تراویح اور ہماری کوتاہیاں!

مفتی رفیع الدین حنیف قاسمی

رمضان المبارک کا مہینہ سراپار حمت وبرکت والا مہینہ ہے ، یہ گویا اللہ عزوجل کی جانب سے بندوں کے لئے نیکیوں کا موسم بہا ر ہے ، اس میں ہر شخص اپنی وسعت اور ظرف کے مطابق اس کے انوار وبرکات اور عبادات سے مستفید ہوتا ہے ، اس ماہ مبارک میں اس قدر متنوع اور مختلف عبادتوں کے ذریعہ رب قدوس نے یہ چاہا کہ ان کے ذریعہ بندوں کی روحانی ترقی ، اخروی نجات اور ان کے لئے اپنی رضاجوئی او رخوش نودی کا سامان بہم پہنچائے ، بندہ اس ماہ مبارک کے ان مختلف الأنواع او رہمہ جہت عبادتوں کے اہتمام کے ذریعے اپنے خالق کا بے انتہا تقرب حاصل کرلیتا ہے اور اپنے روحانی سفر کے ان تمام منزلوں کو بیک جست طئے کر لیتا ہے جن کے سال کے سال کے گیارہ مہینے بیشتر مادی مصروفیات میں انہماک کی وجہ سے طئے کرنے سے رہ جاتا ہے ، اس ماہِ مبارک کی متنوع اور ہمہ پہلو عبادتوں میں سے ایک مخصوص اور مہتم بالشان عبادت ’’نمازِ تراویح ‘‘ بھی ہے ، دن کا روزہ ، رات کی تراویح یہ گویا رمضان المبارک کے دو اہم جزو ہیں یعنی جہاں دن میں روزہ کا اہتمام ہو وہیں رات کی تراویح کی بھی پابندی کی جائے ، ان دونوں کی اسی اہمیت وافادیت اور لازم وملزوم حیثیت کو اجاگر کرنے کے لئے دو ہم وزن الفاظ ’’صیام وقیام‘‘ کا احادیث میں استعمال کیا گیا ہے ، صیام یعنی روزے اور قیام یعنی تراویح دونوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے ، اگر بنظر غائر دیکھاجائے تو رمضان المبارک کی ساری چکاچوند اور اس کی نورانیت وبرکت کا تصور ان دونوں کے بغیر ہو ہی نہیں سکتا ؛ اس لئے درج ذیل سطور میں تراویح کی فضیلت اور اس کے تعلق سے معاشرہ میں پائی جانے والی کوتاہیوں کی طرف نشان دہی کی جارہی ہے ؛ تاکہ اس کے فضائل ونقائص کی صحیح جانکاری کے ذریعہ امت مسلمہ اس کی ادائیگی کا کما حقہ اہتمام کر سکے ۔

تراویح کی شرعی حیثیت اور اس کے فضائل : نماز تراویح سنت علی العین ہے ، یعنی ہر شخص پر اس کی ذاتی حیثیت سے اس کا ادا کرن سنت ہے ، اس کے ترک پر وہ تارک سنت شمار ہوگا ، البتہ جماعت کے ساتھ اس کی ادائیگی یہ سنت کفایہ ہے ، یعنی اگر کچھ لوگ مسجد میں جماعت کے ساتھ تراویح کا اہتمام کرلیں تو اہل محلہ ترک سنت کے گنہ گار نہ ہوں گے ؛ بلکہ کچھ لوگ گھر میں بھی تروایح پڑھ لیں تو ادا ہوجائے گی ؛ لیکن یہ لوگ مسجد اور جماعت کے ثواب سے محروم رہیں گے ، اگر بالکلیہ مسجد میں تراویح کی جماعت نہ ہوتی ہو تو تمام اہل محلہ گنہ گار ہوں گے (فتاوی ہندیہ : 1؍116)

