مسلم سیاست کی شکست: اگر اب بھی نہ جاگے تو!

ڈاکٹر عابد الرحمن

 یوپی الیکشنس میں بی جے پی کو زبردست کامیابی ملی ۔ ہار اکھیلیش یادو کی سماج وادی ،مایا وتی جی کی بی ایس پی اور راہل گاندھی کی کانگریس کی ہوئی۔ لیکن سب سے بڑا نقصان مسلمانوں کا ہوا ۔اب تک جو کچھ اور جیسی کچھ سیاست ہم کرتے آئے ہیں ،اس الیکشن نے اسے پوری طرح ختم کردیا ۔ اس بار پچھلی اسمبلی کے مقابلہ نصف سے بھی کم تعداد میں مسلمان منتخب ہو سکے اور ہم جنہیں سیکولر سمجھتے تھے اور بی جے پی کو شکست دینے کے لئے جن کو ووٹ دینا ہمارا فرض منصبی سمجھتے تھے ان میں سے کو ئی بھی پارٹی موثر حزب اختلاف بننے کی حالت میں بھی نہیں آسکی ۔لوگ کہہ رہے ہیں کہ بی جے پی کی اس بڑی جیت کے لئے ووٹوں کی تقسیم خاص طور سے مسلم ووٹوں کی تقسیم ذمہ دار ہے صحیح بھی ہے ۔

لیکن یہی ایک فیکٹر پوری طرح اس کا ذمہ دار نہیں ۔ بی جے پی کے خلاف جو ووٹ پڑے وہ اسے ملنے والے ووٹوں سے زیادہ ہیں لیکن یہ سب ایس اور بی ایس پی میں بٹ گئے جسکی وجہ سے بی جے پی آسانی سے جیت گئی ۔اور یہ کوئی نئی بات نہیں ہے ہمیشہ ایسا ہی ہوتا آیا ہے اس الیکشن میں تو ایس پی اور کانگریس ایکساتھ تھے جبکہ پچھلی مرتبہ چو رنگی لڑائی تھی بی جے پی مخالف سارے ووٹ ایس پی ،بی ایس پی اور کانگریس تینوں میں تقسیم ہوئے تھے پھر بھی بی جے پی صرف 47 سیٹیں ہی جیت سکی تھی۔یعنی ووٹوں کی تقسیم بی جے پی کی اس جیت میں کوئی خاص فیکٹر نہیں ہے ۔ہاں اگر بہار کی طرح یہاں بھی دو روایتی حریف ایس پی اور بی ایس پی متحد ہو جاتے تو بات بن سکتی تھی لیکن ایسا ہر جگہ ممکن بھی نہیں ہے۔رہی بات مسلم ووٹوں کی تو مسلم ووٹ تقسیم ہوا لیکن اتنا نہیں کہ اسے ہی بی جے پی کی جیت کا ذمہ دار قرار دیا جائے ۔بلکہ مسلمانوں نے تو سوجھ بوجھ کا مظاہرہ کرتے ہوئے زیادہ تر مقامات پر مسلم سیاست کے نام الجھاؤ پیدا کرنے والوں کے خلاف ووٹنگ کی ۔

بی جے پی کی اس جیت کے لئے اس کی سیاسی چالوں کو سمجھنا اور ہماری سیاست کا تجزیہ کرنا ضروری ہے ۔ بی جے پی بھلے ہی وکاس ترقی بہتر انتظامیہ عوامی سہولیات کی فراہمی کرپشن ،کالا دھن کی واپسی بدعنوانی اورغریبوں کی امداد کی بات کرے لیکن دراصل اسکی سیاست کی بنیادمسلم مخالف فرقہ واریت اور متعصب دیش بھکتی ہی ہے اور وہ دراصل اپنی اس بنیادی سیاست کو ترقی کے مذکورہ مسالے کا تڑکا دینے لگی ہے۔ پوپی میں پہلے تو بی جے پی نے اپنے انتخابی منشور میں ہی فرقہ واریت کردی تھی ،پھر اس کے لیڈر ا ن ا شتعال انگیزیاں کرتے رہے خود وزیر اعظم مودی جی نے شمسان قبرستان عید اور دیوالی کے مبینہ امتیازات کو اجاگر کر کے اپنے ترقیا تی ایجنڈے کو مسلم مخالف فرقہ واریت کا تڑکا دیا،گویا اپنے کارندوں کو بھی ایسا کرنے کا اشارہ دیا۔بی جے پی کی اس فرقہ وارانہ سیاست کا مقصد مثبت و منفی پولرائزیشن ہو تا ہے ۔

