سبق پھر پڑھ صداقت کا عدالت کا شجاعت کا!

ڈاکٹر محمد سلمان خان ندوی

  ہندوستان  میں مسلمانوں کی آمد سے اقتصادی سیاسی اور سماجی اصلاحات کا  عمل شروع ہوا مالابار کے ساحل پر عرب تاجروں کی آمد سے اور ان کے اخلاق وعمل کو دیکھتے ہوئے ہندوستان کے راجا مہا راجا اور  باشندے صرف متاثر نہیں ہوئے بلکہ اسلام کے دائرہ میں بڑی تعداد میں داخل ہوتے چلے گئے، وہیں  انگریز ہندوستان کے عہد اسلامی میں داخل ہوئے اور ملک میں ہندو مسلم نفرت کے بیج بوئے ، اس سے قبل  کوئی ایسی تاریخ نہیں ملتی کہ برادران وطن کو نا اتفاقیوں کا سامنا کرنا پڑا   ہو ، آزادی کے بعد سے ہمارے حکمرانواں نے جس طرح ملک  کی جمہوریت اور روایات کو پامال کیا پیش ہے ایک تجزیہ جو ہندوستانی سیاست اور سیاست دانوں کی تصویر کشی کرتی ہے۔

قوم کی تاریخِ عروج وزوال میں قائدین کا اہم رول ہوتا ہے ، قائد اگر اپنی عوام کے تعلق سے واقعی مخلص ہو تو وہیں سے اس قوم کے عروج کی تاریخ کا آغاز ہوتا ہے، مگر جب قائدہی خود خائن ورہزن بن جائے، تو پھراس قوم کا زوال یقینی ہے۔ ہمارے ملک ہندوستان کی سب سے بڑی بد نصیبی یہی رہی ہے کہ آزادی کے بعد سے آج تک اس کو کوئی ایسا قائد اور رہبر نہیں ملا جو ملک اور اس کی عوام کے تعلق سے مخلص ہو۔ گو کہنے کو تو تمام سیاسی قائدین اپنی اپنی پارٹی کے پلیٹ فارم سے یہ صداضرورلگاتے ہیں کہ صرف وہی ملک وملت کے خیرخواہ ہیں ، مگر کیا ان کے دل ان کی زبانوں کا آئینہ ہوتے ہیں؟ملک میں کل سیاسی پارٹیاں تقریباً 1703 ہیں، جن میں 6 قومی اور 54 صوبائی مشہور پارٹیاں ہیں، ان کے علاوہ رجسٹرڈ غیرمعروف پارٹیاں1643 ہیں، تاہم ان تمام پارٹیوں کاسلسلۂ نسب کہیں نہ کہیں کانگریس اور بی جے پی تک پہنچ کر ہی ختم ہوتا ہے ، اس لیے یہ کہنا بالکل بجا ہوگا کہ ملک کی یہی دوپارٹیاں ہیں، جن میں سے تقریباً نصف صدی سے زائد مدت تک نظامِ حکومت کانگریس کے ذمہ رہا ، جبکہ درمیان میں پانچ سال اورگذشتہ 3سالوں سے اس ملک پر بی جے پی کا قبضہ ہے۔مگر کیا یہ کہنا درست ہوگا کہ کانگریس اوربی جے پی نے ملک کی تعمیر وترقی میں بالکل مخلصانہ کردار ادا کیا ہے؟تو اس کا جواب بھی ہمارے آج کا موجودہ ہندوستان ہے۔

