۔۔آفتاب بہت آرام سے بیٹھتا ہوا اسے بغور دیکھنے لگا

کیا دیکھ رہے ہیں  ؟ جواب دیجئے ! ذاکرہ نے مزید برہمی کا اظہارکرتے ہوئے کہا۔

اوہ۔۔ہاں۔۔آں۔۔آپ آرام سے بیٹھئے پھر جواب دیتا ہوں۔ یہ کہ کر آفتاب اس کی آنکھوں  میں  پھر دیکھنے لگا۔ اور یہ سوچنے لگا خدا کی پناہ اتنی خوبصورت آنکھیں  !!! اس نے پہلے کیوں  نہیں  دیکھا اور اس کے ذہن میں  میرؔ کی غزل کا دوسرا مصرع بے ساختہ زبان پر آگیا۔

میرؔ ان نیم باز آنکھوں  میں

ساری مستی شراب کی سی ہے

کیا کہ رہے ہیں  آپ ؟ مجھے اردو نہیں  آتی اور شعر تو بالکل بھی پلے نہیں  پڑتا۔ ذاکرہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔

ارے چھوڑئے بیٹھئے یہ بتائیے کیا لیں  گی آپ چائے یا کافی ؟ ایسے مجھے دونوں  ہی پسند ہیں  اور فی الوقت میں  چائے پینے والا تھا۔ چلئے آپ کے ساتھ پی لیتے ہیں۔۔۔ آپ لیں  گی نا ؟ اور ذاکرہ کا جواب سنے بغیر آفتاب نے آفس بوائے سے کہا کہ دو اچھی چائے لے آئے۔۔۔ اور پھر خاموشی۔۔۔۔۔

آفتاب اس کی آنکھوں  میں  اپنی آنکھیں  ڈال چکا تھا۔ جسے ذاکرہ نے محسوس کیا اور شرم سے اس نے اپنی نظریں  جھکا لیں۔ ادھر آفتاب اس کے سراپا کو دیکھ رہا تھا۔ اس کی آنکھیں  جس میں  اس نے بہت سلیقے سے کاجل لگایا تھا جو اس کے حسن کو دوبالا کررہا تھا۔چوڑی پیشانی، ناک سیدھی رنگ گورا بالوں  کو اس نے اس سلیقے سے اپنے کندھے پر ڈالا تھا کہ محسوس ہتا تھا کہ شاعر کے تصور کی محبوب یہی ہے۔اس کے زلف بالکل گھنے کالے بادل کے مترادف تھے۔ اور یہ مسوس ہو رہا تھا کہ وہ زلف بادلوں  کا ایک ٹکڑا ہے۔ جو کسی بھی ایسے انسان کو سایہ دینے کے لئے بیقرار ہے جو کڑی دھوپ میں  کھڑا اپنی قسمت کو رو رہا ہے۔

کیا دیکھ رہے ہیں  آپ ؟۔۔۔۔ذاکرہ نے پوچھا

اخاہ۔۔۔کچھ کچھ بھی تو نہیں۔

تو ایسے کیوں  دیکھ رہے ہیں  مجھے ؟ ذاکرہ نے اپنا دوپٹہ ٹھیک کرتے ہوئے کہا

نہیں  کچھ بھی نہیں ۔۔۔ میں  تو سوچ رہا ہوں !!!

کیا سوچ رہے ہیں  ؟

یہی کے شاعر کا تصوری محبوب میرے سامنے آکر بیٹھا ہوا ہے۔

کیا کہہ رہے ہیں  آپ ؟ اب میری سمجھ میں  نہیں  آرہا۔۔۔ ذاکرہ نے مسکراتے ہوئے کہا

سر چائے۔۔۔ آفس بوائے نے چائے دیتے ہوئے کہا۔ اور دونوں  ہنسنے لگے۔

دھیرے دھیرے ملاقاتیں  بڑھنے لگی اور دونوں  ایک دوسرے سے قریب ہوتے چلے گئے۔ کہتے ہیں  نا کہ عشق اور مشک چھپائے نہیں  چھپتا۔ یہاں  بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ دونوں  کے عسق کی کہانیاں  دونوں  کے آفس میں  گونجنے لگی۔ایک دن ذاکرہ کے باس نے اسے بلاکر پوچھا کہ۔ آفتاب کون ہے اور اس سے تمہارا کیا رشتہ ہے وغیرہ وغیرہ ؟ ذاکرہ اس کے سوالو کاں  کے جواب میں  بس اتنا کہا کہ سر وہ میری پرسنل لائف ہیں  اور میں  اس ٹاپک پر بات نہیں  کرنا چاہتی۔ یہ کہ کر وہ وہاں  سے آگئی۔

