اختر الایمان ( ڈاکیومینٹری) پر تبصرہ 

سبطین کوثر

اختر الایمان کی مشہور زمانہ نظم’’ایک لڑکا‘‘ کے ہی نام سے بین الاقوامی شہرت یافتہ اور اردو شاعری کا سب سے بڑا آن لائن ذخیرہ ‘ریختہ ڈاٹ کام’ نے اردو زبان و ادب کواپنی نظموں کے ذریعہ بام عروج تک پہنچانے والے سنجیدہ و متین شاعر کو نصف گھنٹے کی ایک فلم کے ذریعہ خراج عقیدت پیش کیا ہے ۔
جدید نظم کے بنیادگزاروں میں اخترالایمان سب سے بڑا نام ہے اور انہوں نے نہ صرف اپنی نظموں کے ذریعہ بلکہ اپنی برجستہ فلمی مکالموں کے ذریعہ بھی اردو کو زندہ جاوید کردیا۔ اس فلم کی پیشکش و ادارت کی ذمہ داری ریختہ کے ادارتی بورڈ کے فعال رکن ڈاکٹر زمرد مغل نے بحسن و خوبی نبھائی ہے۔ اس نمایاں کام کے لئے انکی جتنی ستائش کی جائے وہ کم ہے۔یہ مختصر ڈاکیومنٹری آنے والی نسلوں کے لئے ایک اساس کی حیثیت رکھے گی ۔ اس مختصر ڈاکیومنٹری میں زمرد مغل نے اختر الایمان کی زندگی کے اہم گوشوں کی یکجا کردیا ہے جو اس کی سب سے بڑی خوبی بھی ہے۔
یہ فلم بہر طور اردو کے ایک اہم جدید نظم نگار کے کردار کو سامنے لاتی ہے اور ان کی کاوشوں کا عکس پیش کرتی ہے۔
یہ فلم ہمیں بتاتی ہے کہ ” کون سا ہے اسٹیشن ، ڈاسنا ہے صاحب جی” نظم کے خالق اخترالایمان کی شاعری ذاتی تجربات کی شاعری ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری کو ذاتی اظہار کا وسیلہ بنایا اور اس فن میں وہ انتہائی طاق تھے۔ ڈرامائیت کے فن میں بھی انہیں ید طولی حاصل تھا۔
اس مختصر ڈاکیومنٹری میں دورحاضر کے ممتاز شعراو ادبا کے آرا بھی شامل کئے گئے ہیں جو اس کی افادیت میں مزید چار چاند لگاتے ہیں۔جنہیں مختصرا درج کیا جا رہا ہے۔
اخترالایمان اردو کے پہلے اور آخری ڈرامہ نگار : شمس الرحمان فاروقی
نظموں کے ذریعہ اظہار خیال کرنے والے شاعروں میں اخترالایمان نے صف اول میں اپنا مقام پختہ کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے : جاوید اختر (شاعر و نغمہ نگار)
اخترالایمان کی متعدد نظمیں فلموں کے منظر نامے کی طرح : گلزار
اخترالایمان نے خود کلامی کو اپنی نظموں میں ایسے استعمال کیا ہے کہ وہ آنے والی نسلوں کے لئے مشعل راہ بن جائیں گی : گوپی چند نارنگ
اخترالایمان نے 100سے زائد فلموں کے مکالمے لکھے، فلمیں ان کی معاش کا ذریعہ اور شاعری ان کا پرائم پیشن : شافع قدوائی
اخترالایمان کی شاعری فرانسیسی فن کا ری کے اعلی نمونے کی طرح : ظ انصاری
اخترالایمان نظم کے خالص شاعر : سید کاشف رضا
اخترالایمان آزاد نظم کا شاعر : جاوید صدیقی
اس فلم میں ڈاکٹر مغل نے اختر الایمان کی اہلیہ اور ان کی بیٹیوں سے بھی باتیں کی ہیں جس سے ان کی زندگی کے مختلف پہلووں کو سمجھنے میں آسانی ہوئی ہے۔
انتہائی سادہ لوح انسان تھے میرے والد، کلام بلیغ انسان سلیس : اسما حسین (اخترالایمان کی بیٹی)
فلم میں بڑی دلفریب انداز میں ان کی نظموں کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ ان کی متعدد نظمیں ناول کا مزہ دیتی ہیں اور قاری کبھی اکتاہٹ کا شکار نہیں ہوتا یہ خوبی صرف اخترالایمان میں ہی پائی جاتی ہے۔ان کی نظمیں سیل رواں کی مانند ہیں ۔ اخترالایمان نے دنیاوی مسائل و آلام کو بڑی عمدگی سے پیش کیا ہے ۔ وہ جگ بیتی کو آپ بیتی بنانے کے فن میں ماہر تھے۔
