زکوٰۃ: فضائل ومسائل!

مفتی محمد صادق حسین قاسمی

 اسلام کی عمارت جن ستونوں پر قائم ہے ان میں سے ایک عظیم اور اہم ستون زکوۃ ہے،جو اسلامی فرائض میں سے اور اسلام کی بنیا دی تعلیمات میں سے ہے،اور یہ اسلام ہی کی دین ہے کہ اس نے زکوۃ کی شکل میں ایک ایسا ہمدردی و غم خواری ،اور مساوات وبرابری کا نظام پیش فرمایا کہ جس کی نظیر مذاہب ِ عالم میں نہیں ملتی۔مال جو اللہ کی ایک عظیم نعمت ہے اس کا صحیح استعمال،اور منصفانہ تقسیم کا زکوۃ میں بے مثال پیغام دیا گیا ، قرآن کریم میں ستّرسے زیادہ مقامات پر نماز کے ساتھ زکوۃ کو بیان کیا گیا،زکوۃ کو ادا کرنے سے بے شمار فوائد و برکا ت حاصل ہوتے ہیں ،اور ایمان والوں کی اخلاقی اور روحانی تربیت بھی ہوتی ہیں ،دنیوی اعتبا رسے بھی اور اخروی لحاظ بھی بندئہ مومن کو اس کے اثرات و ثمرات ملتے ہیں ۔

زکوۃ کی اہمیت :

  قرآن کریم میں جس تاکید کے ساتھ نماز کو قائم کرنے کا حکم دیا گیا اسی تاکید کے ساتھ زکوۃ کو ادا کرنے کی اہمیت کو بیان کیا گیا ہے،قرآن کریم میں جہاں کہیں بھی انفاق فی سبیل اللہ کا حکم دیا گیا ہے وہا ں پورے اہتمام کے ساتھ یہ بات کہی گئی ہے کہ جو کچھ ہم نے تم کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرو،یعنی بندہ کو اس کی تلقین کی گئی کہ یہ مال و متاع اور دولت و ثروت جو انسان کے پاس موجود ہے وہ دراصل اللہ تعالی کی عطا کردہ نعمت ہے ،اس مال کو جب بندہ حکمِ خداوندی کے مطابق خرچ کرتا ہے ،اور مال کے جو حقوق عائد ہوتے ہیں اس کو ادا کرتا ہے تو اس کی وجہ سے باقی مال کی تطہیر ہوجاتی ہیں ۔زکوۃ اسلام کے فرائض میں سے ہے اور اسلام کے ارکان میں سے ایک ہے ۔قرآن وحدیث میں جا بجا اس اس کو ادا کرنے کا حکم دیا اور اس کے ادائیگی میں مال و دولت کی خیر وبر کت کو پوشید ہ رکھا۔

زکوۃ ادا نہ کرنے پروعید:

 زکوۃ کی اہمیت کو قر آن و حدیث میں بہت جگہوں پر ذکر گیا ،اور ادائیگی زکوۃ میں کوتا ہی اور لاپرواہی کرنے والوں کے بارے میں سخت وعیدیں بھی بیان کی گئی ۔چناں چہ حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جوکوئی بھی سونے اور چاندی کا مالک اس کا حق ادانہ کرے گا مگریہ کہ قیامت کے دن اس کے لئے آگ کے پترے تیار کئے جائیں گے جنہیں جہنم کی آگ میں تپا کر اس کے پہلو ،پیشانی اور پیٹھ کو داغا جائے گا اور جب ایک پترا تپایا جائے گا تو اس کی جگہ دوبارہ لایا جائے گا ایسے دن میں جس کی مقدار 50 ہزار سال ہو گی ،یہاں تک کہ بندوں کے درمیان فیصلے کی کاروائی پور ی ہو ،پھر اسے معلوم ہو گا کہ اس کا ٹھکانا جنت ہے یا جہنم۔( مسلم :1653)ایک جگہ ارشاد ہے کہ :جس شخص کو اللہ تعالی مال و دولت سے نوازے پھر وہ اس کا حق ادا نہ کرے تو وہ مال اس کے سامنے قیامت کے دن گنجے سانپ کی شکل میں لایا جائے گا ، جس کی آنکھ کے اوپر دو سیاہ نقطے ہوں ( جو اس سانپ کے شدید زہریلے ہو نے کی نشانی ہے ) یہ سانپ اس مال دار کے گلے میں قیامت کے روز طوق بن جائے گا ،پھر اس کا جبڑا پکڑکر کہے گا : میں ہوں تیر مال ،میں ہوں تیرا خزانہ ۔( بخاری :1320)

