سرجیکل اسٹرائک میں بھی سیاست!

ڈاکٹر عابد الرحمن

 اڑی میں فوجی ہیڈکوارٹر پر دہشت گردانہ حملے کے دس دن بعد انڈین فوج نے پاک مقبوضہ کشمیر میں واقع دہشت گردوں کے تقریباً سات اڈوں کو تباہ کردیااور قریب پچاس دہشت گردوں کو ہلاک کردیا۔ ہماری فوج کے مطابق جوانوں نے پاکستانی حدود میں تین کلومیٹر تک اندر گھس کر یہ کارروائی انجام دی ۔پاکستان نے ہماری فوج اور حکومت کے اس دعویٰ کو جھوٹ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا کہ اس کی حدود کے اندر انڈین آرمی نے کوئی کارروائی نہیں کی جبکہ اس نے اپنے دو فوجیوں کی ہلاکت کا اقرار کیا کہ وہ لائن آف کنٹرول پر فائرنگ میں مارے گئے ۔ لیکن انڈین ایکسپریس نے5،1کتوبر 2016کی آن لائن اشاعت میں پاک مقبوضہ کشمیر میں رہنے والے کچھ لوگوں کے حوالے سے سرجیکل اسٹرائیکس کے دوران فائرنگ سنے جانے اور بعد میں دہشت گردوں کی عارضی رہائش گاہوں کے برباد شدہ باقیات اور ہلاک شدہ دہشت گردوں کو ٹرک میں ڈال کر لے جاتے ہوئے دیکھنے کی شہادت دی ۔ اسی طرح یہ بھی خبر ہے کہ ایک صحافی نے اعلیٰ پولس افسر بن کر پاک مقبوضہ کشمیر میں میر پور کے پولس سپرنٹنڈنٹ سے سرجیکل اسٹرائک کے متعلق بات کی جس میں اس نے سرجیکل اسٹرائک کا اقرار کرتے ہوئے 12،پاکستانیوں کی ہلاکت کی خبر دی۔ اس سب کے علاوہ سرجیکل اسٹرائیک کی خبر کے بعد پاکستان میں مچی گہما گہمی ،کا بینہ کی میٹنگس ،فوجی سربراہ اور حکومت کی میٹنگ ،فوجی جوانوں کی چھٹیوں کی منسوخی وغیرہ کی خبریں اس بات کا پتہ دیتی ہیں کہ وہاں کچھ نہ کچھ غیر معمولی واقعہ ضرور ہوا ہے،اس کے علاوہ مبینہ دہشت گرد گروپ جماعت الدعویٰ کے سربراہ حافظ سعید کا یہ بیان خود سرجیکل اسٹرائیک کا منھ بولتا ثبوت ہے کہ ’پاکستان بھارت کو بتائے گا کہ سرجیکل اسٹرائک کیا ہوتی ہے‘ خود پاکستانی اخبا ر ’ روزنامہ پاکستان5 ، 1کتوبر کی آن لائن اشاعت کے مطابق حافظ سعید نے یہ بیان جمعہ کے اجتماع سے خطاب میں دیا‘اور سرجیکل اسٹرائیک جمعر ا ت کی علی الصبح ہوئی ۔تو جب آپ کے یہاں انڈین فوج نے کوئی کارروائی کی ہی نہیں تو آپ پر یہ بوکھلاہٹ کیوں طاری ہوگئی؟اسکا مطلب جھوٹ آپ بول رہے ہیں ،اپنی عزت بچانے کے لئے اور اپنی عوام کے غضب سے بچنے کے لئے آپ خود ہی اپنی خود مختاری کی خلاف ورزی کو چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ ملک میں سرحد پار سے ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کے جواب میں سرجیکل اسٹرائیک ضروری ہیں کہ پاکستان اس طرح کے حملوں کے کارپردازوں اور ماسٹر مائنڈس کو پہلے تو پاکستانی ہی قبول نہیں کرتا اور اگر قبول کر بھی لیا تو انہیں ’نان اسٹیٹ ایکٹرس (غیر ریاستی عناصر)‘ کہہ کر اپنا پلا جھاڑنے کی کوشش کرتا ہے اور کبھی اس کی حدود میں رہنے والے ان نان اسٹیٹ ایکٹرس کے خلاف کوئی کارروائی بھی نہیں کرتا ایسے میں ان نان اسٹیٹ ایکٹرس کی دہشت گردی کا شکار ہونے والوں کے سامنے سب سے بڑا سوال یہی پیدا ہوتا ہے کہ انہیں دہشت گردی سے کون روکے اور ان کے خلاف کارروائی کون کرے ؟ اور اسی فرسٹیشن نے دراصل ہماری فوج کو پاکستانی حدود میں گھس کران دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کر نے پر مجبور کیا ہے۔