ساحر لدھیانوی : سرکش ترانوں کا شاعر

ڈاکٹر غلام قادر لون

                ساحر ؔ لدھیانوی اردو اور ہندی بولنے والوں میں نوجوانوں کے سب سے مقبول شاعرہیں، جن کے نغموں سے برصغیر ہند پاک کے عوام پچھلی آٹھ دہائیوں سے محظوظ ہورہے ہیں۔ ساحرؔ نے فلموں کے لئے نغمے اور گیت لکھے مگر انہوں نے فلموں میں کام کرنے کے باوجود اپنی شاعری میں فنی تقاضوں کو قربان نہیں کیا۔ چنانچہ انہوں نے متعدد شاہکار نظمیں لکھیں جو اپنی مثال آپ ہیں۔

                ساحرؔ لدھیانہ کے نزدیک’ لوڈھوال ‘علاقے کے ایک جاگیر دار چودھری فضل محمد ذیلدار کے گھرانے میں ۸ مارچ ۱۹۲۱ ء کو پیدا ہوئے۔ ان کی کشمیری نژادماں کا نام سردار بیگم تھا،جو چودھری فضل محمد کی گیارھویں بیوی تھی۔ فضل محمد نے اولاد نرینہ کی آرزو میں مختلف شادیاں کیں مگر کسی سے اولاد نہ ہوئی۔ جاگیر و جائداد کے وارث کی تمنا میں انہوں نے سردار بیگم سے شادی کی مگر و ہ بعض وجوہات کی بنا پر خفیہ رکھنا چاہتے تھے۔ سردار بیگم بیوی کی حیثیت سے اپنا جائز مقام چاہتی تھی۔ میاں بیوی میں اختلاف ہوا۔ مقدمہ بازی تک نوبت پہنچی۔ ساحرؔ کے والد سے جب جج نے سوال کیا کہ بچے کی تعلیم کیلئے کیا انتظام کروگے تو انہوں نے کہا کہ اولاد کو وہ پڑھائے جسے بچے کو نوکری کروانی ہو۔ ہمارے پاس اللہ کا بہت کچھ دیا ہوا ہے بیٹھ کر کھائے گا۔ جج نے سوچا کہ بچہ اگر باپ کے پاس رہے گا تو ان پڑھ رہے گا اس لئے انہوں نے بچے کو والدہ کے حوالے کردیا۔ والدہ نے عدالت میں کہا تھا کہ وہ بچے کو تعلیم دلائے گی۔ ساحر کی عمر اس وقت دس برس کی تھی۔ ساحر نے خود بھی عدالت میں کہا تھا کہ وہ اپنی ماں ہی کے ساتھ رہے گا۔

                ساحرؔ کا اصلی نام عبدالحی تھا۔ انہوں نے اپنی والدہ کے ساتھ رہ کر اپنی ننیہال میں پرورش پائی۔ تعلیم کیلئے انہیں گھر کے نزدیک واقع ایک اسکول ’مالوہ خالصہ اسکول‘ لدھیانہ میں داخل کرایا گیا۔ اسی اسکول سے انہوں نے ۱۹۳۷ء میں میڑک کیا۔ اسکول میں انگریزی لازمی تھی۔ اردو اور فارسی فیاض ہریانوی پڑھاتے تھے۔ ساحرؔجب چوتھی جماعت میں تھے تو گھر پران کے ماموں انہیں علامہ اقبالؔ کی تصنیف ’’بال جبریل‘‘ پڑھایا کرتے تھے۔ ایسے ماحول میں ان کی دلچسپی شعر وادب میں بڑھی۔ میڑک میں انہوں نے طبع آزمائی شروع کی۔ ایک نظم لکھ کر اپنے استاد فیاض ہر یانوی کے پاس بھیجی جنہوں نے صلاح دی کہ نظم گو معمولی ہے مگر اشعار موزوں ہیں۔ ساحرؔ کیلئے کلام کاموزوں ہونا ہی کافی تھا۔ ابھی تک انہوں نے ساحرؔ تخلص اختیار نہیں کیا تھا۔ علامہ اقبال نے داغؔ دہلوی کے مرثیہ میں ایک شعر کہاہے جس کا یک مصرع یہ ہے   ؎

سینکڑوں ساحر بھی ہوں گے صاحب اعجاز بھی

ساحر نے یہیں سے اپنا تخلص ساحرؔ لیا اور ساحرؔ لدھیانوی کے نام سے پوری اردو دنیا میں مشہور ہوگئے۔

