یتیم پوتے کی وراثت سے محرومی کے متبادل طریقے

 اسلام کے نظامِ وراثت پر جو اعتراضات کیے گئے ہیں ان میں سے ایک اہم اعتراض یہ ہے کہ اس میں یتیم پوتے کو محروم رکھاگیاہے۔ یہ اعتراض کرتے ہوئے یتیم پوتے کی غربت و مسکنت اور بے چارگی و لاچاری کو اتنا نمایاں کیاجاتاہے کہ ایسا معلوم ہوتاہے کہ اگر اسے مالِ وراثت میں سے حصہ نہ دیاگیا تو وہ بھوکوں مرجائے گااور اس کے لیے زندگی گزارنا ناممکن ہوجائے گا۔ اس کے بعد اسلامی شریعت پر نشانہ سادھا جاتاہے اور بہ بانگ دہل کہاجاتاہے کہ شرعی قانون ظالمانہ ہے،اس میں بعض مستحقین کی حق تلفی کی گئی ہے، اس لیے  وہ موجودہ زمانے کا ساتھ دینے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔

 اعتراضات کی شدت سے گھبراکر ماضی قریب کے بعض مسلم محققین ، دانش وروں اور علماء نے اسلامی نظامِ وراثت میں یتیم پوتے کی محرومی سے انکار کیاہے۔ یہ نقطئہ نظر رکھنے والے بعض افراد اب بھی پائے جاتے ہیں۔ یہ حضرات کہتے ہیں کہ یتیم پوتے کو اپنے مرحوم باپ کا قائم مقام سمجھاجائے گا اور جو حصہ کسی شخص کے مرنے پر اس کے بیٹے کو ملتا،وہ اس کی زندگی میں بیٹے کے وفات پاجانے کی صورت میں پوتے کو ملے گا۔

 یہ دونوں حضرات درحقیقت اسلامی قانونِ وراثت کے ضابطوں، حکمتوں اور باریکیوں سے واقف نہیں ہیں۔ اسی طرح یتیم پوتے سے ان کی ہمدردیاں محض دکھاوا اور فریب ہیں۔ جن طریقوں سے یتیم پوتے کی وقت ِ ضرورت مدد کی جاسکتی ہے، ان پر توجہ دینے کے بجائے یہ حضرات دوسرے غلط طریقوں سے اس کی مددکرنا چاہتے ہیں۔

اسلامی قانونِ وراثت کی بنیاد

 اسلامی قانونِ وراثت کی بنیاد فقر و احتیاج پر نہیں ہے، کہ میت کے پس ماندگان میں جو جتنا ضرورت مند ہو، وراثت میں اس کا اتنا حصہ لگادیاجائے، بلکہ اس کی بنیاد قرابت، بلکہ قریب ترین قرابت ہے۔رشتے دار بہت سے ہوتے ہیں، لیکن شریعت میں صرف قریب ترین رشتہ داروں کو مستحقینِ وراثت قرار دیاگیاہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

 لِّلرِّجَالِ نَصیِبٌ مِّمَّا تَرَکَ الْوَالِدٰنِ وَالأَقْرَبُون وَلِلنِّسَآء  نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَکَ الْوَالِدٰنِ وَالأَقْرَبُون(النساء:7)

   ’’مردوں کے لیے اس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور قریبی رشتے داروں نے چھوڑا ہو اور عورتوں کے لیے بھی اس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور قریبی رشتے داروں نے چھوڑا ہو۔‘‘

 اس آیت میں’الأَقْرَبُون‘(قریب ترین رشتے دار) کا لفظ دوبار آیا ہے۔ گویا اس میں یہ صراحت موجود ہے کہ مرد اور عورتیں اپنے والدین اور قریب ترین رشتے داروں سے مالِ وراثت میں حصہ پائیں گے۔ یہی بات حدیث میں بھی کہی گئی ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے:

 الحقوا الفرائض بأھلھا فما بقی فھو لأولی رجل ذکر(بخاری : 6732، مسلم:  2615 )

 ’’ذوی الفروض کو ان کے حصے دو، پھر جو باقی بچے وہ میت کے قریب ترین مرد رشتے دار کا ہوگا۔‘‘

