سال نو کا پیغام: ہجرت و شہادت 

محمد عبد اللہ جاوید

واقعہ ایک جابر بادشاہ کا ہے۔ جس کا یہ اعلان تھا کہ- میں سب سے بڑا خدا ہوں – لہٰذا میری بات مانی جائے۔ خدا کے سچے بندوں پر اس اعلان کا کچھ بھی اثر نہیں ہوا۔ وہ اپنے حقیقی خالق و مالک کی بندگی کرنے لگے۔ جابر و ظالم بادشاہ ان سچے خدا پرست لوگوں کو مٹانے کے لئے نت نئی چالیں چلنے لگا۔ آخر کار اس کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ اسے ذلت کی موت نصیب ہوئی۔ اور خدا کے ماننے والوں کو نجات ملی۔ اس بادشاہ کو آج دنیا فرعون کے نام سے جانتی ہے۔ جن لوگوں کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس ظالم بادشاہ سے نجات دلائی وہ حضرت موسیٰ ؑ کے ماننے والے تھے۔ جس دن اہل ایمان کو نجات ملی وہ انتہائی خوشی کا دن تھا۔ بغیر کسی خو ف وخطر کے اللہ کی بندگی ہوتی رہی۔ یہ مبارک دن 10 محرم الحرام ہے جسے یوم عاشورہ کہا جاتا ہے۔ یہ دن ہر سال ہمارے درمیان ایک بامقصد پیغام لیکر آتا ہے۔

محرم کی بڑی اہمیت و فضیلت ہے۔ اسلامی تاریخ میں جن عظیم الشان کامیابیوں اور بے مثال قربانیوں کا ذکر ملتا ہے یہ ماہ ان کا مرکز و محور رہا ہے۔ چنانچہ ہرزمانے میں یوم عاشورہ کو بڑا محترم دن مانا جاتا تھا۔ زمانہ جاہلیت میں اسی دن کعبہ پر نیا غلاف ڈالا جاتا تھا۔ اور قریش اس دن روزہ رکھتے تھے۔ جب رسول اکرمؐ مدینہ منورہ تشریف لائے تو یہود کو اس دن کا روزہ رکھتے دیکھا۔ بخاری و مسلم شریف کی حدیث ہے‘ حضرت عبداللہ ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ آپؐ نے ان سے دریافت کیاکہ تمہاری مذہبی روایات میں یہ کیا خاص دن ہے کہ تم اس کا روزہ رکھتے ہو؟ انھوں نے کہا کہ ہمارے ہاں یہ بڑی عظمت والا دن ہے‘ اس میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ ؑ اور ان کی قوم بنی اسرائیل کو نجات دی تھی اور فرعون اور اس کے لشکر کو غرقاب کیا تھا۔ تو موسیٰ ؑ نے اللہ تعالیٰ کے اس انعام کا شکر میں اس دن کا روزہ رکھا تھا اس لئے ہم بھی ان کی پیروی میں ا س دن کا روزہ رکھتے ہیں …….اللہ کے رسولؐ نے فرمایا کہ اللہ کے پیغمبر حضرت موسیٰ ؑ سے ہمارا تعلق تم سے زیادہ ہے اور ہم اس کے زیادہ حق دار ہیں۔ پھر رسول اکرمؐ نے رہنمائی فرمائی کہ اس قوم کی تشبیہ سے بچنے کے لئے ایک کی بجائے دو روزے رکھے جائیں یعنی 9اور 10 محر م کو۔ اس کے پیش نظر اکثر علما ء نے اس گنجائش کا بھی ذکر کیا ہے کہ اگر کسی وجہ سے ۹محرم کو روزہ نہ رکھا گیا ہو تو10محرم کے ساتھ ساتھ 11محرم کو بھی روزہ رکھ لیا جائے۔