حضور اکرم ا  خلفائے راشدین اور دیگر صحابہ کرام سے رمضان المبارک میں بیس رکعات تراویح کا اہتمام تواتر وتسلسل سے منقول ہے ، بے شمار احادیث وروایات میں تروایح کے فضائل وبرکات بیان کئے گئے ہیں ۔چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ا نے فرمایا : جو شخص رمضان المبارک کی راتوں کا قیام کرے (نماز تراوایح اداکرے ) ایمان ویقین کے ساتھ تو اس کے اگلے اور پچھلے تمام گناہ معاف کردیئے جائیں گے (ریاض الصالحین : 345)انہیں سے ایک دوسری روایت اس طرح نقل کی گئی ہے کہ : نبی کریم ارمضان کی راتوں کے قیام یعنی تروایح کی خوب ترغیب دیا کرتے تھے (ریاض الصالحین :435) آپ ا نے اپنی حیات مبارکہ میں تراویح کا مکمل اہتمام تو نہیں کیا ؛ بلکہ محض چند رات آپ ا کے تراویح کی ادائیگی کا ذکر روایات میں ملتا ہے ، حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں اس کی وجہ یہ بتلائی گئی ہے کہ آپ انے جب صحابہ کے ذوق وشوق اور ان کے تراویح میں جوق درجوق شرکت کو دیکھا تو آپ ا کو اس کی فرضیت کا اندیشہ ہوا ، آپ ا نے یوں فرمایا : مجھے تمہارے اس شوق کو دیکھ کر اس کی فرضیت کا اندیشہ ہونے لگا ہے ؛ اگر تم پر فرض کردی جائے تو پھر تم اس کو ادا نہ کر پاؤگے ؛ لہٰذا تم لوگ اس کو اپنے گھروں میں پڑھا کر و (مشکوۃ : 114)آپ انے ایک دفعہ چند صحابہ کو مسجد نبوی کے ایک کونے میں حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی اقتداء میں تراویح ادا کرتے دیکھا تو ان کی تعریف وتحسین فرمائی (حیاۃ الصحابہ : 3؍219) آپ ا کی اجتماعی طور پر تراویح کی ممانعت کے بعد حضرات صحابہ متفرق طور پر تراویح پڑھتے رہے ، پھر جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں یہ دیکھا کہ لوگ متفرق طور پر مختلف جماعتوں کی شکل میں تراویح اداکر رہے ہیں ، آوازوں میں آپس میں ٹکراؤ کی وجہ سے مسجد میں ایک قسم کے شور وغوغا کی کیفیت ہورہی ہے تو آپ رضی اللہ عنہ نے ان تمام لوگوں کو حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی اقتداء میں مجتمع فرمادیا ، وہ انہیں بیس رکعت تراویح پڑھایا کرتے تھے۔

حافظ ابن تیمیہ ؒ فتاوی تیمیہ میں تحریر فرماتے ہیں کہ : یہ ثابت شدہ امر ہے کہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ رمضان المبارک میں لوگوں کو بیس رکعت تراویح اور تین رکعات وتر پڑھایا کرتے تھے ، پس اکثر علماء نے بیس رکعت تروایح کو سنت نبوی قراردیا ہے ؛ کیوں کہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ حضرات مہاجرین وانصار کی موجودگی میں بیس رکعت پڑھاتـے تھے کسی نے بھی اس فعل پر انکار نہیں کیا ، اگر بیس رکعت تراویح ثابت نہ ہوتی تو مہاجرین وانصار ضرور اعتراض کرتے ( فتاوی تیمیہ : 1؍191، بحوالہ فتاوی رحیمیہ : 4؍400)حضرات صحابہ نے نہ صرف حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس فعل کی موافقت اور تائید کی ؛ بلکہ اسی طرح پابندی کے ساتھ پڑھتے رہے ؛یہاں تک کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد ان کے اس فعل پر تعریف کی اور ان کے حق میں کلماتِ خیر کہے کہ اللہ تعالیٰ عمر رضی اللہ عنہ کی قبر کو ایسے ہی نور سے بھر دے جیسا کہ انہوں نے مساجد کو قرآن کے نور سے بھردیا ( حیاۃ الصحابہ : 3؍221،عربی)

تراویح چند قابل اصلاح پہلو : کسی بھی عمل کی اصل روح اس کے اصول وآداب کی رعایت ہوا کرتی ہے ، اصول وآداب کے لحاظ کے بغیر اس عمل کی حیثیت جسد بے جان کے مانند ہوا کرتی ہے جسے گھر کی چہاردیواری سے لے جا کر کسی ویرانے میں سپرد خاک کئے جانے ہی کو عافیت اور اس کے مضراثرات سے بچاؤ تصور کیا جاتا ہے ؛ اس لئے کسی بھی عمل کے عند اللہ مقبولیت کے لئے اس کے آداب کی رعایت اصل ہے ، ان شرائط وآداب کی عدم رعایت ہی کو کوتاہی سے تعبیر کیا جاتا ہے ، مرورزمانہ کے ساتھ جہاں دیگر اعمال میں کوتاہیاں ہونے لگی ہیں ، اسی طرح کی کوتاہیاں تروایح کی تعلق سے بھی ہونے لگی ہیں ، اس میں بعض کوتاہیاں تو وہ ہیں جسے انسان کی آرام پسنداور راحت طلب طبیعت نے ایجاد کیا ہوا ہے اور بعض رسم ورواج کی شکل میں معاشرہ میں در آئی ہیں ۔