سریندر شرما جو اس کمپنی کامنیجر تھا۔اس کے متعلق وہاں  کے ملازمین کی اچھی رائے نہیں  تھی خاص کر وہا کام کر رہی لڑکیوں  پر وہ بڑی نظر رکھتا تھا۔ اتنا ہی نہیں  کسی غلط کام میں  خود لڑکیوں  کو پھنساکر اس کا استحصال کرتا تھا۔ اس کی نظر ذاکرہ پر پچھلے کئی مہینوں  سے تھی۔ اس نے کئی بار ذاکرہ کو پرموشن کا لالچ دے کر اپنے دام میں  لانے کپی کوشش کی تھی مگر ذاکرہ ہر بار بڑی خوبصورتی سے اسے ٹال دیتی تھی۔ مگر جب سے اس نے ذاکرہ اور آفتاب کے متعلق سنا ہے تب سے ہی اس کی راتوں  کی نیند اور دن کا چین حرام ہو گیا ہے اور آج اس نے یہ کہ کر اور بھڑکا دیا کہ یہ اس کی پرسنل لائف ہے۔ سریندر نے آج تہیا کر لیا کہہ وہ کسی بھی صورت ذاکرہ کو حاصل کر کے ہی رہے گا وہ اسی ادھیڑبن میں  لگ گیا۔

ادھر ان ساری باتوں  سے بے نیاز آفتاب اور ذاکرہ نے زندگی ساتھ گذارنے کا فیصلہ کر لیا۔ آفتاب نے اپنی بہن جاسمین سے ذاکرہ کا تعارف کراتے ہوئے کہا کی یہ رہی میری بیماری۔ اب تم جانوں  اسے گھر لانا ہے یا نہیں۔ میں  آفس کے لئے لیٹ ہو رہا ہوں  آپ دونوں  بات کرو یہ کہہ کر آفتاب آفس کے لئے چل پڑتا ہے۔

اوہ ہو بھابی جان!۔۔۔۔ یہ کہہ کر جاسمین ذاکرہ کو گلے سے لگا لیتی ہے۔۔۔ ذاکرہ کا چہرہ شرم سے لال ہو جاتا ہے۔

جاسمین اسے دیکھنے لگتی ہے۔۔۔۔

ذاکرہ شرماتے ہوئے۔۔۔ آپ ایسے کیا دیکھ رہی ہیں  ؟

جاسمین۔۔۔ میں  دیکھ بھی رہی ہوں  اور سوچ رہی ہوں  کے بھائی جان کو لکی کہوں  کے آپ کو ؟

ذاکرہ۔۔۔ مطلب ؟؟

جاسمین۔۔۔۔ ارے کچھ نہیں  میرا مطلب یہ ہے کہ بھائی جان کو آپ ملے یا بھائی جان کوآپ۔۔۔

ذاکرہ۔۔۔۔ آپ دونوں  بھائی بہن کاربن کاپی ہو۔۔۔۔ یہ کہ کر ہنسنے لگی

جاسمین۔۔۔۔ اس سے کام نہیں  چلے گا میں  نند ہوں  اور آپ کو با ضابطہ مجھے پٹانا ہوگا جبھی آپ کی انٹری ہمارے گھر میں  ہوگی۔

ذاکرہ شرماتے ہوئے۔۔۔ جیسا حکم میرے آقا۔۔۔۔ آپ جو بھی حکم کیئجے یہ بندی بجا لائے گی۔۔۔

جاسمین۔۔۔۔آہا گانا بجانا میرا کام ہے آپ بس ہمارے گھر آنے کی تیا ری کرو۔۔۔ ہم اپنے بھائی کی بارات لے کر جلد ہی آیں  گے۔۔۔ آپ اپنے گھر والوں  سے کہو تیار رہیں۔

پھر ہنسی مذاق کے بعد دونوں  اپنے اپنے گھر چلی جاتی ہیں۔ جاسمین اپنے والدین کو اپنی پسند بتاتے ہوئے اس رشتے کے لئے راضی کر لیتی ہیں۔ ذاکرہ کے گھر والے بھی اس رشتے سے بہت خوش ہیں شادی کی تیاریاں  زوروں  شور سے دونوں  طرف ہو رہی ہے۔ ذاکرہ نے استعفی لکھ کر شریندر شرما کے پاس جاتی ہے۔

سریندر شرما آج اسے دیکھ کر اس پر فریفتہ ہو جاتا ہے اس کی خوبصورتی کو بس نہارتے ہوئے کہتا ہے۔ کتنی بار سمجھایا کہ ابھی اپنے کیرئیر پر کنسٹریٹ کرو۔۔۔ شادی وادی میں  کیا رکھا ہے۔ چلو تم نہیں  مانتی تو کوئی بات نہیں  چھٹی لے لو شادی کے بعد جوائن کر لینا۔یہ کہتے ہوئے وہ اس کے قریب آتا ہے اور اسے بانہوں  میں  بھر لیتا ہے۔ ذاکرہ کو اس وقت کچھ سمجھ نہیں  آتاپھر بھی وہ اپنے آپ کو چھڑانے میں  کامیاب ہو جاتی ہے۔ساتھ ہی وہ سریندر شرما کے گال پر زبردست چانٹا رسید کرتی ہے۔ جس کی گونج پورے آفس میں  سنائی دیتی ہے۔

ذاکرہ تو وہاں  سے چلی جاتی ہے مگر سریندر شرما بدلے کی آگ میں  جلنے لگتا ہے۔ اور اسی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لئے آج اس نے ذاکرہ کے کالج کی سہیلی پونم کو لالچ دے کر بلایا ہے۔