زکوۃ کی برکات:

 زکوۃ ادا کرنے کی وجہ سے جو خیر و برکات ایک مسلمان حاصل کرتا ہے اگر ان کو ارشادات ِ نبوی کی روشنی میں دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ آپ ﷺ نے فرمایاکہ:جس شخص نے اپنے مال کی زکوۃ ادا کردی اس نے اس کے شر کو دور کردیا۔(السنن الکبری للبیہقی:6687) ایک جگہ آپ ﷺنے فرمایا کہ:جب تم نے اپنے مال کی زکوۃ ادا کی تو تم پر جو ذمہ داری عائد ہوئی تھی اس سے تم سبکدوش ہوگئے۔(ترمذی:561) ایک حدیث میں آپ ﷺنے ارشاد فرمایا کہ:اپنے مالوں کو زکوۃ کے ذریعہ محفوظ کرو،اپنے بیماروں کا صدقہ سے علاج کرو،اور مصائب کے طوفانوں کا دعا و تضرع سے مقابلہ کرو۔(شعب الایمان للبیہقی:3273)  ان احادیث سے معلوم ہوا کہ زکوۃ ادا کرنے کی وجہ سے باقی مال محفوظ بھی ہوجاتا ہے اور وہ مال انسان کے کئے وبا ل اور ہلاکت کا سبب بھی نہیں بنتا ہے ورنہ تو نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ : مال زکوۃ جب دوسرے مال میں مخلوط ہوگا تو ضرور اس کو تباہ کردیگا۔(معارف الحدیث:30ج4)  زکوۃ کی شکل میں بندہ جہاں ایک فریضہ کی ادائیگی کرتا ہے وہیں صدقہ و خیرات کرنے والے سعادت مند لوگوں میں بھی اس کا شمار ہوتا ہے اور صدقہ و خیرات کے بارے میں جہاں قرآن کریم میں بے شمار برکات کے حاصل ہو کا ذکرفرمایاوہیں نبی کریم ﷺ نے بھی اس کے ذریعہ ملنے والی برکتوں کا ذکر کرتے ہو ئے فرمایاکہ:صدقہ اللہ کے غضب کو ٹھنڈا کرتا ہے ،اور بـری موت کو دفع کرتا ہے۔(ترمذی:600) آپ ﷺنے فرمایا کہ : صدقہ کے مال میں کمی نہیں آتی (بلکہ اضافہ ہی ہوتا ہے)۔(مسلم:4695)

زکوۃ کے فوائد:

 احکام ِ شریعت اور تعلیمات اسلامی میں اللہ تعالی نے جہاں دینی نفع اور اخروی کامیابی کو مضمر رکھا وہیں دنیاوی فوائد اور ظاہری منافع بھی رکھے ہیں چناں چہ زکوۃ ہی کے نظام کو دیکھئے کہ اس سے جہاں ایک بندہ اللہ تعالی کی بندگی کا اعتراف کرتا ہے اور اپنا مال و متاع حکم خداوندی کے مطابق مخصوص اندازمیں لٹاتا ہے ،ساتھ ہی بے شمار حسی فوائد سے بھی مالامال ہوتا ہے اور اس کے نتیجہ میں دنیاوی بھلائی سے بھی ہمکنار ہوتا ہے ۔حضرت شاہ ولی اللہ محد ث دہلوی ؒ اپنے مخصوص انداز میں اس کی حکمتیں اور ظاہری فوائد بیان کرتے ہیں کہ:زکوۃ میں ذاتی مصلحت یہ ہے کہ وہ نفس کو سنوارتی ہے ۔اور اس کی چار صورتیں ہیں :1۔انفاق سے بخل کا ازالہ ہوتا ہے ،2۔کبھی انفاق کا الہام ہوتا ہے ،تو اس انفاق سے نفس خوب سنورتا ہے ۔3۔انفاق جذبہ ٔ ترحم پیدا کرتا ہے ۔4۔انفاق سے گناہ معاف ہوتے اور نفس مزکی ہوتا ہے۔انفاق سے مملکت کو نفع پہنچتا ہے ۔اس کی دو صورتیں ہیں :1۔انفاق سے کمزوروں کو سہارا اور حاجت مندوں کو تعاون ملتا ہے ۔2۔انفاق سے حکومت کی ضروریات پوری ہوتی ہیں اور رفاہی کام انجام پاتے ہیں ۔( رحمۃ اللہ الواسعۃ:4/25)