(1)رمضان المبارک میں عشاء کے بعد مساجد میں تراویح سنانے کا اہتمام ہوتاہے، اسے لوگوں نے بجائے عبادت کے ایک رسم بناکر رکھ دیا ہے ، دیکھتے پھرتے ہیں کہ کس مسجد میں کتنا جلد قرآن ختم ہورہا ہے ، حیرت ہوتی ہے کیا نوجوان ، کیا بوڑھے اکثر مسلمان پانچ روزہ ، دس روزہ ، پندرہ روزہ تراویح میں قرآن پاک سن کر چھٹی کردیتے ہیں ؛ حالانکہ تراویح میں صرف قرآن کا سن لینا کافی نہیں ہے ، جہاں تراویح میں ایک مکمل قرآن کاسننا ایک علاحدہ سنت ہے ، وہیں رمضان کی تیس دن کی تراویح بھی ایک مستقل سنت ہے ، فتاوی ہندیہ میں ہے :اگر انیس یا بیس کو ختم قرآن ہوجائے تو بقیہ مہینہ کی تراویح نہیں چھوڑی جائے گی ؛ اس لئے کہ پورے ماہ کی تراویح سنت ہے (فتاوی ہندیہ : 1؍118)

(2)     بہت سے منچلے نوجوان جو تراویح میں شرکت کرتے ہیں ، وہ امام کے تراویح کی پہلی رکعت میں قرأت کے انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں ، جس وقت امام پہلی رکعت کے رکوع کے لئے تکبیر کہتا ہے تو جھٹ سے اس میں شرکت کر لیتے ہیں ؛ حالاں کہ نماز میں اس طرح کی سستی اور کاہلی کا اظہار یہ مسلمان کا شیوہ نہیں ہوسکتا ، یہ تو منافقین کا شعار ہے ، جس کے تعلق سے ارشاد خداوندی ہے : ’’وإذا قاموا إلی الصلاۃ قاموا کسالی‘‘(شامی زکریا : 2؍449)جب یہ لوگ نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہیں تو کاہلی کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔

(3)  بہت سے حفاظ رمضان المبارک کی تراویح میں اس قدر تیزی اور روانی کے ساتھ پڑھتے ہیں کہ نہ مخارج کی ادائیگی کی صحت کا لحاظ ہوتاہے اور نہ پڑھا جارہا قرآن مصلیوں کے کچھ پلے پڑتا ہے ، اس پر طرہ یہ کہ لوگ ایسے ہی حافظ کو بہتر سمجھتے ہیں جو غلط سلط پڑھ کر بہت جلد قرآن ختم کردے خواہ اس کا رکوع ، سجدہ ، قومہ ، جلسہ ، سنت کے مطابق اور تعدیل ارکان کے لحاظ کے بغیر ہی کیوں نہ ہو ،اس طرح قرآن کا پڑھنا قرآن کے ادب کے منافی ہے جو بجائے ثواب کے سبب معصیت اور گناہ بن جاتا ہے ، چنانچہ درمختار میں ہے ’’ ویجتنب المنکرات ہذا امۃ القرأۃ وترک تعوذ وتسمیۃ وطمانینۃ ‘‘یعنی قرآن میں منکرات سے بچے یعنی جلدی پڑھنے ، اعوذ باللہ ، بسم اللہ اور اطمینان کے چھوڑنے سے ۔(زکریا : 2؍499)

(4) بہت سے مساجد میں رمضان میں شبینوں کا اہتمام کیا جاتا ہے ، وہ بھی کراہت سے خالی نہیں ؛ اس لئے کہ اول تو نفل باجماعت میں قرآن پڑھاجاتا ہے اور نفل باجماعت دو تین مقتدیوں سے زائد ہوتو مکروہ تحریمی ہے (شامی زکریا : 2؍500) اگر تراویح میں شبیہ یعنی ایک روزمیں ختم قرآن ہو تو یہ بھی مفاسد سے خالی نہیں ؛ اس لئے عموما ایسے شبینوں کے اہتمام میں ریاء ونمود کا مظاہرہ ہوا کرتا ہے ، اس میں کچھ حضرات امام کے پیچھے کھڑے ہوتے ہیں ؛ ورنہ اکثر وبیشتر لوگ سیر سپاٹے ، تفریح ، گفتگو ، کھانے پکانے کے انتظامات میں لگے رہتے ہیں ، جس کی وجہ سے قرآن اور جماعت کی بے احترامی لازم آتی ہے اور بہت سوں کی تراویح بھی چھوٹ جاتی ہے ، حفاظ میں صاف اور صحت کے ساتھ پڑھنے کا اہتمام بھی نہیں ہوتا ہے ، بے جا روشنی کے استعمال اور لوڈ اسپیکر کی بے ہنگم آواز کی وجہ سے جہاں اسراف اور فضول خرچی لازم آتی ہے ، وہیں اس شور وشغب کی وجہ سے پاس پڑوس کے لوگوں کے آرام اور عبادت میں بھی خلل واقع ہوتاہے ، الغرض ان مجموعی مفاسد کی وجہ سے شبیہ کا اہتمام کراہت سے خالی نہیں ۔