سریندر شرما۔۔۔۔ آپ کو کچھ نہیں  کرنا صرف یہباکس آفتاب کویہ کہ کر دے دینا ہے کہ۔ آپ اس کی بیسٹ فرینڈ ہیں  اور یہ گفٹ شادی کی رات آپ اسے دینا چاہتی تھی۔مگر تم کسی کام کی بنا پرشہر سے باہر جا رہی ہو اس لئے تم اسے دے رہی ہو۔بس اتنا سا کام ہے بدلے میں  میں  تمہیں  پیسوں  کے ساتھ نوکری بھی دے رہا ہوں۔

پونم۔۔۔ سر اس باکس میں  کوئی ایسی ویسی چیز تو نہیں  ہے نا۔

سریندر شرما۔۔۔ ارے نہیں  بس اس کے کچھ فوٹوگرافس اور چھوٹا سا گفٹ ہے۔جو میں  اسے گفٹ کرنا چاہتا ہوں  بس تم بے فکر ہوکر یہ کام کرو۔

پونم نے اگلے دن آفتاب کو کال کیا اور اکیلے ملنے کی خواہش ظاہر کی چونکہ ذاکرہ کا حوالہ تھا آفتاب کو نہ چاہتے ہوئے بھی ہاں  کہنا پڑا۔ اس نے کہا آج کل بہت ٹائٹ شیڈول ہے اس لئے آپ 3 بجے آفس کے سامنے والے مال میں  ملئے۔۔۔پونم مقررہ وقت پر آجاتی ہے اور جیسا اسے کہا گیا تھا۔ کہ باکس آفتاب کو دے دیتی ہے۔ آفتاب وہ باکس اپنے بیگ میں  رکھنا چاہتا ہے مگر باکس اس کے بیگ میں  نہیں  آتاہے پھر باکس لے کر اسے کا شکریہ ادا کرتا ہے اور رسمی گفتگو کے بعد دونوں  چلے جاتے ہیں۔

آفتاب باکس کو بہت حفاظت کے ساتھ گھر میں  لے جاتا ہے اور اسے محفوظ جگہ چھپا کے رکھ دیتا ہے۔ اور گھر کے دیگر کاموں  میں  مصروف ہو جاتا ہے۔

ِ شادی کے لئے سب تیار ہو رہے ہیں آفتاب دولہے کا جوڑا جو اس کی بہنوں  کی پسند کا ہے پہن کر تیار ہو رہا ہے۔ تبھی ہٹو ہٹو کی شور بلند ہوتی ہے ساتھ میں  کے آفتاب کہاں  ہے اسے لائو۔ آفتاب تیز قدم سے اس آواز کی طرف جاتا ہے۔ پکڑو اسے وہ رہا آفتاب۔ یہ کہتے ہوئے ایک کانسٹبل آفتاب کی طرف دوڑتا ہے۔آفتاب کچھ سمجھ سکیں  اس سے قبل دو کانسٹبل اسے اپنی گرفت میں  لے لیتے ہیں۔ آفتاب جھنجھلاتے ہوئے کہتا ہے مسئلہ کیا ہے ؟ کیوں  گرفتار کر رہے ہو مجھے ؟ کیا کیا ہے میں  نے۔۔۔۔۔ ادھر سارے خویش و اقارب جامد و ساقط کھڑے تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ انسپکٹر اس کے سامنے آتا ہے اورطمانچہ مارتے ہوئے کہتا ہے کہ۔ کیا کیا ہے تونے ابھی بتاتا ہوں  میرے پاس سرچ وارنٹ ہے۔ ہمیں  پتا لگا ہے کہ تم دہشت گرد گروہ کے سرگنہ ہو۔ تلاشی لو رے۔۔۔انسیکٹر نے زور سے آواز لگائی۔ ایک کانسٹبل دوڑتا ہوا آیا اور کہا کہ صاحب یہ بارود اور دو گن ملیں ہیں  اس باکس سے۔ باکس کو دیکھ کر آفتاب چیختا چلاتا ہے اور ان کو بتانے کی کوشش کرتا ہے کے وہ باکس کہا سے آیا مگر سب بے سود پولس اسے گرفتار کر کے لے جاتے ہیں۔ اس کی گرفتاری کے ۵ منٹ بعد ہی قومی میڈیا چیخ چیخ کر ساری دنیا کو باور کرانے کی کوشش میں  لگ چکی ہے کہ اس دور کا سب سے بڑا دہشت گرد اآفتاب آج گرفتار ہو گیا ہے۔ اب ملک میں  امن و امان کا ماحول سازگار ہو جائے گا۔ادھر پولس آفتاب پر ٹھڑڈ ڈگری دے کر اس کوشش میں  ہے کے وہ سارے الزامات اپنے سر لے لے۔