اب ہماری افواج نے ان دہشت گردوں کے خلاف براہ راست کارروائی کر کے اپنے لئے مستقبل کی راہ بھی متعین کر لی ہے اور دہشت گردوں کو بھی وارننگ دے دی ہے اور واقعی اس کے لئے ہماری فوج اور حکومت دونوں مبارکباد کی مستحق ہیں اوراس میں اس کی بلا شرط حمایت کرنی چاہئے اور پورا ملک بلا کسی تفریق کے ان کے ساتھ کھڑا بھی ہے لیکن اس معاملہ میں سیاست سے بچنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ یوں تو یہ بات کچھ ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ انڈیا اور پاکستان دونوں ممالک میں ایک دوسرے کے ساتھ کشیدگی کا سیاسی استعمال ہوتاہے ،اکثر حزب اختلاف اس کشیدگی کو لے کر حکومت پر دھاوا بولتا ہے ، وزیر اعظم مودی جی جب اقتدار میں نہیں تھے تب وہ بھی یہی کیا کرتے تھے ،اکثر یوں بھی ہوتا ہے کہ جب بھی دونوں پڑوسیوں میں سے کہیں سیاسی بحران پیدا ہوتا ہے تو سرحد پر حالات کشیدہ ہو جاتے ہیں اور حکومت کو اس سیاسی بحران سے راہ فرار فراہم کر دیتے ہیں ۔ لیکن سرجیکل اسٹرائک کا یہ معاملہ مختلف ہے اسے سیاست سے پرے رکھنا چاہئے یہ نہ صرف ملک کی سلامتی اور بین الاقوامی طور پر اس کی ساکھ اور خاص طور سے دہشت گردوں پر اس کی دھاک کا معاملہ ہے بلکہ ہماری فوج کے منوبل کا معاملہ بھی ہے اس پر سیاست ہماری فوج کے سیاسی استعمال کا اشارہ ہے جو فوج کے منوبل کو کم کرسکتا ہے۔ لیکن ہوا یہ کہ بی جے پی اور اس کے اتحادیوں نے سرجیکل اسٹرائیک پر جس طرح کا ردعمل ظاہر کیا وہ سیاسی زیادہ لگا خاص طور سے یوپی میں جہاں اگلے سال کی شروعات میں اسمبلی انتخابات ہونا ہیںوہاں سرجیکل اسٹرائیک کو لے کر بی جے پی کے بہت سارے پوسٹرس اور ہورڈنگس کی خبر ہے جن میں فوج کی کم حکومت اور مودی جی کی تعریف زیادہ کی گئی ہے اسی طرح یہ بھی خبر ہے کہ اس بار مودی جی دسہرا منانے لکھنؤ کے رام لیلا میدان میں جا رہے ہیں جہاں وہ رام بن کر پاکستانی دہشت گردی کے راون کوجلائیں گے ۔اسی طرح اڑی حملے کے بعدانڈیا میں کام کر رہے پاکستانی اداکاروں کے خلاف کچھ سیاسی پارٹیوں اور نیوز چینلوں کے ذریعہ جو ماحول گرمایا جا رہا ہے اور جس طرح پاکستانی اداکاروں کی حمایت کرنے والوں کو دیش دروہی کہہ دیا جا رہا ہے اور انہیں پاکستان چلے جانے کو کہا جا رہا ہے اس پر بھی حکومت پوری طرح خاموش ہے اس ضمن میں یہ بات تو طئے ہے کہ پاک اداکار جو ملک میں آتے ہیں وہ حکومت کی اجازت سے ہی آتے ہیںاب یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ یا تو ان کی اجازت منسوخ کردے اور انہیں پاکستان بھیج دے اور اگر ایسا نہیں کرتی تو ان کے نام پر ہونے والی بے تکی سیاست اور نیوز چینلوں کی اشتعال انگیز بک بک کو بند کروادے ۔لیکن حکومت اس پر مسلسل خاموش ہے اور اسی خاموشی کی وجہ سے اب بات پاکستانی اداکاروں سے آگے بڑھ کر انڈین اداکاروں تک بھی پہنچ گئی ہے جس کی پہلی جھلک یہ دیکھنے کو ملی کہ بدھ کے روز شیوسینا نے مظفر نگر کے بڈھانہ میں رام لیلا کے پروگرام میں اداکارنوازالدین صدیقی کو حصہ لینے سے روک دیا(ٹائمز آف انڈیا آن لا ئن6،1کتوبر 2016 )اس معاملہ میں حکومت کی خاموشی سے ایسا لگتا ہے کہ شاید وہ بھی سرجیکل اسٹرائک کے ذریعہ ملک کا سیاسی ماحول کسی نہ کسی طرح گرمائے رکھنا چاہتی ہے تا کہ اس کی پاکستان مخالف ساکھ بھی مضبوط ہو اوراسے آنے والے اسمبلی انتخابات میںپولرائزیشن کے ذریعہ اسے کیش کر نے کے لئے بھی استعمال کیا جا سکے ۔ حالانکہ وزیر اعظم مودی جی نے سرجیکل اسٹرائیک کے معاملہ میں اپنے وزراء کو ’چھاتی ٹھونکنے ‘ سے باز رہنے کی تاکید ہے لیکن حضور اسکے لئے بھی بہت دیر ہو چکی ہے ۔ اس میں سیاست کا سب سے خراب معاملہ دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کے ویڈیو میسیج کے بعد سامنے آیا کہ اس بہانے دیش بھکتی اوردیش دروہ کی سیاست میں کافی ابال لایا گیا ۔ اروند کیجریوال نے ایک ویڈیو پیغام کے ذریعہ سرجیکل اسٹرائک پر اپنا ردعمل ظاہر کیا جس میں مودی جی کے اس فیصلے کی تعریف کرتے ہوئے انہیں سلام کیا اور یہ بھی کہا کہ پاکستان اس سرجیکل اسٹرائک کے انکار میں ہمارے خلاف جھوٹا پروپگنڈہ کر رہا ہے انہوں نے مودی جی سے اپیل کی تھی کہ’ جس طرح انہوں نے پاکستان کو زمین پر مزا چکھایا ہے اسی طرح اسکے جھوٹے پروپگنڈے کوبھی بے نقاب کریں‘۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جیسے ہی کیجریوال کا بیان آیا میڈیا نے فوراً اسے بڑی خبر بنا کر پیش کیا جس میں مودی جی کو ان کے سلام کی کلپ بار بار چلائی گئی ۔لیکن پاکستانی میڈیا نے کیجریوال کے بیان کاالٹا مطلب لیتے ہوئے اس طرح خبر بنائی کہ ’ کیجریوال نے سرجیکل اسٹرائک کی صداقت پر سوال اٹھاتے ہوئے مودی جی سے اسکے ثبوت مانگے ‘پاک میڈیا کی اسی بات کو لے کر یہاں میڈیا نے کیجریوال کو معتوب کرنا شروع کردیا اور بی جے بھی انکی دیش بھکتی پر سوال اٹھاتے ہوئے سڑکوں پر اتر آئی۔تو سوال یہ ہے کہ کیجریوال کے ویڈیو میں بی جے پی اور میڈیا کو وہ سب پہلے ہی کیوں نہیں دکھائی دیا جو پاک میڈیا کی الٹی سیدھی رپورٹنگ کے بعد دکھائی دیا؟ اور بی جے پی اور میڈیا اس معاملہ میں پاکستانی میڈیا کے خلاف اور کیجریوال کی حمایت میںآگے آنے کی بجائے الٹے انہی کی مخالفت پر کیوں اتر آئی؟اس کا مطلب یہ ہوا کہ بی جے پی سرجیکل اسٹرائک کے بہانے ملک کاسیاسی ماحول گرمائے رکھنا چاہتی ہے اور اس کے لئے میڈیا کے کچھ ادارے بھی اسی کے ترجمان کی طرح کام کر رہے ہیں یا غیر دانستہ طور پر اسی کی ترجمانی کر رہے ہیں۔اسی طرح کانگریس کے جو لیڈران سرجیکل اسٹرائک کی صداقت پر سوال اٹھارہے ہیں وہ بھی انتہائی گھٹیا سیاست کر رہے ہیں جس کی سخت مذمت کی جانی چاہئے اور پارٹی نے بھی ان کے خلاف کارروائی کرنی چاہئے۔ پاکستان لاکھ انکار کرے لیکن ہر انڈین کا ماننا ہے کہ سرجیکل اسٹرائک ہوئی اور اس کے ذریعہ پاکستان میںموجود انڈیا کے خلاف دہشت گردی کر نے والوں کو ٹھکانے لگایا گیا ۔اور پاکستان کو یہ پیغام بھی دیا گیا کہ اگر وہ اپنی حدود میں رہنے والے دہشت گردوں کو خود نہیں مار تا،تو ہم مار سکتے ہیں۔بے شک یہ مودی جی کی حکومت کاایک بہترین اور بولڈ فیصلہ تھا اور امید ہے کہ مستقبل میں بھی اسی طرح دہشت گردوں کو انہی کے گھر میں گھس کر مارا جائیگا لیکن اس معاملہ کو سیاسی رنگ دینا اور سیاسی مفادات کے لئے اس کا استعمال ا سے بے وقعت بھی کردیگا اور ہماری افواج کا مارل بھی گرادے گا۔(جمعہ7،1کتوبر2016)

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