                ۱۹۳۸ ء میں ساحرؔ نے گورنمنٹ کالج لدھیانہ میں داخلہ لیا اور چار سال تک تعلیم حاصل کرتے رہے۔ کالج میں وہ ایک سال تک سٹوڈنٹس فیڈریشن کے سیکریٹری اور ایک سال صدر رہے۔ یہاں انہیں سیاست سے دلچسپی ہوئی۔ انقلاب بغاوت اور آزادی کے نعروں سے آشنا ہوئے۔ انقلابی نظمیں لکھنے لگے جو میرٹھ کے ہفتہ وار ’کیرتی لہر‘ میں چھپتی تھیں۔ اس زمانے میں وہ اے۔ ایچ۔ ساحر، متعلم گورنمنٹ کالج لدھیانہ کے نام سے لکھتے تھے۔ سیاسی سرگرمیوں اور بعض دوسری وجوہات کی بنا پر ساحرؔ کو کالج سے نکال دیا گیا۔ سلسلہ تعلیم جاری رکھنے کیلئے انہوں نے دیال سنگھ کالج لاہور میں داخلہ لیا۔

                کالج میں ساحرؔ سٹوڈنٹس فیڈریشن کے صدر چنے گئے مگر کچھ وقت کے بعد انہیں یہاں سے بھی نکال دیا گیا۔ پڑھائی جاری رکھنے کیلئے انہوں نے لاہور کے اسلامیہ کالج میں داخلہ لیا جسے انہوں نے ۱۹۴۳ ء میں چھوڑدیا۔

                ۱۹۴۴ ء میں ان کے پہلا مجموعہ کلام ’’ تلخیاں ‘‘ شائع ہوا۔ ۱۹۴۵ء میں ساحرؔ نے ’’انجمن ترقی پسند مصنفین‘‘ میں شرکت کی۔ اس کے بعد قسمت آزمائی کیلئے ممبی چلے گئے جہاں دوسرے ترقی پسند ادیب اور شاعر بھی موجود تھے۔ ۱۵ اگست ۱۹۴۷ ء کو ساحر بمبی میں تھے جبکہ ان کی ماں ہجرت کرکے پاکستان چلی گئی تھیں۔ لاہور جانے کیلئے ساحرؔ نے بمبی سے دہلی کیلئے رخت سفر باندھ لیا۔ اور لاہور پہنچکر پناہ گزینوں میں اپنی ماں کو تلاش کیا۔

                ۱۹۴۸ ء میں ساحر ؔ نے احمد ندیم قاسمیؔ کے ساتھ ’’ سویرا‘‘ کی ادارت سنبھالی۔ ’سویرا‘ ترقی پسندوں کا ترجمان تھا۔ ترقی پسند حکومت پاکستان کے زیر عتاب آئے تو احمد ندیم قاسمیؔ اور ساحرؔ کے نام بھی وارنٹ جاری ہوئے۔ ساحرنےؔ لاہور چھوڑنے میں اپنی عافیت سمجھی۔ چنانچہ ۱۹۴۹ء کو اپنی والدہ کو لے کر ہندوستان چلے آئے۔ ایک سال تک دہلی میں قیام کیا۔ اسکے بعد بمبی چلے گئے اوروفات تک اس شہر میں رہے۔ ۲۵ اکتوبر ۱۹۸۰ ء کو ۵۹ سال کو عمر میں وفات پاگئے۔

                ساحرنےؔ نظمیں، غزلیں ور گیت لکھے۔ فلموں کیلئے انہوں نے جو نغمے لکھے وہ بے حد مقبول ہوئے۔ انہیں نغموں کی بدولت انہیں شہرت ملی۔ مگر ان کا ادبی پایہ بھی کم نہیں ہے۔ ساحر کی بعض نظمیں اور غزلیں اردو ادب میں بے مثال ہیں۔ تاج محل پوری دنیا میں مشہور ہے۔ علامہ اقبال نے ع