آفتاب کی بری حالت ہو چکی ہے اس سے کسی کو ملنے کی اجازت نہیں  ہے۔ آج اسے ہائی سیکورٹی کے ساتھ عدالت میں  پیش کیا گیا۔ جج نے جب وکیل کے بابت پوچھا تو آفتاب نے اپنا نام پیش کیا جسے جج نے قبول کیا۔آفتاب کا پہلا سوال کہ جب مجھے گرفتار کیا گیا اس وقت جب میں  نے کہا کہ وہ باکس مجھے مال میں  ایک لڑکی نے دیا ہے، تو اس وقت اس لڑکی کو کیوں  نظر انداز کیا گیا۔جج نے اس کیس سے وابستہ پولس افسران سے اس کا جواب مانگا تو انہونے کہا کہ مجرم اس طرح کی ہی باتیں  کرتیں  ہیں  جب وہ پکڑے جاتے ہیں۔ اس کے گھر سے ہتھیار ملا بس اتنا ہی کافی ہے۔ اس پر سرکاری وکیل نے مزید کہا کہ ہاں  یہ صحیح ہے کے مجرم ذہن کو بھٹکانے کے لئے اس طرح کا حربہ خوب استعمال کرتاہے۔ اس پر آفتاب نے کہا کہ اگر مجھے مجرم ہی سمجھ لیا گیا ہے تو پھر قانون عدالت کی ضرورت ہی کیا ہے۔ کیونکہ ابھی وکیل صاحب اور پولس کے اعلی افسران مجھے ملزم نہیں  بلکہ مجرم کہ ہی چکیں  ہیں۔ اس لئے میری عدالت سے درخواست ہے کہ وہ بھی بنا کچھ جانے سمجھے اپنے سرکاری حکام کی بات مان کر مجھے سزا سنا دے۔

ان ساری باتوں  کے بعد جج نے حکم دیا کہ اگلی سماعت پر اس دن کی ویڈیو فوٹیج ۲بجے سے ۴ بجے تک کی مال اور پارکنگ دونوں  جگہوں  کی پیش کی جائے۔ ادھر قومی میڈیا خاص کر ٹیلی ویـژن پر اینکر چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ دیکھئے دیش دروہی یہاں  کی پولس کو بے ایمان کہ رہا ہے عدالت میں  سرعام یہاں  کے کام کرنے کے طریقہ کو چیلنج کر رہا ہے۔اگر اسے رہا کر دیا گیا تو دیش اورسماج کے لئے خطرہ ہے۔جج کے اس فیصلے کے بعداس کیس کو مسٹر سنجیو رائے کے سپرد کیا گیا۔ جس کے متعلق یہ مشہور ہے کہ وہ مسلمانوں  سے نفرت کرتا ہے۔ اس نے جب مال اور پارکنگ کے فوٹیج کو بغور دیکھا تو اس میں  صاف طور پر پونم باکس لاتی ہوئی نظر آئی جبکہ آفتاب بیگ کے ساتھ داخل ہوتا ہوا نظر آیا۔ جبکہ واپسی پر آفتاب کے ہاتھ میں  باکس اور پونم کے ہاتھ خالی نظر آئے۔اب کہانی سنجیو کے سامنے بالکل عیاں  تھی۔ اس نے پونم کو تلاش کیا پھر اس سے ساری کہانی معلوم ہوئی۔آج عدالت کے باہر میڈیا کا ہجوم ہے وجہ ایک دہشت گرد اپنا دفاع خودکر رہا ہے۔ اور اس پے یہ کہ جس آفیسر کے ذمہ اس کیس کو سونپا گیا ہے اس کے بارے میں  مشہور ہے کہ وہ ایماندار تو نہیں  مگر اپنے کام میں  ماہر ہے۔آج فرقہ فرست ذہن رکھنے والے اور خاص کر میڈیا صبح سے ہی اپنے اسٹوڈیوں  میں  بیٹھ کر آفتاب کے لئے سزا تجویز کر ا رہا ہے۔عدالت کی کاروائی شروع ہوتی ہے اور وکیل صاحب آفتاب کی سزا کے لئے دلیل پیش کرتے ہیں۔مگربنا کسی حجت کے مسٹر سنجیو کی تحقیقات کی بنیاد پر آفتاب کو بے قصور ٹھراتے ہوئے عدالت نے اسے با عزت بری کر دیا۔ساتھ ہی عدالت نے حکم دیا کہ اس کیس سے متعلق لو گوں  پر جھوٹا الزام تراشی کرکے کسی کی زندگی خراب کرنے کا کیس چلایا جائے۔

ارے آفتاب صاحب ایسی بھی کیا ناراضی ؟ آپ کے متعلق اور آپ کی شخصیت کے متعلق بہت کچھ سنا اور جانا ہے مگر اتنی سنجیدگی کے متعلق کسی نے نہیں  بتایا۔۔۔سنجیو رائے نے آفتاب روکتے ہوئے پوچھا۔

نہیں  سنجیو صاحب ایسی بات نہیں  ہے۔ در اصل میں  شیروانی پہن کر جس سسرال جانا چاہتا تھا وہاں  تو گیا نہیں  اور جہاں  آیا وہاں  سالے اور سسرتو ملے مگر بیوی نہیں  ملی تو آپ ہی بتائو میرے چہرے پرخوشی کیسے رہے گی۔ یہ کہہ کر آفتاب زور زور سے ہنسنے لگا اور سنجیو رائے بھی اس کی ہنسی میں  شامل ہو گیا۔

