سب باتیں چھوڑ، نوٹ بدلوانے کی فکر میں ڈوبا ملک

سدھیر جین

پرانے بڑے نوٹ بند کرنے سے ملک میں افراتفری ہے۔ کروڑوں لوگوں کو کچھ مہینے اسی میں لگے رہنے کا دلچسپ کام دے دیا گیا ہے۔ حکومت کے کام میں مين میخ نکالنے کے ماحول میں میڈیا میں خبروں کا فقدان ہو رہا تھا سو اب پانچ سو اور ہزار کے پرانے نوٹوں کو لے کر دلچسپ خبروں کی پیداوار ہونے لگی ہے۔ مہینے دو مہینے حکومت کے اسی فیصلے کی بحث ہوتی رہے گی۔

 فیصلے کا بلیک منی سے کتنا تعلق

وزیر اعظم نے خود ہی اس دلچسپ فیصلے کا اعلان کیا اور بار بار یہ دوہرایا کہ بلیک منی  اس سے ختم ہو جائے گا۔ اگرچہ یہ بات ابھی سمجھ میں نہیں آئی ہیکہ بلیک منی کس طرح ختم ہو جائے گا۔ زیادہ تعداد میں بڑے نوٹ رکھنے والے لوگ کیا بے روزگاروں کو بینکوں کی لائن میں کھڑا کرواکر اپنے نوٹ نہیں بدلوا لیں گے۔ رہی بات ایک ہزار کا بڑا نوٹ بند کر کے بلیک م رکھنے میں رکاوٹ ڈالنے کی، تو بڑے نوٹ بند ہی کہاں ہوئے ہیں۔ بلکہ ایک ہزار کی بجائے اس سے دگنا بڑا یعنی دو ہزار کا نیا نوٹ آ گیا ہے۔

کیا نوٹوں کی شکل میں رہتا ہے بلیک منی

بڑا سوال یہ ہے کہ بلیک منی یعنی نمبر دو کا پیسہ نوٹوں کی شکل میں کتنے لوگ رکھتے ہوں گے؟ بلیک منی رکھنے کا منافع بخش ذریعہ سونا اور گمنام زمین جائیداد ہوتے ہیں۔ معاشیات کا اصول ہے کہ دولت کا ویگ کم کر دیا جائے تو اس کی Value بھی کم ہو جاتی ہے۔ دولت کی ویگ کم ہونےکا مطلب کہ اگر پیسے کو مارکیٹ میں circulate نہ کیا جائے تو اس کیvalue تو ویسے ہی کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ یعنی بلیک منی کا دھڑلے سے صنعتی کاروبار میں سپلائی جاری رہتا ہے۔ ویسے اس کے سفید کرنے کے اعلانیہ منصوبوں کا تو ڈھیر لگا ہوا ہے۔ تھوڑا سا جرمانہ دے کر کوئی کتنا بھی بلیک منی سفید کر لے گا۔ دھرمادا ٹرسٹ اور سماجی اداروں سے جوڑ توڑ کرکے سیاہ سے سفید اور ٹیکس بچانے کے لئے سفید سے سیاہ کرنے کے طریقے ختم نہیں ہو رہے ہیں بلکہ روز بروز بڑھ ہی رہے ہیں۔

 فرق پڑے گا تو صرف جعلی نوٹوں پر

ہاں، جعلی نوٹ کا چلن کچھ دنوں کے لئے رکے گا۔ جو لوگ جعلی نوٹ کو نہیں پہچانتے ان کے پانچ سو اور ہزار کے نوٹ بینکوں کی گرفت میں آئیں گے۔ دو تین ہفتے بعد پتہ چلے گا کہ کتنے جعلی نوٹ چلن میں تھے۔ تاہم اندیشہ ہے کہ میڈیا میں جعلی نوٹوں کی مقدار کی خبریں زیادہ آ نہیں پائیں گی کیونکہ ابھی ہو یہ رہا ہے کہ بینک ان نوٹوں کو ضبط کرنے سے گریز سا کرتے ہیں۔ عام طور پر وہ جعلی نوٹ لینے سے انکار کر دیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جعلی نوٹوں کی ضبطی کے بعد بینکوں پر تحریری کام کا اضافی بوجھ پڑتا ہے۔ مجموعی طور پر نقصان ان شہریوں کا ہی ہوگا جن کے پاس جعلی نوٹ آخر میں محض کاغذ کے ٹکڑے بن کر رہ جائیں گے۔ آگے سے یہ اصول سختی سے لاگو کرنا پڑے گا کہ اب نئے پانچ سو یا دو ہزار کے جو بھی جعلی نوٹ بینکوں کی نظر میں آئے اسے ہر حال میں وہیں پر ضبط کر لیا جائے۔