  ’ذوی الفروض‘ سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے حصے قرآن مجید میں صراحت سے بیان کردیے گئے ہیں۔ ان کو دینے کے بعد جو کچھ بچے گا وہ میت کے قریب ترین رشے داروں ، یعنی’عصبہ‘ کا ہوگا۔ اس حدیث میں واضح کردیاہے کہ عصبہ مرد حضرا ت ہی ہوسکتے ہیں۔ کوئی عورت بذات خود عصبہ نہیں ہوسکتی،بلکہ کسی مرد کے ساتھ شامل ہوکر ہی اسے بہ حیثیت عصبہ وراثت ملتی ہے۔

  شریعت نے عصبہ میں بھی ترتیب قائم کی ہے۔ قریب ترین رشتہ دار ہو تو دور کے رشتے دار محروم ہوں گے۔ احادیث میں اس کی متعدد مثالیں ملتی ہیں۔

حضرت سعد بن الربیعؓ غزوئہ احد میں شہید ہوئے توانہوں نے اپنے پیچھے اپنی بیوہ، دو بچیاں اور بھائی کو چھوڑا۔ ان کی بیوہ اپنی بچیوں کو لے کر اللہ کے رسول ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور شکایت کی کہ سعد ؓ کے بھائی نے پورے مال پر قبضہ کرلیاہے اور ان بچیوں کے لیے کچھ نہیں چھوڑا ہے۔اللہ کے رسولﷺ نے فیصلہ فرمایا کہ دونوں بیٹیوں کو دو تہائی مال اور بیوہ کو آٹھواں حصہ ملے گا اور جو کچھ باقی بچے وہ بھائی کا ہوگا۔ (ابودائود: 2892، ترمذی:2092، ابن ماجہ: 2720)

                حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’بھائی بہن سگے بھی ہوں اور سوتیلے بھی، تو سگے بھائی بہن وارث ہوں گے، ان کی موجود گی میںسوتیلے بھائی بہن وارث نہ ہوں گے‘‘۔(ترمذی:2094، ابن ماجہ:2739)

یتیم پوتے کی محرومی کی وجہ

 اس تفصیل سے بہ خوبی سمجھا جاسکتاہے کہ اسلامی شریعت میں یتیم پوتے کی وراثت سے محرومی کی اصل وجہ کیاہے؟ مثال کے طور پر کسی شخص کے پانچ بیٹے ہیں۔ سب کی شادی ہوچکی ہے اور وہ صاحب اولاد ہیں۔ ان میں سے ایک بیٹے کا انتقال باپ کی موجودگی میں ہوجاتاہے، بعد میں باپ کا انتقال ہوتاہے۔ اس وقت اس کے پس ماندگان میں چار بیٹے اور دوسرے رشتے دار ہیں، جن میں مرحوم بیٹے کی اولاد یعنی پوتے بھی ہیں۔ اب مال ِوراثت کی تقسیم اس طرح ہوگی کہ اگر کچھ ذوی الفروض ہیں تو ان کا حصہ نکالنے کے بعد بقیہ مال چاروں بیٹوں میں بہ حیثیت عصبہ تقسیم ہوگا۔ چوں کہ بیٹے میت کے قریب تریب رشتے دار (عصبہ) ہیں ،اس لیے وہ مستحق ہوں گے،ان کی موجودگی میں دور کے رشتے داروں کو کچھ نہ ملے گا،جن میں پوتے بھی شامل ہیں۔

وراثت کا مسئلہ اصلاََ کسی شخص کی زندگی میں نہیں، بلکہ اس کے مرنے کے بعد اٹھتاہے۔جب اس کی زندگی میں اس کے ایک بیٹے کا انتقال ہوگیاہے اور اس شخص کی موت کے وقت وہ موجود ہی نہیں ہے تو اس کا کیوں کر حصہ لگایاجائے گا ؟اور جب اس کا کوئی حصہ نہیں تو اس کے بیٹے کیوں کرمستحق ہوں گے؟

یتیم پوتے کی وراثت سے محرومی کے متبادل طریقے

    اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یتیم پوتے کو اسلامی شریعت نے بے یارو مددگار چھوڑ دیا ہے اور اس کی کفالت کا کوئی انتظام نہیں کیا ہے۔ شریعت نے کفالت کا جو نظام بنایا ہے اس پر صحیح طریقے سے عمل کیا جائے تو سماج کا کوئی فرد بے یار و مددگار نہیں رہے گا۔

  یتیم پوتے کی کفالت درج ذیل طریقوں سے ممکن ہے:

