سادگی کا تعلق ایمان سے ہے !

حضرت ابو امامہؓ سے  روایت ہے، وہ کہتے ہیں  کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں  نے آپؐ کے سامنے دنیا کا ذکر کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا تم سنتے نہیں ، کیا تم سنتے نہیں ، یقینا سادگی ایمان سے ہے، یقینا سادگی ایمان سے ہے‘‘ (ابو داؤد)۔

سادگی کا تعلق ایمان سے ہے۔ ایمان کے کس حصہ سے ہے؟ ایمان بالآخرۃ سے ہے؛ یعنی دنیا کے بارے میں  یہ ایمان و یقین کہ وہ عارضی ہے، فانی ہے اور آخرت کے بارے میں  یہ ایمان و یقین ہے کہ وہ دائمی ہے، لازوال ہے اور ابدی ہے۔

 کیا آپ وقتی، عارضی، جلد اور یکلخت ٹوٹ جانے والی چیز پر اپنا وقت، پیسہ اور قوت صرف کرنے کیلئے تیار ہوں  گی؟ ہاں ! جو پائیدار ہے، مستقل کام آنے والی ہے، اس کیلئے وقت، پیسہ، قوت، توانائی خرچ کرنا عقل مندی کی بات ہے۔

  ہم اس چکاچوند مادی دور میں ، منہ زور سیلابِ مادیت میں  جو غرق ہورہے ہیں  تو اس کی وجہ دل کا اس ایمان و یقین سے خالی ہونا ہے کہ دنیا عارضی ہے۔ دنیا کو ہم نے ابدی مان لیا ہے۔ اسی وجہ سے کل سرمایۂ حیات دنیا کیلئے جھونک رہے ہیں  اور اگر کبھی دنیا کو حقیقت میں  عارضی مانا ہوتا تو پھر سادگی ہمارا شعار ہوتا۔

 یہی وجہ ہے کہ وہ جس کا ایمان بالآخرۃ کامل تھا اور جس نے دنیا کی حقیقت دنیا کے بنانے والے سے سمجھ لی تھی کہ وہ متاعِ قلیل ہے تو ان کا معیارِ زندگی اس پہلو سے منفرد تھا۔ حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم مملکت اسلامیہ کے سربراہ تھے لیکن اس کے باوجود جو معیارِ زندگی آپؐ نے پیش کیا اس کی شان کتنی تھی، پھر آپؐ کے چاروں  بہترین خلفاءؓ نے بھی سادگی کا پورا پورا اہتمام کیا اور جن پاک ہستیوں  نے سادگی کا یہ بلند ترین معیار پیش کیا زمانے نے بھی تو صرف انہی کو خلفائے راشدینؓ  تسلیم کیا ہے۔

 معلم و مربی نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کا منظر دیکھنا ہے تو آئیے سیدنا حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھتے ہیں ۔ آپؓ فرماتے ہیں  : ’’میں  نے دیکھا کہ ایک طرف کھجور کی چٹائی پڑی تھی، ایک کونے میں  تھوڑے سے جَو پڑے تھے، دیوار پر ایک بکری کی کھال لٹک رہی تھی، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم پر کھجور کی چٹائی کے نشان موجود تھے اور جسم مبارک پر ایک تہہ بند اور موٹی چادر تھی‘‘ (صحیح بخاری) ۔

  پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محرم راز حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ملاقات کیجئے اور ان سے دریافت کیجئے تو وہ آپؐ کے طرزِ زندگی پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتی ہیں : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انھوں  نے عروہؓ سے فرمایا: میرے بھانجے! ہم کبھی کبھی لگاتار تین تین چاند دیکھ لیتے تھے (یعنی دو مہینے) اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں  میں  چولھا گرم نہ ہوتا تھا، (عروہؓ کہتے ہیں )میں  نے عرض کیا کہ پھر آپ لوگوں  کو کیا چیز زندہ رکھتی تھی؟ حضرت عائشہؓ نے جواب دیا: وہ کالی چیزیں  یعنی کھجور کے دانے اور پانی (ان پر ہی ہم جیتے تھے)‘‘ (بخاری و مسلم)۔

   سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ جو چولھے میں  مہینہ بھر آگ نہیں  جل رہی ہے، صرف کھجور اور پانی پر مہینوں  گزر بسر ہورہی ہے۔ یہ غربت، مسکنت، مالی مجبوری، معاشی بدحالی کا نتیجہ ہے؟ کیا یہ افلاس کے باعث تھا؟کیا یہ دورِ عسرت کی داستان ہے جو سنائی جارہی ہے؟ ہر گز نہیں ! یہ سادگی، یہ فقر مدنی زندگی کا ہے جبکہ آپؐ کی فوجیں  دنیا کو فتح کرنے کیلئے چہار جانب آگے بڑھنے کیلئے پا بہ رکاب تھیں ۔ جزیرۃ العرب کے اندر سے مالِ غنیمت مختلف فتوحات کے نتیجے میں  مدینہ کے دارالخلافہ کی طرف دریا کے دھاروں  کی طرح بہہ رہا تھا۔ عسر کے دور کا اختتام اور یسر کے دور کا آغاز تھا۔ ایسے میں  حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جو تصویریں  سامنے آتی ہیں  وہ ہر گز قلتِ مال کا نتیجہ نہیں ، اس کے پیچھے اختیار، دنیا کی آسائشوں  سے قصداً ہاتھ اٹھانا، سامانِ زندگی سے شعوری گریز اور مالِ دنیا سے سوچی سمجھی بے اعتنائی نظر آتی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا اور اس کے سرو سامان کو خود دھتکار رکھا تھا۔ اس بات کی مزید وضاحت کیلئے وہ حدیث کافی ہے، جس میں  نماز کے دوران حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی چیز کو اس طرح سے پیچھے دھکیلا تھا جیسے کسی سے بچنے کیلئے دھکیلا جاتا ہے۔ صحابہ کرامؓ نے پوچھا تو حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’دنیا مجسم ہوکر میری طرف آئی تھی اور میں  نے اس کو دھتکار دیا‘‘۔   ؎

نگاہوں  میں  اب تک جھلکتی ہے دنیا …تو مات اس کی ساری ہی فتنہ گری کر

سادگی کا نقشہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش کیا، اپنے اہل بیت کیلئے بھی یہی پسند فرمایا کیونکہ اہل بیت تا قیامت معلم و داعی کی حیثیت رکھتے تھے۔ چاروں  خلفاء کا طریقہ بھی یہی سادگی تھا۔ میرا طریق امیری نہیں  فقیری ہے؛ لیکن پھر کیا ہوا، دنیا داروں  کا تذکرہ نہیں  کر رہی ہوں ۔ ہمارے ہاں  بدنصیبی سے حال یہاں  تک آن پہنچا ہے کہ اپنی تمام تر  تعیشاتِ زندگی پر ایک تفاخر اور تکاثر کا جذبہ رکھتے ہوئے اس پر اسلام کا تڑکا لگانے کو وَاَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّث کی آیت زبانی سناکر قرآن پر اپنے عمل کا ثبوت پیش کرتے ہیں ۔ ہم کہتے ہیں ، بھئی؛ اللہ کے دیئے کا اظہار تو کرنا چاہئے یہ تو تحدیث نعمت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم تلبیس ابلیس کا شکار ہیں ۔

میری بہنو! سچ کہو قرآن کے مطالب کو ہم زیادہ سمجھتے ہیں  یا وہ ہستیاں  جنھوں  نے بغیر کسی واسطے کے براہ راست آفتابِ نبوت سے روشنی حاصل کی۔ نہ ان سے بڑھ کر فہم قرآن کسی کے پاس ہے، نہ ان سے بڑھ کر عاملِ قرآن کوئی اور ہے۔ وہاں  تو صدیق اکبرؓ اور فاروق اعظمؓ غزوۂ تبوک کے موقع پر پورا پورا مال اور نصف مال تحدیث ِ نعمت کے طور پر سب ملتِ بیضا پر قربان کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی تحدیث نعمت دیکھنی ہو تو قیمتی سامان تجارت سے لدے ہوئے اونٹوں  کی قطاریں  دیکھ لیں  اور ابو دحداح اور ام دحداح کے اس نخلستان کو دیکھ لیں  جس کا سودا تحدیثِ نعمت کے طور پر منعم حقیقی ہی کے ہاتھوں  چکایا گیا۔ یہ کس نے کہہ دیا کہ دنیا پرستی، ہوس پرستی اور نمائش کے پہاڑ کو تحدیث نعمت کی آڑ میں  بلند سے بلند تر کرتے جاؤ۔