مثبت پولرائزیشن یہ کہ جو کچھ وہ کرے اس کی وجہ سے ہندو ووٹ متحرک ہوں اور متحدہ طور پر اس کے خیمے میں آجائیں اور منفی پولرائزیشن اس طرح کہ اس کی اس سیاست پر مسلمانوں اور مخالف سیاسی پارٹیوں کا ردعمل بھی اسی کی مددکرے یعنی ہندوؤں کو اس کے حق میں مزید پولرائز کر دے ۔اس میں اس کی ایک چال تو یہ ہوتی ہے کہ اس کی مسلم مخالفت پر مسلمان خوب واویلا مچائیں ،ان کا میڈیا اسکو خوب ہائی لائٹ کر کے گاؤں گاؤں قریہ قریہ مسلمانوں کی گہرائی تک پہنچا دے اور اس سے مسلمان بہت زورو شور سے بی جے کے خلاف متحرک ہو جائیں ،سیکولرازم کا خوب راگ الاپیں اور سیکولر ازم ہی کو بنیاد بناکر بی جے پی مخالف پارٹیوں کی حمایت کا اعلان کریں تاکہ اس کا ٹارگیٹیڈ(Targeted )ہندو ووٹ مزید متحرک ہو کر پوری طرح اس کا حامی ہو جائے ۔ اور ہم اور ہمارا میڈیا ہمیشہ یہی کرتے ہیں ۔

پچھلے لوک سبھا الیکشن کے دوران ہم نے یہی کیا اور اب یوپی اسمبلی انتخابات کے دوران بھی ہم نے یہی کیا ۔ اسکی دوسری چال یہ ہوتی ہے کہ بی جے پی مخالف پارٹیاں اسکی اس اشتعال انگیزیوں کے بہانے نام نہاد مسلم ووٹ بنک کو کیش کر نے کے اقدامات میں لگ جائیں ،بیان بازیاں کرنے لگیں ،سیکولر ازم سیکولرازم اور مسلمان مسلمان کا شور مچانا بھی شور کریں تاکہ ان پارٹیوں کو مسلمانوں کی ہمدرد سمجھ کر اور ان کے مقابلے بی جے پی کو ہندوؤں کی پارٹی سمجھ کران کا مسلم مخالف ووٹ بنک بھی بی جے پی کے حق میں پولرائز ہو جائے ۔ اس الیکشن میں بی جے پی کی یہ چال لگتا ہے پوری طرح کامیاب ہوئی ۔تجزیہ کار کہہ رہے ہیں کہ اس بار پوری شدت سے یہی ہوا ،ایس پی اور بی ایس پی ان علاقوں میں بھی ہاری جو اس کے مضبوط گڑھ سمجھے جاتے تھے جہاں یادوؤں اور دلتوں کی آبادی مسلمانوں اور ہندو اعلیٰ ذاتوں سے زیادہ ہے۔