 اصلی نظارہ نظر آئے گا 30 دسمبر کے بعد

دس نومبر سے 30 دسمبر تک تو بینکوں اور ڈاک خانوں میں بھیڑ نظر آئے گی. اس کے بعد بھی تبدیل کرنے سے بچے رہ گئے پرانے نوٹوں کے بدلے نئے پانچ سو اور دو ہزار کے نوٹ تین ماہ تک ریزرو بینک کی شاخوں سے ملیں گے۔ تب پتہ چلے گا کہ مارکیٹ میں جتنے اصلی نوٹ چل رہے تھے اور ان میں سے کل کتنے نوٹ بدلے گئے۔ تیس دسمبر تک موٹا موٹی اندازہ لگے گا کہ کتنے پرانے اصلی نوٹ لوگوں کے  پاس بچے رہ گئے۔ ان کے بارے میں شک ظاہر کیا جائے گا کہ یہی بلیک منی ہے۔ اگرچہ 30 دسمبر کے بعد بھی خانہ پری  کرنے کے بعد پرانے نوٹ، نئے نوٹوں میں بدلوانے کا کام چلتا رہے گا۔ یہ وقت نئی قسم کی بدعنوانی کے شروع ہونے کے اندیشے والا وقت ہو گا۔ حکومت کو ابھی سے اس کی تیاری کرکے رکھنی چاہئے۔

 نہیں بدلوائے گئے نوٹ سے ہوگا حکومت کو منافع

عوام کے درمیان بچے رہ گئے نوٹوں سے حکومت کو کتنا منافع ہوگا، اس کا اندازہ ابھی سے کوئی نہیں لگا سکتا۔ لیکن جن لوگوں نے نوٹ بند کرنے کی منصوبہ بندی کی ہے یا بنوائی ہے وہ اس منافع پر نظر رکھے ہوئے ہوں گے۔ اس منافع کو جی ڈی پی کا اعداد و شمار بڑھا ہوا دکھانے میں کتنا استعمال کیا جا سکے گا اس کا حساب بھی سرکاری ماہرین اقتصادیات اور حکومت کے کاموں کی تشہیر کرنے والوں نے پہلے سے لگا کر رکھ لیا ہوگا۔

سب سے بڑا فائدہ بلیک منی ختم کرنے کے پروپیگنڈے کا ہے

جگ ظاہر ہے کہ بلیک منی اجاگر نہ کر پانے کی وجہ سے حکومت کی فضیحت ہو رہی تھی۔ نئے سنسنی خیز فیصلے کے بعد یہ اعلان کرنے میں آسانی ہو جائے گی کہ حکومت نے بلیک منی ختم کر دیا۔ بس دقت وہاں آئے گی جب لوگ کہیں گے کہ اب ہمارے كھاتوں میں پیسہ جمع كرواؤ۔ اس پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ بلیک منی حکومت کے پاس نہیں آ پایا ہے اس لئے لوگوں میں نہیں بانٹا جا پا رہا ہے۔ لوگوں کو صرف یہ تسلی دی جائے گی کہ اس حکومت نے بلیک منی جمع کرنے والوں کا پیسہ مٹی بنا دیا۔

 کرپشن پر کتنا اثر

اس کا کوئی حساب نہیں لگ پا رہا ہے۔ ویسے کہا یہ جا سکتا ہے کہ رشوت لینے کے لئے بڑے نوٹوں کے لین دین میں جو سہولت ہوتی تھی وہ اور بڑھ سکتی ہے۔ فی الحال اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دو ہزار کا نوٹ چل پڑنے کی وجہ سے اٹیچی میں دگنی رقم لے کر چلنے میں آسانی ہو جائے گی. یعنی پرانے بڑے نوٹ بند کرنے سے بدعنوانی کس طرح رکے گی اس کی منطقی تشریح کرنے میں مشکل آ رہی ہے۔

کام کاج کی ساری باتیں فی الحال بند

گزشتہ 24 گھنٹے سے عام عوام کو روزمرہ کے کام میں اچانک جو جھنجھٹ اٹھانی پڑ رہی ہے اس سے زیادہ سنجیدہ نہیں مانا جا رہا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ جب بہت بڑا کام کیا جاتا ہے تو تھوڑی بہت پریشانی تو عوام کو اٹھانی ہی پڑے گی۔ بعد میں ملک کو فائدہ ہوگا۔ خیر وہ جب ہوگا تب ہوگا لیکن فی الحال سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا ہے کہ ملک میں کچھ نہ ہو پانے کی جو بحثیں ہونے لگی تھیں وہ سب ایک ہی جھٹکے میں بند ہو گئی۔ ملک کی ہر چھوٹی سی چھوٹی گلی اور ملک کے چھوٹے سے چھوٹے گاؤں میں صرف ہزار پانچ سو کے نوٹ بند ہونے کی بحث ہے۔ ہر کوئی بینک اور ڈاك خانہ جاکر اپنے نوٹ بدلوانے کی فکر میں ڈوبا ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