آفتاب کے والدین کی آنکھوں  سے خوشی کے آنسوں  رواں  ہیں۔ اس کی بہنیں بہت خوش ہیں۔ مگر کیا سماج آج آفتاب کو وہی عزت دے گا؟۔کیا آفتاب کی بہنوں  کا مستقبل روشن ہوگا؟ اور نہ جانے کتنے سوالوں  کو لے کر آج آفتاب عدالت سے باہر آ رہا ہے۔

مگر آج قومی میڈیاکیوں  خاموش ہے ؟ شا ید اس کے مطابق فیصلہ نہیں  ہوا ؟۔شاید اس کی نظر میں  کوئی مسلمان وفا دار ہی نہیں۔ شاید عدالت سے کوئی چوک ہو گئی۔میڈیا نے تو اپنے چینل پر پینل بٹھاکر آفتاب کو مجرم قرار دے دیا تھا پھر؟۔ شاید۔شاید۔شاید

3 تبصرے
  1. امیر معاویہ کہتے ہیں

    زندگى مضمون بہت اچھا لگا۔ محرر صاحب سے ایک درخواست ہے کہ آپ چونکہ میڈیا میں ہیں تو ذرا میڈیا کے افراد کی ذہن سازی ۔کریں کہ کبھی بھی بغیر کسی ٹھوس ثبوت اور عدالت کا فیصلہ آے بغیر کسی غریب ومجبور کو مجرم نہ گردانیں

  2. محمد شاہ نواز ہاشمی کہتے ہیں

    شکریہ امیر معاویہ صاحب۔۔۔۔۔موجودہ صورت حال میں اقبال اشہر کا یہ شعر آپ کی نظر کرتا ہوں۔۔۔۔۔۔

    وہ جو خواب تھے میرے ذہن میں نہ میں کہہ سکا نہ میں لکھ سکا
    کہ زباں ملی تو کٹی ہوئی، کہ قلم ملا تو بکا ہوا