اس کے علاوہ ان کی تیسری اور اہم چال یہ بھی ہے کہ جس لہجے میں وہ مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیزیاں کرتے ہیں مسلمانوں میں سے بھی کوئی اٹھے اور اسی لہجے میں اگر بی جے پی یا ہندوؤں کے خلاف اشتعال انگیزی نہ بھی کرے توانتہائی جارحانہ اور اشتعال انگیزانداز میں مسلمانوں کے حقوق اور ان کے خلاف ہونے والے مظالم کی بات کرے تا کہ پہلے ہی مختلف نام نہاد سیکولر پارٹیوں میں بٹے ہوئے مسلمان مزید بٹ جائیں اور ان کی ایک بڑی تعداد انہیں ہی اپنا مسیحا سمجھے اور جذباتی ہوکر ان کی طرف چلی جائے اور اس کا شور بھی کرے اور نتیجتاً ہندو اس مسلم سیاسی پارٹی سے ڈر کر اسے روکنے کے لئے مزید متحرک اور جذباتی ہوکر پوری شدت سے بی جے پی کی طرف چلے آئیں ۔ پچھلے کچھ سالوں میں مسلم سیاست کا شور اور مسلم سیاسی پارٹی کا غلغلہ اوراس میں جارحانہ بیان بازیاں دراصل اسی کی عملی شکل ہے جس کی وجہ سے بی جے پی کی طرف پولرائزیشن بڑھا ہے ۔ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بھی ایک وجہ ہے کہ اس بار ہندوؤں نے ذات برادری اور خاندانی سیاسی وابستگیوں سے اوپر اٹھ کر متحدہ طور پر مذہب کی بنیاد پر بی جے پی کو ووٹ دیا ہے اوراس قدر متحد ہوئے کہ اعلیٰ ذاتیوں اور نچلی ذاتیوں کا درمیانی فاصلہ بھی بھلا دیا گیا ۔

یعنی اس الیکشن میں اعلیٰ ذاتیوں کے ساتھ ساتھ دلتوں اور دوسری نچلی ذاتیوں نے متحد ہوکر ’یونائیٹیڈ ہندو قوم‘کا روپ دھار لیا ۔شاید گاندھی جی نے پونہ میں جس ’یونائیٹیڈ ہندو قوم ‘کے خواب کے لئے مرن برت کیا تھا وہ یوپی میں شرمندہء تعبیر ہو گیا ۔ اور مسلمان اس یونائیٹیڈ ہندو قوم کے سامنے الگ تھلگ تنہا کھڑے کے کھڑے رہ گئے ۔ویسے بھی مسلمانوں کو الگ تھلگ کر نے کا کام تو کانگریس نے آزادی سے پہلے ہی ’مشترکہ قومیت ‘ کا نعرہ لگا کر شروع کردیا تھا ،یہ مشترکہ قومیت شاید گاندھی جی کی ’یونائیٹیڈ ہندو قوم ‘ +مسلم قوم تھی ۔اور اس مشترکہ قومیت کا مقصددراصل مسلمانوں کو خصوصی حقوق اور آئینی مراعاتسے دور رکھنے کے علاوہ کچھ نہیں تھا اسی لئے کانگریس نے مسلمانوں کو اس مشترکہ قومیت میں کبھی ووٹ بنک سے زیادہ حیثیت نہیں دی اور اس ووٹ بنک کو اپنے ساتھ بنائے رکھنے کے لئے اسے مسلسل سنگھ سے ڈراتے رہی اوردر پردہ سنگھ کو بھی بڑھاوادیتی رہی ، اور ہم بھی نہ صرف آنکھوں بلکہ دماغ پر بھی کانگریس کی عینک چڑھا کر وہی کچھ دیکھتے اور سوچتے رہے جو کانگریس چاہتی تھی ،ہم نے کبھی ایک آزاد ،خود مختاراور مضبوط ووٹ بنک بننے کی کوشش نہیں کی اور نہ ہی کبھی اپنے حقوق کے لئے اس طرح اٹھے کہ کانگریس یا دوسری نام نہاد سیاسی پارٹیوں کو ہمیں منانے کے لئے کسی عملی کام کی ضرورت پڑے ۔اورکانگریس کی اس پالسی اور ہماری اس دفاعی سیاست کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سنگھ نے بھی کانگریس کے اس مسلم ووٹ بنک کو اپنا ’ہندو ووٹ بنک‘ مضبوط کرنے کے لئے استعمال کیااوراس میں اتنی کامیابی حاصل کر لی کہ اب اس ہندو ووٹ بنک نے نہ صرف کانگریس بلکہ سنگھ مخالف تقریباً سبھی سیاسی پارٹیوں کو نگل لیایہی نہیں بلکہ اس نے مسلم ووٹ بنک کو اپنی مضبوطی کا سامان بھی بنا لیا اب حالت یہ ہوگئی ہے کہ مسلم ووٹ بنک کا جتناشور ہو گا سنگھ کا ہندو ووٹ بنک اتنا ہی مضبو ط ہوگا،جس طرف یہ مسلم ووٹ بنک جائے گا یا جس کی حمایت کا شور مچائے گا وہ الیکشن ہارے گا ۔

ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بھی ہمارے لئے چراغ راہ ہو سکتا ہے ،ہم اسے مثبت اور منفی دونوں طورسے استعمال کر سکتے ہیں لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم ایک متحد اور منظم ووٹ بنک بن کر مضبوط سیاسی قوت کا روپ دھاریں اور پھر اپنی شرطوں پربہت دور اندیشی اور رازدارانہ طور پر کسی سیاسی پارٹی سے سودے بازی کریں ،یا کسی سیاسی پارٹی کو سبق سکھانے کا کام کریں ۔ہمیں یہ اچھی طرح دھیان رکھنا چاہئے کہ کوئی بھی سیاسی پارٹی ہماری ہمدرد نہیں اور علیٰحدہ مسلم پارٹی بنا کر بھی ہم کچھ خاص نہیں کرسکتے ۔ہمیں اپنا سیاسی وزن اتنابڑھا نا ہوگا کہ جس طرف بھی ہم جائیں اس کا پلڑا بھاری ہو جائے لیکن اس کے لئے بہت سوچ سمجھ کر ،ماضی اور حال کے تجربات کی روشنی میں مستقبل کا لائحہء عمل تیار کرنا ہوگااور اس میں جذباتیت کی بجائے ہوش کو ،چلا پکار کی بجائے عمل کو اور جارحانہ اور اشتعال انگیز بیان بازی کی بجائے سنجیدہ اور خوش گفتاری اور نرم لہجے کو مقدم رکھنا ہوگااس میں اس بات کا بھی خیال رکھا جانا چاہئے کہ یہ تاثر کبھی نہ جائے کہ ہم کسی مخصوص پارٹی کے دوست ہیں یا کوئی پارٹی ہماری دشمن ہے۔

سیاسی علماء بھی ہماری سیاسی پسماندگی کا سبب ہو گئے ہیں اول تو یہ لوگ اپنی اپنی پسند یا سانٹھ گانٹھ والی مختلف سیاسی پارٹیوں کی حمایت کا اعلان کر کے مسلم قوم کو ان میں بانٹ کر مجموعی طور پر بے اثر کردیتے ہیں اور دوم ان کے اعلان کی وجہ سے بھی مسلم مخالف ہندو ووٹ بی جے پی کی طرف مزید پولرائز ہو جاتا ہے ۔ علامہ نے کہا ہے کہ’جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی ‘ لیکن اب ہو یہ رہا ہے کہ دیندار یا دینی قیادت والے لوگ سیاست میں آرہے ہیں تو دین کے مطابق سیاست نہیں کر رہے بلکہ سیاست کے مطابق دین اور مسلمانوں کی سیاست دونوں میں چنگیزی کر نے لگے ہیں ( اس میں استثنا سے انکار نہیں کیا جاسکتا) ،سو ایسے لوگوں کو سمجھنا اور مسترد کرنا بھی قوم مسلم کی ذمہ داری ہے ۔ اور اس سب کے لئے ضروری ہے کہ پہلے ہم متحد ہوں ، تمام نمائندہ تنظیمیں اور اہل علم و دانش ایک ساتھ آئیں سر جوڑ کر بیٹھیں قوم کی اجتماعی فلاح کے لئے اپنے چھوٹے موٹے مفادات کی قربانی دیں ،ہماری صفوں میں گھسے منافقین کو پہچانیں اور انہیں الگ تھلگ کریں ،اولی الامر منکم کی قرآنی صفات کے مطابق قائد کا انتخاب کریں اور پھر اس پر بھروسہ کرتے ہوئے اس کی اطاعت کریں اور اس کے محاسبہ کو بھی آسان اور یقینی بنائیں ۔ دراصل ہمارا کام بہترین تدبیر اور انتھک محنت کرنا ہے باقی سب اللہ کردے گا، ان شاء اللہ ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