ساہتیہ اکیڈمی – ادب زعفرانی ہوگا؟

راحت علی صدیقی قاسمی

         ہندوستان مختلف زبانوں اور تہذیبوں کا مسکن ہے، ہر علاقہ اپنی زبان اور اپنی تہذیب پر فخر کرتاہے اور یکساں طور پر ہر ہندوستانی دوسرے کے جذبات واحساسات، اس کی زبان اور تہذیب کی قدر کرتا ہے۔ گردش زمانہ نے اگر چہ اس جذبہ کو سرد کردیا، مگر آج بھی اس طرح کے افراد اور ادارے ملک کو وقار بخش رہے ہیں اور اس کی عزت و آبرو کو دوبالا کررہے ہیں۔ انہیں میں سے ایک عظیم ادارہ وہ بھی ہے جس کے کارنامے بے مثل ہیں، جس کی خدمات آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں، جس کی کاوشیں عظیم ہیں، جو ’’ساہتیہ اکیڈمی‘‘ کے نام سے موسوم ہے، جس کا قیام 1954میں ہوا اور ملک کی تمام زبانوں کی ترویج و اشاعت فلاح و ترقی کے لئے کوشش جد وجہد یہ ادارہ اسی توانائی اور طاقت سے کر رہا ہے، بہت سے نایاب کارنامے اکیڈمی کی شان و شوکت کا اظہار کرتے ہیں اور زبان و ادب کے تئیں اس ادارے کی خدمات کو مستند اور باوقارکرتے ہیں اور یہ احساس پیدا کرتے ہیں کہ واقعتا اس ادارے نے ملک کو ادبی اعتبار سے استحکام عطا کیا اور وہ جواہر پارے، شہ پارے فن پارے عطاکئے جن کی مثال آسمان میں چمکنے والے سورج چاند اور زمین کو پر وقار کرنے والے کوہساروں، دریاؤں پہاڑوں، برفیلی چٹانوں، ہریالی اور سرسبز و شادابی سے بھی دی جائے گی تو موزوں اور درست قرار پائے گی۔ حقیقت کی عکاسی اعدادوشمار سے ہوتی ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ اکیڈمی کی خدمات تاج محل سے کم نہیں ہیں، جو تعمیرات میں عجوبہ ہونے کا شرف رکھتا ہے۔ اسی طرح ساہتیہ اکیڈمی کے ادبی کارنامے عقل و خرد کو محو حیرت کرتے ہیں اور انسان اسے عجوبہ شمار کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ 60 ہزار کتابوں کی اشاعت ہر 19 گھنٹے میں ایک کتاب کو شائع کرنا 600ادبی سیمنار اور ورکشاپ منعقد کرنا اور 3000پروگرام کا سالانہ انعقاد، 24 زبانوں میں خدمات کا اندازہ کیجئے۔ اکیڈمی کے قد، اس کے وقار اور اس کی حیثیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ادبی لوگوں کی حوصلہ افزائی بھی اس ادارے کا خاص وصف ہے مگر ملک کے حالات کچھ عرصہ قبل تبدیل ہوئے ہیں، لوگوں کے افکار و خیالات پر تبدیلی کے آثار نمایاں ہیں، جو دن کی روشنی کی طرح بدیہی طور پر محسوس کئے جاسکتے ہیں۔ ملک کی فضا کیسی ہے؟ یہ اندازہ لگانا کوئی مشکل امر نہیں، اب ہندوستان میں باد نسیم اور باد صبا کے مست جھونکیں نہیں ہیں۔ اب زعفرانی آندھیوں کے عمارتوں کو زمین بوس کرنے والے جھکڑ ہیں جن سے ملک کے بہت سے باوقار ادارے متاثر ہورہے ہیں اور بدلہ میں ان کی شہرت و عظمت کا قلعہ زمین دوز ہوجاتا ہے اور گالیاں، برائیاں ان کا مقدر قرار پاتی ہیں۔ سالوں کی ان کی تہذیب پل بھر میں ملیا میٹ ہوجاتی ہے، ایسا ہی کچھ ساہتیہ اکیڈمی کے ساتھ ہونے کا خدشہ محسوس کیا جارہا ہے۔ اکیڈمی ہر سال بڑے آب و تاب کے ساتھ ہر سال ہندی زبان پر پروگرام کرتی ہے اور ہندی کے سلسلہ مایہ ناز قلمکار ہندی ادب کے چوٹی کے افراد جمع ہوتے ہیں اور ماہر طبیب کی طرح سوچتے ہیں کہ زبان و ادب کس مرحلہ میں ہے، اسے کس معیار کے ساتھ آگے بڑھانا ہے، کیا تقاضے ہیں جو اسے زندگی و تابندگی اور صحت و تندرستی عطا کرسکتے ہیں۔ ان تمام چیزوں پر غور وفکر ہوتا ہے اور ہندی زبان کی ترقی کے اقدامات کئے جاتے ہیں، اس سال بھی یہ مجلس منعقد ہوگی، افراد مجتمع ہوں گے، اپنی زبان کے تئیں گفت و شنید کا سلسلہ قائم ہوگا اور زبان کے مسائل پر گفتگو ہوگی مگر آب و ہوا سے متاثر انتظامیہ نے ایک ایسا فیصلہ لیا ہے جس نے ملک بھر کے سیکولر طبقہ کو بے چین کردیا اور ادیب جو دنیا کے ہر درد اور تکلیف کو بے پناہ محسوس کرتا ہے اور پھر اسی حساسیت کو وہ الفاظ کی شکل دے کر سپرد قرطاس کردیتا ہے، جو اس کے قلب میں پوشیدہ درد کا اظہار کرتے ہیں، وہ بھلا اس کربناک صورت حال سے کیسے آزاد رہ سکتا ہے، وہ اس تکلیف کو شدت کے ساتھ محسوس کررہے ہیں اور نامور ادباء اس فیصلہ کی شدت کے ساتھ مخالفت کررہے ہیں کہ اس شخص کو اس اہم پروگرام میں بلانے کا کیا مقصد و منشاء ہے، جو زبان و ادب سے کوئی گہری وابستگی نہیں رکھتا، جس کا میدان ادب نہیں، جس کی زندگی سیاست، تجارت، صحافت نامی پہیوں پر چلتی ہے۔ اسے ادب کے اس اہم پروگرام میں مدعو کرنے پر غم و غصہ کا اظہار ناروا نہیں ہے، نہ وہ ہندی کا عاشق اور پھر وہ شخص جس کی صحافت پر بھی سوالات کی بوچھار ہوئے، ملک کا ایک طبقہ جس پر بھروسہ نہیں کرتا، جے این یو میں ہوئے معاملہ پر جس کے نیوز چینل کے رویہ سے سب واقف ہیں، طلبہ کا اشتعال جس کے خلاف جگ ظاہر ہے، جو شخص لوگوں کی نگاہوں میں بھگوائیت کے لبادہ میں لپٹا ہوا ہے، جس کے جسم میں زعفرانیت لہو کی طرح دوڑتی ہے، جسے خود لوگوں کے سامنے کھڑے ہوکر اپنی اور اپنے چینل کی صفائی دینے کی ضرورت محسوس ہوئی، ایسے شخص کا ان لوگوں کے درمیان آنا جنہوں نے ظلم کے خلاف ہمیشہ اپنے قلم کو رواں رکھا ہے، جان عزیز کی قربانی سے بھی گریز نہیں کیا اور اپنے ایوارڈ تک پھینک دئیے، ظلم کا ایک لفظ بھی برداشت نہیں کیا۔ کیا وہ لوگ اور خاص ذہنیت کے حامل افراد ایک ساتھ ہوں گے، کیا یہ ادب کی توہین نہیں ہے؟ کیا یہ خون وجگر سے زبان وادب کو سیچنے والے ملت کے مایہ ناز افراد اس اہم عنوان پر ساتھ ہوں گے؟ کیا ان کے وقار کو ٹھیس نہیں لگے گی؟ ان سوالات میں ملک کی صورت حال کو آئینہ میں چہرہ دیکھنے کے مثل دیکھا جاسکتا ہے، یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ جگدیش چندرا اس پروگرام میں شریک ہوں گے یا نہیں ؟ان کے دعوت نامہ پر اس مخالفت سے کوئی اثر پڑے گا یا نہیں۔ ادباء شریک ہوں گے یا نہیں ؟ لیکن ان کا گروپ زی ٹی وی بھی منتظمین میں شامل ہے جو اکیڈمی کی آئیڈیالوجی میں ہورہی تبدیلی کے اظہار کے لئے کافی ہے۔ ان تمام چیزوں کو نگاہ میں رکھتے ہوئے غور کیا جائے تو چند چیزیں خوفناک خواب کی طرح ذہن کو جھنجھوڑ دیتی ہیں اور قلب کو خوفزدہ کرتی ہیں، اس طریقہ پر اگر اکیڈمی آگے بڑھے گی تو اخلاص کاوہ جذبہ جو ادارہ کی روح ہے وہ فوت ہوجائے گا اور تجارت کا غلبہ ہوجائے گا اور چند سالوں بعد اکیڈمی محض تجارتی ادارہ بن کررہ جائے گا، جو ہندوستان کے لئے زبان  وادب کے لئے بڑا نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ اسی خوف نے سیمسنگ کے ساتھ شروع ہوئے اکیڈمی کے انعامی سلسلے کو خاتمہ تک پہنچایا اور ماہر تجربہ کار لوگوں نے اس کی مخالفت کی اور اسے بند کرکے ہی دم لیا۔ دوسری صورت حال یہ ہے کہ آج تک اکیڈمی فرقہ پرستی کے بدترین مرض سے پاک ہے۔ اگر یہ بیماری اس عظیم ادارے میں پیدا ہوجاتی ہے تو ادب پر بھی ایک خاص طبقہ کی اجارہ داری ہوجائے گی اور زبان و ادب کا وہ خوبصورت گلدستہ جو ملک کو باوقار کرتا ہے اس کے گل بوٹے بکھر کر رہ جائیں گے۔ اکیڈمی کا خوبصورت سفر سست پڑجائے گا۔ اس سلسلہ میں تمام مفکرین کو غور و فکر کرنے اور ان مشکلات سے نبرد آزما ہونے کی ضرورت ہے۔ ہر ایسے مرض کو دور کرنے اور اس کے تئیں حساس ہونے کی ضرورت ہے، جس سے اکیڈمی کی حیثیت پر خطرہ ہوتا ہے۔ اس کی افادیت کو ٹھیس لگتی ہے اور اس عظیم ادارے کی روح پر ضرب لگتی ہے حالانکہ اس سلسلہ میں اکیڈمی کے صدر ڈاکٹر وشوناتھ تیواری پہلے ہی اس فیصلہ کے متعلق لاعلمی کا اظہار کرچکے ہیں پھر انہیں وضاحت کرنی چاہئے کہ یہ طریقہ کیسے اکیڈمی پر مسلط کرنے کی کوشش کی جارہی ہے؟ وہ خود اس معاملہ میں ہندوستان کے تمام ادباء و مفکرین کو جمع کریں اور زبان سے محبت رکھنے والے، اس کا درد رکھنے والے افراد اس کے لئے کوئی ایسی تدبیر کریں جو اکیڈمی کو الزام و اتہام سے بچایاجا سکے اور اس کی اہمیت و افادیت برقرار رہے۔ یہ کوئی چھوٹا مسئلہ نہیں ہے، ہر ادیب اور زبان سے تعلق رکھنے والے ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ حالات کا مقابلہ کرے اور ہر ایک ذمہ داران کو اپنے احساسات سے واقف کرائے تاکہ انہیں معاملہ کی سنگینی سمجھ میں آجائے اور ادب زعفرانی ہونے سے بچ جائے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