  3. آصف علی کہتے ہیں

    ﺳﻌﻮﺩﯼ ﻋﺮﺏ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﺰﻧﺲ ﻣﯿﻦ ﻧﮯ ﺧﻮﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﺷﺨﺺ ﺍﺱ ﺳﮯ ﮐﮩﮧ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﮐﻤﭙﻨﯽ ﮐﮯ ﺁﻓﺲ ﮐﮯ ﻣﯿﻦ ﮔﯿﭧ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﻓﻼﮞ ﺷﺨﺺ ﺟﻮ ﭘﮭﻞ ﺑﯿﭽﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﺱ ﮐﻮ ﻋﻤﺮﮦ ﮐﺮﺍ ﺩﻭ ۔۔۔بزنس مین جب نیندﺳﮯ ﺑﯿﺪﺍﺭ ﮨﻮﺍ ﺗﻮ ﺍﺳﮯ ﺧﻮﺍﺏ ﺍﭼﮭﯽ ﻃﺮﺡ ﯾﺎﺩ ﺗﮭﺎ____________
    ﻣﮕﺮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻭﮨﻢ ﺟﺎﻧﺎ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺍﺏ ﮐﻮ ﻧﻈﺮ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﮐﺮﺩﯾﺎ ۔۔۔
    ﺗﯿﻦ ﺩﻥ ﻣﺴﻠﺴﻞ ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﺧﻮﺍﺏ ﻧﻈﺮ ﺁﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻭﮦ ﺷﺨﺺ ﺍﭘﻨﮯﻋﻼﻗﮯ ﮐﯽ ﺟﺎﻣﻊ ﻣﺴﺠﺪ ﮐﮯ ﺍﻣﺎﻡ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮯ ﺧﻮﺍﺏ ﺳﻨﺎﯾﺎ __________________
    ﺍﻣﺎﻡ ﻣﺴﺠﺪ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﺍﺱ ﺷﺨﺺ ﺳﮯ ﺭﺍﺑﻄﮧ ﮐﺮﻭ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮯ ﻋﻤﺮﮦ ﮐﺮﻭﺍ ﺩﻭ ۔۔۔
    ﺍﮔﻠﮯ ﺭﻭﺯ ﺍﺱ ﺷﺨﺺ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺍﺱ ﮐﻤﭙﻨﯽ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﻣﻼﺯﻡ ﺳﮯ ﺍﺱ ﭘﮭﻞ ﻓﺮﻭﺵ ﮐﺎ ﻧﻤﺒﺮ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﻮ ﮐﮩﺎ ۔۔۔
    ﺑﺰﻧﺲ ﻣﯿﻦ ﻧﮯ ﻓﻮﻥ ﭘﺮ ﺍﺱ ﭘﮭﻞ ﻓﺮﻭﺵ ﺳﮯ ﺭﺍﺑﻄﮧ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻣﺠﮭﮯ ﺧﻮﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﻋﻤﺮﮦ ﮐﺮادوں ، ﻟﮩﺬﺍ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﻧﯿﮏ ﮐﺎﻡ ﮐﯽ ﺗﮑﻤﯿﻞ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﻮﮞ ۔۔۔
    ﭘﮭﻞ ﻓﺮﻭﺵ ﺯﻭﺭ ﺳﮯ ﮨﻨﺴﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ ! ﮐﯿﺎ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮ ﺑﮭﺎﺋﯽ؟؟
    ﻣﯿﮟ ﻧﮯﺗﻮ ﻣﺪﺕ ﮨﻮﺋﯽ ﮐﺒﮭﯽ ﻓﺮﺽ ﻧﻤﺎﺯ ﺍﺩﺍ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﺑﻌﺾ ﺍﻭﻗﺎﺕ ﺷﺮﺍﺏ ﺑﮭﯽ ﭘﯿﺘﺎ ﮨﻮﮞ ۔۔۔ ﺗﻢ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﻮ ﮐﮧ ﺗﻢ ﻣﺠﮭﮯ ﻋﻤﺮﮦ ﮐﺮﻭﺍﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﮨﻮ !!….
    ﺑﺰﻧﺲ ﻣﯿﻦ ﺍﺻﺮﺍﺭ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﺎ ۔۔۔ ﺍﺳﮯ ﺳﻤﺠﮭﺎﯾﺎ ﮐﮧ … ﻣﯿﺮﮮ ﺑﮭﺎﺋﯽ !
    ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﻋﻤﺮﮦ ﮐﺮﻭﺍﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﻮﮞ ، ﺳﺎﺭﺍ ﺧﺮﭺ ﻣﯿﺮﺍ ﮨﻮﮔﺎ ۔۔۔
    ﺧﺎﺻﯽ ﺑﺤﺚ وتمحیص ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺁﺩﻣﯽ ﺍﺱ ﺷﺮﻁ ﭘﺮ ﺭﺿﺎﻣﻨﺪ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﭨﮭﯿﮏ ﮨﮯ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺳﺎﺗﮫ ﻋﻤﺮﮦ ﮐﺮﻭﻧﮕﺎ ﻣﮕﺮ ﺗﻢ ﻣﺠﮭﮯ ﻭﺍﭘﺲ ﺭﯾﺎﺽ ﻣﯿﺮﮮ ﮔﮭﺮ ﻟﯿﮑﺮ ﺁؤگے, ﺍﻭﺭ ﺗﻤﺎﻡ ﺗﺮ ﺍﺧﺮﺟﺎﺕ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﮨﯽ ﺫﻣﮧ ﮨﻮﻧﮕﮯ ……
    ﻭﻗﺖِ ﻣﻘﺮﺭﮦ ﭘﺮ ﺟﺐ ﻭﮦ ﺍﯾﮏ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﻮ ﻣﻠﮯ ﺗﻮ ﺑﺰﻧﺲ ﻣﯿﻦ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﻭﺍﻗﻌﯽ ﻭﮦ ﺷﮑﻞ ﻭﺻﻮﺭﺕ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﭼﮭﺎ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﮐﮭﺎﺋﯽ ﺩﯾﺘﺎ ﺗﮭﺎ ۔۔۔