 اب ذرا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ دعا بھی سن لیجئے جو آپؐ اپنے لئے مانگا کرتے تھے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی کہ ’’پروردگار! محمدؐ کے گھر والوں  کو روزی بس ضرورت کے مطابق دے‘‘ (بخاری و مسلم)۔ پھر وہ جس نے ان البذاذتہ من الایمان کا سبق دیا۔ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی راستے سے گزرے، ایک بلند عمارت نظر آئی۔ فرمایا: ’’یہ کس کا مکان ہے؟‘‘ لوگوں  نے ایک انصاری کا نام لیا۔ آپؐ خاموش ہوگئے اور جب انصاری آپؐ کی خدمت میں  حاضر ہوا اور سلام کیا تو آپؐ نے منہ پھیر لیا۔ انھوں  نے دوستوں  سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی کا سبب دریافت کیا تو لوگوں  نے بتایا۔ وہ انصاری فوراً گئے اور اپنے مکان کو منہدم کر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ جب ادھر سے گزرے تو دریافت کیا: ’’وہ عمارت کیا ہوئی؟‘‘ تو لوگوں  نے سارا حال سنایا۔ اس پر آپؐ نے فرمایا: ’’ہر وہ مکان جو ضرورت سے زائد ہو، صاحب خانہ کیلئے وبالِ جان ہے‘‘(ابوداؤد)۔

 ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی غزوہ سے واپس آئے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بڑے شوق سے گھر کو سجا رکھا تھا اور ایک رنگین پردہ بھی لگایا تھا۔ آپؐ تشریف لائے تو حضرت عائشہؓ نے سلام کیا۔ آپؐ کے چہرۂ مبارک پر ناگواری کے تاثرات تھے۔ آپؐ نے سلام کا جواب نہ دیا پھر خود اپنے ہاتھ سے پردے کے دو ٹکڑے کر دیئے اور فرمایا: ’’اللہ نے ہمیں  مٹی اور پتھر کو آراستہ کرنے کا حکم نہیں  دیا ہے‘‘ (ابو داؤد)۔

 سیرت کے واقعات اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سن کر یکسر تبدیلی کا عمل تو صرف انہی کو نصیب ہوتا ہے جن سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی برداشت نہیں  ہوتی۔ حضورؐ سلام کا جواب نہ دیں ، حضورؐ منہ پھیر لیں  تو یہ نا قابل تصور صدمہ اور دھچکا ہی ہے، جو طرزِ زندگی میں  گہری تبدیلی کا باعث بنتا ہے اور جہاں  حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی کی کوئی پروانہ ہو، وہاں  پر مادیت کا بہاؤ تیز سے تیز تر ہوتا جاتا ہے۔

 پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ قول بھی یاد رکھنے کا ہے ’’خوش نصیب ہے وہ شخص جو اسلام لایا، بس ضرورت بھر سامان رکھا اور جو کچھ اللہ نے اس کو دیا، اس پر وہ قانع رہا‘‘ (مسلم)۔ جس کو حضورؐ خوش نصیب کہہ رہے ہیں ، ہمارے نزدیک وہ قابل رحم ہوتا ہے، ہم اس پر ترس کھا رہے ہوتے ہیں ۔ ہائے بیچارا سہولیاتِ زندگی سے محروم، سخت حالوں  میں  ہے، بمشکل زندگی کی گاڑی چلا رہا ہے۔

