مشاعرہ بہ سلسلۂ جشن عید قرباں

زیر اہتمام : کاروان اردو قطر

رپورٹ: نشاط احمد صدیقی / رمیض احمد تقی

"کاروان اردو قطر” کے زیر اہتمام 14 ستمبر 2016ء کی شب 8 بجے لائٹوال ہوٹل ، مطار قدیم دوحہ میں عید قرباں کی مناسبت سے "عید ملن مشاعرہ” کا انعقاد عمل میں آیا۔ اس تقریب میں دوحہ کے معروف اور ممتاز شعراء کے علاوہ ہندو پاک سے تعلق رکھنے والے ادب دوستوں کی ایک بڑی تعداد شریک ہوئی۔ تقریب کا آغاز "کاروان اردو قطر” کے نائب صدر ڈاکٹر محمد اسلم کی تمہیدی گفتگو سے ہوا ، آپ نے مشاعرہ کی صدارت کے لیے دوحہ کی معروف ادبی شخصیت، گزرگاہ خیال کے بانی صدر اور بزم اردو قطر کے چیرمین ڈاکٹر فیصل حنیف صاحب کو اسٹیج پر آنے کی دعوت دی ، اسی طرح مہمان خصوصی اور مہمان اعزازی کی نشستوں کو رونق بخشنے کے لیے بالترتیب جناب حسیب الرحمن ندوی نائب صدر کاروان اور ہندوستان سے تشریف لائے ہوئے بزرگ مہمان جناب محمد عمر خاں صاحب کو مدعو کیا۔
اس رسمی کارروائی کے بعد ڈاکٹر محمد اسلم صاحب نے مشاعرہ کی باقاعدہ نظامت کے لیے "کاروان اردو قطر” کے جنرل سکریٹری جناب محمد شاہد خاں کو اسٹیج پر مدعو کیا جنہوں نے نہایت کامیابی کےساتھ مشاعرہ کی کارروائی کو آگے بڑھایا۔ حسب روایت تلاوت قرآن مجید سے تقریب کا آغاز ہوا جس کی سعادت کاروان کے ایک فعال رکن جناب محمد فاروق ندوی صاحب نے حاصل کی۔ تلاوت کلام پاک کے بعد بارگاہ نبوت میں ہدیۂ نعت پیش کرنے کی سعادت جناب قاری احمد اللہ صاحب کو ملی۔ آپ نے نہایت مترنم آواز میں بہت خوبصورت نعت پیش کی جسے سامعین نے بے حد پسند کیا۔ نعت شریف کے بعد دوحہ کے معروف گلوکار جناب قاضی صاحب نے "کاروان اردو قطر” کا ترانہ پیش کیا، ترانہ کے بول اور قاضی صاحب کی آواز نے مل کر مجلس پر ایک سحر سا طاری کردیا اور لوگ بے ساختہ دادو تحسین پیش کرنے پر مجبور ہو گئے۔ کاروان کے لیے یہ ترانہ اس کے نائب صدر جناب راشد عالم راشد نے چند ماہ قبل ہی تخلیق کیا ہے۔
اس کے بعد "کاروان اردو قطر” کے صدر جناب عتیق انظر صاحب نے استقبالیہ کلمات پیش فرمائے انہوں نے کاروان کے اغراض و مقاصد ، اس کے طریقۂ کار اور مستقبل کے منصوبوں پر مختصر روشنی ڈالی ، آپ نے فرمایا کہ کاروان کا یہ دوسرا باقاعدہ پروگرام ہے ، اس کے بعد ان شاء اللہ جلد ہی ایک سیمنار اور پھر دسمبر میں عالمی مشاعرہ منعقد کرنے کا فیصلہ ہوا ہے۔ ہماری پالیسی یہی ہے کہ ہم قطر میں موجود تمام ادبی تنظیموں کےساتھ مل جل کر کام کریں گے ، انہیں ہر ممکن تعاون دیں گے اور ان سے امید رکھیں گے کہ وہ بھی ہمارے ساتھ تعاون کا رویہ اپنائیں. ان اسقبالیہ کلمات کے بعد شعرا کا سلسلہ شروع ہوا ، تمام شعرا نے اپنے بہترین کلام سے سامعین کو محظوظ فرمایا۔ قارئین کی ضیافت طبع کے لیے منتخب کلام حاضر ہے:
قاری احمد اللہ :

رحمت جہاں بن کر میرے مصطفی آئے
میر کارواں بن کر پیارے مصطفی آئے
دھوپ ظلمتوں کی تھی ، تپ رہی تھی یہ دنیا
ایک سائباں بن کر پیارے مصطفی آئے
صف میں انبیاء سارے منتظر کھڑے تھے جب
مقتدی وہاں بن کر پیارے مصطفی آئے