فلم میں بڑی خوبصورتی سے اخترالایمان کی بابت یہ منظرکشی کی گئی ہے کہ وہ جدید اُردو شاعری کے ایک منفرد رومانی شاعر ہیں۔ ان کے شعری تجربوں اور ان کی نظموں کی تکنیک نے ایک پوری نسل کو متاثر کیا ہے، بلاشبہ وہ جدید اُردو شاعری میں ایک مستقل عنوان کی حیثیت رکھتے ہیں۔
اختر الایمان کے تجربوں کے بعض رنگوں کی پہچان عرصے تک نہ ہو سکی اس لیے کہ ان کی تخلیقی فکر مختلف ہے، وہ روایات سے متاثر ضرور ہیں لیکن ان کی شاعری روایتی نہیں ہے، نظموں کی عام کیفیتوں سے بھی گریز کیا ہے۔ تہذیب اور معاشرے میں سماجی اور نفسیاتی اقدار کی کشمکش اور تصادم کو منفرد انداز سے دیکھا ہے، ذہن کی تنہائی میں جیتے ہوئے بھی معاشرے کے مسائل اور ہیجانات سے قریب ہیں۔ ان کی نظموں سے ایک نئی رومانیت کی تشکیل ہوتی ہے۔
یہ نئی رومانیت تلخ حقیقتوں کے بہتر شعور کے ساتھ ان حقیقتوں سے فنکارانہ گریز کرتی ہے اور نئی تخلیق کرتی ہے۔ شکست و ریخت اور خارجی اور داخلی ہیجانات کے اس عہد میں یہ نئی رومانیت تصادم اور کشمکش، ذہنی دباؤ اور جذباتی تنہائی کے تجربوں کو شعری پیکروں میں ڈھالتی ہے، ایک جانب شخصیت کے کرب کی پہچان ہوتی ہے اور دوسری جانب تازہ شعری تجربے حاصل ہوتے ہیں۔
اخترالایمان نے اپنی افسردگی کا اظہار کرتے ہوئے ایک دفعہ کہا تھا کہ ’’چالیس پچاس برس تک ادب میں کسی نے میرا نام بھی نہیں لیا۔میں نے تو کسی کو گالی نہیں دی…ارے بھئی اگر گالی دینی ہوتی تو اس وقت دیتا جب جوان تھا،جب خون زیادہ گرم تھا۔گالی دینا تو میرے مزاج میں ہے ہی نہیں‘‘۔یہ محض سلیم الطبعی نہیں، چھچھورے پن سے اجتناب بھی ہے اور اس کی بڑی وجہ خود پر اعتماد ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ مجھے کیا کرنا چاہیے اور میں وہ کام اپنی بساط بھر خوبی سے کررہا ہوں۔ لوگ جو بھی کہنا چاہیں کہیں۔یا نہ کہنا چاہیں، نہ کہیں۔
سچی بات یہ ہے کہ اختر الا یمان کے کلام میں تفکر اور تامل کا عنصر غالب ہونے کے باعث ان کی اکثر نظمیں بار بار پڑھی جانے کاتقاضا کرتی ہیں اور ان کی نظمیں روزمرہ کی زندگی میں بنیاد کا درجہ رکھتی ہے۔
ان کے کلام کے مجموعے کا عنوان “یادیں “ تھا۔ اسے 1962ء میں ساہتیہ اکادمی ایوارڈ ملا ۔ انکا آخری مجموعہ کلام انکے انتقال کے بعد “زمستان سرد مہری کا “ کے نام سے شائع ہوا تھا۔
ان کی تقریبًا تمام نطمیں ہیئت کے اعتبار سے آزاد یا معرا ہیں۔ اخترالایمان کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ انہوں نے روایتی شعری وضع داری سے خود کو الگ رکھا ۔ ان کی شاعری کو فکری لحاظ سے “اس عہد کا ضمیر“ کہا گیا ہے۔
اردو ادب کے قارئین و بہی خواہوں کے لئے یہ مختصر فلم بالخصوص اور فلموں وڈوکیو منٹری پسند کرنے والے ناظرین کے لئے یہ فلم بالعموم اچھی فلم ثابت ہوگی اور اس فلم سے اخترالایمان کے مدح خواہوں کو تسکین و طمانیت حاصل ہوگی۔

تبصرے بند ہیں۔