 ایک واقعہ سنانے کو جی چاہتا ہے جو کہ دوسری صدی ہجری کی ابتدا کا ہے۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اسے اپنے مضمون ’’مسلمان کی طاقت کا اصل منبع‘‘ میں  بیان کیا ہے، جو ان کی مشہور کتاب ’تنقیحات‘ میں  ہے۔ آپؐ یہ واقعہ انہی کی زبانی سن لیجئے ۔ ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کو صرف ایک صدی گزری تھی۔ مسلمان ایک زندہ قوم کی حیثیت سے دنیا پر چھا رہے تھے۔ ایران، روم، مصر، افریقہ، اسپین کے وارث ہوچکے تھے۔ دلوں  میں  ایمان تھا۔ سمع و اطاعت کا نظام بھی قائم تھا، مگر پھر بھی جو لوگ عہد صحابہؓ کے فاقہ کش خستہ حال صحرا نشینوں  سے زور آزمائی کرچکے تھے انھوں  نے سر و سامان والوں  اور ان بے سر و سامانوں  کے درمیان زمین و آسمان کا فرق محسوس کیا۔ رتبیل جو اس وقت سجستان کا فرماں  روا تھا، اس نے بنی امیہ کے عمال کو خراج دینا بند کر دیا۔ جب یزید بن عبدالملک کو خراج طلب کرنے کیلئے رتبیل کے پاس بھیجا تو کہنے لگا: وہ لوگ کہاں  گئے جو پہلے آیا کرتے تھے۔ ان کے پیٹ فاقہ زدوں  کی طرح پچکے ہوئے تھے۔ پیشانیوں  پر سیاہ گٹے پڑے رہتے تھے۔ کہا گیا وہ لوگ تو گزر گئے۔ اس پر رتبیل نے ایک دشمن کی حیثیت سے جو کچھ کہا وہ دوستوں  اور ناصحوں  کے ہزار وعظوں  سے زیادہ سبق آموز ہے۔ کہنے لگا: اگر چہ تمہاری صورتیں  ان سے زیادہ شان دار ہیں  مگر وہ تم سے زیادہ عہد کے پابند اور تم سب سے زیادہ طاقت ور تھے۔

 پھر مزید لکھتے ہیں : ’’کسی عمارت کا استحکام اس کے رنگ و روغن، نقش و نگار، زینت و آرائش صحن و چمن اور ظاہری خوشنمائی سے نہیں  ہوتا۔ نہ مکینوں  کی کثرت، نہ ساز و سامان کی افراط اور اسباب و آلات کی فراوانی اس کو مضبوط بناتی ہے۔ اگر اس کی بنیادیں  کمزور ہوں ، دیواریں  کھوکھلی ہوں ، ستونوں  کو گھن لگ جائے، کڑیاں  اور تختے بوسیدہ ہوجائیں  تو اس کو گرنے سے کوئی چیز بچا نہیں  سکتی، خواہ وہ مکینوں  سے خوب معمور ہو اور اس میں  کروڑوں  روپئے کا مال و اسباب بھراپڑا ہو، اور اس کی سجاوٹ نظروں  کو بھاتی اور دلوں  کو موہ لیتی ہو۔ تم صرف ظاہر کو دیکھتے ہو۔ تمہاری نظر مد نظر پر اٹک کر رہ جاتی ہے مگر حوادثِ زمانہ کا معاملہ نمائشی مظاہر سے نہیں  بلکہ اندرونی حقائق سے پیش آتا ہے۔ وہ عمارت کی بنیادوں  سے نبرد آزما ہوتے ہیں ۔ دیواروں  کی پختگی کا امتحان لیتے ہیں ۔ ستونوں  کی استواری کو جانچتے ہیں ۔ اگر یہ چیزیں  مضبوط اور مستحکم ہوں  تو زمانے کے حوادث ایسی عمارت سے ٹکراکر پلٹ جائیں  گے اور وہ ان پر غالب آجائے گی خواہ و زینت و آرائش سے یکسر محروم ہو۔ ورنہ حوادث کی ٹکریں  آخر کار اس کو پاش پاش کرکے رہیں  گی اور وہ اپنے ساتھ مکینوں  اور اسباب زینت کو بھی لے بیٹھے گی۔ ٹھیک یہی حال حیاتِ قومی کا بھی ہے۔

تحریر:یاسمین حمید،ترتیب: عبدالعزیز

تبصرے بند ہیں۔