ماہ محرم میں اللہ تعالیٰ کی جانب سے عطا کردہ کامیابیوں پر مسلمانوں کا یہ طرز عمل اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ اس دنیا میں حق و باطل کی کشمکش ایک حقیقت ہے۔ جب سے انسان اس دنیا میں قدم رکھا تب ہی سے اسکا آغاز ہوا۔ حضرت آدم ؑ کے بیٹوں ہابیل اور قابیل کے درمیان لڑائی سے اس کی شروعات ہوئی۔ پھر تاریخ کی آنکھوں نے نوح ؑ اور ان کی قوم کے درمیان کشکش دیکھی‘ معرکہ فرعون و کلیم اورمعرکہ ابراہیم ؑ اور نمرود دیکھا۔ مختلف زمانوں میں یہ کشمکش کسی نہ کسی حیثیت سے ہوتی رہی۔ جس کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔

حق و باطل (اسلام و کفر)کی اس تاریخی کشمکش سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ حق اس دنیا میں غالب ہونے کے لئے آیا ہے۔ وہ اپنے اندر قوت تسخیر رکھتا ہے اوربتدریج لوگوں کے دلوں کو مسخر کرتا چلا جاتا ہے۔ تمام جھوٹے عقائد اور طریقہ ہائے زندگیوں پر غالب آجاتا ہے۔ باطل‘ حق کی اس پیش رفت کو ہرگز برداشت نہیں کرتا وہ مستقلاً اس سے برسر پیکار رہتا ہے۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ باطل کبھی حق پر غالب نہیں آیا۔ مٹنا اور فنا ہوجانا اس کامقدر ہے:

وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا

کہو حق آگیا اور باطل مٹ گیا۔ یقینا باطل تو مٹنے ہی کے لئے ہے (بنی اسرائیل:81)

اسی یوم عاشورہ کو حضرت امام حسینؓ کی شہادت‘ معرکہ حق و باطل کے ایک اور پہلو کو واضح کرتی ہے۔ دین اسلام کی سربلندی کے لئے ایک بندۂ مومن کو حتی الامکان کوشش کرنی چاہئے۔ یہاں تک کہ اللہ کی راہ میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے سے بھی گریز نہیں کرنا چاہئے۔ حضرت امام حسینؓ نے اللہ اور اسکے رسولؐ کے حکم کی خلاف ورزی کرنے والوں سے جنگ کی۔ ان کے وجود کو گوارہ نہیں کیا۔ باطل نظریات کو ہرگز قبول نہیں کیا اور اپنی قیمتی جان‘ حق کی سربلندی کے لئے نچھاور کردی۔

بلاشبہ اسلامی تاریخ کے ان تابناک اور درخشاں پہلوؤں کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ماہ محرم الحرام امت مسلمہ کے اندر حق و باطل سے متعلق صحیح فہم و شعور بیدار کرتا ہے۔ یہ اسپرٹ پیدا کرتا ہے کہ ایک سچے مسلمان کی زندگی کا مقصد اللہ رب العالمین کے دین کی سرفرازی ہے۔ اس کا ہر کام‘اس کی تمام تر سرگرمیاں اسی مقصد کے تحت ہوتی ہیں۔ وہ اپنے قول و عمل سے دین اسلام کے سچے اور سارے انسانوں کے لئے سراپا رحمت ہونے کی شہادت دیتا ہے۔

ان کوششوں کے ساتھ اس کی یہ دلی آرزو ہوتی ہے کہ اس راہ میں اپنی جان دے کرشہادت پا جائے۔ اور بے اختیار اس کے لبوں پر دعا جاری ہوجاتی ہے:

اللّٰہم ارزقنی شھادۃً فی سبیلک

اے اللہ مجھے اپنی راہ میں شہادت نصیب فرما

ایسی مومنانہ زندگی مطلوب و مقصود ہے۔ جو اللہ اور اسکے رسولﷺ کی نگاہ میں نہایت محترم اور آخرت میں اجر عظیم کا ذریعہ ہے۔

یہ ہے ماہ محرم کی عظمت اور اس کا حقیقی پیغام۔ چنانچہ اسی بنا یہ اسلامی سال کے آغاز کا م مہینہ قرار پایا۔ تاکہ امت مسلمہ اس ماہ کی عظمت اور اس کے پیغام کو اپنے ذہنوں میں تازہ کرتے ہوئے راہ خدا میں سرگرم عمل رہے۔