اتر پردیش ہندوستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے جس کا کل رقبہ243286 کیلومیٹر پر مشتمل ہے ،22 کڑورسے زیادہ یہاں کی کل آبادی ہے جس کی تعداددنیاکے بیشتر ممالک سے زیادہ ہے اور اسی لئے اسے منی ہندوستان کہاجاتاہے ، اس صوبے میں تقریبا 80 فیصد ہندؤں کی آبادی ہے ،19 فیصد مسلمان ہیں اور ایک فیصد میں سکھ ،جین اور دیگر مذاہب کے پیروکارشامل ہیں ،سیاست اور حکومت میں شروع سے اس صوبے کا نمایاں کرداررہاہے ،دہلی تک پہونچنے کیلئے کامیابی کے ساتھ یوپی کا سفر عبور کرنا ضروی ہوتاہے ،چناں چہ 2014 کے لوک سبھا الیکشن میں بی جے پی کو اس صوبے میں 80 میں سے 73 سیٹوں پر کامیابی ملی اور حکومت سازی کی راہ بہت آسان ہوگئی ،2017 کے اسمبلی انتخابات میں بھی اس صوبے نے ماضی کی طرح بی جے پی کا دل کھو ل کر استقبال کیا، 42 فیصدعوام نے یکطرفہ بی جے پی کو ووٹ دیا اور اس طرح 1977 میں جنتا پارٹی کی تاریخ ساز فتح کے بعد پہلی مرتبہ کوئی پارٹی اتنی بڑی اکثریت سے کامیاب ہوئی ،اندراگاندھی جیسی قدر آور لیڈر کا ریکاڈ بھی پیچھے چھوٹ گیا جنہوں نے 1980 میں 39.3 فیصد ووٹ حاصل کرنے اور 72 فیصد سیٹیں لینے کا ریکاڈ قائم کیاتھا۔

حالیہ اسمبلی انتخابات میں میں 325 سیٹیں حاصل کرنے والی بی جے پی کو 42 فیصد ووٹ ملا ہے ،2014 کے لوک سبھا انتخاب میں 42.5 فیصد ووٹ ملا تھا،جبکہ سماج وادی پارٹی کی کارکردگی1993 میں اس کے قیام کے بعد سے سب سے خراب ثابت ہوئی اور گزشتہ تین دہائی سے اتر پردیش کی سیاست میں ہنگامہ برپاکرنے والی پارٹی صرف12 فیصد سیٹ اور 21 فیصد ووٹ پر سمٹ کر رہ گئی ،حالیہ الیکشن نے سب سے زیادہ بی ایس پی کو کمزور ثابت کیا جسے صرف 22 فیصد ووٹ ہی مل سکے حالاں کہ لوک سبھا کے مقابلے میں تین فیصد ووٹ کا اضافہ ہواہے لیکن سیٹوں کی تعداد میں یہ پارٹی صرف 19 پرہی محدود ہوگئی جو بی ایس پی کی نہ صرف سب سے شرمناک شکست ہے بلکہ اس کی تین دہائی کی بااثر سیاست کو بے نام ونشان کرنے کیلئے کافی ہے ، کانگریس صرف 8 فیصدووٹ لانے میں کامیاب ہوسکی جو کل تک ملک کی سب سے بڑی پارٹی تھی۔مسلمان بھی حاشیئے پر چلے گئے ،جس اسمبلی ہاؤس میں ستر کے قریب مسلم نمائند ے رہاکرتے تھے وہاں اب صرف 25 ایم ایل رہ گئے ہیں،فیصد کے اعتبار سے یہ تعداد 17 سے گھٹ کر 6 پر آگئی ہے اور 2012 میں منتخب ہوئے 68 میں سے صرف 11 کو کامیابی ملی ہے ،

