سارا کھیل اوپر والے کا ہے

حفیظ نعمانی

اپنے ملک کو اگر اہم ترین دو شعبوں میں تقسیم کیا جائے یعنی سائنس کی ترقیات اور انتظامی امور تو دونوں میں زمین آسمان کا فرق نظر آئے گا۔ سائنس کی ترقی کا یہ حال ہے کہ خلا میں سیٹ لائٹ کو مار گرانے والا میزائل بنانے میں کامیاب ہونے کے بعد اب ہم دنیا کا چوتھا ملک ہیں۔ لیکن انتظامی امور کو چلانے والوں کی کارگذاری کا انجام یہ ہے کہ جس حکومت نے پانچ برس ملک چلایا ہے اسے چھوٹی چھوٹی پارٹیوں کے ہاتھوں اپنی موت نظر آرہی ہے اور وہ ملک کے سائنس دانوں کے اس کارنامہ کو جس کو حکومت کی صرف سرپرستی حاصل ہے اپنی کارگذاری ثابت کرنے میں بھی شرم محسوس نہیں کررہے اور فلم سازوں سے جھوٹے پروپیگنڈے کے لئے فلم بنواکر اس کے پوسٹر گلی گلی لگوانے کی کوشش کررہے ہیں۔

ہندوستان کا جو بچہ یہ جانتا ہے کہ سیٹ لائٹ کیا ہے اور میزائل کیا ہے وہ یہ بھی جانتا ہے کہ ایک ڈاکٹر عبدالکلام ایسے سائنس داں تھے جنہوں نے ملک میں اپنا میزائل بنایا اور ملک میں سب نے ان کو میزائل مین کہا۔ اس میزائل میں اس حکومت کا کوئی دخل سرپرستی کے علاوہ ایسے ہی نہیں تھا جیسے سیٹ لائٹ کو مار گرانے والا میزائل بنانے میں مودی سرکار کا کوئی دخل نہیں ہے۔ اور اگر کوئی گھٹیا درجہ کا وزیر اسے مودی جی کا کارنامہ قرار دے کر یہ ثابت کرنا چاہے کہ اگر مودی وزیر اعظم نہ ہوتے تو یہ میزائل نہ بنتا مذاق سے زیادہ کچھ نہ ہوتا۔

وزیراعظم مودی سے پہلے جتنے بڑے اور عظمت والے وزیراعظم ہوئے ان میں سے کسی نے یہ نہیں کہا کہ جو ہم نے کیا وہ اب تک کسی نے نہیں کیا۔ وہ کبھی یہ کہتے ہیں کہ جو 70  سال میں نہیں ہوا وہ ہم نے کردیا کبھی کہتے ہیں جو ہم نے 50  مہینے میں کردیا وہ کسی نے پچاس سال میں بھی نہیں کیا۔ اگر یاد دلائیں تو جنتا پارٹی کے صدر چندر شیکھر بھی چار مہینے کے لئے وزیراعظم بنے تھے اس وقت انہوں نے کہا تھا چار مہینے بنام چالیس سال جس پر پورا ملک ہنس رہا تھا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ 50  مہینے میں ملک کے ہر طبقہ کے لوگ جتنا پریشان ہوئے ہیں اتنا 50  سال میں بھی نہیں ہوئے۔ مودی جی کو معلوم ہے کہ اٹل جی نے 6  برس حکومت کی اور ایک بار بھی نہیں کہا کہ جو نہرو اندرا نے بھی نہیں کیا وہ میں نے کردیا جبکہ انہوں نے واقعی کیا تھا۔ اور انہوں نے بے روزگاری کی شکایت کرنے والوں سے یہ نہیں کہا کہ سڑک کے کنارے بیٹھ کر پکوڑے بیچنا بھی روزگار ہے۔