امت کے اس جذبہ کو مزید تقویت دینے کے لئے ہجرت کا درس بھی موجود ہے۔ اسلامی سال کے آغاز کے لئے واقعہ ہجرت کو بنیاد بنایا گیا۔ یوں تو اسلامی تاریخ میں ایسے کئی ایک عظیم الشان واقعات ہیں جن کے پیش نظر نئے سال کی شروعات کی جاسکتی تھی۔ جیسے حضور اقدسؐ کا یوم پیدائش‘ واقعہ معراج‘ واقعہ شق القمر‘ یوم البدر‘ فتح مکہ وغیرہ۔ لیکن ان سب کی بجائے ہجرت کا انتخاب بڑا معنی خیز ہے اور اس میں کئی حکمتیں پوشیدہ ہیں۔ جو اسلام کے صحیح مزاج اور اس پر عمل پیرا ہونے کے لئے بعض ضروری اصولوں کی واضح انداز سے تشریح کرتی ہیں۔ ہجرت کے معنی نہ صرف ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی کے ہیں بلکہ ہر اس کام سے بچنے اور کنارہ کشی اختیار کرنے کے ہیں جو اللہ اور اس کے رسولؐ کو ناپسند ہیں۔ اس معنی و مفہوم کی بنا ہجرت کا عمل اپنے اندر انقلابی و تسخیری قوت رکھتا ہے۔ جو لوگ اس جذبہ کے ساتھ سرگرم عمل رہیں گے اللہ تبارک و تعالیٰ کی تائید و نصرت ان کا مقدر بن جائے گی۔ جب رسول اکرمؐ مکہ سے مدینہ طیبہ ہجرت فرمائی تو اسلام کی دعوت میں غیر معمولی تیزی آئی۔ چند برسوں کے اندراسلام کا حیات بخش پیغام برق رفتاری کے ساتھ دنیا کے طول و عرض میں پہنچ گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے انسانوں کی زندگیوں میں صالح انقلاب آگیا۔

اس حقیقت کے پیش نظر اسلام میں ہجرت و شہادت کی بڑی اہمیت و فضیلت بیان کی گئی ہے۔ اور انہیں بندۂ مومن کا امتیازی وصف قرار دیا گیا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کے لئے لازمی قرار دیا گیا کہ بندۂ مومن کی زندگی ہجرت و شہادت کے جذبہ سے سرشار گذرے:

الَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ أَعْظَمُ دَرَجَةً عِنْدَ اللَّهِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْفَائِزُونَ يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوَانٍ وَجَنَّاتٍ لَهُمْ فِيهَا نَعِيمٌ مُقِيمٌ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ أَجْرٌ عَظِيمٌ

اللہ کے ہاں تو انہی لوگوں کا درجہ بڑا ہے جو ایمان لائے اور جنہوں نے اس کی راہ میں ہجرت کی اور جان و مال سے جہاد کیا‘وہی کامیاب ہیں۔ ان کا رب انہیں اپنی رحمت اور خوشنودی اور ایسی جنتوں کی خوشخبری دیتا ہے جہاں ان کے لئے کبھی نہ ختم ہونے والے عیش کے سامان ہیں۔ ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ یقینا اللہ کے پاس خدمات کا صلہ دینے کے لئے بہت کچھ ہے (التوبہ:20-22)

سچ بات تو یہ ہے کہ ہجرت و شہادت جیسے معیاری و مطلوبہ اوصاف ہی کے ذریعہ- اللہ او ر اسکے رسولؐ کی سچی محبت‘ دین اسلام کی دعوت و اشاعت کے لئے ان تھک جدوجہد‘ برائیوں کے ازالہ کے لئے پیہم کوشش‘ فکر آخرت اور دنیا سے بے رغبتی- ممکن ہے۔ جس بندۂ مومن کے اندر یہ اوصاف پروان چڑھیں اسے دنیا و آخرت کی کامیابی نصیب ہوئی۔ آنے والا ہر نیا اسلامی سال زندہ دلوں کو دستک دیتا ہے۔ یہ جائزہ لینے کے لئے کہ کس حد تک اللہ اور اس کے رسولؐ کے ان پسندیدہ اعمال– ہجرت و شہادت– کا جذبہ موجود ہے؟

تبصرے بند ہیں۔