  حسن عالم سوز الحمر اوتاج   

کہہ کر اس کے حسن و جمال کی تعریف کی ہے۔ جسے فرشتے بھی خراج تحسین ادا کرتے ہیں۔ دنیا بھر کے ادیبوں نے اس کی خوبصورتی کی داددی ہے۔ شعراء نے اس پر نظمیں لکھی ہیں۔ ساحرؔنے جب اس پر لکھا تو نہ تو شاہ جہاں کے جاہ و جلال سے متاثر ہوئے اور نہ اس کے حسن سے متاثر ہوئے۔ تاج پر لکھتے وقت ان کی نظر ان معماروں، سنگتراشوں اور مزدوروں پر گئی جنہوں نے تاج محل کو بنایا ہے اور جن کے ہاتھوں سے یہ پیکر جمیل وجود میں آیا ہے   ؎

مری محبوب ! پس پردہ تشہیر وفا

تو نے سطوت کے نشانوں کو تو دیکھا ہوتا

مردہ شاہوں کے مقابر سے بہلنے والی

اپنے تاریک مکانوں کو تو دیکھا ہوتا

یہ چمن زار یہ جمنا کا کنارہ، یہ محل

یہ منقش درودیوار، یہ محراب یہ طاق

اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر

ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق

مری محبوب ! کہیں اور ملاکر مجھ سے

ساحرؔ کی اس نظم ’’ تاج محل‘‘ کو بعض نقادوں نے پسند نہیں کیا۔ ان کے دوستوں کو بھی یہ نظم پسند نہیں آئی۔ سردار جعفریؔ نے لکھا کہ’ لطف یہ ہے کہ ساحر نے تاج محل دیکھا نہیں تھا۔ اگر دیکھ لیا ہوتا تو ایسی نظم نہیں لکھ سکتا تھا۔‘

مگر ساحرؔ کا اپنا زاویہ نگاہ ہے۔ وہ ہر چیز کو اپنی نظر سے دیکھتے ہیں دوسروں کی نظر سے نہیں   ؎

لے دے کے اپنے پاس فقط اک نظر تو ہے

کیوں دیکھیں زندگی کو کسی کی نظر سے ہم

                ساحرؔ نے ’’چکلے‘‘ کے عنوان سے جو نظم لکھی ہے؛ اس میں انہوں نے مشرق کی تقدیس کے ثنا خوانوں ؛ ملک کے رہبروں اور پورے سماج کو آئینہ دکھایا۔ ۸ مارچ ساحر کایوم پیدائش ہے اور ۸ مارچ عالمی یوم خواتین بھی ہے۔ ’’چکلے‘‘ کے یہ اشعار ملاحظہ ہوں  ؎

مدد چاہتی ہے یہ حوا کی بیٹی

یشودھاکی ہم جنس، رادھاکی بیٹی

پیمبر کی امت، زلیخا کی بیٹی

ثناخوانِ تقدیس مشرق کہاں ہیں

                ساحرؔ نے عورتوں کی حالت زار پر اپنے کلام میں بار بار دکھ کا اظہار کیا ہے۔ انہیں دبی کچلی غریب اور مزدور عورتوں سے ہمدردی تھی۔ ساحرؔ نے ہر جگہ استحصال اور استحصال کرنے والوں کے خلاف آواز آٹھائی۔ وہ اشتراکی تھے اور جاگیر دارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام کے سخت خلاف انہوں نے لیننؔ پر دو نظمیں لکھیں۔ ’طلوع اشتراکیت‘ تحریر کی۔’جاگیر‘لکھی۔ ان تمام نظموں میں انہوں نے استحصال کے خلاف اپنی آواز بلند کی۔ ان کے بہت سے خیالات مسترد کئے جانے کے قابل ہیں مگر ان کے خلوص پر کوئی شبہ نہیں۔ وہ اگرچہ جاگیردار کے بیٹے تھے مگر انہوں نے لکھا   ؎

میں ان اجداد کا بیٹا ہوں جنہوں نے پیہم

اجنبی قوم کے سائے کی حمایت کی ہے

غدر کی ساعت ناپاک سے لیکر اب تک

ہر کڑے وقت میں سرکار کی خدمت کی ہے

ساحرؔ نے ’’ بنگال‘‘ کے عنوان سے جو نظم لکھی ہے اس میں قحط سے لاکھوں مرنے والوں پر کہاہے   ؎

پچاس لاکھ فسردہ گلے سڑے دھانچے

نظام زر کے خلاف احتجاج کرتے ہیں

خموش ہونٹوں سے،دم توڑتی نگاہوں سے

بشر بشر کے خلاف احتجاج کرتے ہیں

                ساحرؔ کو نوجوانوں کا شاعر کہا گیا ہے۔ ان کی بعض نظموں کو تعرہ بازی سے تعبیر کیا گیا مگر انہوں نے ’’میرے گیت‘‘ کے عنوان سے اس کا جواب دیا ہے  ؎