مودی جی نے 130  کروڑ انسانوں کے ساتھ جو کیا اس کا حساب لینے والوں کو وہ حساب نہیں دے پارہے ہیں لیکن جو انہوں نے ملک کے بزرگوں کے ساتھ کیا اسے دیکھ کر ہر بوڑھا شاید یہ سوچ رہا ہو کہ اس بے عزتی سے پہلے موت کیوں نہ آگئی؟ مودی جی نے جو کیا اس سے زیادہ اس انداز پر لوگوں کو اعتراض ہے جس طرح  کیا اس انداز میں توہین تذلیل اور تحقیر ہے۔ یہ بات کہ 75  سال کے بعد سیاست سے ریٹائر ہوجانا چاہئے اڈوانی جی جوشی جی شیوپرساد سنہا اور ارون شوری کے دستخط سے کہلایا جاتا تو بات اتنی بھونڈی نہ ہوتی۔ 2001 ء میں اڈوانی جی مودی کا ہاتھ پکڑکر لائے اور گجرات کے وزیراعلیٰ کی کرسی پر یہ کہہ کر بٹھایا تھا کہ انہیں ہم کسی خاص مقصد کے لئے لائے ہیں۔ اس کے بعد جب اٹل جی نے 2002 ء میں ان کو ہٹانا چاہا ۔تو اڈوانی جی آڑے آگئے۔ اگر کوئی اتنے بڑے بڑے احسانات کو بھول جائے تو اسے جو کہا جائے اس کے کئی نام ہیں۔

اڈوانی جی اور جوشی اور دوسرے بزرگ سب اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں وہ نئی حکومت بننے کے بعد وہ جس کی بھی ہو جب سکون سے گھر میں بیٹھیں تو اپنی زندگی کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ ان کی گردن پر کتنے انسانوں کا خون ہے۔ ہندوستان کی فضا اور ہوا میں جو زہر گھلا ہوا ہے اس میں ان کا کتنا حصہ ہے اور کیا وہ یہ نہیں مانتے کہ ایک طاقت وہ بھی ہے جو نظر نہیں آتی لیکن آخری فیصلہ اُسی کا ہوتا ہے۔ یہ جو ایک لفظ اوپر والا ہے اڈوانی جی کو کتابوں میں دیکھنا چاہئے کہ کون ہے اور سب کچھ کھلا کھلا دیکھنا ہو تو قرآن پاک کا ہندی ایڈیشن اور ترجمہ ان فرصت کے دنوں میں دیکھ لیں۔ اس میں صاف صاف کہا گیا ہے کہ جس کو بھی عزت دیتا ہے وہی دیتا ہے اور جسے بھی ذلیل کرتا ہے وہی کرتا ہے اس لئے کہ صرف وہ ہے جس کے اشاروں پر کائنات چلتی ہے۔

اس اوپر والے نے یہ بھی کہا ہے کہ اصل سزا اس وقت دوں گا جب تم میرے پاس آئوگے لیکن اگر تم نے زیادہ پاپ کئے ہیں تو دنیا میں ہی تمہیں دکھا دیا جائے گا کہ تم عزت دینے والا بھی کوئی اور تھا اور تم کو ذلیل کرنے کیلئے بھی اسے استعمال کیا جائے گا جو کل تک تمہارے جوتے اٹھاتا تھا۔ ایک بے عزتی اڈوانی جی کو وہ بھی یاد ہوگی جب وہ مسٹر جناح کے مزار پر ان کو سیکولر لیڈر لکھ کر آئے تھے اور آر ایس ایس کے چیف نے ان سے صدارت لے لی تھی۔ تکلیف تو اڈوانی کو اس وقت بھی ہوئی ہوگی لیکن وہ سزا تھی اور اب جو مودی صاحب نے کیا ہے اسے ذلت کہتے ہیں اور جس کے ہاتھوں ذلت ہوئی ہے اس کی تکلیف سے وہ آخری سانس تک تڑپتے رہیں گے۔ ان لیڈروں میں سے کسی کے ساتھ ہمیں کوئی ہمدردی نہیں ہے اس لئے کہ یہ خدائی فیصلہ ہے۔ ہم صرف اس لئے لکھ رہے ہیں کہ دین کی دعوت دینا ہمارے اوپر فرض ہے اور ان سب کو بتادیں کہ اتنے گناہوں کے بعد بھی معافی اور توبہ کا دروازہ کھلا ہے وہ رونے کے بجائے اوپر والے کو تلاش کریں اور قرآن میں دیکھیں کہ وہ کیا کہہ رہا ہے؟ اور سمجھ میں آجائے تو مان لیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