    ﺍﺱ ﮐﮯ ﭼﮩﺮﮮ ﺳﮯ ﻋﯿﺎﮞ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺷﺮﺍﺑﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﻤﺎﺯ ﮐﻢ ﮨﯽ ﭘﮍﮬﺘﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﺳﮯ ﺑﮍﺍ ﺗﻌﺠﺐ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﯾﮧ ﻭﮦ ﮨﯽ ﺷﺨﺺ ﮨﮯ ﺟﺴﮯ ﻋﻤﺮﮦ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺧﻮﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﺗﯿﻦ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﮐﮩﺎ ﮔﯿﺎ ۔۔۔
    ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻣﮑﮧ ﻣﮑﺮﻣﮧ ﻋﻤﺮﮦ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺭﻭﺍﻧﮧ ﮨﻮﮔﺌﮯ۔ ﻣﯿﻘﺎﺕ ﭘﺮ ﭘﮩﻨﭽﮯ ﺗﻮ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﻏﺴﻞ ﮐﺮﮐﮯ ﺍﺣﺮﺍﻡ ﺑﺎﻧﺪﮬﺎ ﺍﻭﺭ ﺣﺮﻡ ﺷﺮﯾﻒ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺭﻭﺍﻧﮧ ﮨﻮﺋﮯ ____________________
    ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻠّٰﮧ ﮐﺎ ﻃﻮﺍﻑ ﮐﯿﺎ ۔ ﻣﻘﺎﻡِ ﺍﺑﺮﮨﯿﻢ ﭘﺮ ﺩﻭ ﺭﮐﻌﺖ ﻧﻤﺎﺯﺍﺩﺍ ﮐﯽ ، ﺻﻔﺎ ﻭ ﻣﺮﮦ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﺳﻌﯽ ﮐﯽ ۔ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﺮﻭﮞ ﮐﻮ ﻣﻨﮉﻭﺍﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﻄﺮﺡ ﻋﻤﺮﮦ ﻣﮑﻤﻞ ﮨﻮﮔﯿﺎ۔
    ﺍﺏ ﺍﻧﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﻭﺍﭘﺴﯽ ﮐﯽ ﺗﯿﺎﺭﯼ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮﺩﯼ ۔۔۔
    ﺣﺮﻡ ﺳﮯ ﻧﮑﻠﻨﮯ ﻟﮕﮯ ﺗﻮ ﭘﮭﻞ ﻓﺮﻭﺵ ﺑﺰﻧﺲ ﻣﯿﻦ ﺳﮯ ﻣﺨﺎﻃﺐ ﮨﻮﺍ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ :
    ” ﺩﻭﺳﺖ ﺣﺮﻡ ﭼﮭﻮﮌﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﺩﻭ ﺭﮐﻌﺖ ﻧﻔﻞ ﺍﺩﺍ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﻮﮞ ،نہ جاﻧﮯ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﻋﻤﺮﮦ ﮐﯽ ﺗﻮﻓﯿﻖ ﮨﻮﺗﯽ ﺑﮭﯽ ﮨﮯ ﯾﺎ ﻧﮩﯿﮟ ”۔
    ﺍﺳﮯ ﮐﯿﺎ ﺍﻋﺘﺮﺍﺽ ﮨﻮﺗﺎ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ : ” ﻧﻔﻞ ﭘﮍﮬﻮ ﺍﻭﺭ ﺑﮍﮮ ﺷﻮﻕ ﺳﮯ ﭘﮍﮬﻮ۔ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﻧﻔﻞ ﺍﺩﺍ ﮐﺮﻧﮯ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮ ﺩﺋﯿﮯ ۔۔۔
    ﺟﺐ ﺳﺠﺪﮦ ﻣﯿﮟ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺳﺠﺪﮦ ﻃﻮﯾﻞ ﺳﮯ ﻃﻮﯾﻞ ﺗﺮ ﮨﻮﺗﺎ ﭼﻼ ﮔﯿﺎ ۔۔۔
    ﺟﺐ ﮐﺎﻓﯽ ﺩﯾﺮ ﮔﺰﺭﮔﺌﯽ ﺗﻮ ﺑﺰﻧﺲ ﻣﯿﻦ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﮨﻼﯾﺎ ۔۔۔
    ﺟﺐ ﮐﻮﺋﯽ ﺣﺮﮐﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﻮ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺍﻧﮑﺸﺎﻑ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﭘﮭﻞ ﻓﺮﻭﺵ ﮐﯽ ﺭﻭﺡ ﺣﺎﻟﺖِ ﺳﺠﺪﮦ ﮨﯽ ﻣﯿﮟ ﭘﺮﻭﺍﺯ ﮐﺮﭼﮑﯽ ﺗﮭﯽ ۔۔۔
    ﭘﮭﻞ ﻓﺮﻭﺵ ﮐﯽ ﻣﻮﺕ ﭘﺮ ﺍﺳﮯ ﺑﮍﺍ ﺭﺷﮏ ﺁﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺭﻭﭘﮍﺍ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺗﻮ ﺣﺴﻦِ ﺧﺎﺗﻤﮧ ﮨﮯ ، ﮐﺎﺵ !
    ﺍﯾﺴﯽ ﻣﻮﺕ ﻣﯿﺮﮮ ﻧﺼﯿﺐ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ ، ﺍﯾﺴﯽ ﻣﻮﺕ ﺗﻮ ﮨﺮ ﮐﺴﯽ ﮐﻮﻧﺼﯿﺐ ﮨﻮ ، ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﭖ ﺳﮯ ﮨﯽ ﯾﮧ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ۔۔۔
    ﺍﺱ ﺧﻮﺵ ﻗﺴﻤﺖ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﻮ ﻏﺴﻞ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ، ﺍﻭﺭ ﺍﺣﺮﺍﻡ ﭘﮩﻨﺎ ﮐﺮ ﺣﺮﻡ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻧﻤﺎﺯ ﺟﻨﺎﺯﮦ ﺍﺩﺍ ﮐﯽ ﮔﺌﯽ ۔۔۔ ﮨﺰﺍﺭﻭﮞ ﻓﺮﺯﻧﺪﺍﻥ ﺍﺳﻼﻡ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺟﻨﺎﺯﮦ ﭘﮍﮬﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻣﻐﻔﺮﺕ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺩﻋﺎ ﮐﯽ ﮔﺌﯽ ۔۔۔