مرے سرکش ترانوں کی حقیقت ہے تو اتنی ہے

کہ جب میں دیکھتا ہوں بھوک کے مارے کسانوں کو

غویبوں، مفلسوں کو، بیکسوں کو بے سہاروں کو

سسکتی تازینوں کو تڑپتے نوجوانوں کو

حکومت کے تشدد کو امارت کے تکبر کو

کسی کے چیتھڑوں کو اور شہنشاہی خزانوں کو

تو دل تاب نشاط بزم عشرت لانہیں سکتا

میں چاہوں بھی تو خواب آور ترانے گا نہیں سکتا

                وہ انسانیت کے شاعر تھے۔ انہیں اس سے کوئی غرض نہ تھی کہ انہیں ترقی پسند کہا جائے یا رجعت پسند، وہ کہتے ہیں  ؎

رجعت پرست ہوں کہ ترقی پسند ہوں

اس بحث کو فضول وعبث جانتا ہوں میں

تاروں کی انجمن سے مجھے کچھ غرض نہیں

انسانیت پہ اشک بہاتا رہوں میں

                ۱۹۶۹ ء میں غالبؔ کی صد سالہ برسی منائی گئی۔ اسی سال گاندھی کی صد سالہ سالگرہ بھی منائی جارہی تھی۔ یہ ساحر ؔ ہی تھے جو ان تماشوں اور کھلونوں سے متاثر نہ ہوئے اور صاف صاف کہا۔ ؎

جن شہروں میں گونجی تھی غالبؔ کی نوابرسوں

ان شہروں میں اب اردو بے نام و نشان ٹھہری

آزادی کامل کا اعلان ہوا جس دن

معتوب زبان ٹھہری، غدارزبان ٹھہری

جس عہد سیاست نے یہ زندہ زبان کھلی

اس عہد سیاست کو مرحوم کا غم کیوں ہے

غالب جیسے کہتے ہیں اردو ہی کا شاعر تھا

اردو پہ ستم ڈھاکر غالبؔ یہ کرم کیوں ہے

یہ جشن مبارک ہو پر یہ بھی صداقت ہے

ہم لوگ حقیقت کے احساس سے عاری ہیں

گاندھی ہو کہ غالبؔ ہو انصاف کی نظروں میں

ہم دونوں کے قاتل میں دونوں کے پجاری ہیں

                ساحرؔ نے امن عالم کے موضوع پر ’’پرچھائیاں ‘‘ تحریر کی۔ ۱۸۴ مصرعوں پر مشتمل طویل نظم جنگ کی ہولناکیوں، تباہیوں اور بربادیوں کی تصویر کشی جس انداز سے کرتی ہے؛ اس سے جنگ کے دوران اور جنگ کے بعد حالات کا ڈرا ونا منظر سامنے آتا ہے۔ ؎

انسان کی قیمت گرنے لگی، اجناس کے بھاو بڑھنے لگے

چوپال کی رونق گھٹنے لگی، بھرتی کے دفا تر بڑھنے لگے

بستی کے سجیلے شوخ خواں بن بن کے سپاسی جانے لگے

جس راہ سے کم ہی لوٹ سکے اس راہ پہ راہی جانے لگے

ان جانے والے دستوں میں غیرت بھی گئی، برنائی بھی

مائوں کے جواں بیٹے بھی گئے بہنوں کے چہیتے بھائی بھی

افلاس زدہ دہقانوں کے ہل بیل بکے کھلیاں بکے

جینے کی تمنا کے ہاتھوں جینے ہی کے سب ساماں بکے

کچھ بھی نہ رہا جب بکنے کو جسموں کی تجارت ہونے لگی

خلوت میں بھی جو ممنوع تھی جلوت میں جسارت ہونے لگی

                ساحرؔ کے کلام میں خلوص ہے۔ ان کے اشعار دل کی آواز ہیں، جو سننے والوں کے دلوں کو چھو لیتے ہیں، وہ خود کہتے ہیں  ؎

جس میں خلوص فکر نہ ہو وہ سخن فضول

جس میں نہ دل شریک ہو اس لے میں کچھ نہیں

٭٭٭

تبصرے بند ہیں۔