جناب راشد عالم راشد :
یہ پرندے فضا میں اڑتے ہیں
میں الگ آسمان رکھتا ہوں
بس شرافت ہے میری مجبوری
ورنہ میں بھی زبان رکھتا ہوں
راستہ خیر کا اور شر کا کھلا رکھا ہے
مرتبہ اونچا فرشتوں سے مرا رکھا ہے
ان چراغوں کو ابھی تم نہ جلانا راشد
ان ہواؤں نے بہت شور مچا رکھا ہے

وصی الحق وصی:
بہار میں بھی چمن کیوں خزاں رسیدہ ہے
اسی فراق میں اب گل بھی آب دیدہ ہے
یہ تیرہائے جنوں سوئے دشت پے در پے
ضرور زد پہ کوئی آہوے رمیدہ ہے
شباب و حسن ہو لیکن گریز سے ہو گریز
غزل غزل ہے میاں یہ کوئی قصیدہ ہے
مثال عصر ہوں یکتائے روزگار ہوں میں
خدا نے جس کو تراشا وہ شاہکار ہوں میں
دل اور ذہن کا باہم قتال ہر لمحہ
درون جسم یوں میدان کارزار ہوں میں
بدلتی فکر بدلتی طبیعتیں ہر پل
اس ایک ذات میں دیکھو تو بے شمار ہوں میں

روئیس ممتاز:
باغ ہستی میں یہاں لاکھوں طرح کے ہیں پھول
ایک اک پھول پہ پڑتی ہے مگر غم کی دھول
یعنی اس باغ میں ہر پھول کی قسمت ہے خراب
وہ چمیلی ہو کہ چمپا ہو، کنو ل ہو کہ گلاب
پھول اتنے ہیں کہ خود بھول گئے ہو گنتی
اور دعوی ہے مسیحائی کرو گے سب کی!
جب کہ نر گس کا ہر اک زخم دکھایا تم نے!
درد لالہ بھی بڑے دکھ سے سنایا تم نے!
ویسے ہر پھول کا افسانہ بنایا تم نے!
ایک بھی پھول کو انصاف دلایا تم نے؟
یوں بھی ہر پھول کی غم خواری کوئی کرتا ہے؟
تم مسیحا ہو کہ کچھ اور ہو، دل ڈر تا ہے!
درد کے چرچے سے بتلا و کبھی مٹتا ہے درد؟
سب خبر ہےتمھیں دل اہل چمن کے ہیں سرد
حال گل سنتے ہیں سب وقت گزاری کے لیے
کس کے دل میں یہاں ہمدردی کے جلتے ہیں دیے؟
جن کے دل اتنے بھی پتھر نہیں اُن کا کیا ہے؟
آہیں بھر تے ہیں مگر آہوں سے ہوتا کیا ہے؟
اے مسیحا مری باتوں کا برا مت مانو
تم خدا کے لیے نادان مجھے مت جانو!
قصہ ءدردچمن یعنی سنایا ہے یونہی؟
تم نے جو شور مچایا ہے، مچایا ہےیونہی؟

وزیر احمد وزیر:
پھر اندھیرا مری بانہوں میں اتر جائے گا
چاند جب رات کے پہلو سے گزر جائے گا
زندگی اتنی اذیت بھی نہ دے تو مجھ کو
تیری چاہت کا جنوں سر سے اتر جائے گا
اب تو سینے میں وہ مشتاق ستم دل بھی نہیں
کون کوچے میں ترے شام و سحر جائے گا
تیری چاہت میں فنا ہو گئے کتنے اے حیات
یہ دیوانہ بھی اسی شوق میں مر جائے گا

مقصود انور مقصود:
ہوش والوں کو خرد مندوں نے بزدل کر دیا
اور مشکل معرکوں پر صرف دیوانے گئے
کس میں دیکھوں عکس سچائی کا اب میں کیا کروں
آئینے بھی جھوٹ کے زمرے میں گردانے گئے

محمد رفیق شاد اکولوی:
اگر دل میں کدورت ہو، یہی صورت نکلتی ہے
عداوت، دوستی کے بھیس میں چولے بدلتی ہے
سمندر پار آکر یوں ہی خوشیاں مل نہیں جاتیں
جگر کے خون سے یہ عید کی قندیل جلتی ہے
دماغ و دل کو ڈس کر، جب تلک چھلنی نہ کر ڈالے
کہاں آسانیوں سے یاد کی ناگن سنبھلتی ہے
چھری نخوت پہ چل جائے ، یہ غایت عید قرباں کی
مگر افسوس یہ تو دوست کی گردن پہ چلتی ہے