    ﺍﺱ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻭﻓﺎﺕ ﮐﯽ ﺍﻃﻼﻉ ﺭﯾﺎﺽ ﺍﺳﮑﮯ ﮔﮭﺮﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﺩﯼ ﺟﺎﭼﮑﯽ ﺗﮭﯽ ، ﺑﺰﻧﺲ ﻣﯿﻦ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻭﻋﺪﮮ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻣﯿﺖ ﮐﻮ ﺭﯾﺎﺽ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﺩﯾﺎ ، ﺟﮩﺎﮞ ﺍﺳﮯ ﺩﻓﻦ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ۔۔۔
    ﺑﺰﻧﺲ ﻣﯿﻦ ﻧﮯ ﭘﮭﻞ ﻓﺮﻭﺵ ﮐﯽ ﺑﯿﻮﮦ ﺳﮯ ﺗﻌﺰﯾﺖ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﮐﮩﺎ : ”
    ﻣﯿﮟ ﺟﺎﻧﻨﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺷﻮﮨﺮ ﮐﯽ ﺍﯾﺴﯽ ﮐﻮﻧﺴﯽ ﻋﺎﺩﺕ ﯾﺎ ﻧﯿﮑﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺍﻧﺠﺎﻡ ﺍﺱ ﻗﺪﺭ ﻋﻤﺪﮦ ﮨﻮﺍ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮯﺣﺮﻡِ ﻣﯿﮟ ﺳﺠﺪﮦ ﮐﯽ ﺣﺎﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺕ ﺁﺋﯽ ۔۔۔
    ﺑﯿﻮﮦ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ : ﺑﮭﺎﺋﯽ ۔۔۔ ﻣﯿﺮﺍ ﺧﺎﻭﻧﺪ ﮐﻮﺋﯽ نیکوکار ﺁﺩﻣﯽ ﺗﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﻟﻤﺒﯽ ﻣﺪﺕ ﺳﮯ ﻧﻤﺎﺯو ﺭﻭﺯﮦ ﺑﮭﯽ ﭼﮭﻮﮌ ﺭﮐﮭﺎ ﺗﮭﺎ ۔۔۔ مَیںﺍﺳﮑﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺧﺎﺹ ﺧﻮﺑﯽ ﺑﯿﺎﻥ ﺗﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺳﮑﺘﯽ ۔۔۔
    ﮨﺎﮞ ۔۔۔ ! ﻣﮕﺮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﻋﺎﺩﺕ ﯾﮧ ﺿﺮﻭﺭ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ:
    ” ﻭﮦ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﮨﻤﺴﺎﯾﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻏﺮﯾﺐ ﺑﯿﻮﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﭼﮭﻮﭨﮯ ﭼﮭﻮﭨﮯ ﺑﭽﻮﮞ کےساﺗﮫ ﺭﮨﺘﯽ ﮨﮯ ، ” ﻣﯿﺮﺍ ﺷﻮﮨﺮ ﺭﻭﺯﺍﻧﮧ ﺑﺎﺯﺍﺭ ﺟﺎﺗﺎ ﺗﻮ ﺟﻮ ﭼﯿﺰ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﭘﯿﻨﮯ ﮐﯽ ﻻﺗﺎ ﻭﮦ ﺍﺱ ﺑﯿﻮﮦ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﯾﺘﯿﻢ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺑﮭﯽ ﻟﮯ ﺁﺗﺎ ۔۔۔
    ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﭘﺮ ﺭﮐﮫ ﮐﺮ ﺍﺳﮯ ﺁﻭﺍﺯ ﺩﯾﺘﺎ ﮐﮧ ﺍﮮ ﺑﮩﻦ ۔۔۔ !
    ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮭﺎﻧﺎﺑﺎﮨﺮ ﺭﮐﮫ ﺩﯾﺎ ﮨﮯ ، ﺍﺳﮯ ﺍﭨﮭﺎ ﻟﻮ۔ ”
    ﯾﮧ ﺑﯿﻮﮦ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﺍﭨﮭﺎﺗﯽ ﺍﻭﺭ ﺁﺳﻤﺎﻥ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﺳﺮ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮭﺘﯽ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺘﯽ
    ﺍﮮ ﺍﻟﻠﮧ ﺭﺏ ﺍﻟﻌﺰﺕ ۔۔۔
    ﺁﺝ ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﺷﺨﺺ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﮭﻮﮐﮯ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﻮ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮐﮭﻼﯾﺎ
    ﺍﮮ ﺍﻟﻠﮧ ﺭﺏ ﺍﻟﻌﺰﺕ ۔۔۔ ” ﺍﺱ ﮐﺎ ﺧﺎﺗﻤﮧ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﭘﺮ ﻓﺮﻣﺎ ”
    ﻗﺎﺭﺋﯿﻦ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺗﻮ ﺑﺤﺮﺣﺎﻝ ﮔﺰﺭ ﮨﯽ ﺟﺎﻧﯽ ﮨﮯ ۔۔۔ ﺍﭘﻨﯽ ﺍﺳﺘﻄﺎﻋﺖ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﯽ ﻣﺪﺩ ﮐﺮﺗﮯ ﺭﮨﺎ ﮐﯿﺠﯿﺌﮯ ۔۔۔ ﺍﯾﮏ ﺣﺪﯾﺚ ﮐﺎ ﻣﻔﮩﻮﻡ ﺑﮭﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮐﺴﯽ ﺳﮯ ﮐﯽ ﮔﺌﯽ ﺑﮭﻼﺋﯽ ﺑﺮﯼ ﻣﻮﺕ ﺳﮯ ﺑﭽﺎﺗﯽ ﮨﮯ_____
    =============================

    خیر اندیش حبیب خان

تبصرے بند ہیں۔