 (1) سورۂ بقرہ آیت نمبر 233 میں ایک حکم بیان کیا گیا ہے کہ اگر زوجین میں اختلاف اور منافرت کے بعد علیٰحدگی ہو گئی ہو اور ان کا شیر خوار بچہ ہو تو ماں کو چاہیے کہ وہ اس کو دودھ پلائے اور باپ پر لازم ہے کہ وہ بچے کو دودھ پلوانے کے اخراجات برداشت کرے۔ اس آیت کا ایک ٹکڑا ہے:وَعَلَی الْوَارِثِ مِثْلُ ذَلِکَ ’’ویسا ہی وارث پر بھی ہے۔‘‘  یعنی اگر بچے کا باپ نہیں ہے تو اس کی کفالت کی ذمہ داری اس شخص پر ہے جو اس بچے کی وفات کی صورت میں اس کی وراثت پانے کا استحقاق رکھتا ہے۔اس سے فقہاء نے یہ استدلال کیا ہے کہ یتیم پوتے کی کفالت کی ذمہ داری اس کے قریبی رشتہ داروں پر ہے۔ یہ الفاظ دیگر یتیم پوتے کے جو چچا اپنے باپ کے وارث ہوں گے، وہی اپنے یتیم بھتیجے کی کفالت کے بھی ذمہ دار ہوں گے۔

   (2) اسلامی شریعت میں وصیت کا قانون موجود ہے، جس کے ذریعہ ان رشتہ داروں کی مدد کی جا سکتی ہے جو وراثت میں سے حصہ نہ پاتے ہوں۔

  آیاتِ وراثت نازل ہونے سے پہلے وصیت کا حکم دیا گیا تھا:

 کُتِبَ عَلَیْْکُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَکُمُ الْمَوْتُ إِن تَرَکَ خَیْْراً الْوَصِیَّۃُ لِلْوٰلِدَیْْنِ وَالأقْرَبِیْنَ بِالْمَعْرُوفِ(البقرۃ: 180)

 ’’تم پر فرض کیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت قریب آئے اور وہ اپنے پیچھے مال چھوڑرہا ہو، تو والدین اور رشتے داروں کے لیے معروف طریقے سے وصیت کرے۔‘‘

 آیاتِ وراثت نازل ہوئیں، جن میں میت کے والدین اور قریبی رشتے داروں کے حصے متعین کر دیے گئے تو ان کے سلسلے میں وصیت کا حکم منسوخ ہو گیا، لیکن وراثت نہ پانے والے رشتے داروں اور دیگر امورِ خیر کے لیے یہ حکم باقی رہا۔ چنانچہ آیات ِوراثت میں بار بار کہا گیا ہے کہ وراثت کی تقسیم وصیت کو نافذ کرنے کے بعد کی جائے گی:

  مِن بَعْدِ وَصِیَّۃٍ یُوصِیْ بِہَا أَوْ دَیْْنٍ(النساء:11)

 ’’جب کہ وصیت جو انھوں نے کی ہو ،پوری کر دی جائے اور قرض، جو انھوں نے چھوڑا ہو، ادا کر دیا جائے۔‘‘

مِن بَعْدِ وَصِیَّۃٍ یُوصِیْنَ بِہَا أَوْ دَیْْن(النساء:12)

’’جب کہ وصیت جو میت نے کی ہو، پوری کر دی جائے اور قرض، جو اس پر ہو، ادا کر دیا جائے۔‘‘

 مِّن بَعْدِ وَصِیَّۃٍ تُوصُونَ بِہَا أَوْ دَیْْنٍ(النساء:12)

 ’’بعد اس کے کہ جو وصیت تم نے کی ہو، پوری کردی جائے اور جو قرض تم نے چھوڑا ہو، وہ ادا کر دیا جائے۔‘‘

 مِن بَعْدِ وَصِیَّۃٍ یُوصَی بِہَا أَوْ دَیْْنٍ(النساء:12)

’’جب کہ وصیت جو کی گئی ہو ،پوری کر دی جائے اور قرض، جو میت نے چھوڑا ہو، ادا کر دیا جائے۔‘‘

 اللہ کے رسول ﷺ سے صراحتاً مروی ہے کہ وارثین کے حق میں وصیت نہیں کی جا سکتی۔ (ترمذی:2121، ابن ماجہ:2712) اسی طرح ایک تہائی مال سے زیادہ کی وصیت بھی جائز نہیں ہے۔ (بخاری:2743، مسلم:1629) اس بنا پر فقہاء نے لکھا ہے کہ غیر وارث رشتے داروں کے حق میں تہائی مال کی وصیت کرنا بعض حالات میں جائز ، بعض حالات میں مستحب اور بعض حالات میں واجب ہے۔