زکوۃ کے معنی:

 زکوۃ کے لغوی معنی ’’بڑھوتری ‘‘ اور ’’زیادتی ‘‘ کے ہے ۔شریعی اصطلاح میں زکوۃ کہتے ہیں : مال کے مخصوص حصہ و حق کو مخصوص طریقہ پر اداکرنا ،اور اس کے واجب ہونے کے لئے سال کا ہونا اور نصاب کے بقدر ہونے کا اعتبار کیاجاتا ہے ۔(الموسوعۃ الفقیہ:23/226)

مسائل  ِزکوۃ:

 زکوۃ سے متعلق چند مسائل ذیل میں ذکر کئے جارہے ہیں ۔

 ٭سونے کا نصاب عربی اوزان کے اعتبار سے 20 مثقال ہے جس کا وزن تولہ کے حساب سے ساڑھے سات تولہ اور گراموں کے اعتبار سے 87 گرام 480 ملی گرام ہوتا ہے۔ چاندی کا نصاب عربی اوزان کے اعتبار سے دوسو درہم ہے ،جس کا وزن تولہ کے حساب سے ساڑھے باون تولہ اور گراموں کے اعتبار سے 612 گرام 360 ملی گرام ہوتا ہے۔( کتاب المسائل :2/212)

٭زکوۃ کل مال کا چالیسواں حصہ ( یعنی ڈھائی فیصد ی) دینا ضروری ہے ۔( کتاب المسائل:2/212)

٭قمری مہینہ کی جس تاریخ میں صاحب ِ نصاب ہوئے ہیں ہمیشہ وہی تاریخ زکوۃ کے حساب کے لئے متعین رہے گی ،نیز اس تاریخ میں آپ کے پاس سونا ،چاندی ،مال تجارت اور نقدی جو کچھ بھی خواہ ایک روز قبل ہی ملا ہو سب پر زکوۃ فرض ہوگی۔(احسن الفتاوی:4/255)

   ٭اگر کسی کا قرض ہو تو ا سکو منہاکرکے زکوۃ واجب ہوتی ہے۔صنعتی اور ترقیاتی قرضے جو سرکاری یا غیر سرکاری اداروں سے حاصل کئے جاتے ہیں اور انہیں طویل مدت دس بارہ سال میں اداکرنا ہوتا ہے اس میں اصول یہ ہے کہ ہر سال قرض کی جتنی رقم قسط اداکرنی ہے اس سال اتنی رقم منہا کرکے زکوۃ کا حساب کیا جائے گا نہ کہ پورے قرض کا۔( کتاب الفتاوی :3/260)

   ٭زکوۃ کی ادائیگی کے لئے نیت ضروری ہے ،فقیر کو زکوۃ دیتے وقت یا وکیل کو سپرد کرتے وقت یا کُل مال سے الگ کرتے وقت زکوۃ کی نیت ضروری ہے۔

    ٭جو پلاٹ یا زمین فروخت کرنے کی نیت سے خریدے گئے ہیں تو ان کی موجودہ قیمت پر زکوۃ واجب ہوگی۔( کتاب المسائل:2/216)

    ٭جس شخص نے مکان بنانے کے لئے پلاٹ خریدا پھر ادارہ بدل گیا کہ قیمت بڑھ جانے پر اس کو فروخت کردوں گا،تو اس پر زکوۃ اس وقت تک واجب نہیں ہے ،جب تک کہ اسے فروخت نہ کردے ،فروختگی کے بعد ہی رقم پر زکوۃ اداکرنا لازم ہوگا۔( فتاوی قاسمیہ:462/10)

