سراپائے رسول اکرمؐ

ام معبد
جب ابومعبدؔ کی بیوی نے دودھ سے بھرا پیالہ اس کے سامنے لاکر رکھا تو وہ حیران رہ گیا۔ ’’یہ کہاں سے آیا؟ بکری تو خشک تھی اور گھر میں دودھ بھی نہیں تھا‘‘ ام معبد نے کہا ’’اللہ کی قسم ہمارے ہاں سے آج ایک مبارک انسان کا گزر ہوا جس کے ہاتھ لگانے سے ۔ ابومعبد ہماری بکری کے تھن دودھ سے بھر گئے۔ اللہ کی قسم تم پی کر تو دیکھو کتنا لذیذ اور کتنا شیریں دودھ ہے۔ بنی کنایہ کی بکریوں سے بھی زیادہ شیریں’’ابومعبد نے دودھ پیا اور حیران رہ گیا دودھ واقعی ایسا ہی تھا جیسا کہ اس کی بیوی نے بتایا تھا۔ دودھ پی کر اس نے بڑی محبت سے اپنی بکری پر ہاتھ پھیرا۔ پھر منہ صاف کرتے ہوئے بیوی سے پوچھا۔ ’’بتاؤ تو سہی وہ کون مبارک مسافر تھے جو اس خشک بکری کو تروتازہ کرگئے؟‘‘ بیوی نے جو تفصیل بیان کی اسے سن کر ابومعبد بول اٹھا قسم خدا کی یہ وہی شخص ہے جسے قریش کے لوگ تلاش کرتے پھر رہے ہیں۔ اے ام معبد میں توبے قرار ہوں ۔ تم اپنے زور بیان سے ہر بات کو نقشہ کھینچ کر رکھ دیتی ہو۔ ذرا وضاحت سے ان کا حلیہ اور ان کی چال ڈھال تو بیان کرو میں بھی تو جانوں وہ کیسے تھے ؟ شوہر کی اس تعریف پر ام معبد خوش ہوگئی۔ اس کا ذوق بیان ابھر آیا اور وہ اپنے قبیلے کے روایتی انداز میں فصاحت وبلاغت سے پُر تھا بولنے لگی۔
پاکیزہ رو، تاباں اورکشادہ چہرہ، خوش وضع سر، زیبا قامت، آنکھیں سیاہ اور فراغ، بال گھنے سیاہ گھونگریالے، آواز جاندار اور کچھ ایسی کہ خاموش ہوجائیں تو وقار چھا جائے اور کلام فرمائیں تو پھول جھڑیں، روشن مردمک، سرمگیں چشم، باریک وپیوستہ ابرو دور سے دیکھنے میں زینیدہ و دلفریب، قریب سے دیکھو تو کمال حسن، شیریں کلام، واضح بیان، کلام، الفاظ کی کمی بیشی سے پاک، بولیں تو معلوم ہو کہ کلام ہے۔ پروئی ہوئی کوڑیاں ہیں جو ترتیب اور آہنگ سے نیچے گرتی جارہی ہیں۔ میانہ قد کہ دیکھنے والی آنکھ پستہ قدی کا عیب نہیں لگا سکتی نہ طویل کہ طوالت نظروں میں کھٹکے، سراپا دو شاخوں کے درمیان تروتازہ حسین شاخ کی طرح زینیدہ اور خوش منظر، جس کے رفیق پروانہ وار گردوپیش رہتے ہیں۔ مخدوم ومطاع، نہ تنگ نظر نہ بے مغز، نہ کوتاہ سخن، نہ فضول گو۔۔۔!

وہ دانائے سُبُل ‘ مولائے کل ‘ ختم الرسل جس نے
غبار راہ کو بخشا فروغ وادئ سینا
نگاہِ عشق و مستی میں وہی اول ‘ وہی آخر
وہی قرآں ‘ وہی فرقاں ‘ وہی یٰسین ‘ وہی طٰہٰ
اقبالؒ

تبصرے بند ہیں۔