(5)  تراویح میں آج کل ایک رواج یہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے کہ تراویح کی ہر دوگانہ کے بعد تکبیر تشریق کے الفاظ اور چار رکعت کے بعد بالترتیب حضور اکرم ا اور خلفاء اربعہ کے نام لئے جاتے ہیں ، یہ سب چیزیں خلاف سنت اور رواجی ہیں ، جو قابلِ ترک ہیں ، اسلئے کہ اولا دو رکعت پر کسی قسم کا ترویح ہے ہی نہیں ؛ البتہ چار کعت پر جو ترویحہ ہے اس میں محض اس قدر بیٹھنے کا حکم ہے کہ تراویح بار خاطر نہ بن جائے ، اس میں دعاء یا اجتماعی ذکر نہیں ہے؛ بلکہ لوگ انفرادی طورپر جو چاہئے ذکر ، تلاوت یا نماز پڑھ سکتے ہیں یا خاموش بھی بیٹھے رہیں سب جائز ہے ۔

(6)  رمضان المبارک میں تراویح کے تعلق سے ایک کوتاہی یہ بھی ہوتی ہے کہ رمضان المبارک کا مہینہ آتے ہی حفاظ مساجد میں سرگرم عمل ہوجاتے ہیں کہ کہاں آمدنی کے زیادہ امکانات ہیں ؛ بلکہ اس مہینہ کو اپنی سال بھر کی آمدنی کا ذریعہ بنالیتے ہیں اور بقاعدہ رقومات طئے کر کے مختلف مساجد میں قرآن پاک سنانے کا معاہدہ کرتے ہیں ، تراویح پڑھانے پر اجرت کے تعلق سے سمجھ لینا چاہئے کہ اصل حکم تو یہی ہے کہ طاعات پر اجرت کا لین دین درست نہیں ، متاخرین نے بقاء دین کے پیش نظر چند چیزوں کو اس قاعدہ کلیہ سے مستثنی کیا ہے ، ان پر اجرت لینے کی اجازت دی ہے جن میں تعلیم قرآن ، اذان اور امامت شامل ہیں ، نیز تراویح کی ادائیگی ختم قرآن پر موقوف نہیں ’’الم تر‘‘سے بھی پڑھی جاسکتی ہے ؛ اس لئے کہ اس میں دین کا ضیاع بھی لازم نہیں آتا جو استثناء کردہ چیزوں میں اجرت لینے کے جواز کی اصل وجہ ہے ، آج کل لینے دینے کا جو طریقہ رائج ہے ، اس میں گرچہ حفاظ کی طرف سے زبان سے اظہار نہیں ہوتا ؛ لیکن ان کے دل میں حرص اور لالچ ضرور ہوا کرتی ہے اورمقتدیوں کو بھی دینے کی فکر رہتی ہے ؛لہٰذا بقاعدہ ’’المعروف کالمشروط‘‘ پر رواج کے درجے میں ہوا کرتا ہے ، یہ بھی اجرت کے درجہ میں ہوگا ؛ اس لئے یہ بھی کراہت سے خالی نہیں ۔

(7) بہت سے مساجد میں تراویح کے تعلق سے یہ کوتاہی بھی ہوتی ہے کہ مسجد اگر دو منزلہ ہوتو تحتانی منزل میں سوا پارہ اور فوقانی میں تین یا پانچ پاروں کا نظم کیا جاتا ہے ؛ حالاں کہ شرعی رو سے جہاں عام نمازوں میں مسجد میں جماعت کا تعدد درست نہیں ؛ اسی طرح تراویح کی بھی متعدد جماعتیں قائم نہیں کی جاسکتی خواہ تراویح کی یہ مختلف جماعتیں ایک ہی وقت میں قائم کی جائیں یا متعدد اوقات میں ( احسن الفتاوی زکریا : 3؍429)

تراویح کے تعلق سے یہ وہ چند کوتاہیاں ہیں جس پر توجہ اور اس کے ازالہ کے لئے کوشاں ہونے کی ضرورت ہے ؛ تاکہ رمضان المبارک کی اس عبادت کے صحیح ثواب اور اجر کے مستحق بن سکیں اور یہ عبادت ہمارے لئے بجائے ثواب کے عقاب اور سزا کی سزاوار نہ بنادے (وللہ التوفیق )

تبصرے بند ہیں۔