 اس سے معلوم ہوا کہ یتیم پوتے کے حق میں وصیت کر کے بھی اس کی ضروریات پوری کی جا سکتی ہیں۔ دادا کو چاہیے کہ اگر اس کے کسی بیٹے کا انتقال اس کی زندگی میں ہو جائے تو وہ اپنے پوتوں اور پوتیوں کے حق میں حسبِ ضرورت اپنے ایک تہائی مال تک کی وصیت کر دے، تاکہ اس کے مرنے کے بعد وہ وراثت سے محرومی کی وجہ سے بے سہارا نہ ہو جائیں۔

 (3) قرآن مجید میں وارثوں کے لیے ایک حکم یہ موجود ہے کہ جب مالِ وراثت تقسیم ہونے لگے تو اس میں سے ان رشتے داروں کو بھی کچھ دیں جنھیں شرعی طور پر حصہ نہ مل رہا ہو۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

 وَإِذَا حَضَرَ الْقِسْمَۃَ أُوْلُواْ الْقُرْبیٰ وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنُ فَارْزُقُوہُم مِّنْہُ وَقُولُواْ لَہُمْ قَوْلاً مَّعْرُوفاً(النساء:۸)

 ’’اور جب تقسیم کے موقع پر کنبہ کے لوگ اور یتیم اور مسکین آجائیں تو اس مال میں سے ان کو بھی دو اور ان کے ساتھ بھلے مانسوں کی سی بات کرو۔‘‘

 مفسرین نے لکھا ہے کہ جمہور علماء کے نزدیک آیات ِ میراث نازل ہونے کی بعد اس آیت کا حکم منسوخ ہو گیا، لیکن حضرت ابن عباسؓ اور متعدد تابعین و فقہاء اس کے عدم ِ نسخ کے قائل ہیں۔ (ملاحظہ کیجیے، تفسیر ابن کثیر اور دیگر تفسیریں)

  اس آیت سے رہ نمائی ملتی ہے کہ وارثین کو ان رشتے داروں کا خیال رکھنا چاہیے اور حسب ِضرورت ان کی مالی مدد کرنی چاہیے، جو وراثت میں حصہ نہیں پاتے۔

(4) قرآن مجید میں صلہ رحمی کی تاکید کی گئی ہے اور قطع رحمی سے روکا گیا ہے۔ اس موضوع پر کثرت سے آیات ِ قرآنی اور احادیث ِنبوی موجود ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’ اللہ سے ڈرو، جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو اور رشتے و قرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو۔‘‘ (النساء:1)ان لوگوں کو دانش مند کہا گیا ہے جو دیگر اوصاف کے ساتھ ان رشتوں کی پاس داری کرتے ہیں، جنھیں برقرار رکھنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ (النساء:21) اور ان لوگوں پر لعنت بھیجی گئی ہے اور آخرت میں برے ٹھکانے کی خبر دی گئی ہے جو ان رشتوں کو کاٹتے ہیں جنھیں جوڑنے کاا للہ نے حکم دیا ہے۔ (النساء:25)

  ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:

 لا یدخل الجنۃ قاطع (بخاری:5984، مسلم:2556)

  ’رشتوں کو کاٹنے والا جنت میں نہیں جائے گا‘۔

  آخر میں ایک اور پہلو کی طرف توجہ دلانا ضروری معلوم ہوتا ہے ۔ وہ یہ کہ معترضین اس موضوع کو اس انداز سے اٹھاتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے، دادا ہر حال میں مال دار اور پوتا ہر حال میں غریب ، نادار اور بے کس و بے سہارا ہوتا ہے، حالاں کہ یہ دونوں باتیں مفروضے پر مبنی ہیں۔ بہت سے مواقع پر دادا خود غریب اور اپنے بیٹوں کے سہارے کا محتاج ہوتا ہے اور بہت سے مواقع ایسے بھی ہوتے ہیں جب پوتے کو کسی طرح کے مالی سہارے کی ضرورت نہیں ہوتی، اس لیے کہ اسے اپنے باپ سے اچھی خاصی جائداد اور مال ملتا ہے۔

 خلاصہ یہ کہ اسلام کا نظام ِوراثت بڑی حکمتوں پر مبنی ہے۔ اس کے اصولوں کے مطابق اگر یتیم پوتے کو اس میں حصہ نہیں دیا گیا ہے تو وقت ِضرورت اس کی حاجت راوائی اور کفالت کے دیگر پختہ انتطامات کر دیے گئے ہیں۔

تبصرے بند ہیں۔