عتیق انظر:
نظم بہ عنوان "ایٹمی تجربہ”
آگ کے اس دہکتے ہوے گولے کو
دست فطرت نے برفیلی چادر اڑھا کر
بہت ہی سلیقے سے ٹھنڈا کیا
وقت کے بحر ذخار میں
لاکھوں صدیوں کے دریا اترنے کے بعد
اس زمیں کو ہمارے لیے رہنے سہنے کے قابل کیا
لیکن انسان اب
باوجود علم و دانش کی ساری ترقی کے
دور جہالت کی تشہیر کرنے لگا
اپنی جھوٹی انا کی غذا کے لیے
کرۂ ارض کی آتش سرد میں
انتہائی خطرناک ایندھن لگانے لگا
باغ ہستی کو دوزخ بنانے لگا
زخم ہوتا ہے مرے دل کا ہرا شام ڈهلے
درد کا پهول مہکتا ہے سدا شام ڈهلے
پیڑ سے ٹوٹ کے بن جاتے ہیں پتے گهنگرو
رقص جب کرتی ہے جنگل میں ہوا شام ڈهلے
رات کس کس سے ملے ہے یہ ہمیں کیا معلوم
ہم تو کهو جاتے ہیں خوابوں میں سدا شام ڈهلے

جلیل نظامی:
پھول صحرا میں کھلا دے اسے جل تھل کردے
شہر کے کوچۂ و بازار کو جنگل کر دے
شام کو صبح کرے آج کو پھر کل کردے
وقت پلٹےتو میاں صدیوں کو اک پل کردے
اپنی انگشت حنائی کا بنا لے چھلا
یا مجھے گردش ایام کا کس بل کر دے
دیکھ کر تجھ کو کسی اور کا جلوہ دیکھے
ایسی بینائی مری آنکھ سے اوجھل کر دے
سب کو جینے کے ڈھب نہیں آتے
جن کو آتے ہیں سب نہیں آتے
اشک آنکھوں میں کب نہیں آتے
تم جب آتے ہو تب نہیں آتے
پرسش غم کو بھی خدا والے
آج کل بے سبب نہیں آتے
ہم سمندر اسے نہیں کہتے
جس کے ہاں تشنہ لب نہیں آتے

جناب جلیل نظامی کےساتھ ہی آج کے شعرا کا سلسلہ مکمل ہوا۔ جس کے بعد ناظم مشاعرہ نے آج کی تقریب کے مہمان اعزازی اور انڈیا سے تشریف لائے ہمارے بزرگ جناب محمد عمر خاں صاحب کو ڈائس پر بلایا، معزز مہمان نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کاروان اردو قطر کے صدر ، جنرل سکریٹری اور تمام اراکین کا شکریہ ادا کیا ، اپنے وسیع مطالعہ اور گوناگوں تجربات کی روشنی میں سامعین کو نہایت مفید اور قیمتی مشوروں سے نوازا ، اور اقبال کی اس معرکۃ الآرا نظم پر اپنی گفتگو مکمل کی:

آشنا اپنی حقیقت سے ہو اے دہقاں ذرا
دانہ تو، کھیتی بھی تو، باراں بھی ، تو حاصل بھی تو
—————– الخ

کاروان اردو قطر کے نائب صدر اور آج کی تقریب کے مہمان خصوصی جناب حسیب الرحمن ندوی نے بھی اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوے کاروان کے صدر ، جنرل سکریٹری اور دیگر اراکین کا شکریہ ادا کیا اور انہیں اس کامیاب مشاعرہ کے انعقاد پر مبارک باد پیش کی۔
آج کی تقریب کے صدر ڈاکٹر فیصل حنیف صاحب نے اپنی مختصر لیکن پر مغز صدارتی تقریر میں اردو تہذیب میں مشاعروں کی روایت اور اہمیت کا تعارف کرایا ، انہوں نے فرمایا کہ اردو کے تعلق سے ہم لوگ کافی سنجیدہ ہیں ، سوچنے کے علاوہ عملی طور پر بھی کچھ نہ کچھ کرتے رہتے ہیں ، البتہ اس طرح کی مجلسوں میں جب بھی میں اپنے بچوں کو لاتا ہوں (اور اکثر لاتا ہوں) تو ان کی شکایت رہتی ہے کہ وہ بور ہو رہے ہیں کیونکہ محفل میں ان کی عمر کے دوسرے بچے نہیں ہوتے۔ آج کے مشاعرہ کی سب سے اہم خصوصیت میری نگاہ میں یہ ہے کہ اس میں خواتین اور بچے بھی شریک ہیں ، دراصل ان تقریبات سے ہماری آنے والی نسل اردو زبان اور اس سے وابستہ تہذیب کے بارہ میں کچھ نہ کچھ مثبت چیزیں ضرور سیکھ سکتی ہے ، یہ واقعی ایک لمحۂ فکریہ ہے کہ اگر ہماری آنے والی نسل اردو اور اچھی اردو نہ سیکھ سکی تو ہماری ان فکرمندیوں اور کوششوں کا حقیقی فائدہ کیا ہوگا۔ اس پہل کے لیے انہوں نے کاروان اردو قطر کو مبارک باد پیش کی اور آئندہ بھی اس روایت کو برقرار رکھنے پر زور دیا۔
آخر میں کاروان اردو قطر کے نائب صدر ڈاکٹر ابو سعد احمد نے تمام حاضرین بزم کا شکریہ ادا کیا اور مشاعرہ کے اختتام کا اعلان فرمایا۔

تبصرے بند ہیں۔