 اتر پردیش کے اسمبلی انتخابات کے نتائج نے ایک بار پھر سے یہ  ثابت کیا ہے کہ کامیابی کی اساس اکثریت واقلیت کے گٹھ جوڑ ، مذہبی رہنماؤں کی احمقانہ بیان بازی، اور سیاسی لیڈروں کی دلالی سے وابستہ نہیں ہے،   انتہائی اہم اور مختصر الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ دنیا کے ہر اجتماعی نظام میں کامیابی کی اساس صرف دو ہیں،  اور صرف دو،،  پہلی اور بنیادی چیز،  اس اجتماعی نظام کی مکمل سمجھ جس کے تحت وہ ملک یا اس ملک کا جمہوری نظام گردش کر رہا ہے، اور دوسری چیز اس نظام یا سسٹم میں آپ کی موجودگی کتنی ہے ؟؟ انسانی تاریخ کا ہر دور،اور  سماجی زندگی کا ہر لمحہ، اس بات کا گواہ ہے کہ ہمیشہ  دنیا کی بڑی سے بڑی اکثریت کو چھوٹی چھوٹی اقلیتوں نے شکست دی ہے، اور اپنے اقتدار کو دوام بخشا ہے،  آج بھی دنیا کے انتہائی طاقتور ملک امریکہ کو وہ لوگ چلا رہے ہیں جنکا تناسب اس ملک کی آبادی میں صرف %3 فیصد ہے، اور جنھیں ہم یہودی کہتے ہیں،  خود ہمارے ملک ہندوستان کو پچھلے 66 سال سے اس ملک کی سب سے چھوٹی اقلیت برہمن چلا رہا ہے، جس کی مجموعی آبادی ہندوستان کے تناسب میں صرف %5 فیصد ہے، لیکن ہندوستان کے عدالتی، مخابراتی، اور سول سوسائٹی جیسے اہم ترین اداروں میں انکا تناسب %83 فیصد سے بھی زیادہ ہے، اور ملک کی دو قومی مرکزی سیاسی جماعتوں کانگریس اور بی جے پی کو وہی لیڈ کر رہے ہیں،اسکے بعد ہندوستان کی دوسری سب سے چھوٹی اقلیت عیسائی ہیں جنکی مجموعی آبادی صرف  %3 فیصد ہے،  لیکن ہندوستان کا مکمل ترین فرسٹ کلاس ایجوکیشنل سسٹم وہ چلا رہے ہیں، اسکے بعد ہندوستان کی ایک اور اقلیت،، سکھ،، جسکا تناسب ہندوستان کی مجموعی آبادی میں صرف %4 فیصد ہے لیکن بھارت کی مجموعی تجارت میں %50 سے بھی زیادہ حصہ داری انکی ہے،  MAX  اور  FORTIS  جیسے پرائیویٹ ہاسپٹل کےدو بڑے گروپ جنکی مجموعی تعداد ساٹھ سے بھی زائد ہے، یہ میڈیکل انڈسٹری بھی سکھ برادران کی ہے۔

 ملک کی سب سے چھوٹی اقلیت پارسی جنکا مجموعی تناسب بھارت کی کل آبادی میں صرف  %2 ہے، لیکن بھارت کی پوری معیشت کا %77 حصہ صرف انکے پاس ہے،  اور اسی ہندوستان کی سرزمین پر ہم مسلمان بھارت کی دوسری سب سے بڑی اکثریت ہیں، جنکا تناسب بھارت کی مجموعی آبادی میں %23 سے بھی زیادہ ہے،  لیکن اس ملک کے معاشی، تعلیمی، سیاسی، اور مخابراتی نظام میں انکی حصہ داری صرف %2 ہے،  اور وجہ صرف یہ ہے کہ، ہماری روشن خیال سیاسی قیادت کو دلالی اور چاپلوسی کے سوا کوئی کام نہیں، ظاہر ہے کہ جس قوم میں ڈاکٹر، وکیل، جج، آئ ایس، اور دیگر تمام علوم وفنون جو جہاں بانی اورتسخیردنیا کے لئے لازمی تھے، اور جدید سائنسی تحقیق اور طبی مہارت کے لئے جن اداروں، کالجوں، اور انسٹی ٹیوشن کا قیام ضروری تھا وہ سب کے سب، جب علم نبوت اور نور نبوت کی فہرست سے خارج قرار پائے تو اس قوم کو ضرورت جواں مردوں،  سیاست کے ایوانوں، اور دنیا کو تسخیر کرنے والے جرأت مندوں کی نہیں، بلکہ ایسے بزدلوں خانقاہی درویشوں، اور بد عمل قسمت کے سہارے زندہ رہنے والے نکموں کی ہے جو اسے تصوف اور خانقاہی نظام کا افیون پلا کر زکر و فکر اور صبح گاہی میں مست رکھیں، اور محض کرامات ومعجزوں اور چھو منتر کے سہارے اپنے قومی مسائل حل کریں،

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