٭جس شخص نے تجارت کی نیت سے پلاٹ خریدا پھر ارادہ بدل گیا کہ اس میں مکان بنانا ہے،تو اب اس پر زکوۃ واجب نہیں ہوگی۔( فتاوی قاسمیہ:463/10)

    ٭جو زمین ذاتی تعمیر کے لئے خریدی ہے اس میں زکوۃ واجب نہیں ہے،البتہ جو زمین تجارت کے لئے خریدی ہے اس کی پوری مالیت پر زکوۃ واجب ہوگی۔( کتاب النوازل:474/6)

   ٭اگر زمین یا جائیداد نابالغوں کے نام مالکانہ حیثیت سے خریدی جائے ،یعنی واقعتا انہیں مالک ہی بنانا مقصود ہو محض کسی مصلحت سے ان کا نام ڈالناپیش نظر نہ ہو توا ن نابالغوں پر زکوۃ واجب نہ ہوگی۔( کتاب النوازل:483/6)

  ٭اگر باپ ماں نے بچی یابچے کی شادی کے لئے زیورات بناکر رکھے ہیں اور وہ ابھی بچوں کو حوالے نہیں کئے گئے بلکہ اپنی ہی ملکیت میں ہیں تو ان کی مالیت پر حسب ِ ضابطہ زکوۃ ماں یا باپ پر واجب رہے گی ،اور اگر بچوں کی ملکیت میں دے دئیے ہیں تو جب تک وہ نابالغ ہیں ان پر زکوۃ نہ ہوگی اور بالغ ہونے کے بعد اگر نصاب وغیرہ کی شرائط پوری ہوتی ہوں تو سال گزرنے پر ان پر زکوۃ کا وجوب ہوگا۔( کتاب المسائل :2/220)

    ٭نابالغ کے مال میں زکوۃواجب نہیں ہے۔( فتاوی رحیمیہ:7/144)

    ٭سفر ِ حج کے کرایہ اور مکہ مکرمہ میں قیام کے دوران ہونے والے لازمی اخراجات اس کی حاجت اصلیہ یعنی بنیادی ضروریات میں داخل ہیں ان میں زکوۃ واجب نہیں ، اس سے زائد رجو رقم حاجی اپنے طور پرسفر حج خرچ کرتا ہے وہ حاجت اصلیہ میں داخل نہیں اس کی زکوۃ واجب ہوگی۔( کتاب الفتاوی :3/273)

    ٭جو زیور رہن پر اس پر زکوۃ واجب نہیں ۔( کتاب الفتاوی:3/283)

   ٭جو رقم مکان بنانے یاشادی کی نیت سے رکھی جائے ،سال گزرنے پر اس رقم کی زکوۃ اداکرنا بھی لازم اور واجب ہے۔( فتاوی قاسمیہ:583/10)

    ٭دوقسم کے رشتہ داروں کو زکوۃ نہیں دی جاسکتی ۔ایک وہ جن سے رشتہ وَلا دقائم ہے ،یعنی والدین اور اولاد کا رشتہ ہے ۔یعنی اپنے والدین اور ان کے آبائی سلسلہ دادا،دادی ،نانا،نانی ،وغیرہ کو زکوۃ نہیں دی جاسکتی ،اسی طرح اولاد اوراولاد کے سلسلہ ٔ اولاد یعنی پوتے ،پوتیاں ،نواسے ،نواسیاں اور ان کی اولاد کی اولاد وغیرہ کو زکوۃ نہیں دی جاسکتی ۔

     دوسرے ازداوجی رشتہ بھی مانع زکوۃ ہے یعنی بیوی شوہر کو یا شوہر بیوی کو زکوۃ نہیں دے سکتا ۔ان کے علاوہ دوسرے اقرباء( جن میں بھائی ،بہن بھی شامل ہیں ) کو زکوۃ دی جاسکتی ہے۔( کتاب الفتاوی :3/301)

   ٭باپ ،دادا،اولاد اور شوہر بیوی کے علاوہ بقیہ سب ضرور مند رشتہ داروں مثلا ًبھائی ،بہن ،چچا ،چچی ،پھوپھی ،ماموں اور بھانجے وغیرہ کو زکوۃ دینا درست بلکہ افضل ہے۔( کتاب المسائل:2/259)

تبصرے بند ہیں۔