ستم رسيده شہریوں كاعدليہ ہی واحــد سہارا

 نازش ہما قاسمی

   ہندوستان میں فی الحال فرقہ پرستی کا راج ہے، سیکولر عوام میں مایوسی ہے،وہ مستقبل کے ہندوستان کے لیے فکر مند ہیں فرقہ پرستوں کے ننگے ناچ سے،ان کے اوچھے ہتھکنڈوں سے، سیکولر عوام کا جینا دوبھر ہوگیا ہے؛لیکن عدلیہ جو کہ ہندوستانی عوام کی آخری امید ہے، لٹتے پٹتے مظلوم و بے سہارا عوام کا آخری سہارا ہے۔ فرقہ پرستوں کے مظالم کو روکنے کے لیے عدلیہ سے گاہے گاہے ایسے فیصلے صادر ہورہے ہیں جس سے سیکولر عوام کو سکون مل رہا ہے۔ عدلیہ کا یہ رخ قابل مبارک باد ہے۔

گزشتہ دنوں جھارکھنڈ میں فاسٹ ٹریک عدالت کے فیصلے کے ذریعے مبینہ گئو رکشکوں کی دہشت گردی کے شکار ہوئے علیم الدین کی روح کو سکون پہنچا ہے۔ ان کے بہیمانہ قتل کے تمام ملزمین جس میں بی جے پی کے افراد بھی شامل ہیں، کو عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے۔۔چہار جانب اس فیصلے کا خیر مقدم کیاجارہا ہے اور دیگر ریاستوں میں گئو رکشکوں کی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھے افراد کے اہل خانہ کی امیدیں بھی جاگ گئی ہیں کہ جلد ہی ان کے مرحوم باپ، مرحوم بھائی کی روح کو سکون ملے گا۔ واضح رہے کہ علیم الدین کو رام گڑھ تھانہ علاقے میں 29 جون 2017 کو مقامی بازار ٹانڈ کے نزدیک ہجومی بھیڑ نے بیف اسمگلر بتا کر زدوکوب کیا تھا اور ان کی ماروتی وین کو بھی نذر آتش کر دیا گیا تھا۔ سخت پٹائی کے سبب علیم الدین اسپتال لے جاتے ہوئے جنت میں پہنچ گئے۔ فاسٹ ٹریک عدالت کا علیم الدین کے قتل کرنے والے گئورکشا سمیتی کے چھوٹو وَرما، دیپک مشرا، چھوٹو رانا، سنتوش سنگھ، بی جے پی ضلع میڈیا انچارج نتیانند مہتو، وکی ساؤ، سکندر رام، روہت ٹھاکر، وکرم پرساد، راجو کمار، کپل ٹھاکر اور رانا کو عمر قید کی سزا سنائی گئی جومسلمانوں کے زخم پر مرحم کی طرح ہے اور اس فیصلے سے امید جاگ اْٹھی ہے کہ جلد ہی گئو رکشکوں کی دہشت گردی کے شکار اخلاق، پہلو، نعیم، حافظ جنید اور عمران خان سمیت ان 30 افراد کے اہل خانہ کو بھی انصاف ملے گا۔

مودی حکومت جب سے قائم ہوئی ہے ملک میں فرقہ پرستی کو عروج حاصل ہوگیا ہے۔ اخلاق کے بہیمانہ قتل سے شروع ہونے والا یہ ننگا ناچ ملک بھر میں جاری ہے۔ راجستھان میں گائے کی اسمگلنگ کرنے کے الزام میں مسلمان مارے جارہے ہیں۔ دہلی میں پیٹے جارہے ہیں، جھار کھنڈ میں زدوکوب کیے جارہے ہیں، فرید آباد میں زر خرید کرائے کے قاتلوں کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں، مہاراشٹر میں ان کی گاڑیاں جلائی جارہی ہیں، بہار میں ستایا جارہا ہے،حالانکہ وزیر اعظم نریندر مودی نے اس تعلق سے کئی بیان دئے ہیں، انہیں جھوٹا گئو رکشک بھی ثابت کیا ہے؛لیکن ان کے بیانات کے بعد بھی ان پر لگام نہیں کسا گیا، انہیں سزا نہیں دی گئی۔اگر اخلاق کے قتل کے وقت ہی اس پر قابو پالیا جاتا تو شاید تیس مسلمان گئو رکشکوں کے ظلم کا شکار نہیں ہوتے ؛ لیکن شاید حکومت  کی سرد مہری اندرون خانہ اسرار کا پتہ دیتی ہے، مگر نفاقاًاس لیے عالمی سطح پر یہ کہا گیا کہ ہم ان گئو رکشکوں کی مذمت کرتے ہیں۔ انہیں جھوٹا گئو رکشک کہہ رہے ہیں وہ گئو رکشکوں کا چولا پہنے ہوئے ہیں، آ خر کیا وجہ ہے گئو رکشکوں میں اکثریت ان افراد کی ہے جو کسی نہ کسی طور پر بی جے  پی یا پھر اس کی ذیلی تنظیموں سے وابستہ ہیں۔

 مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ حکومت سے مطالبہ کریں، مسلم تنظیمیں دباؤ  بنائیں کہ وہ جھار کھنڈ فاسٹ عدالت کی طرح ان تمام مظلومین کے کیسوں کی سماعت بھی ہو، انہیں انصاف دلوایاجائے اور ان کھلے بندوں پر نکیل ڈالی جائے۔ دیگر ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ کو مجبور کیاجائے کہ وہ دہشت گردوں پر لگام لگائیں اور مظلومین کو انصاف دیں۔ جن افراد پر ملک میں امن و امان کے استحکام کی ذمہ داری تھی ستم تو یہ ہے کہ اب وہی انتشار پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کی  بزدلانہ حرکتوں کی وجہ سے نفرت کی دیواریں مضبوط ہوں گی؛ لیکن اس وقت ملک کو نفرت کی نہیں، باہمی الفت کی ضرورت ہے۔

یہ ملک گنگا جمنی تہذیب کا گہوارہ ہے۔ یہاں نفرت کی کوئی جگہ نہیں ؛لیکن ایک خاص نظریات کی حامل جماعت صرف اور صرف اس ملک میں نفرت پھیلاناچاہتی ہے۔ وہ نفرت کے ذریعہ ہی تمام معرکے سر کرلینا چاہتی ہے۔ اس نفرت پھیلانے والی جماعت کو نوشتہءِ دیوار پڑھ لینا چاہیئے کہ ملک کی بقا نفرت میں نہیں اخوت ومحبت میں ہے، آپسی بھائی چارگی میں ہے۔ ملک کو توڑنے کی کوشش کرنے  والے پہلے بھی تھے اب بھی ہیں ؛ لیکن وہ کل بھی نامراد ہوئے تھے آج بھی نامراد ہی ہیں اور کل بھی نامراد ہی ہوں گے ان شاءاللہ؛ کیونکہ یہ زمین تو چشتی و نانک کی ہے گوتم بدھ نے اسی سرزمین پر عرفان حاصل کیا تھا، کبیرنے اسی مٹی سے جنم لیا تھا؛ اس لیے اس دھرتی پر صرف اور صرف بقائے باہمی اور اتحاد کے ذریعہ امن و امان کا قیام ممکن ہوسکتا ہے، یہ محبت کرنے اور محبت کا پیغام عام کرنے والوں کی سرزمین ہے۔

کل عدلیہ نے جو فیصلہ سنایا ہے اس سے فرضی گئو رکھشکوں کو جھٹکا بھی لگا ہوگا؛ کیوں کہ یہ فیصلہ ان کی توقعات سے  بالاتر ہے، یہ فیصلہ ان کے لیے ایک تازیانہ ہوگا وہ خواہ اقرار نہ کریں ؛ لیکن ضمیر ہمیشہ خوف کا شکار رہے گا۔ اور ان شاء اللہ عدالت عظمیٰ سے بھی انہیں ناکامی حاصل ہوگی۔ مقامی عدالت کا یہ فیصلہ یقینا خوش آئندہے اس کی تحسین کی جانی چاہیے، عدلیہ کی یہ ٹمٹماتی روشنی بھی یہاں کے ستم رسیدہ افراد کے لئے کافی ہے اور مظلوم شہریوں کا واحد سہارا ہے۔۔۔!

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